رات نو یا دس بجے کا وقت، پانی کا تیز ریلا اور گھپ اندھیرے میں ہر طرف پانی کے سیلابی ریلے میں پھنسی ایک ٹریکٹر ٹرالی میں موجود تیرہ افراد اور ان کی بچانے کی تگ و دو میں مصروف لوگوں کی چیخ و پکار۔۔
پانی کا یہ ریلا اتنا تیز تھا کہ کنارے پر کھڑے افراد کے لیے آگے بڑھ کر ٹرالی پر پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ناممکن تھا۔ یہ ریلا ایک ڈیم کے ٹوٹنے سے آیا تھا
اتنے میں پانی اپنی پوری طاقت سے ٹرالی کو بہا کر لے گیا اور اس پر سوار درجن بھر لوگ تنکوں کی مانند اس کے ساتھ ہی بہہ گئے۔ ٹرالی پر سوار افراد میں سے تین ہلاک ہوئے جبکہ باقی کئی کلومیٹر تک بہنے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے
سولہ سالہ معمر خان معمر اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ اسی ٹرالی پر سوار تھے۔ معمر اسی حادثے کی نظر ہو گئے۔۔ وہ مقامی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی تھے
جب بلوچستان میں سیلاب کی دوسری لہر آئی تو یہاں ڈیمز ٹوٹنے کے چند واقعات رپورٹ ہوئے۔ انہی میں سے ایک معمر خان کے گھر کے قریب واقع تھا
معمر کے بھائی محمد عمر نم آنکھوں سے بتاتے ہیں ”میں اپنے بھائی کی موت کے لیے اکثر خود کو قصوروار سمجھتا ہوں۔۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش میں ٹرالی نہ چلاتا۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کاش یہ ڈیم نہ ٹوٹا ہوتا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ ڈیم ٹوٹ گیا ہے۔ میں سمجھا تھوڑا سا پانی ہے، میں ٹریکٹر گزار لوں گا“
محمد عمر دیگر علاقہ مکینوں کی طرح اس تباہی کا ذمہ دار اس ڈیم کو ٹھہراتے ہیں، جس کے ٹوٹنے سے پانی کا ریلا اتنا شدید ہو گیا کہ وہ راستے میں آنے والی ہر شے کو بہا لے گیا
یہیں ان کے انگوروں کے باغات تھے جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اور ان کا خاندان لاکھوں روپے کے قرض تلے دب چکا ہے
لیکن یہ واحد ڈیم ہے نہ ہی یہ واحد خاندان، جو آج جانی اور مالی نقصان کا سامنا کر رہا ہے
سندھ کے بعد حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والے دوسر بڑے صوبے بلوچستان میں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ لاکھوں ایکڑ اراضی اور ہزاروں باغات تباہ ہوئے۔ ان نقصانات کی ایک بڑی وجہ وہ چھوٹے ڈیمز ہیں، جو سیلاب کے دوران ٹوٹ گئے
صوبے کے 23 اضلاع میں بنے یہ ڈیمز مکمل یا جزوی طور پر ٹوٹے اور ان سے نکلنے والے پانی کے تیز ریلے راستے میں آنے والی ہر شے بہا کر لے گئے
سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے میں 169 ڈیمز ٹوٹے جن میں کم از کم 40 ڈیم ایسے ہیں، جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ دیگر ڈیمز میں مختلف نوعیت کے نقصانات ہوئے تاہم ان میں سے بیشتر مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے ہیں۔ ان میں کچھ ڈیمز ایسے بھی ہیں جو ابھی زیرتعمیر تھے یا ان پر کام مختلف وجوہات کی بنا پر تعمیراتی کام رُکا ہوا تھا
دستاویزات کے مطابق ڈیمز ٹوٹنے کے سب سے زیادہ واقعات قلعہ عبداللہ میں ہوئے، جہاں اڑتیس ڈیمز تباہ ہوئے۔ کوئٹہ میں پندرہ چھوٹے ڈیمز ٹوٹے یا ان میں شگاف پڑے جبکہ ضلع خضدار میں یہ تعداد گیارہ ہے
دستاویزات کے مطابق حب، ڈیرہ بگٹی اور بیلا میں نو، نو ڈیمز، کچھی میں سات، چاغی نوشکی، ہرنائی، ژوب اور موسی خیل میں پانچ، پانچ ڈیمز ٹوٹے۔ اسی طرح ضلع خاران واشک اور مستونگ میں چار، چار، کیچ میں تین، کوہلو اور قلات میں دو، دو جبکہ سراب اور ڈکی ڈسٹرکٹ میں سے ہر ایک میں ایک، ایک ڈیم غیر فعال ہوا ہے
دستاویزات کے مطابق ان ڈیمز اور صوبے میں کینال سسٹم کی تعمیر و مرمت کے لیے اندازہ لگایا گیا ہے کہ صوبے کو بائیس ارب روپے درکار ہوں گے اور ان ڈیمز کی دوبارہ تعمیر یا مرمت کا کام مختلف مراحل میں مسلسل جاری رہا تب بھی اس پر تین سے چار سال کی مدت لگ جائے گی۔ یہاں صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ خشک سالی ہے
