جانوس (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

نیّر مسعود

آندھی کے آثار تھے۔ دور شمال کی طرف آسمان زیادہ تاریک ہو گیا تھا اور فضا میں ہلکی سنسناہٹ تھی۔ ہوا کی رفتار تیز ہو چکی تھی، لیکن ابھی اس میں ناہمواری نہیں آئی تھی۔

اس رات بھی مجھ کو نیند نہیں آ رہی تھی مگر میں نے بستر پر لیٹ کر بجلی بجھا دی۔ کمرے کا مشرقی دروازہ کھلا ہوا تھا اور کمرے میں باہر سے زیادہ اندھیرا تھا، اس لئے باہر کا اندھیرا کمرے کے اندر بہت مدھم، مگر روشنی کی طرح داخل ہو رہا تھا۔ میری چوتھی کروٹ نے پھر میرا منہ مشرقی دروازے کی طرف کر دیا۔ دروازے سے دو قدم آگے کھلے آسمان کے نیچے میرا قدآور کتا بُت بنا بیٹھا تھا۔ میں دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ آندھی کے آثار شروع ہوتے ہی کتے کے کان رہ رہ کر پھڑکنے لگے تھے۔ وہ عام کتوں سے بہت بڑا تھا۔ مجھ کو یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ دو سال پہلے میں اسی کتے کو اپنے اوور کوٹ کی جیب میں رکھ کر لایا تھا۔

’’ہاؤنڈ!‘‘ میں نے آہستہ سے کتے کو پکارا۔

کتے نے بیٹھے بیٹھے دوتین مرتبہ دم ہلائی۔

’’ہاؤنڈ!‘‘

کتا اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنی جگہ پر کئی چکر کاٹے، پھر ذرا آگے بڑھ کر دروازے سے اپنا بدن رگڑنے لگا۔ اسے کمرے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

’’بیٹھ جاؤ، شاباش!“

کتے نے پھر دو تین چکر کاٹے اور اس بار دروازے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ مجھ کو اپنا کمرہ بہت محفوظ معلوم ہونے لگا اور اب میری آنکھوں پر نیند کی پہلی باریک جھلی سی منڈھ گئی۔ میں نے داہنی کروٹ لے کر دروازے کی طرف پیٹھ کی۔ سر کے نیچے سے ہاتھ ہٹا لیا اور میرے خیالات بے ربط ہوگئے۔ یہ نیند کی علامت تھی۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور بند کر لیں، لیکن جب میرے خیالوں کی بے ربطی مہملیت کی حد کو پہنچ چکی تھی اور یہ مہمل خیال بھی مجھے اپنے ذہن کے اندھیرے میں ڈوبتے معلوم ہو رہے تھے، اس وقت مجھ کو آندھی کی آواز بہت قریب سنائی دی۔

آٓندھی آ رہی ہے، میں نے سوچا، پھر یہ خیال بھی واہیات ہوتا ہوا ڈوب رہا تھا کہ میری پشت پر کتا گرج دار آواز میں بھونکا۔ مجھ کو ایسا محسوس ہوا میری آنکھوں اور ذہن اور جسم پر سے کھالیں سی کھینچ لی گئی ہوں۔ میں نے تڑپ کر دروازے کی طرف کروٹ لی۔ مجھ کو کتے پر غصہ آگیا تھا لیکن کتا اب اپنی جگہ پر نہیں تھا۔ وہ بھونکتا ہوا نیچے جارہا تھا اور اس کی زینہ بہ زینہ اترتی ہوئی آواز سے ظاہر تھا کہ اسے کوئی آہٹ ملی ہے اور وہ سیدھا اس آہٹ کی طرف جا رہا تھا۔ اسی وقت کھلے ہوئے دروازے کے باہر غبار کی ایک چادر سی گری اور باہر کا اندھیرا بھی گہرا ہونے لگا۔

’’ہوا۔‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’لیکن میں عناصر سے مرعوب نہیں ہوں۔‘‘

