پاکستان اور بھارت کا میچ جب بھی ہو اور جہاں بھی کھیلا جائے، دونوں اطراف سے شائقین کے جذبات ویسے ہی عروج پر ہوتے ہیں لیکن جب ایک گھر میں شوہر کا تعلق بھارت اور بیوی کا پاکستان سے ہو تو سوچیں کیا صورتحال ہوتی ہوگی
یہ جوڑا ہے عالی اور عینی کا۔۔۔ اقبال عالی کا تعلق بھارت کے شہر لکھنؤ سے جبکہ قرۃالعین پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھتی ہیں
عالی جب کبھی گھر پر پاک بھارت میچ دیکھیں اور بھارتی بلے باز چوکے چھکے لگانا شروع کریں تو ’وہیں سے ماحول میں کافی تناؤ آ جاتا ہے۔‘
تاہم عالی اور عینی کی کہانی میں بھارت اور پاکستان صرف کرکٹ میچ تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں کے پہلی بار ملنے سے لے کر بارات پاکستان آنے تک ہر موڑ پر ہی کہیں پاک بھارت تعلقات، تو کہیں کرکٹ سیریز کا عمل دخل رہا
گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ فیملی آسٹریلیا میں مقیم ہے، لیکن آج سے لگ بھگ بیس سال قبل ان کے لیے بھارت اور پاکستان آنا جانا بھی بہت مشکل تھا
عالی نے آج تک بھارت کا جو بھی میچ اسٹیڈیم میں جا کر دیکھا، اس میں جیت بھارت کی ہوئی اور گذشتہ روز بھی ان کی خوش قسمتی کا یہ تسلسل قائم رہا
تاہم اس وقت کراچی سے تعلق رکھنے والی ان کی اہلیہ قرۃ العین نے شاید انہیں کم سے کم دو روز کے لیے واٹس ایپ پر بلاک کر دیا ہو کیونکہ سنہ 2015 کے پاک بھارت میچ کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا
ایڈیلیڈ میں ہونے والے اس میچ میں قرۃالعین عرف عینی اور ان کے بیٹے کو اسٹینڈ چھوڑ کر اس وقت جانا پڑا تھا، جب پاکستان کی بری پرفارمنس اور بھارتی شائقین بشمول ان کے شوہر کی خوشی انہیں ’ناگوار‘ گزرنے لگی تھی
عینی بتاتی ہیں ”ویسے تو آپ ہر وقت دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں خوش رکھے لیکن ان کی یہ والی خوشی برداشت نہیں ہوتی“
تقسیمِ ہندوستان کے دوران عینی اور عالی کا خاندان بھی بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تھا، تاہم بعد میں بھی دونوں اطراف سے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا
عینی آٹھویں جماعت میں تھیں جب وہ پہلی بار لکھنؤ گئیں۔ وہ اپنے مخصوص پُرمزاح انداز میں کہتی ہیں ”پتا نہیں میں کیوں گئی تھی، ورنہ بچت ہو جاتی آج۔۔“
یہ اَسی کی دہائی کی بات ہے، جب آج کل کی طرح سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اُس وقت عالی اور عینی کے درمیان خط کے ذریعے بات چیت ہوتی تھی
ایسا خط جو پہلے ہی دو مہینے کے انتظار کے بعد پہنچتا، اسے پہلے عینی کے والدین پڑھتے اور پھر بالآخر یہ عینی کے پاس جاتا
عالی بتاتے ہیں ”اس وقت بس خط میں حال احوال ہی پوچھ لیا کرتے تھے کیونکہ معلوم ہوتا تھا کہ پہلے امی اور پھر ابو پڑھیں گے“
تاہم پھر انٹرنیٹ آنے کے بعد بات میسنجرز کے ذریعے ہونا شروع ہوئی اور دونوں خاندانوں کی رضامندی سے شادی بھی طے ہو گئی
عینی بتاتی ہیں ”میری اماں کہا کرتی تھیں کہ کہیں بھی شادی کریں گے، بھارت میں نہیں۔۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مواصلات کے ذرائع کم تھے اور آنے جانے کے اعتبار سے بھی مشکلات تھیں“
اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان فلائٹس بھی بذریعہ دبئی آیا کرتی تھیں، اس لیے شادی کے انتظامات کے حوالے سے فلائٹس کے ساتھ ساتھ ویزا کے مسائل بھی تھے
ڈولی لے کے آجا بالما۔۔ میچ کے ویزے پر بارات کی آمد
یہ سنہ 2004ع کی بات ہے، جب پاک بھارت تعلقات میں قدرے بہتری آنا شروع ہوئی۔ تبھی ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز کھیلنے کا اعلان بھی کیا گیا، جسے ’دوستی سیریز‘ کا نام دیا گیا
بھارتی کرکٹ ٹیم نے سنہ 2004 میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ کرکٹ سیریز دیکھنے کے بہانے عالی اور ان کے خاندان کے لیے بھی پاکستان آنے کی امید پیدا ہو گئی
