برازیل میں حکام کا کہنا ہے کہ امیزون کے جنگلوں میں تن تنہا رہنے والے اس مقامی گروپ کے آخری بقیہ رکن کا بھی انتقال ہو گیا ہے جس کا کبھی جدید دنیا سے رابطہ نہیں ہوا تھا۔
مرنے والا شخص، جس کا نام معلوم نہیں، گزشتہ 26 سالوں سے مکمل تنہائی میں رہ رہا تھا۔
اسے ’مین آف دی ہول‘ کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ اس نے گہرے گڑھے کھود رکھے تھے، جن میں سے کچھ میں وہ جانوروں کو پھنساتا اور ان کا شکار کرتا تھا جبکہ کچھ بظاہر اس کے چھپنے کی جگہیں تھیں۔
اس شخص کی لاش 23 اگست کو ایک بھوسے کی جھونپڑی کے باہر ایک جھولے سے ملی تھی۔ اس کے جسم پر تشدد کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔
یہ شخص ایک مقامی گروہ کا آخری فرد تھا جس کے باقی چھ ارکان 1995 میں مارے گئے تھے۔ یہ گروہ بولیویا کی سرحد سے متصل ریاست رونڈونیا کے تنارو علاقے میں رہتا تھا۔
نہ اس کے قبیلے کے نام کا کسی کو پتہ ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ وہ لوگ کون سی زبان بولتے تھے۔
خیال ہے کہ اس کے قبیلے کے زیادہ تر لوگ 1970 کی دہائی میں اس وقت مار دیے گئے تھے جب مویشی پالنے والے کسانوں (رینچرز) نے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
’مین آف دی ہول‘ کی عمر 60 سال کے قریب بتائی جاتی ہے اور اس کی موت قدرتی تھی۔
حکام کے مطابق اس کے علاقے میں کوئی داخل نہیں ہوا اور اس کی جھونپڑی میں بھی کسی قسم کی مداخلت کے نشانات نہیں تھے، تاہم پولیس پھر بھی اس کا پوسٹ مارٹم کرے گی
برازیل کے آئین کے مطابق مقامی لوگوں کا اپنی روایتی زمین پر حق ہے، لہذا مشہور ہے کہ جو اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، وہ انھیں مار دیتے ہیں۔
برازیل کی مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ایجنسی (فونائی) 1996 سے ’مین ان دی ہول‘ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی
سنہ 2018 میں فونائی نے اتفاقاً جنگل میں اس شخص کی ایک ویڈیو بنا لی تھی۔ اس وقت فونائی کا کہنا تھا کہ ویڈیو نشر کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ یہ شخص زندہ ہے اس لیے اس علاقے میں کسی کو نہ جانے دیا جائے۔ اس ویڈیو فوٹیج میں وہ شخص کلہاڑی نما کسی چیز سے جنگل میں ایک درخت کو کاٹ رہا تھا۔
اس کے بعد اس کو کبھی نہیں دیکھا گیا، لیکن فونائی کے ایجنٹوں کو اس کی جھونپڑی کا پتہ تھا جو بھوسے سے بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ ان گڑھوں کے متعلق بھی جانتے تھے جو یہ شخص بناتا تھا۔
ان میں سے کچھ کی تہہ میں نوکیلی چیزیں لگائی گئی تھیں تاکہ اگر جانور اس میں گریں تو وہ قابو میں آ جائیں، جبکہ کچھ میں وہ خود اس وقت چھپتا تھا جب کوئی باہر کا آدمی اس کے علاقے میں آتا تھا۔
اس کی چھونپڑیوں اور دوسری جگہوں پر ملنے والی چیزوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مکئی اور روا اگاتا تھا اور پھلوں میں پپیتا اور کیلے۔
مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک پریشر گروپ سروائیول انٹرنیشنل کے مطابق برازیل میں تقریباً 240 مقامی قبیلے ہیں، جن میں سے کئی ایک کو کان کنوں، درخت کاٹنے والوں اور کسانوں سے خطرہ ہے جو ان کے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں