غزہ کی باسی کامیلیہ کوہیل قبرستان میں ایک ایسے مکان میں رہتی ہیں، جس کی بنیادوں کے نیچے دو نامعلوم قبریں موجود ہیں
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق کوہیل کا کہتی ظیں ”ہم قبروں کے اوپر رہتے ہیں۔ ان پر اپنے کپڑے پھیلاتے ہیں۔ ہمارے بچے آگے پیچھے آتے جاتے ان پر پاؤں رکھتے ہیں۔ یہاں کوئی جگہ خالی نہیں ہے“
کوہیل اس صورتحال کو یوں بیان کرتی ہیں ”اگر مردے بول سکتے تو وہ یقیناً ہم سے باہر نکل جانے کو کہتے“
غزہ کے سب سے بڑے اور اب سب سے زیادہ قبروں والے الشہدا قبرستان کے چوکیدار خالد حجازی کا کہنا ہے ”اب یہاں مردے دفن کرنا منع ہے۔۔ یہاں پر جگہ ڈھونڈنا مشکل ہے لیکن لوگ بات نہیں مانتے۔ کیونکہ کوئی دوسرا قبرستان موجود ہی نہیں ہے اور ہمیں یہ صورتحال اس لیے درپیش ہے کیونکہ آبادی بڑھ گئی ہے“
لیکن ایسے حالات میں بھی غزہ کے رہائشی اپنے مردے دفنانے اسی قبرستان کا رخ کرتے ہیں
خالد حجازی بتاتے ہیں ”لوگ آدھی رات یا صبح سویرے آتے ہیں اور نئی قبر کھود لیتے ہیں۔۔ ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ قبر کس نے کھودی ہے اور پھر دوپہر میں ہم جنازہ آتے دیکھتے ہیں“
فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے قبرستان کی نگرانی کا محکمہ قائم ہے جو اوقاف اور وزارت مذہبی امور ماتحت ہے
اس محکمے میں قبرستان کے نگران کے فرائض سر انجام دینے والے موذن النجار کہنا ہے ”مشرقی قبرستان، جس کا نام الشہدا قبرستان ہے، غزہ کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ اس میں جگہ ختم ہونے کے قریب ہے اور غالباً تین یا چار سال بعد یہاں تدفین کے لیے جگہ بھی نہ ملے“
غزہ میں مُردوں کے ساتھ ساتھ زندوں کے لیے بھی جگہ تنگ پڑ چکی ہے۔۔ فلسطینی وزارت ہاؤسنگ کے مطابق غزہ میں سالانہ چودہ ہزار نئے مکانات درکار ہیں، لیکن مسلسل جنگ کی کیفیت کی وجہ سے وزارت ہاؤسنگ کی زیادہ توجہ جزوی تباہ ہونے والے گھروں کی دوبارہ تعمیر پر ہی رہتی ہے
جہاں ایک طرف زندہ فلسطینیوں کو اپنی ہی سرزمین پر گھر بنانے اور مرنے والوں کو دفن ہونے کے لیے بھی زمین میسر نہیں، وہیں اسرائیل یہاں یہودیوں کی آبادکاری کے لیے مسلسل منصوبے بنا رہا ہے
نسلی امتیاز کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ روم اور دریائے اردن کے بیچ والے علاقے میں لگ بھگ اڑسٹھ لاکھ یہودی اسرائیلی اور اؚتنی ہی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔ یہ علاقہ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقے (او پی ٹی) پر مشتمل ہے۔ مؤخرالذکر میں مغربی کنارہ، بشمول یروشلم اور غزہ کی پٹی شامل ہے۔ زیادہ تر علاقے میں اسرائیل واحد حکمران اتھارٹی ہے، جبکہ بقیہ علاقے میں فلسطینیوں کو محدود اختیارات کی حامل حکومتؚ خود اختیاری حاصل ہے، مگر وہاں بھی حقیقی طاقت اسرائيل کے پاس ہی ہے
