مصنوعی طریقے سے بنائے گئے مہین سے بادلوں نے انسان کو ایک صدی سے ورطہِ حیرت میں ڈالے رکھا ہوا ہے، لیکن آخر یہ حقیقت میں ہیں کیا؟
سنہ 1915ع میں دنیا کی پہلی کنٹرولڈ طاقت سے چلنے والی پرواز کے تقریباً بارہ سال بعد، آسٹریا کے ماہر طبیعیات رابرٹ اٹلی کے شمال مشرقی خطے، ایٹنریک جنوبی ٹائرول میں ایک طیارے کو آسمان پر پرواز کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے، جب اس نے کچھ مشاہدہ کیا کہ طیارے کے پیچھےایک لمبا سے بادلوں کا ایک خط چلا آرہا ہے“
ایٹینریک نے سنہ 1919ع کے ایک مقالے میں جو کچھ دیکھا، اسے یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ یہ ‘لمبے’ وقت تک نظر آتا ہے ‘طیارے سے خارج ہونے والی گیسوں سے تودہِ ابر کی پٹی کا گاڑھا ہونا’ کے طور پر بیان کیا
خارج ہونے والے ’خطوط التكثيف‘ یا دھویں کی لکیروں (کنٹریلز) کی تشکیل کے لئے طیارے نے ایک مخصوص حد کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے فضا میں بلند ہونا شروع کر دیا تھا۔ دوسروں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ طیارے کے ساتھ ساتھ خارج ہونے والے دھویں کی لکیر یا خطوط التكثيف نے بھی ہوائی جہاز کے پیچھے پیچھے بلند ہونا شروع کردیا تھا
امریکی فوج کی میڈیکل کور میں شاعرانہ مزاج رکھنے والے کیپٹن نے سنہ 1918 میں انہیں ‘کئی عجیب اور چونکا دینے والے بادل – لمبے، خوبصورت، سفید رنگ کے ربن’ کے طور پر بیان کیا
انہوں نے کہا ”اس سے پہلے میں نے کبھی بھی ہوائی جہاز کو آسمان کے نیلے پردے پر سفید رنگ میں لکھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا“
جیسے جیسے ہوابازی کی یہ نئی نئی صنعت بہتر ہونا شروع ہوئی اور ہماری پروازوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہونا شروع ہو گیا، فضا میں طیاروں کے دھوؤں سے خارج ہونے والے خطوط التكثيف کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہونے لگا، جو تیزی سے عام نظر آنے لگے۔ ان کی چشم کشا موجودگی نے بہت سے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے، اور پھر ان کی وجہ سے ‘کیمٹریلز’ (کیمیائی مواد کے دھوؤں پر مشتمل) سازشی نظریات پر یقین کرنے میں حیرت انگیز طور پر عام لوگوں کا رجحان بڑھا (اس پر مزید تفصیل آگے دیکھیے)۔ تاہم یہ دراصل ان کا آب و ہوا کا اثر ہے جس کے بارے میں سائنسدان فکر مند ہیں۔ تو یہ خطوط التكثيف اصل میں کیا ہیں – اور کیا ہمیں ان پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟
جرمن ایرو اسپیس سینٹر (DLR) میں ماحولیاتی طبیعیات کے پروفیسر الریچ شومن کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ابتدائی مشاہدات کے بعد طیارے کے پیچھے چلنے والے ان بادلوں کی اصل وجہ کئی دہائیوں تک بحث کا موضوع بنی رہی۔ ابتدائی نظریات نے کہا کہ وہ طیارے کے انجن سے ہونے والے ارتعاش یا الیکٹریکل چارجز کے اثرات تھے۔ کچھ نے غور کیا کہ آیا یہ انتہائی سیر شدہ پانی کے بخارات کی وجہ سے خارج ہوتا ہے، لیکن ان خیالات کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بہت کم پانی کے بخارات کا اخراج ہوتا تھا
خطوط التكثيف (کنٹریلز) کی وجوہات کا پتہ لگانا دوسری جنگ عظیم تک زیادہ تشویش کا باعث نہیں تھا، جب انہیں ایک مسئلے کے طور پر دیکھنے کا صرف آغاز ہی ہوا تھا۔ شومن کا کہنا ہے کہ ’وہ طیارے کی پرواز کو خفیہ نہیں رہنے دیتے تھے، آپ اڑنے والے طیارے کا سراغ لگا سکتے تھے۔ لہٰذا دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج نے خطوط التكثيف (کنٹریلز) کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ نیں چاہتے تھے کہ طیارے کی پرواز کی شناخت ہوجائے‘
