ملیر ایکسپریس وے: ’ہمارے گھروں پر لگے سُرخ نشان ہمارے لیے موت کا پیغام ہیں‘

شبینہ فراز

’ہمارے گھر کی دیواروں پر لگے یہ سُرخ نشانات ہمارے لیے موت کا پیغام ہیں۔ ہمارے گھر چھین لیے جائیں گے تو ہم کہاں جائیں گے، کیا کریں گے؟‘

ہمارے اردگرد مقامی لوگوں کا ہجوم تھا جو اپنے گھر کی دیواروں پر لگائے گئے سُرخ نشانات دکھا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سڑک نہیں بلکہ ایک طوفان ہے جو ان کے گھروں کو ڈھاتا ہوا گزرے گا

یہ کراچی کے مشرقی ضلع ملیر کی دیہی آبادی کے رہائشی ہیں، جو حکومت سندھ کے حالیہ منصوبے ’ملیر ایکسپریس وے‘ کی تعمیر سے خوفزدہ تھے

یہ کراچی کے قدیم باشندے ہیں، جو صدیوں سے یہیں آباد تھے۔ وہاں ان کے گھر اور کھیتی باڑی کی زرعی زمینیں بھی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ سڑک ان کی قیمتی زرعی زمینیں بھی کھا جائے گی

39 کلومیٹر طویل سڑک ملیر ایکسپریس وے کا افتتاح چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020 میں کیا تھا۔ اس پر تقریباً 160 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ سندھ حکومت کے لیے یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک اہم شہری انفراسٹرکچر کا منصوبہ ہے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ٹریفک کی روانی بہتر ہوگی

منصوبے کی تفصیلات کے مطابق یہ سڑک کراچی کے علاقے کورنگی کے جام صادق پل سے شروع ہوگی اور ایم نائن کاٹھور پل اس کا نقطۂ اختتام ہو گا۔ اسے 30 ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے

 

تصویر کا ذریعہ: سلمان بلوچ

اہم بات یہ ہے کہ یہ سڑک کراچی کے پوش علاقوں یعنی ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے)، ڈیفنس ہاﺅسنگ سٹی اور بحریہ ٹاﺅن کو آپس میں جوڑے گی۔ اس منصوبے پر پہلا الزام بھی یہی ہے کہ اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ یہ اشرافیہ کی آبادیوں کو آپس میں ملانے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے

منصوبے کے حوالے سے مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ بہت سے ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی احتجاج کر رہی ہیں جن میں کراچی بچاﺅ تحریک، اِنڈیجینس رائٹس الائنس اور کراچی ماحولیاتی تحفظ موومنٹ وغیرہ بھی شامل ہیں

ان کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ غریب لوگوں کے گھر، ذریعہ معاش اور کراچی کے ماحول کے لیے ایک ڈراﺅنا خواب ثابت ہو گا اور ترقی کے نام پر یہ تباہی صرف چند ہزار افراد کو سہولت فراہم کرے گی

سیّد ہاشمی ریفرنس لائبریری

اس سڑک کے راستے میں ’سیّد ہاشمی ریفرنس لائبریری‘ بھی آ رہی ہے۔ چار دہائیوں قبل قائم کی گئی یہ لائبریری بلوچ کلچر کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتی ہے

دنیا بھر میں بلوچ کلچر کے حوالے سے جو بھی لٹریچر پایا جاتا ہے، اسے یہاں جمع کر دیا گیا ہے۔ ہزاروں طالبعلم اور محقق اپنے کام کے لیے اس لائبریری کو بطور ریفرنس استعمال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک درجن سے زیادہ لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں

مقامی لوگ جو ہم سے ملاقات کے لیے اس لائبریری میں جمع تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس لائبریری کا خاتمہ بلوچ کلچر کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔

تصویر کا ذریعہ: سلمان بلوچ

 

ملیر، کراچی کا آکسیجن حب!

