کراچی میں جرائم کی بڑھتی وارداتیں: دندناتے پھرتے ڈاکو اور سہمے ہوئے لوگ

نیوز ڈیسک

کراچی – مسز سلیم کراچی کے علاقے گلبہار کی کچی بستی میں ایک کرائے کے مکان میں رہتی ہیں، ان کے شوہر ڈرائیور ہے اور وہ خود ایک نجی کلینک میں نرس ہیں۔ انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر تھوڑے تھوڑے کرکے ایڈوانس پیسے جمع کیے اور بیس ہزار روپے دے کر موٹر سائیکل خریدی تھی

لیکن ابھی ان کی خواہشات اور امیدیں ہی پوری نہیں ہوئیں تھیں کہ گھر کے باہر سے ان کی موٹر سائیکل چوری ہو گئی

ان کے شوہر پانچ سو روپے دہاڑی پر کام کرتے ہیں اور دونوں مل کر گھر کا نظام چلاتے ہیں، پھر بھی پورا نہیں پڑتا۔ ایسے میں گھر کے کرائے، دو بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور گھر کے بل وغیرہ مدنظر رکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ”کہاں سے اسی نوے ہزار لائیں اور نئی بائیک خریدیں“

مسز سلیم کا کہنا ہے ”زندگی میں موٹر سائیکل کے آنے سے کچھ آسانی پیدا ہوئی تھی۔ ہسپتال میں کبھی رات کو کبھی دن کو ایمرجنسی ڈیوٹی لگتی ہے، جہاں میں رہتی ہوں وہاں سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر پیدل جانا پڑتا ہے پھر رکشہ، ٹیکسی یا بس ملتی ہے۔ رکشہ، ٹیکسی کا کرایہ تو براشت نہیں کرسکتے، ایسے میں موٹر سائیکل بڑی سہولت تھی، جس سے وقت اور پیسہ دونوں بچتے تھے، لیکن اب ہم اس سے محروم ہوگئے ہیں“

کراچی شہر میں یہ صرف مسز سلیم کی کہانی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لاکھوں افراد اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ حالیہ دنوں میں شہر میں اسٹریٹ کرائم میں بے تحشہ اضافہ ہوا ہے اور موٹر سائیکل چھیننے اور چوری ہونے کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں

کراچی کی سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2021ع سے لے کر جنوری 2022ع تک پچپن ہزار سے زائد افراد اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے، جن میں سے زیادہ تر چوری ہوئیں

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے وسائل پہلے ہی محدود ہونے کے باعث آمد و رفت سوہان روح بنی ہوئی ہے، جبکہ کئی ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ سرے سے چلتی ہی نہیں۔ ایسے میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ملازمت یا تعلیمی اداروں تک جانا ہو یا تفریح یا اور کام کے لیے باہر نکلنا ہو، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کا زیادہ تر انحصار موٹر سائیکل جیسی سواری پر ہی ہے

محمد امجد کراچی کے علاقے چاکیواڑہ سے ایک گھنٹے پیدل سفر طے کر کے صدر کارپوریٹ مارکیٹ میں ملازمت کے لیے آتے ہیں، اس سے قبل وہ موٹرسائیکل پر یہ سفر کرتے تھے

امجد نے لیاری کے چیل چوک پر واقع چائے کے ہوٹل پر، جہاں وہ روزانہ ناشتہ کرنے آتے ہیں، بتایا کہ ”میں نے تیس ہزار میں پرانی موٹر سائیکل فروخت کر کے ستر ہزار میں نئی خریدی تھی۔ ایک روز میں گھاس منڈی کے قریب موٹر سائیکل کھڑی کر کے چائے پینے گیا، واپس آیا تو موٹرسائیکل چوری ہو چکی تھی۔ اب میری اتنی معاشی سکت نہیں کہ ایک پرانی موٹر سائیکل بھی خرید سکوں اس لیے واحد راستہ پیدل سفر ہے“

