فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (3)

ڈاکٹر اختر علی سید

”جس نظر سے ایک مقامی (محکوم) آبادکار (استعمار گرد) کے رہائشی علاقوں کو دیکھتا ہے یہ نظر، حسد اور جلن میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس نظر سے محکوم کے قبضے کے خواب جھلکتے ہیں۔ یہاں قبضہ سے مراد ہر طرح کا قبضہ ہے۔ یہ محکوم، آباد کار کے گھر میں رہنا اس کی میز پر بیٹھنا چاہتا ہے اور اگر ممکن ہو سکے تو اس کی بیوی کے ساتھ اس کے بستر میں سونا چاہتا ہے۔ ایک محکوم انسان ایک دشمن دار انسان ہے اور یہ بات استعمار گرد اچھی طرح جانتا ہے“ (Fanon، 2004۔ p۔ 5)۔

اس ایک عبارت میں فینون نے محکوم اور استعمار گرد، گو دونوں کی نفسیات بیان کی ہے مگر یہ نفسیات اس سیاست میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے جو استعماریت کے پورے کھیل میں کھیلی جاتی ہے۔ فینون نے نفسیات کا سیاست پر اور سیاست کا نفسیات پر اثر کامیابی سے دکھایا ہے۔ نفسیات اور سیاست کا باہمی تعامل اس قدر وضاحت اور حقیقی زندگی کی مثالوں کے ساتھ کے ساتھ مینونی کے ابتدائی کام کے علاوہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا۔ (گو فینون کے مداح مینونی کو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ تاہم جیسا کہ عرض کیا جا چکا مینونی کے کام کا وہ اعتراف ضروری ہے ہے جس کا وہ وہ مستحق ہے )

ڈیرک ہوک (Derek Hook، 2012، p۔ 17 ) اس کو فینون کی نفسی سیاست ( psychopolitics) کہتا ہے۔ فینون نے استعماریت کے asaraat انفرادی اور گروہی نفسیات دونوں پر واضح کر کے دکھایا Dikhaye hain ہے۔ نفسیاتی عوارض کے مطالعے سے اس نے سیاسی اور سماجی انقلاب کے راستوں کی نشان دہی کی ہے۔ فرائیڈ، رائخ، ایرک فرام اور لاکان کی طرح نفسیاتی عوارض کا مطالعہ فینون کے ہاں صرف ایک کلینکل مطالعہ نہیں ہے۔ بلکہ اس نے اس مطالعے سے انقلاب کے عملی راستے نکالنے کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس نے ہتھیار بکف جنگجوؤں کے ساتھ آزادی کی جنگ ان کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر شانہ بشانہ لڑی ہے۔ اس طرح اس نے اپنے آپ کو اس قابل بنایا کہ وہ نفسیات کی سیاسی اور سیاست کی نفسیاتی قوت کو عملی مثالوں سے واضح کر کے دکھائے۔ استعماریت کی تازہ ترین صورتوں میں سیاست اور نفسیات کا یہ باہمی تعامل اب مزید پیچیدہ اور گمبھیر ہو گیا ہے۔ جسمانی تشدد کے وہ طریقے جو فینون کے زمانے تک رائج تھے وہ اپنی نئی صورتوں میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ ان کی ابتدائی حالتیں سب سے پہلے فینون نے اپنی اس کتاب کے ابتدائی تین ابواب میں بیان کی ہیں۔ تقریباً ستر سال پہلے اس نے استعماریت کے ان اثرات کا جائزہ لیا تھا جو محکوم کی نفسیات کو کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے کنٹرول کرتے ہیں

اس کتاب کا پہلا باب محکوم کی زبان کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کے تعارف ہی میں اس نے لکھ دیا تھا کہ محکوم اصل میں استعمار گرد بننا چاہتا ہے۔ سفید فام استعمار گرد نے غلامی کو اس نفسیاتی حد تک پہنچا دیا ہے۔ (Fanon، 1967۔ p۔ 3)

