ورلڈ میٹریولوجیکل ڈے: کیا پاکستان کے پاس بدلتے موسم اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مؤثر پیش گوئیوں کا نظام ہے؟

ویب ڈیسک

کراچی – تیس برس قبل، سنہ 1992 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے دریائے سرن کے کنارے واقع علاقے شنکیاری میں رونما ہونے والے حادثے کے عینی شاہد زبیر ایوب کا کہنا ہے ”لوگ دریائے سرن کے کنارے بڑھتی ہوئی موجوں کو دیکھ رہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ موجیں ایک طوفانی سیلاب کا سبب بن رہی ہیں۔ یکدم ان لوگوں کے پاؤں تلے سے زمین کھسکنا شروع ہوئی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ دریا کی موجوں کی نذر ہوگئے“

شنکیاری کے زبیر ایوب نے کہا ”اس سیلاب کے آنے سے قبل ہمارے علاقے میں طوفانی بارشیں ہوئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں محکمہ موسمیات کی جانب سے طوفانی بارشوں کی پیشن گوئی تو موجود تھی مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ خطرناک سیلاب جیسی صورتحال کا سبب بھی بن سکتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ بارشوں کے بعد لوگ پانیوں میں بہہ کر آنے والی لکڑی کو پکڑنے کے لیے بھی خطرناک موجوں پر چلے جاتے تھے“

انہوں نے بتایا ”تقریباً ایک ہفتے تک مسلسل بارشوں کے بعد جب موسم ٹھیک ہوا تو لوگ لکڑی جمع کرنے دوبارہ دریا کے پاس چلے گئے مگر چند ہی گھنٹوں کے اندر پورا کا پورا علاقہ پانی کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ کسی کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ نہ ہی کوئی ایسی اطلاع دستیاب تھی۔ مقامی لوگوں نے اس سے پہلے اتنی تباہی نہیں دیکھی تھی۔ کئی بستیاں، جو کہ دریا کے کنارے آباد تھیں، صحفہ ہستی سے مٹ گئیں۔ لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو تربیلہ ڈیم تک تلاش کرتے رہے تھے“

پاکستان میں آنے والے بیس بڑے سیلاب میں شدید جانی و مالی نقصان

سنہ 1992ع میں خیبر پختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں میں میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کوئی دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے جبکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصاں کا سامنا کرنا پڑا تھا

اس سیلاب کو اپنی نوعیت کا بدترین سیلاب کہا گیا تھا۔ اس کے اکیس برس بعد، سال 2013ع میں حکومت کی جانب سے جاری کی گئی فیڈرل فلڈ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 1950ع سے لے کر 2012ع تک ملک میں بیس بڑے سیلاب آئے تھے، جن میں 599,459 اسکوائر کلو میٹر کا علاقہ، جس میں 188531 دیہات شامل ہیں، متاثر ہوئے تھے

ان سیلابوں میں حکومتی تخمینے کے مطابق 37 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جبکہ لگ بھگ 11572 لوگ ہلاک ہوئے تھے

اس میں سال 2010ع میں آنے والے سیلاب کو سپر سیلاب کہا گیا تھا۔ جس میں تین ملین ڈالر نقصاں کا تخمینہ لگایا گیا تھا

اس کے علاوہ وزارت خزانہ کی سال 2020ع کی ایک رپورٹ کے مطابق 1999ع سے لے کر 2018ع تک پاکستان میں ایک سو باون بار انتہائی شدید موسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں

ماہر ماحولیات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ساتھ منسلک ٹینیکل ایڈوائزر معظم خان کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے، جو انتہائی موسمی تبدیلیوں اور ماحولیات کا شکار ہوچکے ہیں اور مستقبل میں خطرے سے دوچار ہیں

ان نقصانات سے بچنے کا مناسب راستہ موسمی تبدیلیوں کے خلاف لڑنا، اپنے ماحول کو تحفظ دینا اور ایسی آفات کے نقصانات سے بچنے کے لیے قبل از وقت پیشن گوئی اور ایکشن لینا شامل ہے

قبل از پیشن گوئی اور ایکشن کا نظام کیا ہے؟

برصغیر کے معروف مصنف کرشن چندر اپنے ایک ناول میں لکھتے ہیں کہ ایک گھر میں موسم تبدیل ہونے کے بعد چڑیا نے اپنا گھونسلا پچھلے سال کے مقابلے میں خاصی اونچائی میں قائم کیا

اس گھر میں رہنے والی بچی نے اپنی ماں سے پوچھا ایسا کیوں ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس سال جو سیلاب آئے گا اس میں پانی شاید زیادہ ہو اور چڑیا اپنا گھر محفوظ کرنا چاہتی ہے

پھر ہوا بھی یہی، کہ سیلاب آیا تو پانی زیادہ تھا۔ زیادہ پانی میں چڑیا کا گھونسلا محفوظ رہا جس پر گھر کی بیٹی حیران رہ گئی

اس ناول کا حوالہ دیتے ہوئے معظم خان کہتے ہیں کہ موسمی تبدیلیوں، سیلاب وغیرہ کے حوالے سے آگاہی آج کی نہیں بلکہ کئی صدیوں سے مختلف طریقوں، روایات سے موجود ہے اور اس ہی کی بنیاد پر انسان اپنے تحفظ کے اقدامات کرتے تھے