نیچے سے پھر کتے کی آواز آئی، لیکن اس بار اس کی آواز پھٹی ہوئی سی تھی اور اس میں اس کی مخصوص ہوک بھی شامل تھی۔ اس نے کچھ دیکھ لیا ہے، میں نے سوچا، اسی کے ساتھ آندھی نے غراہٹ کے ساتھ کمرے کے شمالی دروازے پر ٹکر ماری اور دروازے کے اوپر والا روشن دان کھل گیا۔ کچھ سوکھے پتے روشن دان سے داخل ہو کر کمرے کی جنوبی دیوار سے ٹکرائے اور ہلکی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ دیوار سے گھسٹتے ہوئے نیچے فرش پر آ گرے۔ ان سب آوازوں پر کتےکی آواز حاوی تھی۔ وہ لگاتار بھونک رہا تھا اور ہربار اس کی ہوک زیادہ لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہوا سے لڑ رہا ہے، لیکن اچانک مجھے شبہ ہوا کہ میں نے ایک انسانی آواز بھی سنی ہے۔ کتے کی آواز اور تیز ہو گئی۔ میں نے کانوں پر زور دیا۔ شک کی گنجائش نہیں تھی۔ ایک گھٹی گھٹی سی آواز اور تیز ہوگئی۔ میں نے کانوں پر زور دیا۔

میں بستر سے کود پڑا۔ میں بلڈ ہاؤنڈ کی مضرتوں سے واقف تھا۔ اس وقت آنے والا کون ہو سکتا ہے۔۔ میں نے یہ نہیں سوچا، اس لئے کہ نیچے جو کوئی بھی تھا، اس کی زندگی خطرے میں تھی۔ مجھ کو ابھی ابھی یاد آیا تھا کہ میں نے آج برآمدے میں کھلنے والا دروازہ بند نہیں کیا ہے اور چمن کے باہر کھلنے والا سلاخوں دار پھاٹک بھی ابھی تک کھلا ہواہے۔ میں نے پاؤں سے اپنی چپلیں ٹٹولیں اور پیروں کو ان میں بٹھاتا ہوا تیزی سے زینے اترنے لگا۔

’’ہاؤنڈ!‘‘ میں زور سے چیخا، ’’نہیں، ہاؤنڈ!!‘‘

نیچے برآمدے میں پہنچ کر میں نے پھر کتے کو آواز دی۔ پھاٹک سامنے نظر آ رہا تھا۔ کسی نے اسے بند کر دیا تھا۔ آندھی ابھی زمین کی طرف نہیں جھکی تھی اور اوپر کے مقابلے میں یہاں ہوا کا زور کم تھا، پھر بھی چمن کے درخت باربار جھک رہے تھے اور ہوا ان کی شاخوں میں الجھ رہی تھی۔ پھاٹک کے باہر فضا بہت روشن تھی، اس لئے کہ سامنے حاجی زین الدین کی کوٹھی کے احاطے میں اسی ہفتے تیز دودھیا روشنی کا بلب لگایا گیا تھا۔ پھاٹک کی سلاخوں کے سائے لمبے ہو کر برآمدے کی سیڑھیوں تک پہنچ رہے تھے۔ ان سیاہ دھاریوں کے بیچ میں کتا پچھلی ٹانگوں سے مٹی اڑا اڑا کر مسلسل بھونکتے جا رہا تھا۔ میں نے اسے آوازدی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ دو تین چھلانگوں میں وہ میرے پاس پہنچ گیا اور میرے گرد چند چکر کاٹ کر پھر واپس جانے لگا، لیکن میں نے بڑھ کر اس کا پٹا پکڑ لیا۔

’’کون؟‘‘ میں نے پکار کر پوچھا۔ میری نظریں پھاٹک کے باہر جمی ہوئی تھیں۔ کتا پھاٹک کی طرف جانے کے لئے زور لگا رہا تھا۔ میں برآمدے کی سیڑھیاں اتر کر کچھ دور تک اس کے ساتھ آگے بڑھا۔

