گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے بعد سرمایہ دار کیسے منافع بٹور رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

ملک میں اس وقت سیاسی اور معاشی بحرانوںںکی لپیٹ میں ہے جبکہ آٹو اسمبلرز گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اس صورتحال سے پوری طرح فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں

انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) وہ تیسری کمپنی بن گئی ہے، جس نے روپے کی قدر میں کمی، خام مال کی قیمتوں میں اضافے، نقل و حمل کی لاگت اور کیپٹل ویلیو ٹیکس (سی وی ٹی) سمیت دیگر ٹیکس اور ڈیوٹیز بڑھنے کا حوالہ دیتے ہوئے صارفین کو گاڑیوں کے مختلف ماڈلز میں 5 لاکھ 90 ہزار سے 30 لاکھ 16 ہزار روپے اضافے کا بڑا جھٹکا دیا

لیٹر آف کریڈٹس (ایل سیز) کھولنے پر پابندی، غیر مستحکم شرح تبادلہ اور گاڑیوں کی بروقت فراہمی میں ناکامی کے سبب گاڑیوں کی تیاری کے لیے درکار پرزوں کی کمی کی وجہ سے 18 مئی سے گاڑیوں کی بکنگ پہلے ہی معطل کر دی گئی تھی، کمپنی نے بتایا کہ نیا نوٹیفکیشن جاری ہونے تک آڈر لینے کا سلسلہ معطل رہے گا

اطلاعات تھیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں ایل سیز پر موجود شرائط کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا لیکن آٹو اسمبلرز کا کہنا ہے کہ یہ پابندی اب بھی موجود ہے اور اسٹیٹ بینک اسمبلنگ کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے پرزوں اور کٹس کی درآمد کا مخصوص کوٹہ جاری کر رہا ہے

کرولا 1.6 ایم ٹی، اے ٹی اور اے ٹی اپ اسپیک ماڈلز کی نئی قیمت بالترتیب 48 لاکھ 99 ہزار روپے، 51 لاکھ 39 ہزار روپے اور 56 لاکھ 39 ہزار روپے ہے جبکہ سی وی ٹی 1.8، سی وی ٹی ایس آر اور سی وی ٹی ایس آر بلیک ماڈلز کی نئی قیمت بالترتیب 66 لاکھ 79 ہزار روپے، 61 لاکھ 49 ہزار روپے اور 61 لاکھ 89 ہزار روپے ہوگی

یارس 13 ایم ٹی، سی وی ٹی، ایچ ایم ٹی اور ایچ سی وی ٹی کی نئی قیمتیں 37 لاکھ 99 ہزار روپے، 40 لاکھ 39 ہزار روپے، 39 لاکھ 99 ہزار روپے اور 42 لاکھ 9 ہزار روپے ہیں، یارس 1.5 ایم ٹی اور 1.5 سی وی ٹی کی قیمت 43 لاکھ 9 ہزار اور 45 لاکھ 69 ہزار ہوگی، ریوو، جی ایم ٹی، جی اے ٹی، وی اے ٹی اور وی اے ٹی روکو کی قیمت بالترتیب 98 لاکھ 19 ہزار، ایک کروڑ 3 لاکھ، ایک کروڑ 13 لاکھ اور ایک کروڑ 20 لاکھ روپے ہوگی

فارچیونر ایل او پیٹرول، ہائی پیٹرول، ڈیزل اور ڈیزل لیجینڈر کے نئے نرخ بالترتیب ایک کروڑ 25 لاکھ روپے، ایک کروڑ 43 لاکھ روپے، ایک کروڑ 51 لاکھ روپے اور ایک کروڑ 58 لاکھ روپے ہیں

آئی ایم سی نے اپنے ڈیلرز کو بتایا کہ یہ قیمتیں خالصتاً علامتی اور عارضی ہیں جو تبدیل ہو سکتی ہیں لہذا انہیں حتمی نہیں سمجھا جائے

آٹو ذرائع نے بتایا کہ ہونڈا اٹلس کارز لمیٹڈ (ایچ اے سی ایل) نے اپنے ڈیلرز کو ہونڈا سٹی، سوک اور بی آر-وی کی قیمتوں میں 30 جولائی سے 7 لاکھ 85 ہزار سے 14 لاکھ 50 ہزار روپے تک ممکنہ اضافہ لاگو ہونے کے بارے میں مطلع کیا ہے

‘آئی ایم سی’ اور ‘ایچ اے سی ایل’ سے پہلے ‘کیا لکی موٹر کارپوریشن’ پہلی اور ‘ہنڈائی نشاط موٹرز’ دوسری کمپنی تھی جس نے شرح مبادلہ اور بھاری ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کے اثرات کو صارفین تک منتقل کیا اور قیمتوں میں 11 لاکھ روپے تک کا اضافہ کیا

موٹرسائیکلیں مزید مہنگی

این جی آٹو انڈسٹریز نے اپنے ڈیلرز کو خام مال کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں اور یوٹیلیٹی چارجز کی وجہ سے سپر پاور موٹر سائیکل کے 70 سی سی سے 250 سی سی ماڈلز کی قیمتوں میں 5 ہزار سے 20 ہزار روپے کے اضافے کے بارے میں مطلع کیا جس کا اطلاق 5 اگست سے ہوگا

کمپنی نے 27 جولائی سے سپر پاور 100 سی سی موٹر سائیکل کی قیمت میں بھی 5 ہزار روپے کا اضافہ کر دیا