تاہم ان کی تشکیل کے بارے میں پہلی درست وضاحتیں سنہ 1940ع اور 50 کی دہائی کے اوائل میں دی گئی تھیں جس کو اب ’شمِٹ ایپل مین‘ معیار کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں حالات کا انحصار ماحولی دباؤ، ہوا میں نمی اور طیارے سے جاری ہونے والے پانی اور گرمی کے تناسب پر ہوتا ہے
مختصر طور پر ‘کنڈینسیشن ٹریلز’ کا سکڑاؤ – طیارے کے خارج ہونے والے دھویں کے نتیجے میں بننے والی لکیر کے سائز کے مہین ذرات کے بادل ہیں۔ وہ سو میٹر سے لے کر کئی کلومیٹر لمبے بھی ہو سکتے ہیں
ان کے بننے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: آبی بخارات، ٹھنڈی ہوا اور وہ ذرات، جن پر پانی کے بخارات گاڑھے ہو سکتے ہیں۔ پانی کے بخارات طیاروں کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اس کے ایندھن میں موجود ہائیڈروجن ہوا میں آکسیجن کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ (سرد حالات میں عام طور پر منفی 40 سیلسیس سے نیچے) یہ کنڈینس ہو سکتا ہے، جو کہ عام طور پر طیارے کے انجنوں سے خارج ہونے والے کاربن کے ذرات سے لے کر آبخارات کے بادلوں تک، جو پھر جم کر برف کے ذرات بن جاتے ہیں۔ شومن کا کہنا ہے کہ یہ عمل بڑے پیمانے پر سرد موسم سرما کے دن جمی ہوئی سانس سے مشابہت رکھتا ہے
تمام ہوائی جہاز خطوط التكثيف (کنٹریلز) خارج نہیں کرتے ہیں – یہ تقریباً 18 فیصد پروازوں میں ہوتے ہیں۔ پانی کے جمنے کے لیے ہوا کا کافی ٹھنڈا ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عام طور پر صرف مخصوص اونچائیوں سے بلند پروازوں میں دکھائی دیتے ہیں – عام طور پر بیس ہزار فٹ (6 کلومیٹر) کی بلندی پر
یہاں تک کہ کم پروازیں سب سے زیادہ مستقل خطوط التكثيف (کنٹریلز) خارج کرتی ہیں۔ صاف اور بادل کے بغیر ہوا میں، خطوط التكثيف (کنٹریلز) طیارے سے خارج ہوتے ہیں، منتشر ہو جاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ماحول میں خشک ہوا برف کے ذرات کو بہت نازک بنا دیتی ہے (یہ ٹھوس حالت سے گیس میں تبدیل ہو جاتے ہیں)۔ لیکن اگر فضا مرطوب ہو تو برف کے ذرات فوراً نازک ہوکر منتشر نہیں ہو سکتے ہیں اور خطوط التكثيف (کنٹریلز) زیادہ دیر تک نظر آ سکتے ہیں
برطانیہ میں مقیم ایک غیر منافع بخش ایوی ایشن انوائرنمنٹ فیڈریشن (AEF) کے ڈائریکٹر، ٹم جانسن کہتے ہیں ”اگر اردگرد کی ہوا خشک ہو تو خطوط التكثيف (کنٹریلز) صرف چند منٹ ہی برقرار رہ سکتے ہیں، لیکن جب یہ مرطوب ہو، تو وہ دیر تک برقرار رہ سکتے ہیں اور کاربن کے مہین ذرات کے بادلوں کو بڑھا سکتے ہیں“
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ زمین کی طرف سے پھیلنے والی بادلوں کی گرمی اور بڑھتی ہوئی بادلوں کی وجہ سے ہمارے سیارے پر خالص گرمی کا اثر پڑتا ہے۔ یہ گرمی ایوی ایشن کے دیگر بڑے آب و ہوا کے اثرات کے علاوہ ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) طیارے کی ٹیل پائپ سے بڑی مقدار میں خارج ہوتا ہے، جو کہ عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج کا تقریباً 2.5 فیصد حصہ ہوتا ہے
لیکن خطوط التكثيف (کنٹریلز) کا آب و ہوا پر اثر ان کے کارن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے
شومن کا کہنا ہے کہ سنہ 1960ع کی دہائی میں، سب سے پہلے ایسی تحقیقات سامنے آنا شروع ہوئیں، جن میں کہا گیا تھا کہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) زمین پر ٹھنڈک کا اثر ڈال سکتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) سے پیدا ہونے والے بادلوں کی سفیدی سورج کی روشنی کو دن کے وقت زمین کی سطح تک پہنچنے سے پہلے منعکس کرتی ہے، قدرتی مہین کاربن کے بادلوں کی طرح، جو برف کے کرسٹل سے بھی بنے ہوتے ہیں