’’کون صاحب ہیں؟‘‘ بر آمدے اور پھاٹک کے درمیان رک کر میں نے پھر پکارا۔ لیکن پھاٹک کے باہر کوئی نہیں تھا۔ پھر بھی میں پھاٹک تک گیا اور کچھ دیر تک اس کی سلاخوں پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر میں کتے کی طرف مڑا۔

’’آؤ دوست، واپس چلیں،‘‘ میں نے کتے سے کہا، ’’کوئی ضرور تھا مگر تمہاری وجہ سے پھاٹک بند کر کے چلا گیا۔‘‘

میں کتے کو پکڑے پکڑے برآمدے کی طرف واپس ہونے لگا۔ بائیں ہاتھ کے درخت کی شاخوں سے تازہ پتے زمین پر گر کر ناچ رہے تھے۔ میں نے اوپر دیکھا۔ پتلے تنے والا درخت بہت اونچا تھا اور اس کی چوٹی ہوا کی زد میں تھی۔ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں آندھی اس کو نقصان نہ پہنچا دے، پھر مجھے خیال آیا کہ ایسی آندھیاں سال میں کئی مرتبہ آتی ہیں اور درخت انہیں جھیل جاتا ہے۔

زمین پر پتے ادھر ادھر دوڑے اور میں نے برآمدےکی طرف قدم بڑھایا، لیکن مجھے ٹھٹک کر رک جانا پڑا۔ زمین پر پھاٹک کی سیاہ دھاریوں کے درمیان ایک نیا سایہ نمودار ہو گیا تھا۔ میں نے کتے کے پٹے پر گرفت مضبوط کر لی اور گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔ باہر پھاٹک کی سلاخوں سے لگا ہوا کوئی کھڑا تھا۔ پیچھے سے پڑتی ہوئی تیز روشنی میں وہ خود بھی کوئی پرچھائیں معلوم ہو رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں میں کچھ سامان سنبھالے ہوئے تھا اور ایک ایسا سیاہ مجسمہ نظر آتا تھا، جس کی کمر سینے سے دوگنی چوڑی ہو۔

’’کون؟‘‘ میں نےاپنی جگہ سے ہٹے بغیر پوچھا اور کتے کا پٹا میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ کتا بھونکتا ہوا پھاٹک کی طرف جھپٹا۔ مجسمہ تیزی سے کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے بڑھ کر پھر کتے کا پٹا پکڑ لیا۔

’’کون صاحب ہیں؟‘‘ میں نے پھر پکار کر پوچھا، لیکن جواب ملنے سے پہلے ہی آندھی زمین پرجھک آئی۔ پھاٹک کے باہر کی بھربھری مٹی پر ہوا کا پہلا طمانچہ پڑا۔ غبار کا ایک بھنور سا اٹھا اور مجسمہ اس کے پیچھے چھپ گیا۔ ادھر ادھر سے کئی بگولے دوڑتے ہوئے آئے اور اس بھنور کے ساتھ مل کرناچنے لگے۔ ہوا ناہموار ہو چکی تھی۔ ایک اور جھونکے نے غبار کو سامنے سے ہٹایا تو مجسمہ پھاٹک سے لگا نظر آیا۔ اس کے بال لمبے تھے اور ہوا سے اڑ رہےتھے۔۔

’’کون صاحب ہیں؟‘‘ میں نے ہاتھ بڑھا کر پھاٹک تھوڑا سا کھول دیا۔

’’اندر آجائیے۔‘‘

مگر پھاٹک کھلتے ہی مجسمہ پھر بھڑک کر پیچھے ہٹ چکا تھا اور اب آندھی کا شور اتنا تھا کہ مجھ کو خود اپنی آواز مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔

’’اندر کیوں نہیں آتے؟‘‘ میں نے چیخ کر کہا اور اس بار مجھ کو جواب بھی ملا۔

’’کتے کو روکے رہیے۔‘‘

’’کتا نہیں بولے گا، اندر آ جائیے۔‘‘

میں کتے کو پکڑے پکڑے برآمدے کی طرف بڑھنے لگا۔ زمین پر پھاٹک کی سیاہ دھاریوں کے درمیانی فاصلے کم ہو گئے۔ میری پشت پر نووارد آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ بر آمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر میں ٹھہر گیا۔ اب نووارد میرے برابر آ چکا تھا۔ حاجی زین الدین کے یہاں کی روشنی برآمدے تک آتے آتے پھیکی پڑ گئی تھی، مگر یہ پھیکی روشنی بھی یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی تھی کہ آنے والا بہت خستہ حال شخص ہے۔ اس کا لباس تک سالم نہیں تھا۔ اس کا رنگ اتنا کالا تھا کہ برآمدے کی مدھم روشنی میں اس کے ناک نقشے کا ٹھیک پتا نہیں چلتا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں رسی سے لپٹا ہوا ایک بستر تھا اور دوسرے ہاتھ میں ٹین کا کنستر، جس میں کبھی بناسپتی گھی رہا ہوگا لیکن اب ٹین کا کنارے دار ڈھکنا اور کنڈی لگا کر اس کو زیادہ کارآمد بنا لیا گیا تھا۔ وہ میری طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس کی نظریں کتے پر جمی ہوئی تھیں۔

’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’یہ کاٹے گا تو نہیں؟‘‘

’’نہیں۔ کہاں سے آئے ہو؟‘‘

’’ڈاکٹر صاحب سے ملنا تھا۔‘‘

’’میں ہی ہوں۔‘‘

اب اس نے مجھ کو سلام کیا۔ سلام کا انداز شائستگی سے خالی نہیں تھا۔

’’حضور ڈاکٹر صاحب!“ اس نے ذرا رک کر کہا، ’’مجھے جان محمد نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔‘‘

’’جان محمد؟‘‘

’’جو پار سال آپ کے دواخانے میں نوکر تھا۔ مجھے وہ کان پور میں ملا تھا۔‘‘

’’جان محمد کان پور میں کیا کر رہا ہے؟ آؤ، اندر آجاؤ۔‘‘

میں نے برآمدے سے ملحق ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر بلب روشن کر دیا۔

’’ہوٹل میں نوکر ہے۔‘‘ نووارد دروازے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔

بجلی کی تیز روشنی میں وہ اور زیادہ خستہ حال معلوم ہو رہا تھا۔ اور ڈرائنگ روم کی آرائش نے اس کی شکستگی کو اس قدر نمایاں کر دیا تھا کہ میں اس سے سوفے پر بیٹھنے کو کہتے کہتے رک گیا۔ اس کے پائجامے کی مہریاں کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں اور قمیص کی آستینیں گھس گئی تھیں۔ اس کے بالوں کے لچھے کندھوں سے کچھ اوپر جھول رہے تھے۔ چھوٹی مگر گھنی داڑھی اس کی سیاہ جلد میں مل کر اس کے چہرے کو اور بڑا دکھا رہی تھی۔ چوڑی ہڈی اور لمبے قد کا وہ خستہ حال آدمی یقیناً مرعوب کر دینے والی شخصیت کا مالک تھا۔

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے گفتگو کاسلسلہ جوڑا: ’’جان محمد نے آپ کو سلام کہا ہے اور بغیر کہے نوکری چھوڑ دینے کی معافی مانگی ہے۔ حضور ڈاکٹر صاحب وہ آدمی برا نہیں ہے۔ آپ کے تیس روپے اس پر نکلتے تھے، وہ اس نے میرے ہاتھ بھجوائے ہیں۔‘‘ اس نے پائجامے کے نیفے میں سے ایک کاغذ میں لپٹے ہوئے نوٹ نکال کر مجھ کو دے دیے۔ ”اس نے کہا تھا لکھنؤ پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب کو روپے دے دینا۔ اسی لئے ناوقت آپ کو تکلیف دی۔‘‘

مجھ کو جان محمدکی ایمان داری پر ذرا حیرت ہوئی۔

’’حضور، کتے کو روک لیں تو میں چلا جاؤں۔‘‘

’’ابھی آندھی تیز ہے، کچھ دیر بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں نے سوفے کی طرف اشارہ کیا۔

’’حضور کو زحمت ہو رہی ہوگی۔‘‘

’’نہیں، کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے اسے پھر سوفے پربیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نووارد کچھ دیر ہچکچانے کے بعد بڑے سوفے کے سرے سے ٹک گیا۔ اس کا سامان اس کے ہاتھ میں تھا۔ اب اس نے بستر اپنے زانوؤں پر اور کنستر سامنے جوٹ کی چٹائی پر رکھا اور پہلی بار کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ میری نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس شخص میں کوئی بات تھی، جو میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔۔

’’تم جان محمد کو کیوں کر جانتے ہو؟‘‘

’’ہم دونوں ایک ہی ہوٹل میں کام کرتے تھے۔‘‘

’’تم بھی ہوٹل میں کام کرتے ہو؟‘‘

’’اب الگ ہو گیا ہوں۔‘‘

’’اب کیا کرتے ہو؟‘‘

وہ کچھ دیرخاموش رہا، پھر اس کی گردن جھک گئی اور آواز دھیمی ہو گئی۔ ’’جان محمد نے کہا تھا اپنے لئے بھی ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا، وہ کوئی کام ضرور دلوا دیں گے۔‘‘

’’کان پور سے چلے کیوں آئے؟‘‘

’’دل نہیں لگا۔‘‘

’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘

’’یہیں لکھنؤ کا۔۔ سات برس باہر رہا۔۔ لیکن حضور ڈاکٹر صاحب، لکھنؤ والے کا اور کہیں دل بھی تو نہیں لگتا۔‘‘

’’یہاں تمہارا مکان کہاں ہے؟‘‘

’’اب کہیں نہیں۔ خاندانی مکان لڑکپن ہی میں ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ والد صاحب کا انتقال آغا میر کی سرائے میں ہوا۔ والدہ مجھے لے کر ٹوریاگنج کے خیرات خانے میں اٹھ آئیں۔ وہ بھی گزر گئیں تو میں شہر چھوڑ کر نکل گیا۔‘‘

یہاں پہنچ کر وہ سیام فام شخص اونگھ گیا۔ وہ کچھ اور بھی بڑبڑایا تھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، البتہ ’نواب سہراب کی حویلی‘ کے لفظ میرے کان میں پڑے اور میں نے پوچھا: ’’نواب سہراب کی حویلی کیا؟‘‘

’’حضور ڈاکٹر صاحب،‘‘ نووارد نے ہوشیار ہو کر کہا، ’’نواب سہراب کی حویلی تو بہت بدل گئی۔‘‘

’’ہاں، اس کو منظور صاحب نے خرید کر ٹھیک کروایا ہے۔‘‘

’’یہ منظور صاحب۔۔۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا، ’’نواب ہیں؟ نواب منظور علی خاں؟‘‘

’’نہیں، تاجر ہیں۔۔ منظور شاہ نام ہے۔‘‘

’’لکھنؤ ہی کے ہیں؟‘‘

’’مجھے ٹھیک معلوم نہیں۔‘‘

’’کاہے کے تاجر ہیں؟‘‘

’’یہ بھی ٹھیک نہیں معلوم۔‘‘

اس کے بعد دیر تک خاموشی رہی اور باہر تیز ہوا کی ہلکی ہموار آواز سنائی دیتی رہی۔

’’یہ نواب سہراب کی حویلی۔۔۔‘‘ نووارد کہتے کہتے رکا، پھر بولا، ’’ہماری تھی۔‘‘

میں نے ذرا حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

’’پھر ہمارا وقت بگڑ گیا۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا، ’’والدصاحب کی زندگی حویلی میں گزری مگر انتقال آغا میر کی سرائے میں ہوا۔ مجھے یاد بھی نہیں حویلی کے اندر کیا تھا۔ والدہ بتاتی تھیں۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ پھر اونگھ گیا اور اس کا سر جھکنے لگا۔ میں چپ چاپ اس کی طرف دیکھتا رہا۔

’’حضور ڈاکٹر صاحب۔‘‘ اس نے پھر ہوشیار ہو کر اپنا جھکتا ہوا سر اٹھایا، ’’آندھی کا زور گھٹ گیا ہے۔ کتے کو روک لیجئے۔ کل جس وقت حکم دیجئے، حاضر ہو جاؤں۔‘‘

مجھ کو محسوس ہوا کہ اس کی بھاری آواز اچانک کھوکھلی سی ہو گئی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے نظریں چرا رہا ہے اور مجھ کو اپنی طرف دیکھتے دیکھ کر پریشان ہو رہا ہے۔

’’حضور کی مہربانی سے کوئی کام مل جائے تو۔۔۔‘‘ اس نے بستر کو داہنے ہاتھ میں دبایا، سامنے رکھے ہوئے کنستر کو بائیں ہاتھ- اٹھا کر سوفے سے اٹھنا چاہا مگر نہ اٹھ سکا۔ دوسری کوشش میں بھی نہ اٹھ سکا۔ آخر تیسری بار اس نے جھٹکے سے خود کو اٹھایا اور اس کے منھ سے ہلکی سی آواز نکلی، جسے اُس نے فوراً ہونٹ بھینچ کر روک لیا۔ اب میں نے دیکھا کہ اس شخص کا بدن کانپ رہا ہے۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اٹھ کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔

’’جی؟‘‘ اس نے قدرے گھبرا کر پوچھا۔

’’تم کانپ رہے ہو۔‘‘

’’جی نہیں تو۔‘‘

’’بیٹھ جاؤ۔۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ حضور ڈاکٹرصاحب، کتے کو روک لیجئے۔‘‘ اس نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا۔ پھر میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے جانے دیا جائے۔ میں نے دروازے کے قریب جا کر کتے کو اوپر جانے کا اشارہ کیا۔ کتے نے فورا تعمیل کی۔ میں نووارد کی طرف مڑا۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کل صبح نو بجے مطب میں آ جانا۔‘‘

نووارد نے مجھ کو سلام کیا اور دروازے سے باہر نکل کر برآمدے میں آ گیا، ایک نظر اوپر کے زینوں کی طرف دیکھا اور برآمدے کی سیڑھیاں اتر گیا۔ چند لمحوں میں اس کا سایہ بھی برآمدے سے غائب ہو گیا۔ میں نے بلب بجھانے کے لئے سوئچ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ باہر ایک دھماکا سا ہوا۔۔ اور ابھی میں اس آواز کو سمجھ بھی نہ پایا تھا کہ زینے پر سے کتے کی گرج سنائی دی اور اسی کے ساتھ کتا برآمدے سے اڑ کر چمن کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ میں بھی فوراً باہر نکل کر برآمدے سے نیچے اتر آیا۔ سامنے پھاٹک کی سلاخوں کے سائے میرے قدموں تک آ رہے تھے اور مجھ سے دس پندرہ قدم آگے وہ شخص ایک سیاہ ڈھیر کی طرح زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس کے گرنے سے غبار کاایک پھوٹا سا بادل اٹھا تھا، جو ابھی تک اس پر منڈلا رہا تھا اور حاجی زین الدین کے یہاں کی روشنی اس کی وجہ سے کچھ دھندلا گئی تھی۔ کتا خاموشی مگر بے قراری کے ساتھ اس بے حرکت پڑے انسان کو ہر طرف سے سونگھ رہا تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی کتا میری طرف لپکا، منھ سے کچھ باریک آوازیں نکالیں اور پھر اس جسم کی طرف دوڑ گیا۔ میرے وہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ ہم دونوں کے درمیان کئی چکر لگا چکا تھا۔

