پشت پر سوار بیٹا (افسانہ)

سلیم سرفراز

شام کے وقت گرنے والی بجلی کے جھٹکے کا اثر اب تک برقرار تھاـ اس تیز جھٹکے سے اس کے وجود کی بنیاد ہی لرز گئی تھی۔ اس کمزور بنیاد کے سہارے وہ کتنی دیر تک استقامت کے ساتھ زمین پر ایستادہ رہ سکتا ہے؟

حسب معمول ٹرین کی چیکنگ کے بعد وہ پلیٹ فارم پر واپس چلا آیا۔ ماربل سلائیڈ کی بنی ہوئی بنچ پر بیٹھ کر اس نے افسردہ نگاہوں سے اطراف کا جائزہ لیا۔ ٹرین کو کلیرنس مل چکی تھی۔ انجن کے آگے کھمبے پر سبز روشنی نظر آنے لگی تھی۔ بیشتر مسافر کمپارٹمنٹوں میں سما چکے تھے۔ ٹرین چل پڑی تو پلیٹ فارم پر ایک اضطرابی ماحول پیدا ہوا۔ وہاں کھڑے رہ جانے والے بقیہ مسافر دوڑے اور کمپارٹمنٹ کی ہینڈل کو تھام کر پائدان پر جھول سے گئے۔

ٹرین آہستہ آہستہ پلیٹ فارم کی حدود سے باہر ہونے لگی۔ رشتہ داروں اور عزیزوں کو وداع کرنے کے لیے آنے والے لوگوں کے ہلتے ہوئے ہاتھ رکے اور وہ لوگ واپسی کے لیے سیڑھی کی جانب بڑھ گئے۔ پلیٹ فارم پر کسی قدر سنّاٹا چھا گیا۔ بوجھل اور مضمحل سا سنّاٹا۔۔

اس نے خالی اور ویران آنکھوں سے پلیٹ فارم کو تکا۔ یہاں اس نے اپنی زندگی کا بیش قیمت وقت گزارا تھا۔ برسوں پہلے والد کی سبکدوشی کے بعد اس کی یہاں خلاصی ہیلپر کی حیثیت سے تقرری ہوئی تھی۔ آج جبکہ اس کی سبکدوشی کو محض چار ماہ باقی رہ گئے تھے، وہ پروموشن پاتا ہوا فٹر بن چکا تھا۔ اسے پلیٹ فارم کی ملازمت پسند تھی۔۔ دلکش اور دلچسپ۔۔۔ یہاں کی گہماگہمی میں وہ گھر کو بھول سا جاتا لیکن آج وہ ایسا نہیں کر پایا۔ گھر کی یاد اسے رہ رہ کر کچوکے لگا رہی تھی۔ وہ گھر جسے آباد اور خوش و خرم رکھنے کے لیے اس نے کتنی تگ ودو کی تھی

اس نے بنچ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں اور بند آنکھوں میں اپنی زندگی کے اچھے دنوں کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ شادی کے ابتدائی ایام، خوبصورت اور وفا شعار بیوی۔۔ ان دنوں لاسٹ نائٹ کی شفٹ والی ڈیوٹی بےحد شاق گزرتی۔ وہ جوڑی دار کی خوشامد کرکے یا اپنے ٹی۔ ایکس۔ آر سے کوئی بہانہ بنا کر دو یا تین بجتے بجتے گھر چلا آتا، جہاں پھولوں کی ایک شاخ آنکھوں پر حملہ آور نیند سے برسرپیکار اس کی منتظر ہوتی۔ جلد ہی اس شاخ پر ایک نازک سا غنچہ پھوٹا تھا اور وہ اس کی خوشبو سے سرشار ہو اٹھا تھا۔

اس نے یاد کیا کہ اے شفٹ والی ڈیوٹی کرکے جب وہ گھر جاتا تو اس کا تین سالہ بیٹا اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا اور فوراً ہی اپنے پسندیدہ کھیل کی فرمائش کر بیٹھتا۔