ان تمام علاقوں میں اور زندگی کے زيادہ تر شعبوں میں اسرائیلی حکام نے یہودی اسرائیلیوں کو خصوصی رتبہ دے رکھا ہے، جبکہ فلسطینیوں کے خلاف امتیاز برت رہے ہیں۔ قوانین، پالیسیوں اور اہم اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ آبادی میں ردوبدل، سیاسی طاقت، اور اراضی پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلّط کے تحفظ کو عرصہ طویل سے حکومتی پالیسی کے لیے رہنماء اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ ان ہدف کے حصول کے لیے، حکام نے فلسطینیوں کو اؙن کی شناخت کی وجہ سے بےدخل کیا، محصور کیا، زبردستی الگ تھلگ کیا اور اپنا محکوم بنایا۔ ریاستی ظلم کی شدّت مختلف رہی ہے
کچھ علاقوں میں یہ محرومیاں اتنی شدید ہیں کہ وہ نسلی امتیاز اور ریاستی جبر کے زؙمرے میں آتی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرم کی تعریف پر پورا اترتی ہیں
اؚن عام مفروضات: کہ یہ قبضہ عارضی ہے- یہ کہ ”امن عمل” جلد ہی اسرائیلی مظالم کا خاتمہ کر دے گا- یہ کہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کو اپنی زندگی پر بامعنی کنٹرول حاصل ہے- اور یہ کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کے اندر ایک منصفانہ جمہوریت ہے، نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے انتہائی سخت امتیازی حکمرانی کی حقیقت کو چھپایا ہوا ہے
اسرائیل نے فلسطینی آبادی کے کچھ حصے پر اپنی 73 سالہ طویل مدت سے ماسوائے چھ مہینوں کے، فوجی راج قائم کر رکھا ہے۔ اس نے اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کی غالب اکثریت پر یہ نظام 1948 سے 1966 تک نافذ کیے رکھا۔ 1967 سے اب تک، اس نے مشرقی یروشلم کے علاوہ او پی ٹی کے دیگر علاقوں میں مقیم فلسطینیوں پر فوجی نظام لاگو کر رکھا ہے۔ جبکہ اؚس کے بالکل برعکس، اسرائیل اپنے قیام سے ہی یہودی اسرائیلیوں پر اور 1967 میں قبضے کے آغاز سے او پی ٹی میں آباد یہودیوں پر اپنے حقوق کے حامل دیوانی قانون کے تحت نظامؚ حکومت چلا رہا ہے
گذشتہ 54 برسوں سے، اسرائیلی حکام یہودی اسرائیلیوں کو او پی ٹی میں آباد کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور جہاں تک شہریتی حقوق، اراضی تک رسائی، سفر، تعمیر، اور قریبی رشتہ داروں کی جائے رہائیش کے حقوق کا تعلق ہے تو اسرائیلی حکام نے قانون کے ذریعے اؙنہیں وہاں مقیم فلسطینیوں کے مقابلے میں فوقیت دی ہے
فلسطینیوں کو او پی ٹی میں محدود طاقت کی حامل حکومتؚ خود اختیاری کا حق حاصل ہے مگر سرحدوں، فضائی حدود، لوگوں و اشیاء کی نقل و حمل، سلامتی اور آبادی کے اندراج پر حقیقی کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے، قانونی مرتبے اور شناختی کارڈز کے حصول کی اہلیت کا تعین آبادی کے اندراج کی فہرست سے ہوتا ہے، جو اسرائیل کے کنٹرول میں ہے
کئی اسرائیلی عہدیداروں نے اس تسلط کو دوام دینے کے ارادے کا واضح اظہار کیا ہے اور عشروں پر محیط نام نہاد ”امن عمل” کے دوران آبادکاری کی توسیع سمیت دیگر اقدامات سے اپنے اؚس ارادے پر عمل درآمد بھی کیا ہے۔ تسلط اور ریاستی جبر جو طویل عرصہ سے جاری ہے یہ حقیقت تبدیل نہیں کر سکا کہ تمام مغربی کنارہ قبضے کے عالمی قانون کی رؙو سے ایک مقبوضہ علاقہ ہے، بشمول مشرقی یروشلم کے، جس کا اسرائیل نے 1967 میں یکطرفہ الحاق کیا تھا۔