آج بھی ملیر کے دیہی علاقے سرسبز کھیتوں اور باغات کے باعث کراچی کے کنکریٹ کے جنگل میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ حدّ نگاہ تک پھیلے کھیت میں سنہری گندم کاٹی جا رہی تھی تو کہیں کٹی ہوئی گندم سے مشینوں کے ذریعے دانہ الگ کیا جا رہا تھا

کچھ کھیتوں میں گھاس اور مختلف سبزیاں اُگی ہوئی تھیں۔ کیلے، پپیتے، شریفے کے علاوہ کھجور اور ناریل کے بلند و بالا درختوں پر مشتمل گھنے باغات، ملیر ندی سے نکلتی چھوٹی چھوٹی نہریں، درمیان میں کنوئیں اور ٹیوب ویل سے نکلتا میٹھا پانی، فضا میں گونجتے سینکڑوں پرندوں کی چہچہاہٹ۔۔۔

بلاشبہ دیکھنے والوں کے لیے یہ منظر بہت خوش کُن ہے لیکن یہاں کے لوگ خوش نہیں اور ان کی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں آسانی سے دیکھی جا سکتی تھیں۔ انھیں ڈر ہے کہ عنقریب یہ سب تباہ ہو جائے گا

کراچی اپنی نوعیت کا منفرد شہر ہے، جس نے وقت کے ساتھ ساتھ خوب تر سے بدتر کا سفر طے کیا ہے۔ یہ وہی کراچی ہے جہاں کچھ دہائی قبل اس کی سڑکیں روزانہ دھلا کرتی تھیں۔ سڑک کنارے بلند و بالا درخت جھومتے رہتے۔ گھروں کے آنگن پھل دار درختوں اور سبزیوں سے ہرے بھرے رہتے

شہر سے گزرتی دو ندیاں ملیر اور لیاری برساتی پانی سے بھر کے چلتیں۔ شہر میں کئی جھیلیں تھیں اور تیز سمندری پروائی اس شہر کا خاصہ تھی جو اس شہر کے موسموں کو معتدل رکھتی۔ جون جولائی میں اس کا موسم مری جیسا ہو جاتا، کبھی کالے بادل تو کبھی بوندا باندی

اب یہی کراچی ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کی شدید لپیٹ میں ہے اور قدرتی آفات کا آسان ہدف بن چکا ہے۔ سنہ 2020ع کی قیامت خیز بارشیں، جس سے اربن فلڈ میں پورا شہر پانی میں گویا غرقاب ہو گیا اور اربوں کا نقصان ہو گیا

اس سے قبل سنہ 2015ع کی ہیٹ ویو بھی کراچی والوں کے لیے کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں تھی۔ شہر کا درجۂ حرارت اتنا بڑھا کہ شہر کے گنجان علاقے ’ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ‘ کا شکار ہو کر گویا بھٹی بن گئے۔ اس قیامت خیز گرمی میں ہزاروں لوگ اپنی جان سے گئے اور ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔

تصویر کا ذریعہ: سلمان بلوچ

 

اس قیامت صغریٰ کے بعد کراچی کے لوگوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ سبزہ اُگانے اور درخت لگانے پر مرکوز ہوئی تاکہ اس شہر کا ماحول بہتر کیا جاسکے مگر آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا منصوبہ سامنے آتا ہے، جو اس شہر کو مزید کنکریٹ کا جنگل بنانے کے درپے ہوتا ہے

’ملیر ایکسپریس وے‘ بھی ایک ایسا ہی منصوبہ سمجھا جا رہا ہے جو ملیر کی سرسبز زرعی زمینیں اور باغات اجاڑنے کا سبب بنے گا۔ دوسرے لفظوں میں کراچی والوں کی آکسیجن کا ایک بڑا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ کراچی شہر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے مختلف خطرات سے دوچار ہے، جس میں درجۂ حرارت کے اضافے کے علاوہ سمندر کی سطح کا بڑھنا، ساحلوں کا کٹاﺅ اور تیز بارشوں جیسے خطرات شامل ہیں

کراچی کی کروڑوں کی آبادی کے لیے سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ تر حصہ ملیر کے کھیتوں اور باغات ہی سے فراہم ہوتا ہے

اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ ملیر ضلع سے گزرے گا اور شہریوں کے ساتھ ساتھ ماہرین کے احتجاج کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔ کراچی کے ملیر ضلع کو ’کراچی کا آکسیجن حب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سرسبز ضلع میں کراچی کے قدیم ترین سندھی اور بلوچ باشندے آباد ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے

یہ بھی پڑھیں :ملیر ایکسپریس وے: ملیر کے عوام نے EIA کو مسترد کردیا، حکام سماعت ادھوری چھوڑ کر چلے گئے

