بھاری پتھروں کے ڈھیر میں موجود چھوٹے بڑے کنکروں پر ابھی تک خون کے واضح نشانات ظلم، سفاکی اور درندگی کی گواہی دے رہے ہیں
پتھروں کے برابر میں دری پر بیٹھی چار درجن سے زائد کالے برقعوں میں ملبوس خواتین اور کمسن بچیاں بلند آواز میں قرآن شریف پڑھ رہی ہیں
لال دوپٹہ پہنے ایک کمسن بچی خواتین کے ہجوم کے عین بیچ میں سفید رنگ کا ایک بڑا کارڈ اٹھائے کھڑی ہے
اس کارڈ پر لکھا ہے ’اس واقعے پر اہلِ علاقہ افسردہ ہیں۔‘
یہ مناظر کراچی، مچھر کالونی کے بنگالی محلہ، الہٰی مسجد کے سامنے والی گلی کے ہیں، جہاں جمعے کی صبح نجی ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو بچے اغوا کرنے کے الزام میں پتھر مار کر تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا
ہلاک ہونے والوں کی شناخت ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے انجینیئر ایمن جاوید اور نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور اسحاق پنہور کے نام سے ہوئی ہے، جو علاقے میں سگنل نہ آنے کی شکایت پر آئے تھے تاکہ شکایت دور کر سکیں
مچھر کالونی کی سفاک ’جنگل گلی‘ کی اندرونی کہانی
مچھر کالونی میں ہجوم کی جانب سے قتل کئے جانے والے نجی کمپنی کے انجنیئر اور ڈرائیور کے قتل کے بعد یہ جنگل گلی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ وہ جگہ جہاں پولیو کی ٹیمیں، بینک انشورنس کے لوگ تو اپنی جگہ لیکن ڈاکس تھانے کی پولیس بھی نہیں جاتی
اس علاقے میں پولیس کے نہ جانے کہ وجہ یا آنکھیں بند کرنے کی کہانی جب کھلتی ہے تو نئے سوال جنم لیتے ہیں، جس کے جواب بھی تلاش کرنے جائیں تو ایک نیا سوال استقبال کرتا ہے
پولیس ذرائع کے مطابق اس ”جنگل گلی“ سے ڈاکس پولیس تھانے کو پندرہ لاکھ روپے ماہانہ ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے پولیس وہاں نہیں جاتی اور وہاں، ڈفینس، بوٹ بیسن، کلفٹن، ٹاور میں جرائم کرنے والوں کو پناہ ملتی ہے
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جنگل گلی میں رہنے والے منشیات فروشوں کے مختلف علاقوں میں دو سو کے قریب منشیات کے اڈے چلتے ہیں۔ وہ خود جنگل گلی میں رہتے ہیں، جہاں پولیس کی مدد سے انہوں نے اپنا حفاظتی حسار بنایا ہوا ہے
اس حصار بنانے میں ایک پولیس افسر کا بہت بڑا کردار ہے، جس نے اپنی سروس کا آغاز ہی ڈاکس تھانے کی چوکی فشریز چیک پوسٹ کے انچارج سے کیا
اب ڈاکس تھانے کی اصل باگ ڈور سنبھالنے والا پولیس افسر اس کا کرتا دھرتا اور حفاظتی حصار ہے، جس کے لئے ان کو ماہانہ پندرہ لاکھ روپے ملتے ہیں
جنگل گلی کے اس علاقے میں کوئی کرائم نہیں ہوتا، کیونکہ وہ ہے ہی کرمنل کی پناہ گاہ، جہاں کرمنل زیادہ رہتے ہیں وہاں کرائم نہیں ہوتا
وہاں موجود ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ، کرمنل کو تحفظ دینے والے ہوتے ہیں
اس علاقے میں بچوں کے اغوا کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں ہوا، تو پھر وہاں کے لوگوں کو ہوا کیا کہ دو زندہ انسانوں کو تشدد کر کے قتل کر دیا؟
بتایا جاتا ہے کہ آئی جی سندھ نے صوبے اور خاص طور پر کراچی شہر میں موجود پولیس نظام پر نظر رکھنے کے لئے پولیس میں بھرتیاں کیں اور نئے افسران کو ذمہ داری دی ہوئی ہے کہ وہ علاقہ پولیس کو اطلاع دیئے بغیر وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور انہیں رپورٹ کریں
اسی وجہ سے وہاں روایتی پولیس افسروں میں ایک سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے اور انہوں نے کرمنلز کا اطلاع دی ہوئی ہے کہ اب بہت سے معاملات ان کے زیر کنٹرول نہیں، لہٰذا اپنے علاقوں میں مختلف روپ میں آنے والے افراد پر نظر رکھیں