ڈی ایس موٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے 5 اگست سے 70 سی سی سے 100 سی سی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں 5 ہزار روپے کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے

اس صورتحال سے سرمایہ کار کیسے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟

مہینوں کی تاخیر کے بعد پرانے نرخوں پر اپنی گاڑیوں کی ڈیلیوری حاصل کرنے والے سرمایہ کار حالیہ ہفتوں میں قیمتوں میں زبردست اضافے کی وجہ سے اپنی کاریں، جیپیں اور پک اپ بھاری پریمیئم کے ساتھ فروخت کر کے فائدہ اٹھا رہے ہیں

ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے، بکنگ معطل کی جاچکی ہے، قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے، آٹو فنانسنگ پر پابندیاں عائد کیا جاچکی ہیں اور مالی سال 2023 اور غیر پیداواری دنوں میں فروخت میں 25 سے 30 فیصد کی کمی نظر آرہی ہے، ایسے وقت میں مقامی اسمبلرز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کے منفی اثرات صارفین کو منتقل کررہے ہیں

مقامی طور پر اسمبل شدہ پرانی اور نئی گاڑیوں کے درمیان قیمت کا فرق اب 5 لاکھ 90 ہزار سے 30 لاکھ کے درمیان ہے جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل بے قدری کے نتیجے میں قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے

کچھ بڑے اسمبلرز کی جانب سے بکنگ کی معطلی کی وجہ سے شو رومز اب ان صارفین سے ڈیل کر رہے ہیں جو اپنی گاڑیوں کی ڈیلیوری کے لیے تین سے چھ ماہ کے طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں

مارکیٹ ذرائع نے بتایا کہ ’کیا‘ گاڑیوں پر قیمت کا فرق 10 لاکھ سے 13 لاکھ کے درمیان ہے، مثلاً سرمایہ کار اسپورٹیج آل وہیل ڈرائیو (اے ڈبلیو ڈی) ماڈلز کے لیے 76 لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کی قیمت 63 لاکھ 63 ہزار روپے سے بڑھا کر 72 لاکھ 50 ہزار روپے کر دی گئی ہے

کیا پکانٹو آٹومیٹک کی بکنگ گزشتہ مہینوں میں 23 لاکھ 12 کروڑ روپے اور 27 لاکھ روپے کی پرانی قیمتوں پر ہوئی تھی، اب اس کی قیمت 32 لاکھ روپے ہے، تاہم خریدار کو سرمایہ کار سے فوری ڈیلیوری حاصل کرنے کے لیے 10 لاکھ روپے سے زیادہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے

’کیا لکی موٹر لمیٹڈ‘ اور ہنڈائے نشاط موٹرز نے مختلف ماڈلز کی قیمتوں میں 11 لاکھ روپے تک اضافہ کردیا

ذرائع نے بتایا کہ یہی صورتحال ٹویوٹا گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی ہے جس کے مختلف ماڈلز پر سرمایہ کار 5 لاکھ سے 25 لاکھ روپے کے درمیان وصول کر رہے ہیں

ٹویوٹا کے ایک ڈیلر نے کہا کہ سرمایہ کار ان کاروں پر صارفین سے بڑی ادائیگی وصول کر رہے ہیں، جن کی ڈیلیوری پرانی قیمتوں کے مطابق ہے

ایک جاپانی اسمبلر کار ڈیلر نے بتایا کہ صارفین 6 ماہ قبل بک کرائی گئی اپنی پرانی گاڑیوں کی ڈیلیوری حاصل کر رہے ہیں لیکن وہ مارکیٹ میں قیمت طے ہونے کے بعد پھر انہیں فروخت کرنے کا انتظار رہے ہیں

ایک ڈیلر نے کہا کہ ہونڈا سٹی پر ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا پریمیم موجود ہے کیونکہ کمپنی نے ابھی تک اپنی بکنگ معطل نہیں کی ہے جبکہ ٹویوٹا اور سوزوکی گاڑیوں کی بکنگ 18 مئی سے یکم جولائی تک بند کر دی گئی

انہوں نے کہا کہ سوزوکی کلٹس اور آلٹو 660 سی سی کی بکنگ پر ’آن منی‘ تقریباً 5 لاکھ روپے ہے کیونکہ کمپنی نے ابھی تک کسی قیمت میں اضافے کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن کم نرخوں پر بک کی گئی پرانی ڈیلیوری کو کلیئر کیا جا رہا ہے

استعمال شدہ گاڑیوں کے ایک ڈیلر نے بتایا کہ قیمتوں میں مسلسل اضافے کے پیش نظر بہت سے لوگوں نے اپنی دو سے تین سال پرانی چھوٹی اور بڑی گاڑیاں ایک مخصوص وقت پر بھاری داموں پر فروخت کرنے کے لیے کھڑی کر دی ہیں

انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں تیزی کے رجحان کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے اپنے کاروباروں سے پیسہ نکال کر بطور سرمایہ کار آٹو بزنس میں کود گئے ہیں

ذرائع نے بتایا کہ مجاز ڈیلرز کے شو رومز میں ’آن منی‘ کے کچھ سودے پھنسے ہوئے ہیں، اسمبلرز کے بڑے دعووں کے باوجود بہت سے سودے شو رومز کے باہر کیے جاتے ہیں

ڈیلرز نے کہا کہ ’آن منی‘ کا رواج عام طور پر 2 سے 10 ماہ تک گاڑیوں کی ترسیل میں طویل تاخیر کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close