یہ کسان زیادہ تر اپنے چھوٹے فارمز پر موسمی فصلیں اُگاتے اور بیچتے ہیں۔ یہیں سے شہر کو تازہ پھل اور سبزیاں فراہم ہوتی ہیں اور یہ شہر کے ’آکسیجن حب‘ کا کام کر رہا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سڑک کئی قدیم گوٹھوں سے گزرے گی اور وہاں کے مکینوں کو بے دخل کر دے گی۔ یوں ایک سرسبز علاقہ دھیرے دھیرے بنجر ہو جائے گا

 

تصویر کا ذریعہ: سلمان بلوچ

ایک مقامی رضا کار اور صحافی بشیر بلوچ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے ماحولیاتی جائزے یعنی انوائرنمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ (EIA) کے مطابق منصوبے کی راہ میں 24 گوٹھ اور 135 ایکڑ زرعی زمین آ رہی ہے اور ان پر کھڑی فصلیں موجود ہیں۔

ان کے مطابق سڑک کی چوڑائی فراہم کردہ تفصیل کے مطابق 388 فٹ یا 100 میٹر ہو گی جو یقیناً ندی کے پاٹ کو بھی متاثر کرے گی اور جب کبھی تیز بارشیں ہو گئیں تو ندی کا پانی اردگرد کی آبادیوں کو ڈبو سکتا ہے۔ سنہ 2020 کے اربن فلڈز میں یہاں سے چار فٹ بلند پانی کا ریلا گزرا تھا۔

ایک مقامی زمیندار محمّد اسلم جن کی 65 ایکڑ زرعی زمین ہے، کا کہنا ہے کہ سڑک کے درمیان ان کی زمینیں بھی آ رہی ہیں اور سڑک کے دوسری طرف جو زمین بچ بھی جائے گی تو وہ بھی کسی کام کی نہیں رہے گی کیونکہ بچے ہوئے حصے تک پانی کیسے پہنچ پائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں دی گئی کہ گھر اور زمینوں کے عوض کیا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ اسلم صاحب کا کہنا تھا کہ ایک ایکڑ زمین کی قیمت کروڑوں میں ہے جبکہ 122 گز کا رہائشی پلاٹ 60 سے70 لاکھ کا ہے۔

عالمی تحفظ یافتہ جنگلی حیات

سلمان بلوچ معروف فوٹوگرافر اور برڈ واچر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملیر کا یہ علاقہ سرسبز کھیتوں، باغات اور آبی ذخائر کی وجہ سے جنگلی حیات سے مالا مال ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ فوٹوگرافی کے لیے مسلسل ان علاقوں میں گھومتے رہتے ہیں، صرف میمن گوٹھ چیک ڈیم کے پاس انھوں نے مقامی اور نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں کی 176 انواع ریکارڈ کی ہیں۔ 73 اقسام کی تتلیاں یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ممالیہ کی 10 اقسام یہاں موجود ہیں جن میں گولڈن جیکال اور لکڑ بگھا بھی شامل ہیں۔

یہ جانور اور پرندے تعمیراتی سرگرمیاں، سیمنٹ بجری کی آلودگی اور شور برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق پرندے یہ جگہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوں گے۔

خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے بہت سی انواع ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این کی خطرات سے دوچار ریڈ لسٹ میں شامل ہیں جن کی بے گھری کا خطرہ موجود ہے۔ یہ انواع بین الاقوامی تحفظ یافتہ ہیں اور پاکستان بہت سے معاہدوں کی رو سے ان کی حفاظت کا پابند ہے۔

تصویر کا ذریعہ: سلمان بلوچ
تصویر کا ذریعہ: سلمان بلوچ

 

کیا ٹریفک جام کم ہوسکے گا؟

بہت سے ماہرین نے اس منصوبے پر تبصرے سے گریز کیا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سڑک پوش علاقوں یعنی ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاﺅن اور ڈی ایچ اے سٹی کو ملائے گی۔

ماحولیاتی ماہرین سوال کرتے ہیں کہ اس سڑک سے عوام کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس پر پبلک ٹرانسپورٹ تو چلے گی نہیں اور جو اس سڑک پر سفر کریں گے وہ گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ شہر کے وہ علاقے جہاں ٹریفک گنجان ہوتی ہے ان کا اس سڑک سے کوئی تعلق نہیں۔