ڈیم کیوں ناکام ہوتا ہے یا ٹوٹ سکتا ہے؟
ڈیمز کی تمام اقسام کے لیے بین الاقوامی کوڈز ہیں، جو تعین کرتے ہیں کہ کس سائز کے ڈیم کو کس معیار کے حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں کس قسم کے رسک فیکٹرز (خطرات) ہوں گے، جن کا خیال رکھنا ضروری ہے
ڈیمز سے متعلق کام کرنے والے کنسلٹنٹ اور انجنیئر ظفر اقبال وٹو کے مطابق ڈیم کی ناکامی کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:
پہلی وجہ ڈیم کی تعمیر کے دوران ناقص منصوبہ بندی اور کنسٹرکشن ہے۔ اگر ایک ڈیم کا ڈیزائن ٹھیک نہیں یا اس میں مٹیریل درست معیار کا استعمال نہیں ہوا یا تعمیر کے دوران کوالٹی کنٹرول کا خیال نہیں رکھا گیا، یا اگر ڈیم درست طریقے سے بن تو گیا مگر اس کے آپریشن اور مرمت کا خیال نہیں رکھا گیا، اس پر ریگولر چیک نہیں رکھا گیا
دوسری بڑی وجہ گنجائش سے زیادہ پانی آنا ہے۔ ایسی صورت میں اس فالتو پانی کو نکالنے کے لیے سپل وے سٹرکچر بنے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سپل ویز سٹینڈرڈ ڈیزائن کے مطابق نہ ہوں تو یہ ڈیم تباہ ہو سکتا ہے۔ ان سپل ویز کا سائز اور ان کی تعداد کا انحصار ڈیم کے سائز اور وہاں پانی کی گنجائش کے علاوہ پانی کی آمد پر ہے، جس کا ذریعہ بارش یا کچھ اور ہو سکتا ہے۔ اس طرح اگر سپل ویز انڈر ڈیزائن ہیں، یا جس علاقے میں ڈیم بنے وہاں بارشوں یا پانی کی آمد یا اس ڈیم کی تعمیر کے لیے علاقہ موزوں ہونے سے متعلق ڈیٹا ہی دستیاب نہیں تھا، مگر اس کے باوجود وہاں ڈیم بنا دیا گیا تو یہ بھی ڈیم تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے
بلوچستان اور ڈیمز
پاکستان میں سب سے زیادہ ڈیمز بلوچستان میں ہیں۔ پاکستان فلڈ کمیشن کی 2020 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 1007 ڈیمز ہیں جن میں سے 710 بلوچستان میں ہیں، ان میں بھی 65 ایسے ہیں جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا جبکہ ڈیڑھ سو کے قریب بڑے ڈیمز ہیں۔ سندھ میں 127، پنجاب 67 جبکہ خیبر پختونخوا میں 65 چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں
بلوچستان میں اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہے۔ سالہا سال خشک سالی کا شکار رہنے والے صوبے میں پانی کی ضروریات بڑی حد تک انھی چھوٹے ڈیموں کی مدد سے پوری کی جاتی ہیں۔ ان میں عام طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جس کا بڑا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں
تاہم صوبے کی اہم ترین ضرورت پوری کرنے کے لیے بنائے جانے والے ان ڈیموں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور ان کی تعمیر میں سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال عام ہے
صوبے میں ڈیمز کی تجویز اور پی سی ون (ابتدائی پلاننگ) کے وقت بارشوں سے متعلق پیشنگوئی کرنے کے لیے ریسرچ کی جاتی ہے نہ ہی ایسا کوئی نظام موجود ہے جبکہ دیگر صوبوں کے برعکس اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز ہونے کے باوجود یہاں ان کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے
بلوچستان میں ڈیمز کی نگرانی کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ موجود نہیں اور یہ کام بھی صوبے کا محکمہ آبپاشی سرانجام دے رہا ہے جس کے کندھوں پر صوبے میں پانی سے جڑی ہر ذمہ داری ہے، چاہے وہ سیلاب ہو، ندی نالے ہوں، کینال سسٹم ہو یا پھر چھوٹے بڑے ڈیمز
سیکرٹری اریگیشن ڈپارٹمنٹ محمد عبدالفتح کے مطابق اس سال بارشیں کئی گنا زیادہ ہوئیں، جن سے چھوٹے ڈیمز تباہ ہوئے۔ تاہم یہ تعداد ایک یا دو فیصد ہے، ہم نے بہت سے ڈیمز بچائے اور بہت سے علاقے ڈوبنے سے بھی بچائے ہیں
اس سوال پر کہ کیا ڈیمز کی تعمیر کے دوران ناقص مٹیریل استعمال ہوا، دوران تعمیر انسپیکشن نہیں کی گئی اور ڈیزائن کے مطابق تعمیر نہیں ہوئی، سیکریٹری اریگیشن نے کہا ’اس امکان کو، انسانی غلطی کو، نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومت اس ضمن میں تحقیقات کر رہی ہے
ڈیمز کا ٹوٹنا: ٹھیکیدار کیا کہتے ہیں؟
محکمہ آبپاشی تو ڈیمز ٹوٹنے کا ذمہ دار گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ بارشوں کو ٹھہرا رہا تھا مگر ان ڈیمز کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار کچھ اور کہہ رہے ہیں
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار عبدالصبور، جو صوبے میں مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ڈیمز اور سڑکوں کے ٹھیکوں پر کام کرتے ہیں۔ وہ ان الزامات کو رد کرتے ہیں کہ ڈیمز ٹوٹنے کی وجہ ٹھیکیدار کی غلطی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ٹھیکیدار کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہاں ٹھیکے بکتے ہیں۔ ایک اچھے ٹھیکیدار کو تو کام دیا جاتا ہے نہ ہی وقت پر رقم دی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر‘ ٹھیکے دیے جاتے ہیں جبکہ ٹھیکیداروں سے کل رقم کا 65 فیصد تک ’کمیشن اور رشوت ‘ کی صورت میں ’سیاستدان اور محکمہ آبپاشی کے اہلکار اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں۔‘
عبدالصبور کاکڑ کے مطابق ’رکن صوبائی اسمبلی حکم دیتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ایک کروڑ روپے کا ڈیم تعمیر کروایا جائے۔ اب اگر محکمے میں پی سی ون پر کام کرنے والا کوئی بندہ یہ کہہ دے کہ ایک کروڑ میں ڈیم نہیں بن سکتا تو اس کا تبادلہ کرا دیا جائے گا۔‘
’یہاں اتنی مضبوط لابی ہے کہ ایک سیکریٹری تک کا تبادلہ کرا دیا جاتا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک کروڑ روپے میں پچاس فٹ کا ڈیم بن سکتا ہے؟ یہاں بنایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے منصوبے کا پی سی ون بنے اور پھر اس کے مطابق منصوبے کے لیے رقم مختص ہو۔ لیکن بلوچستان میں پہلے رقم مختص کی جاتی ہے۔ اس میں سے 65 فیصد مختلف لوگوں کو کمیشن میں چلا جاتا ہے۔ اب وہ ٹھیکیدار پینتیس لاکھ میں ڈیم بھی بنائے گا اور اپنا منافع بھی نکالے گا۔ پھر ڈیم تو ٹوٹے گا۔‘
عبدالصبور کاکڑ وہ واحد شخص نہیں، جو ڈیمز کے ٹھیکوں میں کرپشن اور سیاسی اثرورسوخ کی بات کرتے ہیں
خیال رہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ان الزامات کی تحقیق کے لیے قائم کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر دی ہے اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس رپورٹ میں بھی ان تمام الزامات کی تصدیق کی گئی ہے
بلوچستان میں حکام صوبے میں ڈیمز کے ٹوٹنے سے ہونے والے نقصان کو ’معمولی‘ قرار دے رہے ہیں مگر جن کا مالی نقصان ہوا، انہیں یہ نقصان پورا کرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی
ڈیمز ٹوٹنے سے نکلنے والا پانی انتہائی تیز رفتار سے آگے بڑھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا مقابلہ انسانی بس کا کام نہیں ہے۔ حکومت، ٹھیکیدار، انجینیئرز اور ماہرین ڈیمز ٹوٹنے کی کچھ بھی تاویلیں اور وجوہات بتاتے رہیں، ان میں سے کچھ بھی توبہ کاکڑی کے حاجی عبدالرحیم کا غم کم نہیں کر سکتیں
حاجی عبدالرحیم کے دو جواں سال بیٹے اسی غیژ ڈیم کے پانی میں بہہ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب ان کا کچا گھر ویران پڑا ہے اور انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اب کس سے انصاف مانگا جائے
وہ بتاتے ہیں ’ہم اپنے باغ کی طرف بھاگے کہ جو سامان بچا ہے اس کو ایک طرف کر دیں۔ ہمیں یہ خبر نہیں تھی کہ غیژ ڈیم ٹوٹ گیا ہے۔ اتنے میں ایک بڑا ریلا آیا اور میرا ایک بیٹا ڈوب گیا۔ دوسرے بیٹے نے اسے بچانے کے لیے چھلانگ لگا دی، وہ بھی ڈوب گیا۔ کئی گھنٹے بعد ان کی لاشیں ملیں۔ میری تو دنیا اُجڑ گئی ہے۔ اور سب نقصان اس ڈیم کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ کچی مٹی سے ڈیم بناتے ہیں۔ وہاں افغان بارڈر تک سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ لوگوں کے تو صرف باغ اجڑے ہیں، میرا تو گھر برباد ہو گیا ہے۔‘