میں اس کے قریب پہنچ کر جھکا۔ وہ زمین پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ بستر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا لیکن کنستر کا کنڈا ابھی تک اس کی انگلیوں میں پھنسا ہوا تھا۔ کنستر کا ڈھکنا کھل گیا تھا اور روشنی سیدھی اس کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ کنستر خالی تھا۔ زمین پر پڑے ہوئے آدمی کا داہنا ہاتھ آگے کی طرف پھیلا ہوا تھا اوراس کی مٹھی اس طرح بھنچی ہوئی تھی، جیسے اس نے زمین کو پکڑ رکھا ہو۔ پھر اس کا ہاتھ سمٹا اور بدن دوتین بار ہلا۔ اس نے کنستر کو چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے زمین پر زور دیا اور اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کا سر اور کندھے دو بالشت اوپر اٹھ کر پھر زمین سے لگ گئے۔ اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی اور میں نے ایک گھٹنا جھکا کر اس کے دونوں بازو پکڑ لئے۔ ذرا سی کشمکش کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا، لیکن اس کی ٹانگوں میں دم نہیں تھا۔ اس نے جھک کر ایک ہاتھ سے کنستر کو پکڑا اور پھر بیٹھ گیا۔

’’چکر آ رہا ہے۔‘‘ اس نے بہ ظاہر اپنے آپ کو بتایا۔ اب اس کی آواز بہت کھوکھلی ہو چکی تھی۔ میں نے اس کی کمر میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔ کنستر بھی کچھ دور تک اوپر اٹھا، پھر چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔ کتا جو مستقل ہم دونوں کے گرد چکر کاٹ رہا تھا، لپک کر قریب آیا اور کنستر کو سونگھنے لگا۔

’’چکر آ گیا تھا۔‘‘ نووارد نے مجھ کو بتایا۔

میں اس کو سہارا دیے دیے برآمدے کی سیڑھیوں تک لایا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس شخص پربے ہوشی طاری ہونے لگی اورجب تک میں اس کو ڈرائنگ روم کے سوفے پر لٹاؤں، وہ بالکل غافل اور بے حرکت ہو چکا تھا۔ مجھ کو اس کے زندہ ہونے میں شک تھا۔ اس کا سیاہ چہرے اور بال گرد سے اٹ گئے تھے۔ اس کے داہنے ہاتھ کی مٹھی کھل گئی تھی اور اس میں سے مٹی نکل کر جوٹ کی چٹائی پر گر رہی تھی۔

میں نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا، پھر تیزی سے اوپر گیا۔ کتا بھی میرے پیچھے ہو لیا۔ اوپر سے اسٹیتھوسکوپ لے کر میں واپس نیچے آیا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ اندر سے بند کر کے مڑا۔ نووارد اب بھی سوفے پر بے حرکت پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس کامعائنہ کیا اور اس معائنے کے بیچ میں اس نے آنکھیں کھول دیں، لیکن یہ آنکھیں شیشے کی سی تھیں اور ان میں کچھ نہیں تھا۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کے خدوخال اچھے تھے۔ اس کی آنکھوں کے گرد باریک جھریاں تھیں۔ اگر یہ جھریاں اس کے سیاہ رنگ میں دب نہ گئی ہوتیں تو وہ زیادہ معمر معلوم ہوتا۔ اس کی آنکھیں اس کے چہرے پر نمایاں تھیں اور اس حالت میں ایک لاش کی طرح پڑا ہوا وہ بہت مطمئن اور آسودہ حال معلوم ہو رہا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں میں ہوش جھلکنے لگا۔ اس کی پلکیں تھرتھرائیں۔ اس نے مجھ کو پہچاننے کی کوشش کی اور پہچان لیا۔ پھر اس نے اٹھنا چاہا اور اس کی آنکھوں سے کرب ظاہر ہونے لگا۔ میں نے اس کے سینے پر آہستہ سے ہاتھ رکھ کر اسے اٹھنے سے روکا۔