ایکولوجسٹ محمد رفیع الحق کا کہنا ہے کہ اس سے سفر کا وقت کم ہوگا۔ ’جو سفر پہلے 45 منٹ میں طے ہوتا تھا وہ اب 20 منٹ میں طے ہو سکے گا تو ظاہر ہے فوسل فیول کم استعمال ہوگا اور فضائی آلودگی بھی کم ہوگی۔‘

 

تصویر کا ذریعہ: احمد شبیر

قوانین کیا کہتے ہیں؟

محمد توحید کراچی اربن لیب سے وابستہ اور ماحولیاتی اثرات سے متعلق جائزوں کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے میں بہت سے سقم یا پُراسراریت موجود ہے۔

’بظاہر یہ حکومت سندھ کا پروجیکٹ ہے لیکن کسی ڈونر کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکا ’ملیر ایکسپریس وے پرائیویٹ لمٹڈ‘ نامی کمپنی کو دیا گیا، جس کے حوالے سے مزید کوئی تفصیل دستیاب نہیں۔‘

ماحولیاتی قوانین یعنی پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 اور سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے مطابق تمام بڑے منصوبوں کا ماحولیاتی جائزہ اور ای آئی اے پر عوامی مشاورت ضروری ہے۔

اس منصوبے پر 800 صفحات کی ای آئی اے رپورٹ پر عوامی مشاورت میں مقامی لوگوں نے اس پر بہت اعتراضات کیے تھے۔

قانون کے مطابق جب تک ای آئی اے سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سے منظور نہیں کروایا جاتا تب تک اس منصوبے پر کام نہیں شروع کیا جا سکتا تاہم محمد توحید کے مطابق کام شروع ہو چکا ہے۔

’سائٹ سے کچرا اٹھا لیا گیا ہے اور سڑک کی لیولنگ کا کام بھی جاری ہے۔ سائٹ پر ہیوی مشینری دیکھی جاسکتی ہے۔‘

 

تصویر کا ذریعہ: محمد توحید

’سائٹ پر کام شروع نہیں کیا، صرف کچرا اٹھایا‘

ای ایم سی کے سیّد عمر عارف، جن کی کمپنی نے ملیر ایکسپریس وے کا ای آئی اے (ماحولیاتی جائزہ) انجام دیا، کا کہنا ہے کہ گھروں پر جو نشانات لگائے گئے ہیں، وہ سروے کی ایک تکنیک ہے اور اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ گھر گرائے جائیں گے

ان کا کہنا ہے کہ ’اب ہم نے منصوبے کو بہتر کیا اور اب سڑک کے راستے میں صرف آٹھ سے 10 گھر آ رہے ہیں۔ ای آئی اے چونکہ ابھی تک منظور نہیں ہوائ اس لیے ہم نے ابھی سائٹ پر کوئی کام شروع نہیں کیا بلکہ صرف کچرا اٹھایا۔‘

جنگلی حیات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سندھ وائلڈ لائف والوں سے کنفرم کیا ہے، اس علاقے میں اتنی جنگلی حیات نہیں پائی جاتی۔‘

اگر یہ منصوبہ اتنا ہی کم نقصان دہ ہے تو لوگ کیوں اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں؟ ہمارے اس سوال پر عمر عارف کا کہنا تھا کہ لوگ عموما حکومت پر اعتبار نہیں کرتے ہیں۔ ’انھیں حکومت کے منصوبوں پر شک ہی ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ جو بھی زمین لی جائے گی اس کی ادائیگی لینڈ ایکوزیشن کے قانون کے تحت کی جائیں گی۔

جبکہ توحید اور بشیر بلوچ کا کہنا تھا کہ یہاں لوگ صدیوں سے آباد ہیں، لیکن ان کے پاس باقاعدہ مالکانہ کاغذات نہیں ہیں۔

’انھیں کیسے ادائیگی کی جائے گی؟ جو آبادیاں بے دخل ہوں گی ان کا کیا بنے گا کیونکہ پاکستان میں ری سیٹلمنٹ کا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔‘

پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ کے احمد شبر کے مطابق ملیر ایکسپریس وے کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں۔ ’یہ کراچی کے ماحول کو اور تباہ کر دے گا۔ ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو


یہ بھی  پڑھیں: ملیر ایکسپریس وے کے متعلق خدشات (عارف حسن)


ملیر ایکسپریس وے، جہنم کی شاہراہ: جس کی قیمت ملیر کو چکانی پڑے گی

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close