جنگل گلی میں موجود ملزمان اب الرٹ ہو گئے ہیں۔ پولیس تو آتی نہیں، ملزمان کے علاوہ یہاں کوئی رہتا نہیں، جو بھی نیا آئیگا، وہ یہاں سے واپس نہیں جائے گا
اسی صورتحال کا نشانہ نجی کمپنی کے دو افراد بنے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دو افراد علاقے میں جیسے ہی داخل ہوئے تو مخبروں نے اس علاقے کے ’بادشاہوں‘ کا اطلاع دی۔ لوگوں نے ان دونوں افراد کو محصور کرکے دو گھنٹے تک بٹھا دیا، ان کی تفتیش ہوتی رہی لیکن اس علاقے کے ’بادشاہ‘ نجی کمپنی کے ملازمین کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور مسجد سے اعلان کروایا کہ بچوں کو اغوا کرنے والے پکڑے گئے ہیں۔ حالانکہ اس علاقے سے کبھی بچے اغوا ہی نہیں ہوئے کہ لوگ اس حد تک غصے میں آجائیں اور زندہ انسان کو تشدد کرکے قتل کر دیں
اس واقعے کی تفتیش پولیس کر رہی ہے لیکن اس میں وہ افسر بھی شامل ہے، جو اصل میں اس علاقے کا ڈان ہے
لیکن ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کے آنے کے بعد اس کے اسکریو کچھ ڈھیلے ہو گئے ہیں۔ وہ یہ سمجھ گیا ہے کہ ان پرنظر رکھی جا رہی ہے اور گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ تفتیش ہو رہی ہے، یہ کہانی ابھی مزید کھلتی جائے گی
ملزمان کے ساتھ ساتھ واقعے پر احتجاج کرنے والوں پر بھی مقدمہ
ڈاکس پولیس کی جانب سے اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار چار ملازمین کو شناخت پریڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ ضلع کراچی غربی میں پیش کیا گیا۔ واقعے کے دو عینی شاہدین نے چاروں ملزمان کو شناخت کر لیا ہے
عینی شاہدین نے عدالت کو بتایا کہ ان ملزمان نے ٹیلی کام ملازمین پر اینٹوں اور پتھروں سے تشدد کیا تھا۔ ایک شاہد کے مطابق انہوں نے مقتولین کو بچانے کی کوشش کی تو ملزمان نے ان کو بھی پتھر مار کر زخمی کر دیا۔ عدالت نے شناختی پریڈ کی کارروائی کو مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا ہے
جبکہ پولیس نے مقدمے میں گرفتار مزید بارہ ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، جہاں کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کو پہلے سے گرفتار ملزمان سے تفتیش سمیت وڈیوز کی مدد سے شناخت کر کے گرفتار کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر مقدمے میں گرفتار ملزمان کی تعداد سولہ ہو گئی ہے
مقدمے میں گیارہ نامزد اور ڈھائی سو نامعلوم ملزمان مفرور ہیں۔ ملزمان سے تفتیش اور سی آر او کے لیے جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو سات نومبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس تحویل میں دے دیا ہے
دوسری جانب پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان بنگالی زبان بولنے والے ہیں، جن میں کچھ افراد کا قومی شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا، اس لیے نادرا میں ان کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ اس لیے پولیس ان ملزمان پر فارن ایکٹ کی دفعات کے اندراج پر بھی غور کر رہی ہے
دوسری جانب بہیمانہ قتل کے واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے
مچھرکالونی واقعے پر کراچی پریس کلب کے باہر دو روز قبل احتجاج کیا گیا تھا، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان شریک تھے
احتجاج کرنے والوں کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’ملزمان‘ نے دو سو کے قریب مظاہرین کو شرپسندی کے لئے اکسانے کی کوشش کی، ملزمان نے مظاہرین کو اکسا کر بلوہ کروانے کی کوشش کی
سرکار کی مدعیت میں درج مقدمے میں ملزمان انعام عباسی، الٰہی بخش بکک، سارنگ جویو، اعجاز سامٹیو، آزاد جتوئی، نظام نورانی، مجید لونڈ اور رشید کھوسو اور دیگر نامعلوم ساتھیوں کو نامزد کیا گیا۔