پہلے باب کی ابتدائی سطور میں فینون محکوم کی زبان کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ زبان ہی ہے جس سے محکوم غیر ( The other) یعنی استعمار گرد کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ یہ بات چیت (زبان) ہی ہے جس کے ذریعے دوسروں کے لیے اپنی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ ایک محکوم کی استعمار گرد بننے کی کوشش کا براہ راست تعلق اس زبان کو اختیار کرنے سے ہے جو استعمار گرد بولتا ہے۔ اس کا یہ جملہ دیکھیے ”انسان جس کے پاس زبان ہوتی ہے وہ اس دنیا پر اختیار حاصل کرتا ہے جس کا بیان اس زبان میں کیا جاتا ہے“ (Fanon، 1961۔ p۔ 9 ) ۔ آپ دنیا بھر میں استعماریت پر لکھے جانے والا لٹریچر، کتابیں، اور تحقیقی مقالات دیکھیے، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان سب کی اکثریت استعمار گرد کی زبانوں یعنی انگریزی اور فرانسیسی میں شائع ہوئی ہیں۔ خود فینون نے فرانسیسی زبان میں لکھا۔ ہندوستان کی subaltern movement ہومی بھابھا، گریندرو شیکھر بوس، اشیش نندی اور ان جیسے بہت سے مصنفین کا کام انگریزی میں لکھا اور شائع کیا گیا ہے

فینون کے مطابق محکوم کی اپنی نظروں میں اس کی شناخت استعمار گرد کی زبان اور ثقافت کے ساتھ موازنے کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ محکومین میں سے وہ جن کو استعماری ممالک کا سفر کرنے، وہاں رہنے اور کام کرنے کے مواقع ملتے ہیں وہ اپنے ہم وطنوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ وہ مقامی زبان بولنا بند کر دیتے ہیں استعمار گرد کی زبان درست تلفظ اور استعمار گرد کے لہجے میں بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ استعماری ممالک کا سفر کرنے والے ہر بات کا جواب بدیشی زبان میں دیتے ہیں۔ اپنے دیس کی زبان نہ سمجھنے اور غلط بولنے سے استعمار گرد کے ساتھ اس کا فاصلہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ فینون ایک نوجوان کا واقعہ بیان کرتا ہے جسے فرانس سے واپسی پر اپنے کھیت میں استعمال ہونے والے ایک اوزار کا نام بھول گیا تھا۔ والد نے جیسے ہی وہ اوزار اس کے پیروں پہ دے مارا اس کی یادداشت واپس آ گئی۔ ہر زبان اور زبان کا ہر لہجہ اصل میں سوچنے اور سمجھنے کا ایک مختلف طریقہ ہے۔ جب ایک محکوم ایک مختلف زبان اور لہجہ اختیار کرتا ہے تو یہ مختلف لب و لہجہ اسے اس گروہ سے دور کر دیتا ہے جس میں اس نے جنم لیا تھا۔ اس لیے فینون یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ محکومین میں احساس کمتری سب سے زیادہ ان کے تعلیم یافتہ طبقات میں پایا جاتا ہے

”سیاہ جلد، سفید نقاب“ بیگانگی کے اس بیان سے شروع ہوتی ہے جو فینون کی نظر میں ایک ذہنی عارضہ ہے۔ اس کا ممکنہ آغاز استعماری زبانوں کے مریضانہ استعمال سے ہوتا ہے جبکہ اس کی آخری کتاب ”افتادگان خاک“ ترک استعماریت ( decolonisation) کے نفسیاتی اسلوب کا خاکہ فراہم کرتی ہے

