ہائے میرے تو بچے بہہ گئے۔۔۔
کہانی نمبر ایک: مدد کب آئے گی؟
وہ پانچ تھے، جو ایک بڑے پتھر کے اوپر موجود تھے اور انہیں چاروں جانب سے پانی نے گھیر لیا تھا
’بچاؤ، بچاؤ۔۔۔ خدا کے لیے ہمیں بچاؤ‘، وہ چلّا چلّا کر کنارے پر موجود لوگوں کو آواز دینے لگے، تاہم پانی کی رفتار کسی کو بھی اس میں کودنے سے روکے ہوئے تھی
’ایمرجنسی نمبر پر فون کرو۔۔۔‘، کنارے پر موجود ہجوم میں سے کسی نے کہا
’فون کرچکا ہوں، وہ لوگ آ رہے ہیں۔۔۔‘، ہجوم میں موجود ایک نوجوان نے جواب دیا
وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور پانی کی رفتار اس سے بھی کئی گنا تیز تھی۔ پتھر پر موجود نوجوان تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے تو پھر کسی پریشانی سے اٹھ کھڑے ہوتے اور پتھر پر اِدھر سے اُدھر چلنا شروع کر دیتے
’کیا ہم چھلانگ لگا دیں؟‘، ایک جوان نے باقی چاروں سے کہا
’پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے، ڈوب جاؤ گے۔‘
’تو کیا ہم یہاں کھڑے کھڑے بچ جائیں گے؟‘
’معلوم نہیں، مگر پانی میں چھلانگ لگانا درست نہیں۔ آؤ آواز لگا کر لوگوں سے پھر مدد کے لیے کہتے ہیں‘
’کیا کوئی ہماری مدد کو آرہا ہے؟‘، نوجوان نے پوری طاقت سے چیخ کر کہا
’ایمرجنسی نمبر پر فون کر دیا ہے، وہ لوگ ہیلی کاپٹر لے کر آ رہے ہیں۔۔۔‘، ہجوم نے جواب دیا
ایک گھنٹہ مزید گزر گیا تاہم مدد نہ پہنچ سکی۔ انتظار کرتے جوانوں میں سے ایک رونے لگا
’آہ! میں ڈوب گیا تو میرے بچوں کا کیا ہوگا۔۔۔‘
’رو مت، میں بھی تو ماں باپ کا اکلوتا بچہ ہوں، میرے بعد ان کا کیا ہوگا۔۔۔‘، دوسرے جوان نے کہا
’میں گھر کا واحد کمانے والا ہوں، میری بہنیں میری موت کا سن کر مرجائیں گی۔۔۔‘، تیسرے نے کہا
’شاید مدد آجائے اور ہم یہاں سے نکل جائیں‘، ایک جوان نے کہا
’کیا ہیلی کاپٹر آرہا ہے؟‘، پتھر پر موجود ایک نوجوان نے چیخ کر ہجوم سے پوچھا
’ہم نے پھر فون کیا ہے، ابھی ہیلی کاپٹر ایک سیاستدان کو سیر کروا رہا ہے۔ وہ واپس لوٹتا ہے تو ہیلی کاپٹر یہاں آجائے گا۔‘
ایک گھنٹہ مزید گزر گیا۔۔ پانی کی لہریں اب بہت اونچی ہوگئی تھیں۔ پانچوں نوجوان اب پتھر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے
’ہم مرجائیں گے‘، ایک نے باقیوں سے کہا
’شاید مدد آجائے‘۔
’کب؟ جب ہم بہہ چکے ہوں گے؟‘
’کیا مدد آرہی ہے۔۔۔‘، ایک نوجوان نے ہجوم کی طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے پھر پوچھا
’آ رہی ہے۔۔ تم انتظار کرو۔۔ ہم نے پھر فون کیا ہے، وہ کہہ رہے ہیں سارے ہیلی کاپٹر سیاستدانوں کو لے کر سیلاب زدہ علاقوں کی سیر کروا رہے ہیں۔’
’ہم مرجائیں گے۔۔۔ آہ! میرے بچے۔۔۔‘، ایک سسکتی ہوئی آواز آئی
’آہ! میری بہنیں۔۔۔‘، ایک اور دم دوڑتی آواز آئی
’آہ! میرے ماں باپ۔۔۔‘، ایک بجھتے ہوئے دل میں خیال
پانی کی ایک تیز لہر آئی، جس کے گزرتے ہی ہجوم نے دیکھا کہ پتھر پر کچھ بھی موجود نہیں۔۔۔ شاید ان بہہ چکی آنکھوں کے اَن دیکھے خواب موجود ہوں مگر ہجوم کو خوابوں سے کیا لینا دینا۔۔۔
مدد ابھی بھی نہیں پہنچی۔۔
کہانی نمبر 2: سیلاب میں ایک انٹرویو
’جی تو ناظرین ہم اس وقت سیلاب زدہ علاقے میں موجود ہیں، یہاں ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ یہ چند لوگ بیٹھے ہیں، آئیے ہم ان سے بات کرتے ہیں۔۔۔‘
ایک بڑھیا جو سر جھکائے بیٹھی تھی، اینکر پرسن نے مائیک اس کے سامنے کرتے ہوئے پوچھا، ’جی تو ماں جی آپ بتائیں گی کہ سیلاب میں کیا کیا بہہ گیا ہے؟‘
بڑھیا نے سر اٹھایا اور اتنی خالی نظروں سے اینکر کو دیکھا کہ وہ پریشان ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پھر کچھ سنبھل کر گویا ہوا
’آپ بتائیں آپ کا کیا بہہ گیا ہے سیلاب میں؟‘
’سب کچھ۔ بال بچے، گھر، مویشی، سب کچھ۔۔ میں بچ گئی ہوں، یہ گھٹڑی بچ گئی ہے۔ اس میں میری پوتی کے کپڑے ہیں اور یہ گڑیا ہے۔ وہ اِس کے بغیر نہیں سوتی تھی، مگر وہ پانی میں بہہ گئی ہے۔۔۔‘
’آپ کا کوئی مطالبہ؟‘
’میرے پاس کچھ نہیں بچا۔ یہ گڑیا جاتے ہوئے دریا میں پھینک دینا کہ شاید۔۔۔‘ اور وہ بڑھیا رونے لگ گئی۔ کیمرہ مین نے فوری طور پر کیمرہ دوسری جانب موڑ دیا
’ناظرین یہ ایک بچی بھی یہاں موجود ہے، ہم اس سے بات کرتے ہیں۔ جی تو بیٹا آپ کو کیا چاہیے؟‘
’جی روٹی۔۔۔‘
کہانی نمبر 3: ہائے او میڈے بال۔۔۔
وہ ایک غریب مزدور تھا اور اس کے دو بیٹے تھے۔ سیلاب آیا تو بڑے زمیندار کی فصلیں بچانے کے لیے پانی کا رخ دیہات کی جانب کر دیا گیا۔ اس مزدور کے دونوں بیٹے بہہ گئے۔ وہ جب ساتھ کے گاؤں سے مزدوری کرکے لوٹا تو جہاں اس کا گھر تھا،
وہاں اب چٹیل میدان تھا اور یہ بتانے کے لیے کہ اس کے بیٹے بہہ گئے ہیں وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ وہ رونے لگا اور کئی گھنٹے رونے کے بعد وہ بہتے پانی کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگا
وہ پکار رہا تھا کہ ‘ہائے او میڈے تاں بال لُڑ گئے نے۔۔۔’ (ہائے میرے تو بچے بہہ گئے ہیں)
بڑے زمیندار نے دُور تک پھیلی فصلوں کو دیکھا اور اپنے نوکر سے کہا ’مالک کا کرم ہے کہ اس دفعہ فصل بہت اچھی ہوئی ہے‘
کہانی نمبر 4: کام کی چیزیں
اس آدمی نے رسی کا ایک سِرا دریا کنارے درخت سے جبکہ دوسرا اپنی کمر کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ وہ صبح سے سیلاب میں بہہ کر آنے والی کام کی اشیا ڈھونڈ رہا تھا۔ سب سے پہلے اس کے ہاتھ ایک کرسی لگی جس کا گدا خراب ہو چکا تھا، جسے اس نے کھینچ کر پانی میں پھینک دیا اور کرسی کے فریم کو درخت کے پاس رکھ دیا