“پاپا! پاپا! گھولا بنیے۔۔“

وہ ڈیوٹی کا لباس اتارے بغیر اپنے گھٹنوں اور ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا کر گھوڑا بن جاتا اور اس کا بیٹا اس کی پشت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگتا۔ اسے ناکام ہوتے دیکھ وہ ایک ہاتھ زمین سے اٹھا کر اسے سہارا دیتا اور وہ اس کی پشت پر سوار ہوجاتا۔ اس کے شانوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے اس کا بیٹا کہتا ”چل میلے گھولے۔۔ ٹک ٹک ٹک۔۔۔ چل میلے گھولے ٹک ٹک ٹک۔۔۔“

اس کی معصوم اور پیاری آواز سنتے ہی اس کے جسم میں ڈھیر ساری توانائی بھر جاتی اور وہ گھوڑا بنا ہوا کمرے کا چکر لگانے لگتا۔ کافی دیر بعد اس کا بیٹا کمرے کا چکر لگاتے لگاتے جیسے تھک سا جاتا تو اس کی گردن میں اپنے ننھے بازوؤں کو حمائل کرتے ہوئے گہری محبت اور معصومیت سے کہتا ”پاپا! مَل جایئے..“
اور اس کے جسم میں بریک لگ جاتے۔ لمبی اور تھکی ہوئی سانس چھوڑتے ہوئے وہ اپنے ہاتھوں کو آگے کی جانب بڑھاتا اور اپنے پیروں کو آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف سرکاتے ہوئے پیٹ کے بل زمین پر سیدھا لیٹ جاتا۔ بالکل خاموش اور بےحرکت۔۔ اس وقت اسے بےحد راحت محسوس ہوتی۔۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ دیر تک اسی طرح پڑا رہے، لیکن اس کی خاموشی اور بےحرکتی سے اس کا بیٹا جلد ہی اکتا جاتا۔ وہ اس کی پشت سے اتر کر اس کے سر کے پاس آتا اور اس کے چہرے کو پیار سے سہلاتے ہوئے ہمک کر کہتا ”پاپا! زندہ ہوجایئے۔۔“

وہ آنکھیں کھولنے پر مجبور ہوجاتا اور اس کا بیٹا تالیاں بجاتے ہوئے خوشی سے پکار اٹھتا ”پاپا زندہ ہوگئے۔۔ پاپا زندہ ہوگئے۔۔۔“

پھر یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں ہوئی تھیں۔ اس نے اپنی اولادوں کی پرورش و پرداخت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ دوسری بیٹی کی شادی ہوتے ہوتے وہ بالکل تہی دست ہو گیا، لیکن اسے قطعی فکر نہ تھی۔ سبکدوشی کے بعد زندگی گزارنے کے لیے پینشن کی رقم ہی کافی ہوتی، لیکن اس کا بیٹا۔۔۔۔

اس کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ گہرے کرب سے بھر گیا۔ اس کی کس قدر خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے لیکن میٹرک پاس کرنے کے بعد اس نے تعلیمی سلسلہ ہی ترک کر دیا۔ شاید اس کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال آ بسا تھا کہ باپ کی سبکدوشی کے بعد تو اسے ملازمت مل ہی جائے گی اور اتنی تعلیم درجہ سوم میں بھرتی ہونے کے لیے کافی تھی۔ لیکن آدمی جس طرح سوچتا ہے کیا ٹھیک اسی طرح ہو پاتا ہے؟

ریلوے کے محکمے میں سرکاری سرکلر جاری ہوا اور ریٹائرمنٹ کوٹے میں تقرری ہی بند کردی گئی۔ اب صرف کمپنشیشن گراؤنڈ پر ہی تقرری ممکن تھی۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کے بعد ہی اس کا بیٹا شکست خوردہ ہوا تھا اور پھر آہستہ آہستہ یہ شکست خوردگی تلخی و ترشی میں تبدیل ہوتی گئی تھی۔ اب وہ ذرا سی بات پر جھنجھلا اٹھتا ل۔ ماں سے سخت کلامی پر اتر آتا اور اسے اس طرح نظرانداز کرتا، جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔

”کہاں کھوئے ہوئے ہو؟ نائن اپ کے آنے کا اناؤنسمنٹ ہوچکا ہے۔“

اپنے جوڑی دار کی آواز پر وہ چونکاـ اس نے آنکھیں کھولیں اور پلیٹ فارم کو تکاـ ویسا ہی انتشار تھا جیسا کہ ہر ٹرین کی آمد کی اطلاع ہونے پر دکھائی دیتا ہے۔ لوگ اپنے سامان کے ساتھ ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے۔ اس نے سر کے اوپر لٹکی الیکٹرونک گھڑی کو دیکھا، ایک بج کر بارہ منٹ ہورہے تھے۔ خلافِ توقع ٹرین اپنے مقررہ وقت سے پندرہ منٹ قبل ہی آ رہی تھی۔
ٹرینیں تو اکثر لیٹ ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھی کوئی ٹرین وقت سے پہلے بھی پہنچ جاتی۔ ایسی حالت میں پلیٹ فارم پر اترنے والے مسافر خاصے مسرور نظر آتے اور جلد گھر پہنچ جانے کی سرشاری میں باہر نکلنے والی سیڑھی کی جانب تیزی سے لپکتے۔

اس کے قریب بنچ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے دریافت کیا ”نائن اپ کا صحیح وقت کیا ہے؟“

اس نے اس کے پریشان چہرے کو تکتے ہوئے جواب دیا ”ڈیڑھ بجے!“

”پھر بی فور کیوں آرہی ہے؟“ اس نے کسی قدر جھنجھلا کر کہا تو اسے حیرانی ہوئی

”کیوں؟ تمہیں کیا پریشانی ہے؟“

”میرے پتا جی اب تک نہیں آئے۔ انہیں دیر سے آنے کی عادت ہے۔ میں نے اتنی ضد کی لیکن وہ بولے ’تمہیں جلدی ہے تو جاؤ ـ بھلا ٹرین بھی کبھی وقت پر آتی ہے؟‘ اب ان بوڑھوں کو کون سمجھائے کہ کبھی کبھی جلد نہ پہنچنے سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟“

نوجوان کے چہرے سے مترشح خفگی اور برہمی کو دیکھتے ہوئے اسے اپنا بیٹا یاد آیا اور اس کے ساتھ ہی آج شام پیش آنے والا واقعہ بھی، جس نے اسے بےحد دل برداشتہ اور مشتعل کر دیا تھا۔ اس نے تو ہمیشہ اپنے بیٹے کی بہتری اور کامیابی کی خواہش کی تھی، پھر اسے یہ غلط فہمی کیسے ہوگئی کہ اس کی تمام پریشانیوں اور ناکامیوں کا وہی ذمہ دار ہے۔ وہ ایک ایثار پسند اور مخلص فرد تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے سارے لمحے اپنے خاندان کی خوشیاں خریدنے کے لیے قسطوں کی ادائیگی میں ہی صرف کیے تھے۔ آج شام وہ برآمدے میں بیٹھا ہوا اخبار کی سرخیوں پر نگاہیں دوڑا رہا تھا کیونکہ شام کے دھندلکے میں باریک حروف پڑھنے میں نہ آ رہے تھے۔ اس کی بیوی سامنے ٹیبل پر چائے رکھ گئی تھی، جس سے گرم بھاپ نکل رہی تھی۔ اخبار سے دھیان ہٹا کر اس نے چائے کا کپ اٹھایا اور دھیرے سے ہونٹوں تک لے گیا تھا کہ اس کا بیٹا وارد ہوا۔ اس نے کنکھیوں سے اسے برآمدے میں قدم رکھتے ہوئے دیکھا۔ اچھا خاصا خوبرو نوجوان تھا لیکن چہرے پر پھیلی کرختگی کے باعث ساری دلکشی زائل ہونے لگی تھی۔ اسے تکتے ہوئے اس کے اندر محبت اور ہمدردی کی شدید لہر اٹھی۔ نازونعم میں پالے ہوئے بیٹے کے چہرے کے منفی تاثرات اسے قطعی اچھے نہ لگے، لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا؟ وہ تو کبھی اس طرح بےکار آوارہ گردی کرنے پر بھی معترض نہیں ہوا۔ وہ نوجوان اور سمجھدار ہو گیا تھا۔ اسے حالات کا تجزیہ کرکے خود ہی کسی مناسب راہ کا تعین کرنا چاہیئے۔ ریلوے میں ملازمت نہیں ملتی نہ سہی۔۔ اور بھی بہت سارے کام ہیں۔۔ اکثر وہ بیوی سے کہتا ”اسے سمجھاؤ کہ کوئی کام کرے۔ اس طرح بےکار گھومتا رہا تو ذہنی اور جسمانی طور پر ناکارہ ہوکر رہ جائے گا“