معظم خان کہتے ہیں کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش یا اس خطے کے دیگر ممالک میں موسم کے اثرات جنوبی بحرالکاہل کے موسم میں پیدا ہونے والے تغیرات سے متاثر ہوتے ہیں، یعنی ہمارے موسم کے اثرات ہزاروں میل دور ہونے والی تبدیلیوں کے بھی زیرِ اثر ہوتے ہیں

معظم خان کہتے ہیں”یہ جدید دور ہے، جس میں ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہائی موسم کو بروقت سمجھ لینا اتنا مشکل نہیں رہا ہے. مثال کے طور پر سمندر میں کوئی موسمی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کو آپ موسمی ریڈار یا سمندر میں موجود آبزرویشن سنٹر سے سمجھ سکتے ہیں۔ جس کے بعد اس کا تجزئیہ کرکے پیش گوئی کی جا سکتی ہے“

معظم خان کہتے ہیں ”سال 1999ع میں سمندری طوفان ٹو اے کے نتیجے میں کافی نقصان ہوا تھا اور اس کے اثرات ساحلی علاقوں میں ابھی تک موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں سنہ 2010 میں آنے والے سمندری طوفان کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئی موجود تھی، جس کے باعث اس کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوئے حالانکہ 2010ع والا سمندری طوفان 1999ع کے مقابلے میں زیادہ شدید کا تھا“

”ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور اس پر فوری اقدمات کیئے جائیں تو نقصان کم ہوسکتا ہے“

پاکستان کے پاس دستیاب ٹیکنالوجی

ریٹائرڈ فیڈرل سیکرٹری جاوید اقبال اعوان کہتے ہیں ”قبل از ایکشن وارننگ ملنے کے بعد انتظامیہ فی الفور حرکت میں آتی ہے اور وہ تمام ضروری اقدامات کرتی ہے، جو سیلاب یا دیگر آفات سے نمٹنے کے موقع پر کیے جاتے ہیں“

پاکستان کے محکمہ موسمیات سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس وقت پاکستان میں موسم کو مانیٹر کرنے والے ایک سو سترآبزرویشن سسٹم کام کر رہے جن میں سے پچاس خودکار ہیں، جبکہ مجموعی طور پر سات موسمی ریڈار موجود ہیں

موسمی ریڈار میں تین کے قریب بہت پرانے ہوچکے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کو بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے

اسی طرح ملک کے مشرقی علاقے، جن کی سرحدیں بھارت کے ساتھ لگتی ہیں، وہاں پر بھی آبزرویشن سینٹرز کی تعداد کم ہے

پاکستان میں اس وقت سمندر کے اندر موسم کو مانیٹر کرنے والا کوئی بھی ایسا سسٹم موجود نہیں ہے

واضح رہے کہ پاکستان کا کل رقبہ 881,913 اسکوائر کلومیٹر ہے اور ماہرین کے مطابق اتنے بڑے رقبے کو پاکستان میں دستیاب سسٹم سے مکمل طور پر نگاہوں میں رکھنا تھوڑا مشکل ہے

تاہم محکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر ظہیر بابر کے مطابق ”پاکستان کے پاس قبل از پیش گوئی کا بہترین نظام موجود ہے. ہمارا سارا سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہے۔ ہمارے ماہرین بین الاقوامی اور ملکی موسم کے حالات دیکھ کر تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ ان تجزیوں کی بنیاد پر پیشن گوئیاں کی جاتی ہیں اور ہماری کی ہوئی پیش گوئیاں بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتی ہیں“

انہوں نے بتایا ”حالیہ عرصہ میں اسلام آباد اور کراچی میں جاپان کے تعاون سے نئے ریڈار نصب کیے گے ہیں جبکہ کئی مانیٹرنگ سسٹم کو بہتر بنایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ موسمی ریڈار کو بھی بہتر کیا جارہا ہے۔“

محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کے مطابق ”بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے مگر محکمہ موسمیات نے سندھ اور کراچی میں موجود نظام کی بدولت بہت اچھے نتائج دیے ہیں۔ اگر کوئی کمی ہے بھی تو اس کو محکمہ موسمیات کے ماہر پوری کرلیتے ہیں۔“

وہ کہتے ہیں ”بھارت میں ورلڈ میڑالوجیک آرگنائزیشن کے زیر انتظام ایک جدید ریڈار لگا ہوا ہے۔ اس سے بھی ہمیں بہت مدد ملتی ہے۔ گزشتہ سال عمان میں جا کر گرنے والے سمندری طوفان کے حوالے سے اطلاعات اسی ریڈار کی مدد ہی سے کی گئیں تھیں“

پاکستان محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر قمر الزماں کے مطابق موسمی ریڈار اور آبرزویشن سنٹر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں اس نیٹ ورک کو اچھا کہا جاسکتا ہے مگر آئیڈیل نہیں کہہ سکتے

