”حسن کے ابا! آج مجھے مرچیں چننے کی پانچ دن کی اکٹھی مزدوری ملی ہے۔ یہ پیسے آپ کو نہیں ملیں گے۔ میں نازو کے جہیز کا ایک سوٹ لوں گی“ کلثوم نے مرچوں کی جلن سے لال انگارہ ہوئے ہاتھوں کو کھجا کھجا کر سکون نہ آنے پر آخرکار پانی میں ڈبوتے ہوتے کہا
”بھلی لوک! نازو کے پیدا ہوتے ہی تو نے اس کا جہیز بنانا شروع کیا تھا اور محنت مزدوری کر کر کے اس کی پیٹی، ٹرنک، بسترے ، برتن اور کپڑے سب کچھ تو لے لیا ہے اب بس کر دے“ شکور نے قدرے بناوٹی غصے میں کہا
”واہ جی واہ! کیوں نہ لوں اس کے کپڑے۔۔ کل کو ساری زندگی میری بیٹی کم جہیز لانے کے طعنے سنتی رہے؟“ کلثوم نے مرچوں والے ہاتھوں سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا اور پھر ماتھے پر مرچیں لگ جانے سے اس پر پانی لگانے لگی
”جو دل میں آئے کر بھلی لوک! لیکن اپنی حالت دیکھی ہے تونے۔ کسی دن وہیں مرچوں کے کھیت میں بے ہوش پڑی ہوگی“ شکور اس کی گرمی میں محنت مزدوری کے باعث روز بروز گرتی صحت کو لے کر بہت پریشان تھا
”میں کیا کروں حسن کے ابا! رب نے بیٹی کی ذمہ داری دی ہے تو نبھانی تو ہے ناں“
اس کے گرتے آنسوؤں کو شکور نے اپنی اپنی انگلیوں کی پوروں پر چن لیا اور پھر اس کا ماتھا چوم کر اسے دلاسہ تو دیا, مگر دل ہی دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ اگر کلثوم نازو کا جہیز نہ بناتی تو زمیندار کے کھیتوں میں معمولی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے اس مہنگائی میں جہاں گھر چلانا بھی مشکل ہو رہا تھا وہاں وہ نازو کا جہیز کیسے بنا پاتا
بےشک کلثوم بہت باہمت اور محنتی بیوی ثابت ہوئی، جس نے پندرہ سالوں میں کپاس اور مرچوں کے کھیتوں میں چنائی، محنت مزدوری اور گوڈی کرنے کے ساتھ ساتھ جانور بھی پال کر نازو کا تقریباً مکمل جہیز بنا لیا تھا
اس بات کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک رات وہ گھر میں سو رہے تھے۔ جب آنکھ کھلی تو سیلاب کا پانی ان کے گھر میں داخل ہو چکا تھا۔ شہر سے کافی زیادہ فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ان کے علاقے میں بجلی نہ تھی۔ ٹی وی تو دور کی بات ان کے گھر ریڈیو تک موجود نہ تھا شاید اسی باعث سرکار کا محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا اعلان ان تک نہ پہنچ سکا اور وہ خود بھی کئی میل دور دریا کی طغیانی کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے تھے
کلثوم اور شکور فوراً اٹھے۔ نازو اور حسن کو اٹھا کر گھٹنوں گھٹنوں تک آئے سیلاب کے پانی میں تقریباً دوڑتے ہوئے گھر کے ساتھ سے گزرتی کچی سڑک کے کنارے موجود بوڑھے پیپل کے بڑے درخت تک جیسے تیسے پہنچ گئے۔ نازو اور حسن کو جلدی سے اونچی شاخ پر چڑھایا اور خود بھی بڑی مشکل سے اوپر پہنچے ہی تھے کہ سیلاب کا ایک اور زور دار ریلا آیا اور ان کا گھر اور اس میں موجود سارے سازو سامان کو تنکوں کی طرح بہا کر لے گیا
بے بس کلثوم کی دردناک چیخیں بوڑھے پیپل کے بڑے پتوں سے گزرتی ہوئیں فضاء میں گونج رہی تھیں
وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی
شش شکور! شکور! دد دیکھو دیکھو تو بے درد لہریں میری نازو کا جہیز بہا کر لے جا رہی ہیں۔۔۔ ہائے اللہ! ظالم سیلاب میری ساری زندگی کی محنت بہا کر لے جا رہا ہے۔۔۔
یا الہی! میرے بوڑھے ہاتھوں میں اب اتنی سکت نہیں ہے۔ ہائے میں لٹ گئی۔ میرے مولا میں برباد ہو گئی۔
ہائے او ربا! ظالم پانی میری نازو کا نصیب بہا کر لے جا رہا ہے۔۔۔
شش شکور! دد دیکھو ہم ہم ہم ہمارا کک کچھ بھی تو نہیں بچا۔۔۔ کک کچھ بھی نہیں بچا۔۔۔ کک کچھ بھی نہیں بچا۔۔۔۔
کلثوم ہذیانی انداز میں چیخ چیخ کر شکور کے ہاتھوں میں ہی جھول گئی
شکور نے ایک ہاتھ سے پیپل کی شاخ کو پکڑا ہوا تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ساکت ہوئی کلثوم جھول رہی تھی
بوڑھا پیپل کا درخت ایک طرف تو سیلاب کے طاقت ور ریلوں سے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف اپنے بڑے بڑے پتوں سے ہوا دے کر ساکت ہوئی کلثوم کو ہوش دلانے میں شکور کا ساتھ دے رہا تھا
کچی نیند سے جاگا ننھا حسن سب کو روتا دیکھ کر بہت سہما ہوا تھا اور ڈر کے مارے زور زور سے روئے جا رہا تھا۔
نازو ایک ہاتھ سے روتے سہمے حسن کو تھامے ہوئے تھی اور دوسرے ہاتھ سے پیپل کی ایک اور شاخ کو زور سے پکڑے اماں اماں پکارتے ہوئے بےحس و حرکت ماں کو دور سے جگانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن شاید معصوم نازو نہیں جانتی تھی کہ زندگی بھر کی محنت یوں بہہ جانے کا صدمہ کلثوم کی جان لے گیا تھا اور اس کی بے حس و حرکت اماں اس کے خواب دوبارہ بننے کے لئے زندہ نہیں رہی تھی
بوڑھا پیپل اپنے اوپر پناہ گزین اس غریب خاندان کی بربادی کا چشم دید گواہ تھا۔ غریب کلثوم کی اس طرح بےچارگی کی موت پر وہ غم سے نڈھال تھا اور چپکے چپکے آنسو بہا رہا تھا۔ بےچارہ بوڑھا پیپل اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔۔۔!!!!