وہ بےبسی سے جواب دیتی ”میں تو ہمیشہ کہتی رہتی ہوں لیکن وہ سنتا کب ہے؟ زیادہ اصرار کرنے پر کھیج کر ایک ہی جواب دیتا ہے کہ پاپا تو کام کر ہی رہے ہیں“

اور اس کے کانوں میں برسوں پہلے کی سنی ہوئی تتلاتی آواز گونجنے لگتی ”چل میلے گھولے۔۔ ٹک ٹک ٹک۔۔۔چل میلے گھولے ٹک ٹک ٹک۔۔۔۔“

گھوڑے کی طرح اپنی پشت پر اپنے بیٹے کو بٹھا کر چکر لگاتے رہنے پر اسے کوئی تعرض نہ تھا، لیکن کھیل یہیں تو ختم نہیں ہوتا۔۔

اس کا بیٹا اس کے وجود کو مکمل نظرانداز کرتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا تو اس نے افسردگی سے گہری سانس لی۔ کچھ ہی دیر میں اندر سے اس کے بیٹے کی تیز اور کرخت آواز آنے لگی، وہ اپنی ماں سے کسی بات پر الجھنے لگا تھا۔ کافی دیر تک اس نے تحمل سے کام لیا لیکن اس کی تلخ کلامی حد کو عبور کرنے لگی تو وہ اندر داخل ہونے پر مجبور ہوگیا. اس نے مداخلت کی تو وہ بری طرح برافروختہ ہوکر بولا
”آپ کون ہوتے ہیں بیچ میں بولنے والے؟“

”کیا!؟“ بےعزتی کے شدید احساس نے اسے بری طرح مشتعل کردیا ”میں کون ہوتا ہوں؟ میں تمہارا باپ ہوں باپ…!“

”چھوڑئیے بھی!“ اس نے سینے میں زہریلے تیر چبھونے والے انداز میں کہا ”باپ ایسے ہوتے ہیں۔۔ خود غرض!؟ اگر آپ میرے باپ ہوتے تو اپنی نوکری مجھے نہ دے دیتے؟؟“

وہ غصے کی زیادتی سے لرزتے ہوئے بولا ”تمہیں معلوم نہیں کہ نوکری اب صرف ڈیوٹی اوقات میں مر جانے پر ہی ملتی ہے“

”تو مرجائیے!“ اس نے اتنی لاپرواہی اور سرد مہری سے کہا کہ وہ یک لخت پتھر کی طرح ساکت و جامد ہو کر رہ گیا

پلیٹ فارم پر ٹرین کی آمد سے اس کے خیالات منتشر ہوئے۔ اس نے لوہے کا تار اٹھایا، ٹارچ سنبھالی اور ٹرین کی دوسری سمت جانے کے لیے گارڈ کے ڈبے کی طرف بڑھا۔ آخری سرے پر پہنچ کر اس نے ٹارچ جلائی اور ریل کی پٹریوں پر اتر گیا۔ دوسری طرف جاکر اس نے بوگیوں کے جوائنٹ پر ٹارچ کی روشنی پھینکی اور نوک پر خمیدہ لمبے تار کی مدد سے ویکوم کو کھولا اور پھر آگے بڑھا۔ وہ یکے بعد دیگرے بوگیوں کے ویکوم کو کھولتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ درمیان میں ہی اس کا جوڑی دار اس سے آ ملا، جو مخالف سمت سے یہی عمل کرتا ہوا آرہا تھا۔

