فرانس میں داخلی سلامتی کے لیے بنائے گئے قوانین کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد صورت اختیار کر لی ہے، جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں
تفصیلات کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کو ہزاروں افراد حکومتی قوانین کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جن کا کئی مقامات پر پولیس سے تصادم ہوا
مشتعل مظاہرین نے احتجاج کرنے والوں پر پولیس تشدد کے خلاف مظاہروں میں متعدد دکانوں میں توڑ پھوڑ کی جب کہ کئی گاڑیوں کو بھی نظر آتش کر دیا
فرانس کے خبر رساں ادارے کی جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ پیرس کی مرکزی شاہراہ پر ہزاروں افراد مظاہرے کے لیے نکلے۔ ان میں زیادہ تر افراد سیاہ لباس میں ملبوس تھے اور انہوں نے چہروں پر نقاب پہن رکھا تھا. مظاہرین فرانسیسی پولیس کی پُرتشدد کارروائیوں اور صدر ایمانول میکرون کی سیکیورٹی پالیسی کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے
مظاہرین میں شامل کئی افراد احتجاجی بینر اٹھائے ہوئے تھے اور کئی افراد کے پاس ہتھوڑے بھی تھے، جن سے پولیس کے ساتھ تصادم شروع ہونے کے بعد انہوں نے توڑ پھوڑ کی
مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔ مشتعل مظاہرین نے متعدد دکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور کئی گاڑیوں اور املاک کو نظر آتش کر دیا
واضح رہے کہ حال ہی میں فرانسیسی پارلیمنٹ میں پیش کردہ قانون میں پولیس اہل کاروں کی تصاویر سوشل میڈٰیا پر شیئر کرنے یا پھیلانے سے متعلق پابندیاں متعارف کروائی گئی ہیں اور ان پابندیوں کا مقصد پولیس اہل کاروں کا تحفظ بتایا جاتا ہے۔ فراسیسی صدر ایمانول میکرون کی جانب سے پولیس کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے متعارف کردہ ان قوانین کے خلاف احتجاجی لہر شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
ان قوانین کو شخصی آزادیوں کے خلاف حملہ قرار دینے والے مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر میکخواں اور ان کی حکومت دوسروں کو تو آزادی اظہار کا پرچار کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں اس پر قدغن لگا رہے ہیں
مظاہرین کا کہنا ہے کہ قانون کے نفاذ کی آڑ میں آئے دن پولیس سفاکی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ گزشتہ ماہ ایک سیاہ فام موسیقار مائکل زیکلر کو پولیس نے نسلی منافرت اور تشدد کا نشانہ بنایا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج عام ہونے کے بعد پولیس کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کی پُرتشدد نئی لہر نے جنم لیا
صدر میکخواں کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف فرانس میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ میکخواں اور ان کی حکومت مسلم آبادی کے خلاف امتیازی کارروائیوں، قانون سازی اور بیان بازی کی وجہ سے پہلے ہی تنقید کی زد میں ہیں۔