پھر اسے ایک صندوق ملا، جس میں کچھ کتابیں اور کپڑے موجود تھے، اس نے کتابوں کو واپس پانی میں پھینکا اور صندوق کو کھینچ کر کرسی کے برابر رکھ دیا
دھوپ اب بہت تیز تھی اور سورج بالکل اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ اس نے سوچا اب اسے واپس لوٹنا چاہیے۔ تبھی اس کی نظر ایک لاش پر پڑی۔ پہلے تو وہ گھبرایا، پھر معلوم نہیں کیا سوچ کر وہ پانی میں اتر گیا اور لاش کو کھینچ کر کنارے پر لے آیا۔ یہ ایک چالیس پینتالیس برس کے آدمی کی لاش تھی
آدمی نے اس کی دونوں جیبوں کی تلاشی لی۔ مگر کچھ نہ ملا۔ پھر اس کی نظر اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں موجود انگوٹھی پر پڑی، جسے اس نے فوراً اتارا اور لاش پھر پانی میں بہا دی
کہانی نمبر 5: سیاستدانوں کے خواب
ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اور سیاستدان ایک گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے۔ کئی بار انہیں جگانے کی کوشش کی گئی تاہم وہ کروٹ بدل کر پھر سوجاتے
’مجھے مت جگاؤ، میں سو رہا ہوں اور جلد نیند میں عوام کے مسائل حل کرلوں گا۔ آہ! آج کس قدر تھکاوٹ ہوگئی ہے، کئی ملکوں کے دورے کیے، گھنٹوں ساحلِ سمندر کا نظارہ کرتا رہا ہوں، ہیلی کاپٹر سے پورے پانچ راشن بیگ نیچے پھینکے ہیں، سب پیٹ بھر کر کھالیں گے۔ اب اور میں کیا کروں سوائے سونے کے؟ اس لیے مجھے سونے دو‘، ایک سیاست دان نے کہا
’اور مجھے بھی مت جگانا، یہ سارے مسائل تو میرے ایک خواب کی مار ہیں۔ مجھے بس ایک اچھی گہری نیند سولینے دو، میں تھک گیا ہوں، ابھی ایک سیلاب زدہ علاقے میں پورے پچاس پچاس روپے بانٹ کر آیا ہوں، اب تو میرا سونا بنتا ہے‘، دوسرے سیاستدان نے کہا
’یہ سب جھوٹے ہیں، ان کے تو خواب بھی بیرونی طاقتوں کی سازش ہیں۔ میں ہی ہوں تمہارا اصل ہمدرد۔ میں دیکھتا ہوں ایک نمبر کے بالکل اصلی خواب، وہ خواب جو ہماری وراثت ہیں۔ زمین سے جڑے ہوئے ایک نمبر کے اصلی خواب۔ میں پہلے سو کر یہ خواب دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے آدھی نیند میں مجھے جگا دیا ورنہ اب تک عوام کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے، مگر میں ہار ماننے والا نہیں ہوں۔ مجھے پھر ایک موقع دو۔ ایک گہری لمبی نیند سونے کا، میں دکھا دوں گا کہ اب کے سارے مسائل صرف اور صرف ایک خواب میں حل ہوجائیں گے‘، تیسرے سیاستدان نے کہا
سیلاب میں ڈوبے ہوئے عوام ان سوئے ہوئے سیاستدانوں کے جاگنے کا انتظار کررہے ہیں جنہیں سوئے ہوئے 75 برس گزر چکے ہیں، اور معلوم نہیں انہوں نے ابھی کتنی صدیاں سونا ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز