ایک تصویر ایک کہانی ۔ 29

گل حسن کلمتی

کراچی جیم خانہ کے سامنے ملازمین کے ساتھ کھڑی یہ درازقد خاتون فلس لوئیس نیپئر لارینس ہیں، جو اپنے لمبے بالوں، سماجی کاموں اور گھڑسواری کے لیے کراچی کے لوگوں میں مشہور تھیں۔ آج کی کہانی اس تصویر میں موجود عورت کی ہے۔

فلس لوئیس لارینس کو گھڑسواری کا شوق تھا، انہوں نے سندھ میں عورتوں کی تعلیم اور صحت کے لیے بہت کام کیا

انہوں نے یہاں لوگوں کے مسائل سمجھنے کے لیے سندھی زبان سیکھی اور سندھی لکھ بھی سکتی تھیں۔ صحت کے حوالہ سے وہ لیڈی ڈفرن اسپتال کے مڈوائفری شعبے سے منسلک رہیں

یہ 30 جون 1912 کے صبح کا وقت تھا۔ لوئیس لارینس اپنے گھر سے اپنی Carriage میں سوار ہو کر نکلیں۔ وہ اکیلی تھیں۔ ان کے کھلے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس دن Carriage کی رفتار معمول سے زیادہ تھی۔ اس میں جتے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز پاس کے بنگلوں کے مکینوں کو سنائی دے رہی تھی۔ وہ صبح کے ان آوازوں سے مانوس تھے۔ پھر اچانک وہ کچھ ہوا، جس نے اس وقت کے کراچی کو سوگوار کر دیا۔

لوئیس لارینس کے لمبے بال Carriage کے پہیوں میں پھنس گئے اور وہ گر گئیں۔ بہت دور تک وہ روڈ پر گھسٹتی چلی گئیں۔ گھوڑا اس وقت تک نہیں رکا جب تک ویل جام نہیں ہوئے۔

اس وقت ان کے شوہر ایچ۔ایس لارینس کراچی کے کلیکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔کہیں ان کا نام ایچ ۔سی لارینس بھی لکھا ہے۔ ان کا پورا نام Henry Staveley Lawrence ہے۔ وہ 1909 سے 1910 اور 1912 سے 1913 تک کراچی کے کلیکٹر رہے ہیں ۔وہ 1931 سے 1933 تک سندھ کے کمشنر بھی رہے۔ اس کے بعد وہ ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔

جب فلس لوئیس کے حادثے کی خبر لارینس کو ملی، وہ، ان کے تین چھوٹے بچے اور کراچی کے بہت سے معززین وہاں پہنچے، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی ، فلس لوئیس لارینس کی روح پرواز کر چکی تھی۔۔

نگار سنیما سے گارڈن تک لارینس روڈ بھی انہی کے نام سے منسوب ہے ، جو اب نشتر روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہینری لارینس نے بمبئی سول سروس کا امتحان پاس کیا وہ مجسٹریٹ اور کلکٹر رہے۔وہ وقتی بمبئی کے گورنر بھے رہے تھے۔ والد کا نام سر جارج ہینری لارینس اور والدہ کا نام مارگریٹ اسٹیولی تھا۔ وہ 20 اکتوبر 1870 کو آئرلینڈ میں پیدا ہوئے تھے۔

ھینری اسٹیولی لارینس نے 1899 کو فلس لوئیس نیپئر سے شادی کی تھی۔ فلس لوئیس 24 اگست 1868 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ، ان کے والد کا نام ایڈورڈ نیپئر اور ماں کا نام مارتھر لوئیس تھا۔ تینتالیس سال کی عمر میں فلس لوئیس حادثے کا شکار ہوئیں

ان کے شوہر ہینری لارینس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی ، جس کی وجہ سے انہوں نے ڈرگ روڈ (اب شاہراہِ فیصل) کے مسیحی قبرستان، جو انگریزوں کے قبرستان کی وجہ سے گورا قبرستان مشہورِ ہے ، بیوی کی یاد میں قبرستان کے ایک کونے میں الگ سے کوٹھی بنوائی اور اس پر سنگ مرمر کی مغل طرز تعمیر کی چوکنڈی بنائی، جس پر فلس لوئیس کے نام کی تختی اور تاریخ وفات 30 جون 1912 درج ہے۔

ان کی یاد میں 1912 میں لیڈی ڈفرن اسپتال میں فلس لوئیس لارینس انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

کچھ سالوں بعد لارینس نے فلس لوئیس کی بہن جین روسمونڈ نیپئر سے شادی کی تھی۔ لارینس 29 جون 1949 کو آکسفورڈ انگلینڈ میں وفات پا گئے ۔ان کی دوسری بیوی فلس لوئیس کی بہن جین روسمونڈ 16 فروری 1976 میں فوت ہوئیں۔

یہ قبرستان، جو 26 ایکٹر پر مشتمل ہے، اس کے لیے 1845 میں یہ زمین الاٹ کی گئی تھی ، جس کی نگرانی اور انتظام کراچی کرسچن سیمٹری بورڈ کے سپرد ہے ۔ یہ دولت مشترکہ کے جنگی قبروں کے کمیشن کی ملکیت ہے ۔اس کے بارے تفصیل کسی اور مضمون میں دیا جائے گا۔

فلس لوئیس کے مقبرے کو لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ کچھ سال پہلے جب میں وہاں گیا تو مقبرے کے دونوں اطراف قبضے ہو چکے تھے، وہاں کے قبضہ گیر آبادی کے لوگ کوڑا کرکٹ مقبرے کے سامنے اور قبرستان کے ایک حصے میں پھینکتے ہیں، جو آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں ۔

اس مقبرے اور قبرستان کا حشر بھی ہم ایسا ہی کرینگے، جو ریڈیو پاکستان کے سامنے بندر روڈ پر پہلے مسیحی قبرستان کے ساتھ کیا تھا۔ 1835 کے اس قبرستان کو 1978 میں ایک کاروباری شخصیت کو الاٹ کیا گیا، جس نے قبریں مسمار کر کے وہاں ایک تجارتی اور رہائشی عمارت تعمیر کی۔ آج کراچی کا یہ قدیم قبرستان تاریخ کے گمشدہ اوراق کا حصہ بن چکا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close