پاکستان میں عام خیال یہ ہے کہ آبادی میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، لیکن ڈیموگرافک سروے دو ہزار بیس کے نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں مردوں کی آبادی قریب ایک سو گیارہ ملین جبکہ خواتین کی آبادی قریب ایک سو آٹھ ملین ہے
اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2017ع میں پاکستان کی آبادی دو سو سات اعشاریہ چھ ملین تھی، جو اب بڑھ کر دو سو بیس اعشاریہ بیالیس ملین ہو گئی ہے
پاکستان میں دہشت گردی، لسانی اور قبائلی جھگڑوں، صنعتی اور ٹریفک حادثات سمیت کئی واقعات میں عورتوں کے مقابلے میں مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ منشیات میں بھی ایک بڑی تعداد مردوں کی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے باوجود مذکورہ تحقیق میں مردوں کی تعداد پاکستان میں خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہونے کا دعویٰ سامنے آیا ہے
کچھ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سروے حقیقت کی عکاسی کرتا ہے اور سائنسی حقائق کے قریب ہے جبکہ کچھ ناقدین اس پر شک کا اظہار کرتے ہیں
اس ضمن میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں ”پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دوسرے غریب ملکوں میں حمل ضائع کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں یہ واقعات بہت بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں۔ ممکن ہے پاکستان میں بھی یہ ہو رہے ہوں لیکن مجموعی طور پر یہ سروے سائنسی حقائق کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اگر ایک سو دس لڑکے پیدا ہوتے ہیں، تو تقریباً سو لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لڑکے بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جبکہ بچیوں میں یہ شرح نسبتاً کم ہوتی ہے کیونکہ بچی اپنی ماں کے ہارمونز لے کر آتی ہیں۔ بچے بھی اپنی ماں سے ہارمونز لیتے ہیں لیکن ان کے جب ہارمونز نمو پاتے ہیں، تو اس میں تھوڑا سا وقفہ آتا ہے جبکہ یہ وقفہ لڑکیوں میں نہیں آتا۔‘‘
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے ”زچگی کی پیچیدگیاں خواتین میں شرح اموات بڑھانے کے اسباب میں سے ایک ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ خواتین میں تقریباً 274 خواتین اپنی جان کی بازی زچگی کے دوران ہار جاتی ہیں، جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح کی اموات سری لنکا میں کم ہیں۔ پاکستان کا نمبر افغانستان کے بعد اس خطے میں دوسرا ہے‘‘
ڈاکٹر ٹیپو سلطان کہتے ہیں ”ہمارے ہاں اس کی شرح اس لیے زیادہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوتی ہیں یا ماہر ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کی عدم موجودگی میں روایتی دائیوں یا دوسرے طریقوں سے ہوتی ہیں۔ جبکہ سری لنکا میں یہ اس لیے کم ہے کہ وہاں پر پیدائش بہت بڑی تعداد میں ہسپتالوں میں ہوتی ہیں اور وہاں پر تربیت یافتہ ڈاکٹرز یا میڈیکل اسٹاف کی نگرانی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی طبی ماہر ڈاکٹر نگہت شاہ کہتی ہیں ”زچگی کے دوران خواتین کے ساتھ تین مسائل ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے دوران خواتین کا خون بہت ضائع ہوتا ہے اور اگر اس کا مناسب وقت میں علاج نہ کیا جائے تو اس سے طبی پیچدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح بلڈپریشر کی وجہ سے خواتین کو دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ خواتین کو انفیکشن بھی ہوتا ہے‘‘
ڈاکٹر نگہت شاہ کے مطابق، ”اگر ان معاملات کو مناسب انداز میں نہ دیکھا جائے تو طبی پیچیدگیاں بڑھتی ہیں، جس کی وجہ سے کئی کیسز میں اموات بھی ہوتی ہیں۔ حمل ضائع ہونے کی شرح بھی پاکستان میں دوگنا ہو گئی ہے اور اس سے بھی ممکنہ طور پر طبی پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں‘‘
ڈاکٹر نگہت شاہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ پاکستان میں طفل کشی بڑے پیمانے پر ہے۔ ”جنس کا معلوم کرنا ابتدائی وقتوں میں مشکل ہوتا ہے اور جس وقت اس کا صحیح طریقے سے پتہ چلتا ہے، اس وقت حمل کو ضائع کرنا آسان نہیں ہوتا۔ تو لوگ لڑکے چاہتے ہیں اور اس وقت تک بچے پیدا کرتے رہتے ہیں جب تک لڑکا پیدا نہ ہو جائے‘‘
عورت فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے ”پاکستان میں بھارت کی طرح کوئی ریسرچ نہیں ہوئی کہ وثوق سے کہا جا سکے کہ یہاں طفل کشی ہوئی ہے۔ بھارت میں امرتا سین نے تحقیق کی ہے لیکن یہاں تو کوئی بتاتا ہی نہیں۔ تو طفل کشی کے تو اعداد وشمار نہیں ہیں۔ ہاں سماجی رویوں کی وجہ سے خواتین کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کو مناسب غذا نہیں دی جاتی۔ علاج پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایسی صورتحال میں معمولی بیماری بڑھ کر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔‘‘
دوسری جانب جماعت اسلامی کی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کہتی ہیں ”میرے خیال میں یہ سروے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ ہمیں تو اپنے ارد گرد ہر جگہ لڑکیاں ہی لڑکیاں زیادہ نظر آتی ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد کم ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھارت کی طرح بڑے پیمانے پر طفل کشی بھی نہیں ہے اور یہاں پر بڑے پیمانے پر حمل کو ضائع بھی نہیں کیا جاتا۔ تو مجھے اس بات میں وزن معلوم نہیں ہوتا کہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔‘‘