ان کا بیٹا اس کلی (گاؤں) میں ایک سو کے قریب بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ ایسے علاقے جہاں بچوں کے لیے سکول تک موجود نہیں ہیں، لوگ ڈیمز کو ایک بڑی سہولت سمجھتے تھے جن سے کم از کم انہیں باغات اُگانے اور کاروبار کرنے کا موقع ملا تھا۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہاں لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ڈیم نہیں بنانے دیں گے
عبدالرحیم نے بتایا ’یہ میں اکیلا نہیں کہتا، یہاں کا بچہ بچہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اگر ایسے ڈیمز بنانے ہیں تو ہمیں ان ڈیموں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نہیں بنانے دیں گے۔‘
دوسری طرف ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان ڈیمز کی تعمیر اور دیکھ بھال میں کوتاہیوں سے خشک سالی کے شکار اس صوبے میں پانی اور آبپاشی کا بحران آئندہ برس بدتر ہو جائے گا، اور ایک بار پھر پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے میں عام شہری ان کوتاہیوں کی قیمت ادا کریں گے
ڈیمز ٹوٹنے کے بارے میں سرکاری رپورٹ
بلوچستان میں رواں سال مون سون بارشوں کے دوران ڈیموں کے ٹوٹنے سے متعلق انکوائری کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں
وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں 27 ڈیمز ٹوٹے، جبکہ 93 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، جس سے صوبے کو پانچ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا
رپورٹ میں ڈیموں کی تعمیر کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس عمل کے دوران بدعنوانی کی گئی، ڈیموں کے مقامات کا انتخاب سیاسی بنیادوں پر کیا گیا۔ رپورٹ میں محکمہ آب پاشی کے افسران اور کنلسٹس کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے
واضح رہے کہ بلوچستان میں جولائی سے ستمبر کے دوران ہونے والی مون سون کی ریکارڈ بارشوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ڈیموں کو نقصان پہنچا تھا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔ اس پر سیاسی اور عوامی سطح پر ڈیموں کی تعمیر کو ناقص قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا
اس مطالبے پر بلوچستان حکومت نے وزیراعلٰی معائنہ ٹیم (سی ایم آئی ٹی) کے چیئرمین عبدالصبور کاکڑ کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی
رپورٹ کے حوالے سے سی ایم آئی ٹی کے ذرائع نے بتایا ”معائنہ ٹیم کے ممبران نے صوبے کے مختلف ڈویژن میں ڈیموں کا دورہ کر کے تحقیقات کیں اور تقریباً دو ماہ بعد اپنی رپورٹ مکمل کر کے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ارسال کردی ہے“
اس رپورٹ میں ڈیموں کی تعمیر کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے ٹوٹنے کی وجوہات بھی بتائی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں27 ڈیمز مکمل طور پر ٹوٹے، جبکہ 93 کو جزوی نقصان پہنچا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر میں بدعنوانی کی گئی، تعمیر ناقص اور اس کے ڈیزائن میں تکنیکی غلطیاں تھیں، جبکہ ڈیموں کی تعمیر میں موسمیاتی تبدیلوں کی وارننگ کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ بعض ڈیموں کے لیے مقام کا انتخاب سیاسی مداخلت اور کمیونٹی کے دباؤ پر کیا گیا
رپورٹ میں محکمہ آب پاشی کے افسران اور کنسلٹنسی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ڈیم کا ڈیزائن ایسا تیار کیا گیا تھا، جو زیادہ بارشیں نہیں سہہ سکتے تھے، اسی طرح باقاعدہ نگرانی بھی نہیں کی گئی
رپورٹ میں ڈیموں کی تعمیر نو کے اخراجات کا تخمینہ پانچ ارب روپے سے زائد کا لگایا گیا ہے
تحقیقاتی کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ آئندہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر معیاری کی جائے اور اس سلسلے میں بڑے اور معتبر اداروں کی خدمات لی جائیں۔