تاہم سائنسدانوں نے جلد ہی یہ محسوس کر لیا کہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) انفرا ریڈ لائی کے ذریعے ‘گرین ہاؤس’ کے اثرات کی وجہ سے زمین پر گرمی میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ شومن کا کہنا ہے کہ ‘وہ زمین کی سطح سے خارج ہونے والی حرارت کو جذب کرسکتے ہیں اور اس کا کچھ حصہ واپس سطح پر خارج کرتے ہیں۔’ یہ اس سے ملتا جلتا ہے جس طرح سے ابر آلود آسمان گرم راتیں پیدا کرتے ہیں – اوپر کے بادل ززین سے خارج ہوکر باہر جانے والی گرمی میں سے کچھ کو خود میں جذب کر رہے ہیں، حالانکہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) اتنے بڑے نہیں ہیں کہ زمین پر موسم کی تبدیلی کا باعث بنیں
صحیح حالات پر انحصار کرتے ہوئے ان میں سے ایک یا دو مختلف اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر برف سے ڈھکے زمین کی تزئین پر بننے والے خطوط التكثيف (کنٹریلز) شمسی روشنی کے منعکس ہونے سے اضافی ٹھنڈک کا باعث نہیں بنتے کیونکہ سطح پہلے ہی سفید اور عکاس ہے۔ خطوط التكثيف (کنٹریلز) بھی رات کے وقت زیادہ گرم ہوتے ہیں کیونکہ ان سے منعکس ہونے کے لیے کوئی شمسی روشنی نہیں آتی، اس لیے صرف گرمی کا اثر ہوتا ہے
صحیح ماحولیاتی حالات کو سمجھنے میں دشواری کے ساتھ جہاں خطوط التكثيف (کنٹریلز) بنتے ہیں، اور ایک بار جب وہ آسمان پر پھیل جاتے ہیں تو قدرتی مہین کاربن کے بادلوں سے ان میں فرق کرنے کی پیچیدگی، یہ سب خطوط التكثيف (کنٹریلز) کے آب و ہوا کے اثرات پر واضح مقدار کا تعین کرنا بہت پیچیدہ بنا دیتا ہے
شومن کہتے ہیں کہ موجودہ فہم یہ ہے کہ ‘دنیا بھر کے تمام ممالک میں اوسطاً، ایک سال سے زائد عرصے میں، خطوط التكثيف (کنٹریلز) ماحول کو گرم کرتے ہیں’۔ سنہ 2020 میں شائع ہونے والے خطوط التكثيف (کنٹریلز) کے آب و ہوا پر اثرات پر ایک تازہ ترین بڑے مقالے نے اندازہ لگایا ہے کہ ہوا بازی کے غیرکاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) اثرات – جن پر خطوط التكثيف (کنٹریلز) کے اثرات کا غلبہ ہے – صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج کی ‘ریڈی ایٹو فورسنگ’ میں تین گنا اضافہ کا باعث بنتے ہیں
کچھ طریقوں سے یہ ایک مشکل موازنہ ہے، کیونکہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے حدت بڑھانے والے اثرات بہت مختلف ٹائم لائنز پر ہوتے ہیں۔ شومن کا کہنا ہے ‘خطوط التكثيف (کنٹریلز) کا زبردست طاقت والا اثر ہوتا ہے، جو کارن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اثر سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ لیکن خطوط التكثيف (کنٹریلز) مختصر مدت کے ہوتے ہیں، وہ ایک گھنٹے یا اس سے زیادہ کے وقت کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) بہت طویل عرصے تک موجود رہتا ہے، ان کا اثر سو سال تک قائم رہ سکتا ہے۔’
اس کے باوجود سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس بارے کوئی کارروائی نہ کی گئی تو سنہ 2050 تک بادلوں کی گرمی کا اثر تین گنا بڑھ سکتا ہے
اس بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ ان سے نمٹنا حقیقت میں کافی آسان ہو سکتا ہے۔ محققین نے دکھایا ہے کہ صرف 2.2 فیصد پروازیں خطوط التكثيف (کنٹریلز) کے 80 فیصد پھلاؤ کی ذمہ دار ہیں۔ اور یہ کہ ان پروازوں کی اونچائی میں نسبتاً تھوڑی بہت تبدیلی کرکے – ایک چھوٹی سی قیمت پر – خطوط التكثيف (کنٹریلز) کے حدت بڑھانے کے اثرات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی تحقیق نے اشارہ کیا ہے کہ پروازوں کے ذریعے خارج ہونے والے کاربن کے ذرات کی مقدار کو کم کر کے بھی خطوط التكثيف (کنٹریلز) کی تشکیل کو کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ فضا میں آئس کرسٹل بنانے کے لیے مرکزے فراہم کرتے ہیں