’’لیٹے رہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیا تکلیف ہے؟‘‘

’’میں جاؤں گا،’’ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور پھر اٹھنا چاہا۔

’’ابھی تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا اور اپنا سوال دہرایا، ’’کیا تکلیف ہے؟‘‘

’’تھکن، چکر اور۔۔۔‘‘ وہ رک گیا۔ پھر بولا، ’’بہت تکلیف ہے۔‘‘

میں معائنہ ختم کر چکا تھا۔

’’اچھا لیٹے رہو، ’’ میں نے کہا، ’’دوا دیتا ہوں۔ ٹھیک ہوجاؤ گے۔‘‘

میں نے دروازے کاہینڈل گھمایا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے میں نے سر گھما کر ایک نظر مریض کو دیکھا اور میرا ہاتھ ہینڈل پر رکھا رہ گیا۔ باہر سے دروازے پر دباؤ پڑا۔ دروازہ تھوڑا کھل گیا۔ کتے کا سر اندرداخل ہوا اور ہَوا کی آواز صاف سنائی دینے لگی۔ میں مڑا اور تیز قدموں سے مریض کے سرہانے میں پہنچا۔

’’سنو!“ میں نے مریض پر جھک کر آہستہ سے پوچھا، ’’آج تم نے کیا کھایا تھا؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘

’’’کل؟‘‘

مریض خاموش رہا۔۔

’’کل تم نے کچھ کھایا تھا؟‘‘

مریض پھر خاموش رہا۔

’’کب سے بھوکے ہو؟‘‘ میں نے ذرا درشتی سے پوچھا۔ میری آواز بہ ظاہر مریض کو سنائی نہیں دی۔

’’تم کب سے بھوکے ہو؟‘‘ میں نے اپنا سوال دہرایا۔ مریض کی آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں لیکن وہ ہوش میں تھا۔ اس کے اودے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ اب میں نے بہت نرم لہجے میں اس سے پوچھا، ’’تم نے کب سے کچھ نہیں کھایا ہے؟‘‘ مریض نے کوئی جواب نہیں دیا۔

دروازے کے اندر منھ ڈالے کتا ہانپ رہا تھا اور باہر ہوا ٹین کے خالی کنستر کو ادھر سے ادھر لڑھکاتی پھر رہی تھی۔ میں کچھ دیرخاموش کھڑا رہا۔ پھر اوپر آگیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے سوچنے کی کوشش کی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے اپنے بستر پر بیٹھ کر تکیے سے ٹیک لگالی اور ذہن پر زور دینے لگا۔ مجھے چپلیں اپنے پیروں سے نکلتی محسوس ہوئیں۔

شمالی روشن دان میں سے گرتے ہوئے سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے میری آنکھ کھلی۔ میں اٹھ بیٹھا اور چپلیں پہنتا ہوا نیچے اترا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ باہر سے بند تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ پھر میں برآمدے کے کھلے ہوئے دروازے سے نیچے اترا۔ سلاخوں دار پھاٹک بھی کھلا ہوا تھا۔ میں نے پھاٹک بند کر دیا اور کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ آندھی تیز ہوگئی تھی۔ مجھ کو اپنے پیروں کے پاس کتے کی موجودگی کا احساس ہوا۔

’’آؤ دوست، واپس چلیں۔‘‘ میں نے کتے سے کہا اور برآمدے کی طرف مڑ گیا۔ برآمدے کا دروازہ بند کر کے میں اوپر اپنے کمرے میں پہنچا۔

بستر پر لیٹتے ہی میرے خیالات بے ربط ہو گئے۔ ایک خیال میری زبان پر آیا: ’’وہ بھی عناصر سے مرعوب نہیں تھا،‘‘ پھریہ خیال طرح طرح کی مہمل مشکلیں اختیار کرنے لگا۔

’’پھر بھی جانوس، تم نے انتظار نہیں کیا۔‘‘ میں نے کہا اور سو گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close