دریا کے بہتے پانی کے کٹاؤ کے نتیجے میں شاہدہ بیگم کا گھرانا اپنی زمینیں پانی کے ہاتھوں کھو چکا ہے، اس بات کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ اب تو اس کنبے کے کسی فرد کو یہ یاد بھی نہیں رہا کہ وہ کبھی خشک زمین پر رہا کرتے تھے، اب تو پانی پر بہتی کشتیاں ہی ان کا گھر ہیں اور زمین بھی۔۔
شاہدہ بتاتی ہیں ”میں کشتی میں پیدا ہوئی تھی، اپنے والد اور دادا کی طرح۔۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہی ہے کہ ہم بھی کبھی زمین پر بنے گھروں رہتے تھے۔‘‘
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ شاہدہ بیگم نے ’ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن‘ سے گفتگو میں مزید کہا کہ ان کے اجداد دریائے میگھنا کے کناروں پر آباد تھے
شاہدہ کہتی ہیں ”سطح سمندر میں اضافہ اور دریائی کٹاؤ کی وجہ سے ان کے بزرگوں کے گھر اور زمینیں ڈوب گئیں اور وہ کشتیوں میں گھر بنانے پر مجبور ہو گئے“
شاہدہ کی کمیونٹی کو بنگالی زبان میں ’مانتا لوگ‘ کہا جاتا ہے، جو بنگلہ دیش کے دو اہم دریاؤں میں کھڑی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں گھر بنا کر رہتی ہے۔ اس طرح رہنا کسی مسلسل جدوجہد سے کم نہیں، تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سطح سمندر میں اضافہ اور دریائی کٹاؤ ایسے عوامل ہیں کہ کچھ لوگ تو اس طرح کے گھروں کو پائیدار متبادل قرار دینے لگے ہیں
وہ پانی پر تیرتی ان کشتیوں کے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں، ان کی زندگی پانی میں ہی گزرتی ہے اور اب صرف موت ہی ان لوگوں کو زمین پر لا سکتی ہے۔ شاہدہ کہتی ہیں ”جب کوئی مرتا ہے تو اس کی میت مذہبی طریقے کے مطابق دفنانے کی خاطر زمین پر لائی جاتی ہے“
سہراب ماجھی بتاتے ہیں ”نہ تو ہم مردے کو دریا میں بہاتے ہیں اور نہ ہی جلاتے ہیں۔‘‘
جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں واقع موجو چوہدری ہٹ کے نزدیک کشتیوں پر رہنے والے ماجھی کا کہنا ہے ”ہم دریا کے کناروں پر آباد لوگوں سے تعلقات اچھے صرف اس لیے رکھتے ہیں تاکہ ہم اپنے پیاروں کی تدفین کر سکیں‘‘
ماجھی نے بتایا کہ ’مانتا لوگ‘ کبھی کسان اور ماہی گیر تھے، لیکن پھر میگھنا کی سطح بڑھی اور آس پاس کی زمینیں دریا میں شامل ہو گئیں۔ ان لوگوں کے پاس اب کوئی مستقل پتہ بھی نہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگ بہت سی ریاست کی طرف سے دی جانے والی بہت سی سہولیات سے بھی محروم ہیں
عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے اور متاثر ہونے والے ممالک میں بنگلہ دیش بھی ایک اہم ملک ہے۔ اس جنوب ایشیائی ملک کا جغرافیہ اور کلائمٹ ایسا ہے کہ یہ بارشوں اور سیلابوں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتا ہے۔ اس ملک میں قدرتی آفات کی شرح بھی بڑھ چکی ہے
چن ماہی کشتیوں پر زندگی گزارتے گزارتے تھک چکے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر اس اٹھاون سالہ بنگلہ دیشی کا کہنا ہے ”ہم زمین پر گھر بنانا چاہتے ہیں، یہاں ہمارے لیے کچھ نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میری اگلی نسل تعلیم حاصل کرے اور کمیونٹی کی بہتری کے لیے کچھ عملی کام کرے‘‘
قدرتی آفات سے نمٹنے والے ملکی ادارے کے سربراہ گوہر ندیم نے ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں بتایا ”ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش بھر میں کم ازکم تین لاکھ افراد کشتیوں میں بنائے گئے گھروں میں رہتے ہیں، جبکہ اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے“
ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں سطح سمندر میں اضافے اور دریائی کٹاو کی شرح مسلسل بڑھے گی، اس لیے ان مسائل سے نمٹنے کی خاطر حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے
ڈھاکا میں واقع ’ڈیلٹا ریسرچ سینٹر‘ کے سربراہ محمد عزیز کا کہنا ہے ”موسموں میں شدت بڑھے گی، دریائی کٹاؤ کوئی قلیل المدتی مسئلہ نہیں ہے۔ لہٰذا بدلتے موسموں سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر حکومت کو جامع منصوبہ بندی کرنا ہو گی“
ضلعی سوشل سروسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر نور الاسلام کے بقول حکومت نے ان مسائل کے حل کی خاطر مختلف پروگرامز شروع کر رکھے ہیں تاکہ ’مانتا لوگوں‘ کی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کمیونٹی کا معیار زندگی بہتر بنانے اور اس کی استعداد کاری کے لیے دست کاری کے مختلف تربیتی کورسز چلائے جا رہے ہیں
نور الاسلام نے مزید بتایا کہ اس کمیونٹی کے لوگوں کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ وہ شناختی کارڈز بنوائیں تاکہ انہیں تعلیم، صحت اور ملازمتوں کے مواقع بھی میسر آ سکیں
حکومتی پروگرامز کے تحت درجن بھر مانتا گھرانوں کو گھر بھی دیے جا چکے ہیں۔ تاہم جہاں آرا بیگم جیسے کچھ مانتا لوگ ایسے پروگرامز کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ اڑتیس سالہ جہاں آرا نے بتایا ”اس کمیونٹی کے لوگوں کے لیے گھروں کا انتظام ان کے کام کرنے کی جگہوں سے انتہائی دور کیا گیا ہے، جس کہ وجہ سے ان کا روزگار ختم ہو جانے کا خطرہ ہے“
تاہم کچھ مانتا لوگ ایسے بھی ہیں، جو کشتیوں پر بنے گھروں کے بجائے زمین پر رہنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں کوئی بھی قیمت چکانا پڑے۔ اٹھائیس سالہ عاصمہ بانو بھی انہیں میں سے ایک ہیں، وہ کہتی ہیں ”یہاں کوئی مستقبل نہیں۔۔ نہ ہمارا اور نہ بچوں کا۔‘‘ دریائے میگھنا پر کھڑی ایک کشتی میں رہنے والی بانو کے مطابق وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتی ہیں۔