شومن کا کہنا ہے کہ ان خطوں کے اوپر، نیچے یا ارد گرد پرواز کرکے، انتہائی مرطوب ہوا کے ذریعے اڑنے سے گریز کرنا، جہاں مستقل خطوط التكثيف (کنٹریلز) بن سکتے ہیں، یہاں یہ سب سے اہم اقدام ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے موسم کی بہتر پیشین گوئیوں کی ضرورت ہے۔ ‘موسم کی جو پیشین گوئیاں آج ہمارے پاس ہیں، وہ اس مقصد کے لیے کافی درست نہیں ہیں۔’
گزشتہ سال نیچر نامی جریدے کو لکھے گئے ایک خط میں، دو محققین نے استدلال کیا تھا کہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) کی تشکیل کو کم سے کم کرنے کے لیے پرواز کی اونچائی کو ایڈجسٹ کرنا سب سے زیادہ لاگت سے موثر آب و ہوا کے اقدامات میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ انہوں نے حساب لگایا کہ سب سے زیادہ نقصان دہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) کو روکنے پر ہر سال ایک ارب ڈالر لاگت آئے گی، جس کا فائدہ اس رقم سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ‘ہم آب و ہوا کی سرمایہ کاری کے بارے میں کسی بھی موازنے کو نہیں جانتے ہیں جس میں کامیابی کے اسی طرح کے اعلیٰ امکانات ہیں۔’
جانسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومتیں آب و ہوا کے چیلنجوں کو تسلیم کرتی ہیں، لیکن آج تک بہت کم پالیسی سطح پر کارروائی ہوئی ہے۔ ‘صنعت، ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس شعبے کے لیے جو موسمیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں، سب کا تعلق صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کے اخراج سے ہے۔ سائنسی غیر یقینی صورتحال اور مناسب میٹرکس کے ارد گرد بحث کو اکثر کارروائی کے بجائے زیادہ تحقیق پر توجہ دینے کی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔’
برطانیہ میں حکومت کے موسمیاتی تبدیلی کے مشیروں نے کہا ہے کہ غیر کاربن ڈائی آکسائیڈ (non-CO2) اثرات جیسے خطوط التكثيف (کنٹریلز)کے اخراج سے ہونے والے اثرات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جانسن کا کہنا ہے کہ اب ان اثرات پر غور کرنا ضروری ہے، خاص طور پر اس بات پر غور کرنے میں کہ ہائیڈروجن جیسی مستقبل کی ٹیکنالوجیز اس شعبے کے اخراج کو کیسے کم کر سکتی ہیں
تمام پیچیدگیوں کے باوجود خطوط التكثيف (contrails) کے گرمی اور ٹھنڈک کے اثرات اچھی طرح سے سائنس کا ایک مستند موضوع ہے۔ تاہم آسمان میں ہمارے اوپر منڈلانے والی ان مہین بادلوں کی لکیروں نے ایک ایسے نظریے کو بھی متاثر کیا ہے، جس کی سائنس کی طرف سے بہت زیادہ حمایت نہیں کی جاتی ہے: وہ یہ کہ یہ دھواں زہریلے کیمیکلز کا اخراج ہیں جو دسیوں ہزار تجارتی طیاروں کے ذریعے فضا میں ایک قسم کا ایک زہریلا اسپرے کر رہے ہیں
جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں سوشل کمپیوٹنگ کی ایک محقق ایمی برک مین کہتی ہیں ‘کیم ٹریلز (کیمائی خطوط التكثيف) کی سازش پر یقین رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خطوط التكثيف (کنٹریلز) کا اخراج کرکے جان بوجھ کر فضا میں اسپرے کیا جاتا ہے۔’
ایمی برک مین، جنہوں نے پچھلے سال ایک مقالے کی شریک تصنیف کی تھی، جس میں دیکھا گیا تھا کہ کیمٹریلز پر یقین رکھنے والے کیسے ہیں، کہتی ہیں کہ اس سازش نظریے پر ایک مخصوص طبقے کو مکمل یقین ہے۔ ‘ان کے مقاصد کیا ہیں اس پر ان کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ اسے آبادی پر کنٹرول، یا دماغی کنٹرول سمجھتے ہیں۔’
