ایک منظر (فنش ادب سے منتخب افسانہ)

ٹووی آرو (ترجمہ: غلام حسین غازی)

اپنے کمرے سے، میں سیدھا اُن کی خواب گاہ میں دیکھ سکتا ہوں۔ کمرے کے اندر دیواروں کے ساتھ، ایک دبلا سا مرد سرخ بالوں والی ، چربی کے پہاڑ جیسی، عورت کا تعاقب کر رہا ہے ۔ وہ دیواروں کے ساتھ گول گول بھاگتے ہیں۔۔۔ مرد اپنے ہاتھ میں کوئی چیز لہراتا رہا ہے۔ میں یہ نہیں دیکھ پاتا ہوں کہ وہ ہاتھ میں کیا لہرا رہا ہے جبکہ موٹی عورت تیز باریک آواز میں چیختی جاتی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ وہ آدمی اسے بستر پر گرا لیتا ہے۔ میں ہر رات یہی کچھ ہوتا دیکھتا ہوں۔۔۔

مجھے ان کا بستر بالکل بھی نظر نہیں آتا۔ بستر، غالباً کافی نیچے ہے۔۔۔ اور مجھے انہیں دیکھنے کا شوق بھی نہیں کیونکہ بیہودہ فحاشی دیکھ کر میرا جی اکھڑنے لگتا ہے ، بلکہ میں تو ایسے منظر کا تصور بھی نہیں کر سکتا

نچلی منزل پر، ایک نوجوان ہر وقت ٹیلی ویژن دیکھتا رہتا ہے۔۔۔ تمام وقت وہ بےحس و حرکت بیٹھا رہتا ہے ۔ وہ نوجوان بتیاں نہیں جلاتا۔۔۔ بس ٹی وی کی مدھم سی روشنیاں ہی جھلملاتی رہتی ہیں۔ اس کی ٹانگیں لمبی اور پتلی ہیں اور مجھے اس کا چہرہ بھی نظر نہیں آتا کیونکہ بہت اندھیرا ہے۔۔۔۔ بس پشت ہی نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی کھڑکی کی منڈیر پر مصوری کا سامان پڑا ہے

اوپر کی منزل پر دو گھٹیا عورتیں، جن پر گندے نالے کی جیسی میل جمی ہے، رہتی ہیں۔۔ وہ سارا دن پیتی رہتی ہیں اور مردوں کو اپنے غلیظ اپارٹمنٹ میں آنے کے لئے اشارے کرتی رہتی ہیں۔ گہری رنگت والی بلا کی بلا نوش ہے۔ سرخ وائن کے بڑے بڑے گھونٹ لیتی وہ وقفے وقفے سے کھڑکی پر آتی ہے۔ اس مردار نے کچھ چھپا رکھا ہے۔ کبھی اس کی نظر میری طرف اٹھ جائے تو میں فوراً گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہوں۔

میرے پاس بڑے عمدہ آلات ہیں۔ میں دور تک کے اپارٹمنٹ دیکھ سکتا ہوں۔۔ دور چوتھے اپارٹمنٹ میں جنسی خواہشات ٹپکاتا چوکیدار اور اس کی مردار گدھ (بیوی) برآمدے میں گھات لگا کر بیٹھے رہتے ہیں۔۔۔ بہانے بناتے رہتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو میں ان کی چوتڑوں میں گولی داغ دوں۔۔۔ لال۔۔۔ حد سے زیادہ بیئر نوشی سے لٹکتے ان کے پیٹوں کو دیکھنا تو میری برداشت سے باہر ہے؛ میں تو اپنا بہت خیال رکھتا ہوں اور جاگنگ کرتا ہوں۔ میری ورزش کی مشینں بھی گھر میں پڑی ہیں۔ میں کسی طور بھی ان جیسا دِکھنا نہیں چاہتا۔۔

میں دن میں چھ بار نہاتا ہوں اور بسا اوقات تو زیادہ بار بھی۔۔۔ خاص کر اس روز، جب گلیوں اور بسوں میں سے بد بو زیادہ آ رہی ہو۔ پچھلے ہفتے ہی ایک بدبو چھوڑتی موٹی مردار میرے ساتھ بس میں بیٹھ گئی تھی۔ اس نے مجھے خوب کَس کر کھڑکی کی طرف دبایا ہوا تھا۔ تب میں نے بدن کو سخت برش سے خوب رگڑ رگڑ کر صاف کیا، لیکن بُو تھی کہ جاتی نہیں تھی۔ اس چوکیدار کی مردار عورت بھی ایسی ہی بدبو چھوڑتی ہے۔