فینون کے بعد آنے والے مفکرین نے طاقتور (استعمار) کی زبان، اس کے استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے علمی سرمایے کی جانب دارانہ حیثیت کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے۔ یہاں ہماری مراد فرانسیسی فلسفی مشیل فوکو ( Foucault) سے ہے۔ فوکو کے بیان کردہ episteme کے تصور سے مراد ایک خاص وقت اور مقام پر موجود افراد کا وہ ذہنی ڈھانچہ ہے جس سے اس وقت کا تمام علم نہ صرف دریافت ہوتا ہے بلکہ اس خاص وقت اور مقام پر تشکیل پانے والے علمی نظریات کی اساس بھی فراہم کرتا ہے۔ فوکو ہی کا ( discourse) کا تصور اس episteme کے لسانی اظہار کو صورت فراہم کرتا ہے۔ استعمار زدہ معاشروں میں استعماری زبانوں کا چلن اس بات کو کنٹرول کرتا ہے کہ یہ معاشرے کن امور پر سوچ بچار کریں گے اور کن سے اجتناب برتیں گے۔ جن موضوعات پر سوچ و بچار اور گفتگو کو رواج دینا مقصود ہو گا استعمار زدہ معاشرے ان موضوعات پر گفتگو کے لیے اپنی اصطلاحات وضع کریں گے۔ اور ان اصطلاحات کو اپنی سماجی ضروریات کے تحت معنی پہنچائیں گے جبکہ ممنوعہ موضوعات کے لئے ایسا نہیں ہو پائے گا۔ اب کیا یہ اتفاق ہے کہ استعماریت (colonialism) کے مطالعے کے لیے ضروری اصطلاحات کے اردو متبادل کمیاب ہیں۔ colonialism یا تو اسی تلفظ کالونیل ازم کے ساتھ اردو میں لکھا اور بولا جاتا ہے یا اس کے لیے نوآبادیاتی نظام کا ترجمہ استعمال ہوتا ہے۔ اگر اس ترجمہ کو قبول کر لیا جائے تو پھر coloniser، colonized اور decolonisation کا ترجمہ کیا جائے گا۔ استعماریت کے مطالعے کے لیے ضروری اصطلاحات کی کسی زبان میں غیر موجودگی اس زبان کو بولنے والے معاشرے کے افراد اور کلچر میں اس مطالعہ سے اجتناب کی واضح روش کی نشاندہی کرتی ہے

اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب میں محکوم کی استعمار زدہ خواہش ( desire) کا بیان ہے۔ اردو کا لفظ خواہش فوکو کے نظریات کے بیان میں استعمال ہونے والے لفظ desire کو کماحقہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ فوکو کی چار جلدوں پر مشتمل کتاب History of Sexuality میں خواہش کا تصور اور اس پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت کو فرد کی ذات کی بجائے اس کے معاشرے میں موجود طاقت کے ڈھانچے سے جوڑا گیا ہے۔ فینون نے اس کتاب میں خواہش کے اسی جنسی اظہار کو استعمار زدہ معاشرے میں رہنے والے مرد و زن سے جوڑ کر دکھایا ہے۔ حوالہ یہاں بھی طاقت اور جنسی خواہش کا ہے لیکن فینون نے اس معاملے کو صنفی امتیاز سے ماورا لے جاکر دیکھا اور دکھایا ہے۔ ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ کے دوسرے باب میں اپنی ایک ہم وطن خاتون مصنفہ کے ایک ناول ”میں مارٹینیک کی ایک عورت ہوں“ کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تجزیے میں فینون اس احساس کمتری کو ایک نئے زاویے سے بیان کرتا ہے جو محکومین کے لاشعور تک اتر چکا ہے۔ اس سے کمتری کے زیر اثر محکومین کو یہ لگتا ہے کہ جب تک وہ استعمار کی قربت حاصل نہیں کرتے وہ خود کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو پائیں گے چہ جائے کہ استعمار گرد کے لیے۔ یہ ناول اپنے وقت کا ایک مقبول ناول تھا۔ فینون نے تجزیے کے لیے اس ناول کو غالباً اسی لیے منتخب کیا ہو گا کیونکہ محکومین کی نفسیات کے مجموعی تجزیے میں یہ ایک پہلو کو بہت کامیابی سے اجاگر کرتا ہے

