سری لنکا نے چین کے ایک ایسے بحری جہاز کو ہمبنٹوٹا بندرگاہ جانے کی اجازت دی ہے، جو سیٹلائٹ اور میزائل ٹریکنگ سسٹم سے لیس ہے اور اسے تلاش اور تفتیش کے کام میں مہارت حاصل ہے
کہا جاتا ہے کہ یہ جہاز 11 سے 17 اگست تک اس بندرگاہ پر رہے گا
اس پیشرفت پر بھارت میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ سری لنکا کی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے اس بارے میں باضابطہ طور پر اعتراض درج کرایا ہے تاہم سری لنکا نے بھارت کی تشویش کے باوجود چینی جہاز کو روکنے سے انکار کر دیا ہے
بھارت پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اپنی سلامتی اور اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ہمبنٹوٹا بندرگاہ میں ہونے والی ہر سرگرمی پر نظر رکھ رہا ہے
اس بندرگاہ کا فاصلہ بھارت کی جنوبی ریاستوں سے صرف چند کلومیٹر ہے اور انڈیا کی تشویش کی وجہ بھی یہی ہے
اس وقت شدید مالی بحران کے شکار سری لنکا نے اس معاملے پر وضاحت پیش کرتے ہوئے اسے ایک جائز سرگرمی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ماضی میں کئی اور ممالک کو بھی اس طرح کی اجازت دے چکا ہے
سری لنکا اب تک کہتا رہا ہے کہ وہ ہمبنٹوٹا بندرگاہ کو فوجی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا
ہمبنٹوٹا کی اسٹریٹجک اہمیت
سری لنکا کے جنوب میں واقع ہمبنٹوٹا اسٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم مقام پر واقع ہے جسے سری لنکا نے چین سے قرض لے کر بنایا ہے
بھارتی اخبار روزنامہ ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کی وزارتِ دفاع نے اس سے قبل چینی جہاز کے ہمبنٹوٹا آنے کی خبروں کو مسترد کر دیا تھا
تاہم سری لنکا کی وزارت دفاع نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے پہلے چینی جہاز کی آمد سے متعلق خبروں کی تردید کیوں کی تھی
لیکن ’دی ہندو‘ کی خبر کے مطابق کرنل ہیراتھ نے کہا کہ ایسے جہاز بھارت، چین، جاپان، آسٹریلیا سے وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں اور اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں
بھارت کی تشویش کیا ہے؟
قرض کی ادائیگی میں ناکامی کے بعد سنہ 2017ع میں سری لنکا نے جنوب میں واقع اس اہم بندرگاہ کو باضابطہ طور پر ننانوے سالہ لیز پر چین کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ بندرگاہ ایشیا اور یورپ کے درمیان اہم سمندری تجارتی راستے کے قریب واقع ہے
بھارت اور امریکہ نے ہمیشہ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ایک عشاریہ پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی یہ بندرگاہ چین کا فوجی اڈہ بن سکتی ہے
سری لنکا کے ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بھارتی حکام نے کولمبو میں وزارت خارجہ سے اعتراض کیا ہے
اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس چینی جہاز کی فضائی حدود ساڑھے سات سو کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ بھارتی سرحد کے اندر کلپکم، کوڈانکلم اور دیگر جوہری تحقیقی مراکز پر آسانی سے نظر رکھی جا سکتی ہے
سری لنکا کا کہنا ہے کہ اس نے ماضی میں ایسے جہازوں کو ہمبنٹوٹا جانے کی اجازت دی ہے اور یہ بالکل معمول کی بات ہے
لیکن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سنٹر فار ساؤتھ ایشیا سٹڈیز کے پروفیسر ایس ڈی مونی کے بقول ’یہ کوئی عام سرگرمی نہیں‘
پروفیسر مُنی کہتے ہیں ’اس جہاز کی رینج بھارت کی جنوبی ریاستوں اور کم از کم آندھرا پردیش کے جوہری پلانٹس پر محیط ہے۔ یہ جہاز 11 سے 17 اگست تک وہاں رہے گا۔ ان دنوں میں بہت سی معلومات اکٹھی کی جا سکتی ہیں‘
یہ جہاز کیرالہ، تامل ناڈو اور آندھرا پردیش کی بندرگاہوں پر بھی نظر رکھ سکتا ہے
ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر چینی جہاز کی موجودگی کے بارے میں پوچھے جانے پر وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے گزشتہ ہفتے کہا کہ ’ہمیں اگست میں اس جہاز کے ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر پہنچنے کی خبر ملی ہے۔ ملک کی سکیورٹی کے پیشِ نظر ہم ہر پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور تمام ضروری اقدامات کریں گے۔‘
باگچی نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک واضح پیغام ہوگا۔‘ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس معاملے پر بھارت کیا اقدامات کر رہا ہے
اسی دوران چین کی وزارت خارجہ نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ متعلقہ فریق چین کی سمندری تحقیقی سرگرمیوں کو درست انداز میں دیکھیں گے اور جائز سمندری سرگرمیوں میں مداخلت سے گریز کریں گے۔‘
یاد رہے کہ سنہ 2014 میں ایک چینی آبدوز کولمبو کے قریب ہمبنٹوٹا بندرگاہ کے قریب آئی تھی، تب بھی بھارت نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا
بھارتی حکام کے مطابق ’سری لنکا نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہمبنٹوٹا کو صرف تجارتی سرگرمیوں کے لیے چین کو ننانوے سال کے لیز پر دیا گیا ہے۔ بھارت نے یہ معاملہ اٹھایا ہے، دیکھتے ہیں اس پر سری لنکا کا کیا ردعمل آتا ہے‘