ان کا کہنا ہے ”اگر پاکستان میں ریڈار سات ہیں تو ممکنہ طور پر ان کی تعداد پندرہ سے بیس کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس وقت شاید آبزرویشن سنٹر دو سو سے دو سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے یا اس سے زیادہ کم کے فاصلے پر ہیں جبکہ آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ یہ پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہونے چاہیے“

وہ کہتے ہیں ”ان موسمی ریڈاروں کی بھی عمر کوئی دس سے پندرہ سال ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیکنالوجی بھی تبدیل ہوتی جاتی ہے، اس لیے ان کی وقت کے ساتھ دیکھ بھال اور مناسب مرمت وغیرہ جاری رکھنا چاہیے“

سال 2010 کے آنے والے سپر سیلاب کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر قمرالزماں کا کہنا تھا ”اس وقت پاکستان میں دستیاب قبل از پیش گوئی کا نظام تسلی بخش ہے۔ ہم لوگوں نے بروقت پیش گوئی کی تھی۔ اس وقت انسانی جانوں کا جو ضیاع ہوا وہ کوئی دو ہزار سے کم تھا۔ اتنے بڑے واقعہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کو کم رہنے کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کو قبل از وقت پیش گوئی مل گئی تھی۔ اس سیلاب کے دوران دو کروڑ لوگوں کو منتقل کیا گیا تھا، جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی“

لیکن اب تیزی سے آتی موسمی تبدیلیوں اور انتہائی موسم نے شدید صورتحال اختیار کر لی ہے، تو سوال یہ ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے کیا تیاریاں کی ہیں

ڈاکٹر ظہیر بابر کہتے ہیں ”مستقبل قریب میں عالمی تنظیم کے تعاون سے ملتان اور سکھر میں مزید ریڈار بھی نصب کیئے جا رہے ہیں۔ اس نظام کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن اس میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت موجود ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وارننگ کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جائے“

ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں ”بات اب یہیں تک محدود نہیں کہ وارننگ جاری کردی گئی ہے بلکہ متعلقہ حکام کو یہ وارننگ سمجھانا بھی چاہیے اور حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنا چاہیے. اگر وارننگ جاری ہو لیکن عوام تک نہ پہنچے اور آنے والے خطرے سے بچاؤ کے اقدامات نہ اٹھائے جائیں تو وہ وارننگ ضائع ہی سمجھیں۔“

معظم خان کہتے ہیں ”ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامی افسران کو تربیت فراہم کی جائے کہ وہ کیسے جاری ہونے والی وارننگ کو سمجھیں اور کس طرح اس سے نمٹنے کی تیاری کریں۔“

قبل از وقت ایکشن

جاوید اقبال اعوان مختلف اضلاع میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ سنہ 2010ع کے سیلاب کے وقت وہ بہاولپور میں تعنیات تھے

وہ کہتے ہیں ”سیلابی صورتحال پیدا ہونے کے بعد بہاولپور میں پانی پہچنے میں سات دن کا وقفہ تھا، جس وجہ سے وقت مل گیا کہ اس کا مقابلہ کیا جا سکے مگر سب ہماری طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ میرا خیال ہے کہ جہلم، گجرات، سرگودھا، سیالکوٹ، جھنگ جیسے اضلاع میں وقت کم تھا۔ جس وجہ سے غالباً وہاں پر نقصاں زیادہ ہوا۔ اگر باقی اضلاع میں بھی اتنا وقت ہوتا تو شاید نقصاں کم ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے بروقت قبل از وارننگ کی اہمیت بہت زیادہ ہے“

ماضی میں خیبر پختونخواہ میں بطور ڈپٹی کمشنر خدمات انجام دینے والے ریٹائیرڈ محمد ادریس کہتے ہیں ”اس سال جنوری میں مری سانحہ کی بنیاد اسی وقت پڑ گئی تھی جب انتظامیہ وارننگ کو سمجھ نہ سکی اور اس نے عمل در آمد کے لیے قبل از وقت اقدامات نہیں کیے تھے۔ وارننگ کو سمجھا جاتا تو قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن اب اکثر اوقات ایسے ہوتا ہے کہ وارننگ آجاتی ہے مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا کیونکہ کبھی انتظامیہ کہ پاس وسائل نہیں ہوتے اور کبھی لوگ تعاون نہیں کرتے۔ عموماً بڑا مسئلہ عوام کی جانب سے ہوتا ہے کیونکہ ان کی بڑی اکثریت اپنا علاقہ اور گھر چھوڑنا نہیں چاہتی ۔ ایسے مواقع پر مختلف قسم کی افواہیں پیدا ہوجاتی ہیں، جس بناء پر عوام اور انتظامیہ میں رابطے کا فقدان ہو جاتا ہے۔ حالانکہ انتظامیہ تو عوام کی جانیں بچانا چاہتی ہے اور اس لیے عوام کے اندر بھی اس معاملے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی متاثرہ علاقے میں جاری ہونے والی وارننگ بھی قابل اعتماد ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مکمل تجزیہ کیے بغیر ہی بے تحاشا وارننگ جاری کردی جائیں کیونکہ پھر ایسا کرنے کے باعث عوام اور افسران بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close