انہیں کراچی ون ڈے کے لیے چودہ دن کا ویزا ملا، جس میں ان کے دوست اور خاندان کے دیگر افراد بھی کراچی آئے
عالی بتاتے ہیں ”ہم اسی میچ کے ویزا پر آئے، وہ میچ دیکھا، یہ بھی میرے ساتھ گئی تھیں۔ اس دوران ہم میچ سے بھی بہت لطف اندوز ہوئے اور میچ بھی بھارت جیتا تھا تو کافی اچھا لگا تھا“
اس پر عینی نے فوراً کہا ”لیکن مجھے بہت برا لگا تھا، وہیں آپ کی بدقسمتی شروع ہو گئی تھی۔۔ یہ بھی آپ یاد کر لیں“
کرکٹ کے بہانے ملنے والے اب کرکٹ پر ہی جھگڑتے ہیں
عینی کہتی ہیں ”پاک بھارت میچ ہمارے گھر میں ایک ایسا موقع ہوتا ہے، جب سارے جذبات سامنے آ جاتے ہیں۔۔ دشمن دشمن ہی لگنے لگتا ہے۔ سب بھول جاتے ہیں کہ آدمی کیسا ہے، بڑی تکلیف ہوتی ہے خوشی دیکھ کر اس وقت، ویسے تو آدمی دعائیں کرتا ہے کہ خوش رہیں لیکن یہ واحد موقع ہوتا ہے جب یہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں تو مجھے بڑی جلن ہوتی ہے۔ میں سچ ہی بولوں گی“
ادھر عالی کو کرکٹ سے بچپن سے لگاؤ تھا اور وہ فاسٹ بولنگ کیا کرتے تھے۔ اب بھی وہ نہ صرف بھارت کے میچ بلکہ ایشز سیریز بھی دیکھنے جاتے ہیں اور کرکٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، چاہے ٹیم کوئی بھی ہو
تاہم گھر پر میچ دیکھتے وقت صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوشش میں انہیں کئی مرتبہ اپنی خوشی بھی چھپانی پڑتی ہے
عالی بتاتے ہیں ”چوکے چھکے پڑنا شروع ہوتے ہیں، ظاہر ہے خوش تو ہوتا ہوں۔۔ لیکن اس دوران گھر کا بھی خیال ہوتا ہے کہ کہیں کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں“
تاہم عینی اس بارے میں مختلف تاثرات رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”سچائی یہ ہے کہ مشکل سے ہی مسکرا پاتے ہیں یہ، کیونکہ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے کہ کوئی بہت خوش ہے اس لیے کہ بھارت جیت گیا اور میں برداشت نہیں کر پاتی“
وہ مزید بتاتی ہیں ”اگر میرے ابا پاکستان سے آئے ہوں اور پاکستان اور بھارت کا میچ ہو تو اتنا تناؤ آپ ایم سی جی میں محسوس نہیں کریں گے، جتنا آپ اس گھر میں محسوس کریں گے“
بیٹا پاکستان اور بیٹی بھارت کی حامی
پاکستان اور بھارت کی حمایت کا معاملہ صرف عینی علی تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان کے بچوں میں بھی اس حوالے سے سائیڈز لی جاتی ہیں
ان کے بیٹے پاکستان کی طرف ہوتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے، جبکہ بیٹی والد کو سپورٹ کرتی ہیں کیونکہ وہ ان سے زیادہ قریب ہیں
تاہم اس دوران فیملی میں احترام کے رشتے کو برقرار رکھنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ عینی بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے بیٹے کو کبھی کبھی کہنا پڑتا ہے کہ ’اپنے والد کے ساتھ احترام سے پیش آؤ اور یہ نہ بھولو کہ ہم ایک ہی فیملی کا حصہ ہیں‘
بیٹی کی سپورٹ والد کی طرف اس لیے ہوتی ہے کیونکہ ’اسے لگتا ہے کہ اس کے ڈیڈی اکیلے ہو گئے ہیں اور گھر میں دو لوگ پاکستان کی طرف ہیں تو اسے بھارت کی طرف ہونا چاہیے۔‘
اس سوال پر کہ میچ کے بعد یہ تناؤ کتنے دن تک رہتا ہے؟ عالی نے کہا ”بس تھوڑے دن کے لیے رہتا ہے“ لیکن عینی بات کاٹتے ہوئے کہنے لگی ”ایک دو دن کے لیے بس واٹس ایپ پر میں بلاک کر دیتی ہوں“
عینی کا کہنا ہے ”ظاہر ہے اگر برابر میں بیٹھا آدمی ہر تھوڑی دیر بعد اپنی نشست سے اٹھ کر خوشی سے ییس، ییس کہے گا، تو مجھے بتائیں کیسا لگے گا!؟ برا ہی لگے گا نا!“
پہلے پاک بھارت میچ کے دوران بریانی کو دونوں ملکوں کا سانجھا کھانا سمجھ کر پکایا جاتا تھا لیکن عینی کو کچھ عرصے بعد خیال آیا کہ ’پاکستان میچ ہار رہا ہوتا ہے اور یہ بریانی بھی انجوائے کر رہے ہوتے ہیں اس لیے میں نے کہا نہیں، اب سے پیزا آرڈر کیا جائے گا۔‘