یہ ناول مصنفہ کے سفید فام مرد کے لیے غیر مشروط اور پرایثار محبت کو بیان کرتا ہے۔ خاتون جانتی ہے کہ سفید فام مرد اس کو اپنے سے کم تر گردانے گا مگر سفید فام مرد کے ساتھ عورت کی قربت کی خواہش کسی سیاہ فام کے ساتھ ایک صحت مند کی تعلق کی خواہش پر غالب ہے۔ یہ عورت ایک سفید فام کے ساتھ کمتری کا تعلق قائم کرنے کو ایک سیاہ فام کے ساتھ صحت مند تعلق پر ترجیح دیتی ہے۔ سیاہ فام عورت کی خواہش کو فینون ایک مریضانہ انتخاب قرار دیتا ہے۔ ناول کی مصنفہ کا یہ سوچا سمجھا انتخاب فنون کے نزدیک استعماریت کے نفسیاتی اثرات و مضمرات میں سے ایک ہے۔ اینا فرائیڈ (Anna Freud) کی کتاب کے ایک اقتباس کے ذریعے وہ یہ بتلانے کی کوشش کرتا ہے کہ مشکل حالات میں بسا اوقات انا (ego) بہت سے مسائل کو نظر انداز کرتی ہے تاکہ تکلیف سے بچا جا سکے۔ انا کی یہ حکمت عملی اگر مستقل اور مستحکم ہو جائے اور تکلیف اور مشکل صورت حال سے بچنے کے لیے مستقل بنیادوں پر فرار اور انکار کا رویہ اختیار کیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ نفسیاتی نشوونما میں رکاوٹ کی صورت میں نکلے گا۔ (p۔ 35 Fanon، 1967)

فینون ایسی خواتین کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا بلکہ ان کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ تبصرہ بھی کرتا ہے کہ دوسری نسل کے مرد کے ساتھ تعلق رکھنے کی یہ خواہش ذہنی بالیدگی کی بجائے ذہنی پیچیدگی کا پتا دیتی ہے

اس باب میں وہ نفرت کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ نفرت کوئی پیدائشی جذبہ نہیں ہے بلکہ تربیت کے ذریعے اس کی پرداخت کی جاتی ہے۔ سینیگال کے ناولسٹ عبداللہ ساجی ( Abdullah Sadji) کے ناول Nini کے تجزیے میں ایک محکوم عورت اور سفید فام کے تعلق کا ایک دوسرا پہلو بیان کیا گیا ہے۔ ایک دو نسلی خاتون نینی میں سفید فام بننے کی ایک شدید خواہش موجزن ہے۔ ایک سیاہ فام مرد میکٹر اسے بے پناہ چاہتا ہے۔ وہ اس سے شادی کی درخواست کرتا ہے۔ نینی نہ صرف یہ کہ اس کی درخواست بری طرح رد کر دیتی ہے بلکہ پولیس سے درخواست کرتی ہے کہ میکٹر کو وہ اس جرات کی سزا دے۔ فینون کے کاٹ دار جملے ملاحظہ فرمائیے۔ نینی کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ”وہ تقریباً سفید فام تھی“ (p۔ 39 ) ۔ فینون نے نینی کو بار باردوغلی نسل ( Mullato ) کہا ہے۔ انگریزی ادب میں tragic mulatto کی اصطلاح کچھ لوگوں کے خیال میں اسی ناول سے آئی ہے۔ (Mafe، 2007 ) جب کہ میکٹر کے بارے میں اس کا کہنا یہ ہے کہ ”ایک سفید فام روح کو سیاہ فام محبت کی پیشکش کی جرات پر میکٹر کو ضرور معذرت کرنا چاہیے تھی“ (Fanon، 1967۔ p۔ 39 ) ۔ سیاہ فام کا محبت نامہ یقیناً ایک ملاٹو کی توہین ہے۔ ایک بدتمیز اور بے وقوف نیگرو یقیناً اس پر سزا کا مستحق ہے۔ گو میکٹر دفتر میں نینی کا باس ہے مگر صرف اپنی سیاہ رنگت کے سبب اس کے محبت نامے کو نینی توہین سمجھا گیا جو خود بھی پوری طرح سفید فام نہیں ہے بلکہ ملاٹو ہے لیکن خود کو سفید فام سمجھتی ہے۔ نینی کے والدین میں سے ایک سیاہ فام تھا مگر وہ اپنی شناخت صرف سفید فاموں کے ساتھ چاہتی تھی