ایسے ہی کراچی کے ایک شہری ذوہیب علی نارتھ کراچی میں رہتے ہیں اور ان کی بہن شاہراہ فیصل پر ملازمت کرتی ہیں، جو دفتر آنے جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہیں

ذوہیب کے والد نے اس مقصد کے تحت انہیں موٹر سائیکل خرید کر دی کہ وہ پہلے اپنی بہن کو ملازمت پر چھوڑیں اور اس کے بعد کالج جائیں، لیکن ذوہیب جلد ہی اس سہولت سے محروم ہو گئے

وہ بتاتے ہیں ”بہن کو چھوڑ کر دوست کو لینے کے لیے پڑوس میں آیا تو تین لڑکے میرا تعاقب کرتے ہوئے آئے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا، دوسرے نے مجھے دھکا دیا اور موٹر سائیکل چھین کر چلے گئے۔ اب میں پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھا رہا ہوں“

کراچی میں موٹرسائیکلوں کی کتنی تعداد ہے، اس کے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں لیکن موٹر سائیکل ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق روزانہ سات سو سے ایک ہزار کے درمیان نئی موٹر سائیکلیں سڑک پر آتی ہیں

محکمۂ ایکسائز کے 2017ع کے رکارڈ کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلوں کی تعاد ستائیس لاکھ تھی، جبکہ ملک بھر میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلیں بھی سڑکوں پر موجود ہیں

اگرچہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تو نمایاں کمی آئی ہے، لیکن اسٹریٹ کرائم ابھی بھی بے قابو ہے، جس میں موبائل، بٹوے، پرس اور گاڑیاں چھیننا اور موٹر سائیکلوں کی چوری سرفہرست ہے

ذوہیب علی کہتے ہیں ”میں نے موٹر سائیکل چھینے جانے کی ایف آئی آر درج کروائی تو پولیس نے کہا کہ اب دعا کرو کہ واپس مل جائے۔ل“ وہ بتاتے ہیں کہ دو ہفتے مسلسل پولیس سے موٹر سائیکل کے متعلق جاننے کے لیے رابطہ کرتے رہے لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا

اسی طرح مسز سلیم بتاتی ہیں کہ انہوں نے بھی موٹر سائیکل کے چوری ہونے کی ایف آئی آر درج کرائی، لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا

وہ کہتی ہیں ”پولیس کا کہنا ہے کہ جب مل جائے گی تو بتا دیں گے اس کے بعد چکر لگواتے رہے اور چائے پانی کے پیسے بھی مانگتے ہیں۔“

محمد امجد نے بھی تھانے کے چکر لگائے لیکن وہ بھی اب مایوس ہو چکے ہیں

اس صورتحال پر کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن کہتے ہیں ”چوری شدہ موٹر سائیکلوں کے حوالے سے مدعی بھی پیروی نہیں کرتے کیونکہ ان میں زیادہ تر متوسط طبقے یا غریب طبقے کے نوکری پیشہ لوگ ہیں، وہ یہ سوچتے ہیں کہ چالیس پچاس ہزار کے لیے کون مجرموں کے منھ لگے۔ لہٰذا دوسری طرف (پولیس) سے کوتاہیاں ہوتی ہیں“

کراچی میں انسداد جرائم فورس یعنی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے گذشتہ ماہ خالد مکرانی بلوچ نامی ملزم کو گرفتار کیا، پولیس کے مطابق ملزم نے اعتراف کیا کہ دس سے پندرہ سرقہ شدہ کاریں اور دس سے پندرہ سرقہ شدہ موٹر سائیکلیں انہوں نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں فروخت کیں

اس سے قبل تھانہ شارع نور جہاں پولیس نے ایک کار لفٹر منظور عرف بافا کو گرفتار کیا تھا، پولیس کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے پانچ برسوں میں کم از کم پینتیس نئی فور ویل گاڑیاں چوری کیں یا چھینیں، جو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں فروخت کی گئیں اور وہ آئل اینڈ گیس کمپنیوں کو کرائے پر دی جاتی ہیں

اینٹی کار لفٹنگ سیل نے ایک ایسا بھی گینگ گرفتار کیا، جو کراچی میں چھینی گئی یا چوری شدہ گاڑیاں اور موٹر سائکلیں آن لائن فروخت کرتا تھا

ایس ایس پی بشیر احمد کے مطابق ملزمان چوری شدہ گاڑیوں میں رد و بدل کر کے انہیں آن لائن فروخت کرتے تھے

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کہتے ہیں کہ چوری اور چھینی گئی موٹرسائیکلوں کی مارکیٹ دو تین قسم کی ہے. یہ بلوچستان ، سندھ کے دیہی علاقوں اور پنجاب تک فروخت ہوتی ہیں. ہر گینگ کا اپنا گاہک ہے لیکن زیادہ تر بلوچستان میں اسپیئر پارٹس میں تبدیل ہو جاتی ہیں

وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ ’کراچی کی بھی اسپیئر پارٹس کی بڑی مارکیٹ ہے، موٹر سائیکل گھنٹوں میں پارٹس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پارٹس کسی ایک مقام پر نہیں ہوتے بلکہ تقسیم ہو جاتے‘

ان کا کہنا ہے ”پولیس نے سپیئر مارکیٹس میں ایکشن لیا ہے اور مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے“

دوسری جانب حکومت سندھ نے دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے مثبت نتائج آنے کے بعد اسٹریٹ کرائم کے خلاف بھی ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا ہے

پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ اٹھاون دنوں میں پندرہ ڈکیت پولیس مقابلوں میں مارے گئے ہیں جبکہ ڈیڑھ سو زخمی ہوئے اور اس طرح سے پندرہ سو کے قریب گرفتار ہوئے ہیں

غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ’کراچی ایک بڑا شہر ہے جہاں عادی مجرم بھی ہیں، پولیس کے پاس عادی مجرموں کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق گیارہ ہزار ملزم ہیں۔ ہو سکتا ہے سٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔ ان میں سے تقریباً تین ہزار جیل میں باقی ضمانت پر ہیں یا بری ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سے سات ہزار لوگ اب بھی سرگرم ہیں۔‘

کراچی پولیس سربراہ کے مطابق دوسرے نمبر پر سرگرم مجرموں میں منشیات کے عادی افراد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے منشیات کے عادی افراد جن کو ان کے گھر والے بھی نہیں رکھتے وہ زندہ رہنے اور اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے جرائم کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی معمولی نوعیت کے جرم جیسے گٹر کے ڈھکن چوری کرتا ہے تو کوئی راہزنی کرتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق شہر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تیس سے چالیس ہزار کے قریب ہے۔ ’اگر ان میں سے دو ہزار بھی وارداتیں کریں اور ہم ان کا اندراج کریں تو یہ جرم کی بڑی تعداد بن جاتی ہے لیکن رجسٹرڈ کرائم دس فیصد سے بھی کم ہے۔‘

غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ شہر میں بڑھتے جرائم کی تیسری وجہ غیر مقامی جرائم پیشہ افراد ہیں جو ایک شہر سے دوسرے شہر میں جا کر واردات کرتے ہیں اور پولیس کی گرفت سے نکل جاتے ہے جس کے بعد ان کا تعاقب کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے لیکن پولیس نے اس سلسلے میں بھی ان کو پکڑنے کی کوششیں کی ہیں۔‘

واضح رہے کہ کراچی میں پولیس سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں اور جہادی تنظیموں کے ہمدروں کو بھی ڈکیتیوں کی وارداتوں میں گرفتار کر چکی ہے

غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ’کرائم، دہشت گردی اور سیاست کو آپ الگ نہیں کر سکتے ہمارے خطے میں یہ چیزیں ایک ساتھ چلتی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی میں اس قسم کی سرگرمیاں ہوتی تھیں لیکن اس وقت کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن اس کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔‘

اس ضمن میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ گاڑی یا موٹر سائیکل مالک کو واپس کیسے مل سکتی ہے؟ تو گاڑی یا موٹر سائیکل چھینی گئی ہو، چوری ہوئی ہو، لاوارث حالت میں ملی ہو، کسی واردات میں استعمال ہوئی ہو یا حادثے کا شکار ہوئی ہو اس کی نوعیت پر اس کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے

ایک سرکاری وکیل نے بتایا کہ اگر گاڑی لاوارث حالت میں ملی ہے تو ایس ایچ او کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کاغذات کی جانچ پڑتال کر کے گاڑی اس مالک کے سپرد کرے اس کے علاوہ جو دیگر صورتیں ہیں اس کے لیے عدالت سے رجوع کرنا ہوتا ہے

”عدالت کو مطمئن کرنا پڑتا ہے جس کے بعد گاڑی کی مالیت کا حلف نامہ دیا جاتا ہے جس میں یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ حاضری پر گاڑی کو پیش کیا جائے گا، اس کو فروخت نہیں کیا جائے گا، اس میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم نہیں ہوگی اور کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو عدالت ضمانت ضبط کرنے کا حق رکھتی ہے“

سرکاری وکیل کے مطابق کراچی کے تمام اضلاع میں ایسی خصوصی عدالتیں ہیں جو ان گاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ اگر کوئی گاڑی متنازعہ ہے یا اس سے کوئی حادثہ واردات ہوئی ہے یا اس کا کوئی مالک سامنے نہیں آیا تو پھر اس کو ناظرت میں بھیجا جاتا ہے

کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن کہتے ہیں کہ قانون میں پچیدگیاں ہیں، موٹر سائیکل یا گاڑی کے مل جانے کے بعد اصل مالک کے حوالے اسے تب تک نہیں کیا جاتا جب تک عدالت مقدمے کا فیصلہ نہیں کر لیتی، ایک موٹرسائیکل پولیس کے پاس ہے لیکن اس کے پاس واپس کرنے کا اختیار نہیں ہوتا اس لیے لوگ پریشان اور بیزار ہوتے ہیں

ادہر حکومت سندھ نے ایک قانون سازی کر کے موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ وہ نئی موٹر سائیکلوں میں ٹریکر نصب کریں

سندھ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں جب ٹریکر لگے گا تو اس کی ایک قیمت ہوگی جو شہریوں کو ادا کرنا پڑے گی، اگر وہ دو سو روپے بچانے کی چکر میں نہیں لگاتے تو نقصان ہوگا اگر لگواتے ہیں تو اس سے وہ حکومت کی بھی مدد کریں اور موٹر سائیکل بھی محفوظ رہے گی

کراچی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ عادی ملزمان کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے اس حوالے سے قانون میں ترامیم کی جائے کہ اگر انہیں عدالت قانون کے مطابق ضمانت دیں تو ان کی نقل و حرکت کو محدود کیا جائے

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے حکومت سندھ کو مشورہ دیا ہے کہ ضمانت پر رہا ہونے والے ملزمان کی ای ٹیگنگ کی جائے جس سے ان کی نقل و حرکت محدود ہو اگر وہ ٹیگ توڑتے ہے یا خلاف ورزی کرتے ہیں تو جب تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا دوبارہ ان کو ضمانت نہ دی جائے، ہماری اس تجویز پر سندھ حکومت کام کر رہی ہے۔’

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو کراچی میں سیف سٹی منصوبہ بھی کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے، جس کے تحت اہم مقامات اور شہر کے داخلی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے تھے

مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ منصوبے کا پی سی ون منظور ہوچکا ہے دیگر شراکت داروں کی مشاورت سے اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس کے بغیر بھی پولیس اپنا کام کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی

کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ قانون بنایا گیا تھا کہ بڑی فیکٹریوں، شاپنگ پلازہ، ریستورانوں میں کیمرے لگائے جائیں گے جس کے تحت اکتیس ہزار کیمرے لگائے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ہر کرائم کی سی سی ٹی وی فوٹیج آ رہی ہے پہلے یہ کلچر نہیں تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ‘جرم کی وزیبلٹی تو ہو اس سے تحقیقات میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close