”چلو کام ختم ہوا..“ جوڑی دار نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے کہا تو اس پر ایسی نقاہت طاری ہوچکی تھی کہ وہ صرف سر ہلا کر رہ گیا

”ٹرین کھلنے میں ابھی دیر ہے۔ میرا بیٹا بہت بیمار ہے۔ مجھے ٹی ایکس آر سے چھٹی لینی ہے۔ چلو آگے سے پلیٹ فارم پر چڑھتے ہیں۔“

”تم جاؤ، مجھے تکان محسوس ہو رہی ہے۔۔ ٹرین کھلنے کے بعد میں یہیں سے پلیٹ فارم پر چڑھ جاؤں گا“ اس نے اندھیرے میں بوگیوں کے طویل سلسلے کو تکتے ہوئے دھیرے سے کہا تو اس کا جوڑی دار آگے بڑھ گیا

تنہا ہوتے ہی اسے اپنا بیٹا یاد آیا اور وہ ایک بار پھر غم و غصے سے بھر گیا۔ کیا اس کا یہ جارح اور خودپرست رویہ مناسب تھا؟ اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ کب برا سلوک کیا تھا؟ اس کی یاد کے پردے پر وہ سارے لمحات تصویر کی مانند ابھرنے لگے، جو اس نے بیٹے کے ساتھ گزارے تھے۔ وہ لمحات، جن میں اس نے اپنی بےلوث محبت اور شفقت بھرے جذبوں کو اس کے اوپر بےدریغ لٹایا تھا۔ اس کی ذرا سی تکلیف پر وہ بری طرح تڑپ اٹھتا تھا اور اس وقت تک چین نہ لیتا تھا، جب تک کہ اس کے ہونٹوں پر تبسم واپس نہ آجاتا تھا۔ اس نے یاد کیا کہ ایامِ طفلی میں وہ ایک بار سخت بیمار پڑا تھا۔ جانے کون سا مرض تھا کہ ڈاکٹر تشخیص ہی نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کی ناکامی پر اس کا دل بیٹھ سا گیا تھا۔ وہ رات رات بھر جاگ کر اس کی تیمارداری کرتا۔ اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر ایسا مضطرب ہوتا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھ جاتے

اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں جھانکتے ہوئے جاننا چاہا کہ اپنے بیٹے کے لیے اس کے دل میں محبت اور شفقت کا جو دریا کبھی موجزن تھا، کیا وقت کی تمازت نے اسے بالکل خشک کر دیا ہے؟ جلد ہی کہیں دور سے دریا کی لہروں کا شور سنائی دینے لگا۔ آہستہ آہستہ بالکل نامحسوس طریقے سے اس کے دل میں پھیلا ہوا غم و غصے کا غبار چھٹتا گیا اور اس کے اندر سے بیٹے کے لیے مختص محبت کی تیز روشنی ابھر آئی۔ اسے لگا کہ وہ گھوڑا بنا ہوا کمرے کا چکر لگا رہا ہے۔۔ اس کی پشت پر سوار اس کا بیٹا چکر لگاتے لگاتے تھک سا گیا ہے اور اس کی گردن میں بازو حمائل کرتے ہوئے بڑے پیار اور معصومیت سے کہہ رہا ہے ”پاپا! مَل جایئے۔۔۔“

انجن نے آخری سیٹی دی اور ٹرین چلنے کے لیے تیار ہوئی۔۔ اس نے آنکھیں بند کرکے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر اپنے گھٹنوں اور ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا کر گھوڑا بن گیا۔۔ لمبی اور تھکی ہوئی سانس بھرتے ہوئے اس نے ہاتھوں کو آگے بڑھایا اور اپنے پیروں کو آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف سرکاتے ہوئے پیٹ کے بل لائن پر اس طرح لیٹ گیا کہ اس کے جسم کا نصف حصہ ٹرین کے نیچے سما گیا۔۔ ٹرین چل پڑی۔۔۔ یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو آگئے کہ اس بار اس کا بیٹا کبھی نہیں کہے گا

”پاپا! زندہ ہوجایئے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close