کیمائی خطوط التكثيف (Chemtrails) سازش ایک حیران کن حد تک وسیع عقیدہ بن چکی ہے۔ سنہ 2016 کے ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ 10 فیصد امریکیوں نے کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریلز) کی سازش کو ‘مکمل طور پر سچ’ قرار دیا، مزید 20 سے 30 فیصد اسے ‘کسی حد تک’ ایک سچ سمجھتے ہیں۔ برک مین کا کہنا ہے کہ اس ‘عقیدے’ کو پارٹی لائنوں سے تقسیم نہیں کیا گیا تھا، اور کچھ دیگر سازشی نظریات کے برعکس، کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریلز) پر مرد اور عورت دونوں یکساں طور پر یقین کرتے نظر آتے ہیں
(کوٹ) شومن کے ایک ساتھی جس نے اپنی تحقیق میں کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریل) کی سازش پر یقین رکھنے والے ایک شخص کا حوالہ دیا، اُس نے محقق کو بتایا کہ شومن ایک جعلی سائنسدان ہے، جس کا وجود حقیقت میں نہیں ہے
برطانیہ میں اس موسم گرما میں کئی بار سوشل میڈیا پر کیمائی خطوط التكثيف (Chemtrails) کا ٹرینڈ چلا، جہاں حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ ‘Full Fact’ باقاعدگی سے اپنے آپ کو کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریلز) کے بارے میں یا اس کے بارے میں تصاویر اور دیگر دعووں کو نفی کرتی نظر آتی ہے
یہ عقیدہ اکثر اس تشویش سے جڑا ہوتا ہے کہ حکومتیں یا کمپنیاں خفیہ، طریقے سے بڑے پیمانے پر موسمی تبدیلیاں متعارف کرا رہی ہیں۔ سنہ 2008 اور سنہ 2017 کے درمیان جیو انجینیئرنگ کے بارے میں انگریزی زبان کی سوشل میڈیا پوسٹس میں سے تقریباً 61 فیصد کا تعلق کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریل) سازش سے تھا۔ سولر جیو انجینئرنگ کے حامیوں نے شکایت کی ہے کہ کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریلز) کی سازش اتنی بڑی ہے کہ اس نے سولر جیو انجینئرنگ کے بارے میں حقیقی عوامی غور و فکر کی راہ میں رکاوٹ ڈالدی ہے
کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریلز) کی سازشی تھیوری سنہ 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی، لیکن سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں انٹرنیٹ پر پھیلتے ہی بڑے پیمانے پر ایک عقیدے کی شکل اختیار کر گئی۔ شومن کہتا ہیں کہ ‘یہ اچانک سنہ 2001 میں بہت سے لوگوں نے کیمائی خطوط التكثيف (chemtrails) کے بارے میں بات کرنا شروع کی، یہ ایک اچانک شروع ہوا تھا’۔ وہ نوٹ کرتا ہے کہ کیم ٹریلز کی سازش ‘مکمل طور پر غیر منطقی’ ہے – اس کا ادارہ طیاروں کے پیچھے ہونے والے اخراج کی پیمائش کرتا ہے اور اسے کوئی مصنوعی کیمیائی شہ نہیں ملی ہے۔ ‘یہ سب چیزیں ہیں جو آپ مٹی کے تیل کے دہن سے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کیمٹریلز (کیمائی خطوط التكثيف) کا کوئی وجود ہے۔’
تاہم سازشی نظریات پیش کرنے والے اس ثبوت کو باقاعدگی سے مسترد کرتے ہیں۔ شومن کے ایک ساتھی، جس نے اپنی تحقیق میں کیمائی خطوط التكثيف (کیمٹریل) کی سازش پر یقین رکھنے والے ایک شخص کا حوالہ دیا، اُس نے محقق کو بتایا کہ شومن ایک جعلی سائنسدان ہے جس کا وجود حقیقت میں نہیں ہے۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کیوں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے، لوگ آسمان میں ان پتلی، انسانی ساختہ لکیروں کے اثر پر غور کر رہے ہیں۔ اگرچہ اب اصل ضرورت ان کے آب و ہوا کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس پر کارروائی کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے۔
بشکریہ: بی بی سی فیوچر