نوجوان ٹیلی وژن بند کرتا ہے اور کھڑکی کی طرف آتا ہے۔۔۔ میں پہلی بار اس کا چہرہ دیکھتا ہوں۔ وہ تو محض ایک لڑکا ہی ہے۔۔ تنگ شانے اور بے ترتیب سیاہ بال۔ وہ میری جانب ہی دیکھ رہا ہے لیکن وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا، کیونکہ میں نے کمرے کی روشنیاں گل کر رکھی ہیں اور میں اندھیرے میں دیکھنے والے عدسے کی مدد سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ پھر بھی مجھ پر غنودگی سی طاری ہو رہی ہے۔۔۔ اور میں نہاتا ہوں۔ عام طور پر غسل سے تھوڑا سکون ضرور تو ملتا ہے لیکن خارش ہوئے جاتی ہے بلکہ سر بھی درد کرنے لگتا ہے۔۔

میں مونچھیں تراشتا ہوں اور جسم پر خوشبودار پاؤڈر بھی چھڑکتا ہوں۔۔۔ میرے رخسار شفتالو جیسے ہیں، میں صوفہ پر لیٹ جاتا ہوں، جس کی ٹھنڈی ساٹن کی پوشش میری جلد کو سکون دیتی ہے۔ میں اس پوشش کے ساتھ اپنے خصیے بس دو بار ہی رگڑ پاتا ہوں۔

لڑکا اب کھڑکی سے غائب ہو گیا ہے۔ اوپر والی منزل پر غلیظ گشتیاں اسی طرح مئے نوشی میں مشغول ہیں اور بار بار کھڑکی پر آ کھڑی ہوتی ہیں۔ ایک کالی سی شے صحن میں آ گری ہے۔ بالوں سے بھرا ایک بھالو نما آدمی بھاگ کر آتا اور اسے اٹھا لیتا ہے۔۔۔ آہ! محض ایک نیکر!!! وہ نیکر اوپر سے ایک بھدی سی تتلی کی طرح اڑتی آئی اور بچوں کے لئے بنے ریتلے کھڈے میں آ گری۔

میں کھڑکی سے ٹیک لگائے خامشی سے آگے کی طرف جھکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرا بخار تیز ہو رہا ہے اور میری جلد کے رونگھٹے پھنسیاں بن رہے ہیں۔

وہ آدمی خوشی سے نیکر ہوا میں لہراتا ہے۔ مجھے اس کی دونوں، کالے بالوں سے بھری ٹانگیں نظر آ رہی ہیں۔ جواب میں، دور سے چوکیدار بھی اپنا جھاڑو لہراتا ہے۔۔ ان کے درمیان تُند جملوں کا تبادلہ ہورہا ہے۔ بالوں بھرا بھالو آدمی اپنے کَسے ہوئے مُکے ہوا میں لہراتا ہے، جنہیں دیکھ کر چوکیدار اپنی بِل میں غائب ہو جاتا ہے۔ دونوں عورتیں تالیاں بجاتی ہیں اور ایک دوسرے کو ٹہوکے دینے لگ جاتی ہیں

لڑکے کے کمرے میں ٹی وی اسکرین کی روشنی پھر سے دمکنے لگ جاتی ہے ۔ مجھے ٹیلی ویژن کی اسکرین کی روشنی کے پس منظر میں اس کا ہیولا واضح نظر آ رہا ہے

دوسری منزل پر وہی ڈرامہ پھر شروع ہو گیا ہے۔ سرخ بالوں والی موٹی دوبارہ سے چیختی چلاتی دائرے میں بھاگنے لگ گئی ہے۔ اب میں دیکھنے میں کامیاب ہو گیا ہوں کہ اس مریل سے آدمی کے ہاتھ میں کیا ہے؟ ایک کالے رنگ کا کپڑے ٹانگنے کا کھونٹا۔ میں حیران ہوں کہ وہ اس کالے کھونٹے سے کیا کرتا ہوگا؟

اوہ! مجھے ایک بار پھر نہا لینا چاھئیے!!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close