جرمن پولیس نے فلسطینی صدر محمود عباس کے اسرائیل کی فلسطینیوں سے متعلق پالیسی کے تناظر میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے چانسلر شولس کے ساتھ برلن میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیے گئے حالیہ متنازعہ بیان کی تفتیش شروع کر دی ہے
جرمن دارالحکومت برلن کی پولیس کی ایک ترجمان کے مطابق، اپنے حالیہ دورے کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس نے برلن میں جرمن چانسلر اولاف شولس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ہولوکاسٹ سے متعلق جو متنازعہ بیان دیا تھا، اس کی باقاعدہ لیکن ابتدائی چھان بین شروع کر دی گئی ہے
ترجمان نے بتایا کہ پولیس کو ایک باقاعدہ شکایت جمع کرائی گئی تھی، جس کے مطابق فلسطینی صدر عباس ہولوکاسٹ کی متعلقیت کے مرتکب ہوئے تھے، ”اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے برلن پولیس نے اب فلسطینی صدر محمود عباس کے برلن میں دیے گئے حالیہ بیان کی چھان بین شروع کر دی ہے۔‘‘
پولیس ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس تفتیش کے نتائج سے برلن میں ریاستی دفتر استغاثہ کے حکام کو مطلع کر دیا جائے گا اور وہی اس امر کا تعین کریں گے کہ آیا فلسطینی صدر عباس کسی جرم کے ارتکاب کے مرتکب ہوئے تھے یا نہیں؟
فلسطینی صدر عباس نے کہا کیا تھا؟
صدر محمود عباس نے منگل سولہ اگست کے روز اپنے دورہ جرمنی کے دوران برلن میں جرمن چانسلر شولس کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ اس دوران ایک آخری سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل 1947ء سے لے کر اب تک فلسطینیوں کے خلاف ‘پچاس مرتبہ ہولوکاسٹ‘ کا مرتکب ہو چکا ہے
محمود عباس کے اس جواب کے بعد پریس کانفرنس پہلے سےکیے گئے اعلان کے مطابق ختم ہو گئی تھی۔ تاہم چانسلر شولس نے فوری طور پر فلسطینی صدر کے اس بیان کو چیلنج نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے ان پر تنقید بھی کی گئی تھی
تاہم بعد ازاں چانسلر شولس نے اپنی ایک ٹویٹ میں صدر محمود عباس کے اس بیان پر سخت ناگواری کا اظہار کیا تھا اور لکھا تھا کہ انہیں فلسطینی رہنما کے ’یہ ریمارکس سخت ناگوار محسوس ہوئے تھے‘
صدر عباس کے اس بیان کی اسرائیل میں وزیر اعظم یائر لیپیڈ اور کئی دیگر رہنماؤں نے بھی مذمت کی تھی
جرمنی کے کثیر الاشاعات روزنامہ ‘بِلڈ‘ کے مطابق برلن میں جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی صدر کے اس بیان پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی کیونکہ انہیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جرمنی میں اپنے خلاف کسی بھی قانونی کارروائی سے اس لیے تحفط حاصل ہے کہ وہ جرمنی کے سرکاری دورے پر تھے اور انہوں نے اپنا یہ متنازعہ بیان بھی اس سرکاری دورے کے دوران اپنی ایک سیاسی مصروفیت کے دوران دیا تھا
جرمن قانون کیا کہتا ہے؟
جرمنی میں نافذ قانون کے تحت دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں ’کئی ملین یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلانا‘ اسے کوئی معمولی واقعہ بنا کر پیش کرنا یا اس کی اہمیت کم کر کے بتانا، جسے ہولوکاسٹ کی متعلقیت کہتے ہیں، قابل سزا جرم ہے
صدر عباس کے بیان پر اس لیے تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کو نہ صرف ہولوکاسٹ قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ”اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف پچاس مرتبہ ہولوکاسٹ کا مرتکب ہو چکا ہے“
جرمنی میں فوجداری قانون کے ایک پروفیسر میشائل کُوبیسیئل کے مطابق، ”صدر عباس کو اس لیے قانونی تحفظ حاصل رہے گا کہ وہ جرمنی میں یہ بیان دیتے ہوئے ایک دوسرے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے‘‘
واضح رہے کہ جرمنی نے ابھی تک فلسطین کو ایک ملک کے طور پر باقاعدہ تسلیم نہیں کیا تاہم برلن حکومت نے خود مختار فلسطینی علاقوں کی اتھارٹی کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں، جس کے صدر محمود عباس ہیں۔