”کرے کوئی، بھرے کوئی۔۔“ سیلاب، ماحولیاتی تبدیلی اور کچے گھروں کے باسی

ویب ڈیسک

ماحولیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب دنیا بھر کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ریکارڈ توڑ بارشیں غریب ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں

انسانوں پر اس آفت کے اثرات بہت واضح ہیں، جمعہ کے روز فلاحی اداروں کے ریسکیو آپریشن کے ذریعے مزید دو ہزار افراد کو سیلابی ریلوں سے بچایا گیا

ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو تو دوسری جانب حکام سیلاب کے نتیجے میں ملک کی تقریباً آدھی فصلوں کی بربادی کی وجہ سے خوراک کی کمی کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے ملک کے اندر نا انصافی کا ایک احساس جنم لے رہا ہے، کیونکہ عالمی حدّت (گلوبل وارمنگ) کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ محض ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن ملک کا جغرافیہ اس کی بدنصیبی بن کر سامنے آیا ہے

پاکستان کی وفاقی وزیر شیری رحمان کے مطابق ’ایک تہائی پاکستان حقیقی معنوں میں زیر آب آ چکا ہے، جو ہر اس حد کو پار کر چکا ہے، جو ہم نے ماضی میں دیکھی تھی۔‘

واضح رہے کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان اس جگہ پر واقع ہے جہاں اسے دو موسمی نظاموں کا اثر سہنا پڑتا ہے۔ ایک کی وجہ سے سخت گرمی اور خشک سالی آتی ہے، جیسا کہ مارچ میں ہوا، اور دوسرا نظام مون سون کی بارشیں لاتا ہے

پاکستان کی زیادہ تر آبادی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ رہتی ہے، جو مون سون میں بھر جاتا ہے اور کبھی کبھی کنارے توڑ کر سیلاب لاتا ہے

ماحولیاتی تبدیلی اور شدید مون سون کے باہمی تعلق کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ آسان طریقے سے اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا اور سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اور زیادہ بخارات بننے لگتے ہیں۔ گرم ہوا زیادہ نمی جذب کرتی ہے، جس سے مون سون کی بارشوں میں زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے

پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ اِمپیکٹ ریسرچ سے وابستہ انجا کیٹزنبرگر کا کہنا ہے کہ سائنسدان ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بھارت میں گرمیوں کے دوران مون سون کی بارشوں کی اوسط میں اضافے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں

مگر پاکستان میں ایک چیز ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابلے میں اسے کمزور بناتی ہے، اور وہ ہیں اس کے عظیم گلیشیئر

ملک کے شمال میں موجود گلیشیئرز کو ’تیسرا قطب‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں موجود برف قطب شمالی اور جنوبی سے باہر کسی بھی خطے سے زیادہ ہے

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی کے مطابق دنیا میں گرمی بڑھنے کے ساتھ گلیشیئر میں موجود برف بھی پگھل رہی ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں موجود گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی وجہ سے تین ہزار جھیلیں بن چکی ہیں۔ ان میں سے تینتیس کے اچانک پھٹ جانے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں مکعب میٹر پانی اور ملبہ بہہ کر ستر لاکھ لوگوں کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے

حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ مل کر اچانک سیلاب آنے کے خطرات کو کم کرنے کے لیے پہلے سے خبردار کرنے والا نظام یا وارننگ سسٹم نصب کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حفاظتی بند اور دوسرا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کر رہے ہیں

ماضی میں غریب ممالک، جن میں سیلاب کو روکنے والے بند یا پشتے کمزور ہوتے تھے اور جہاں مکانات بھی اچھے معیار کے نہیں تھے زیادہ بارشوں کے اثرات کا مقابلہ نہیں کر پاتے تھے

سائنسدان ڈاکٹر فہد سعید کا کہنا ہے کہ ان گرمیوں میں آنے والے تباہ کن سیلابوں کے مقابلے کی سکت امیر ملکوں میں بھی نہیں تھی

ڈاکٹر سعید کہتے ہیں ’یہ ایک بالکل الگ وحشی سیلاب ہے، یہ بارشیں اور سیلاب اس قدر شدید ہیں کہ مضبوط سے مضبوط بند بھی ان کے سامنے نہ ٹھہر پاتے۔‘

وہ 2021 میں جرمنی اور بیلجیم میں آنے والے سیلابوں کا ذکر کرتے ہیں

پاکستان میں گزشتہ تیس سالوں کی اوسط کے مقابلے میں جون سے اگست تک 190 فیصد زیادہ بارش ہوئی، جو مجموعی طور پر 390.7 ملی میٹر بنتی ہے

ڈاکٹر سعید کے بقول پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے لوگوں کو سیلاب کے بارے میں پہلے سے خبردار کر کے اپنی ذمہ داری ’معقول‘ طور پر نبھائی ہے۔ اور ملک کے اندر سیلاب سے بچاؤ کا نظام موجود ہے مگر اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے

ڈاکٹر سعید کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کا کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں حصہ سب سے کم ہے، انہیں سب سے زیادہ مصیب جھیلنا پڑ رہی ہے

انہوں نے کہا ’متاثرین بغیر وسائل کے مٹی کے گھروں میں رہ رہے ہیں، اور کلائمیٹ چینج میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے‘

سیلاب سے وہ علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں، جہاں عام طور پر ایسی بارشیں نہیں پڑتیں، جن میں جنوبی سندھ اور بلوچستان کے علاقے شامل ہیں، جو عام طور پر خشک یا نیم خشک تصور کیے جاتے ہیں

بلوچستان میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے سترہ سالہ یوسف بلوچ کا کہنا ہے ”ملک کے اندر موجود عدم مساوات کی وجہ سے صورتحال اور بگڑ گئی ہے۔ میں جب چھ سال کا تھا تو میں نے خود اپنا گھر پانی میں بہتے دیکھا تھا۔ شہروں میں رہنے والے اور مراعات یافتہ لوگوں کو سیلابوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا“

وہ کہتے ہیں ”لوگوں کو ناراض ہونے کا حق ہے۔ کمپنیاں اب بھی بلوچستان سے تیل اور گیس نکال رہی ہیں، مگر وہاں رہنے والے بے گھر ہو چکے ہیں، جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ کوئی پناہ۔‘

اپنی آنکھوں سے تباہی کے مناظر دیکھنے والے رضاکار یوسف بلوچ برملا کہتے ہیں ”حکومت عوام کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے“

ڈاکٹر سعید کا کہنا ہے یہ سیلاب ان حکومتوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہونے چاہییں، جنہوں نے کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی مختلف کانفرنسوں میں وعدے کیے تھے

ڈاکٹر سعید نے کہا ”یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ کا اضافہ چکا ہے۔۔۔ اس سے زیادہ اضافہ پاکستان کے لوگوں کے لیے ’سزائے موت‘ کے برابر ہوگا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close