ان دو ناولوں کے خواتین کرداروں کے ذریعے فینون epidermalization کی اس اصطلاح اور تصور کو واضح کرتا ہے جو جلد کی رنگت سے جڑی نفسیات کے وضاحت کے لیے اس نے وضع کی تھی۔ ان دو ناولوں کے علاوہ فینون حقیقی اور پیشہ ورانہ زندگی سے چند واقعات بھی اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتا ہے

تیسرے باب میں فینون سیاہ فام مردوں کی سفید فام خواتین کے ساتھ قربت کی ”خواہش“ کا تجزیہ کر کے اپنی بات دہراتا ہے کہ سفید فام عورت کی قربت سیاہ فام مرد کو تعارف، شناخت، اور ( سفید فام سماج میں ) بلند مرتبہ عطا کرتی ہے۔ وہ Rene Maran کے ناول A man like any other میں ایک سیاہ فام کردار کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے جس کا نام جین Jean ہے۔ یہ اینٹیلیز (Antilles) کا ایک سیاہ فام مرد ہے جو کئی سالوں سے فرانس میں مقیم ہے۔ اس کو ایک انتہائی لائق مگر حساس اور شرمیلا شخص دکھایا گیا ہے۔ جس کو اس بات کی شدید خواہش ہے کہ وہ اپنے آپ کو فرانسیسیوں کے مساوی ایک مرد ثابت کر کے دکھائے۔ ایک محنتی اور خواب دیکھنے والا انسان۔ اس کے دوست اور ہم کار سب اس کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ جین ایک فرانسیسی خاتون آندرے کے عشق میں مبتلا ہے جو جین کی محبت کا جواب اثبات میں دیتی ہے۔ لیکن جین شدت سے یہ محسوس کرتا ہے ہے کہ اسے کسی اور سفید فام مرد سے آندرے سے شادی کے لئے اجازت لینی چاہیے۔ یعنی کوئی سفید فام اسے کہے کہ جاؤ میری بہن کو لے جاؤ۔ وہ اپنے ایک فرانسیسی دوست سے بات کرتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ چونکہ تم نے اپنا وطن بچپن ہی میں چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد تم نے اپنا وطن پھر نہیں دیکھا۔ اور نہ ہی تمھاری وطن واپسی کی کوئی خواہش ہے۔ فرانس میں تم ایک کالونیل افسر ہو اور یہیں تم نے اپنی زیادہ تر زندگی بسر کی ہے اس لیے حقیقت میں اب تم ہم میں سے ایک ہو۔ تم میں اپنے ہم وطنوں جیسی کوئی بات نہیں ہے تم ہم جیسے ہی نہیں بلکہ اب تم ہم میں سے ہو۔ تمھارے خیالات اور رویے سب ہم جیسے ہیں ہیں۔ جو تمھیں نیگرو سمجھتے ہیں غلطی پر ہیں۔ تم صرف ان جیسے دکھائی دیتے ہو مگر تم ایک یورپین کی طرح سوچتے ہو اس لیے تم ایک یورپین سے محبت کر سکتے ہو کیونکہ ایک یورپین کسی اور سے محبت نہیں کر سکتا سوائے ایک یورپین کے

ایک سفید فام فرانسیسی جین کو ایک سفید فام خاتون سے شادی کرنے کی اجازت تو دیتا ہے مگر صرف اس بات پر کہ اب اس میں نیگرو والی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہی سوائے جلد کی رنگت کے۔ فینون جین کے کردار کو دوبارہ نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے۔ اس کام کے لیے سوئس ماہر نفسیات جرمین گویکس (Germain Guex) کی مشہور کتاب Abandonment syndrome کا سہارا لیتا ہے۔ جرمین گویکس برطانوی ماہر نفسیات جان بولبی ( John Bowlby) کی ہم عصر تھی اس کی یہ (ہمارے علم کے مطابق واحد) کتاب 1950 میں شائع ہوئی۔ اور آج تک اس موضوع پر اسے ایک اہم دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے ملتے جلتے ناموں Nazriat جان بولبی نے اپنی attachment theory میں بھی پیش کیے تھے۔ جرمین گویکس کی فرائیڈین تحلیل نفسی سے وابستگی اور اس کی کتاب کا فرانسیسی زبان میں لکھا جانا غالباً فینون کی توجہ کا سبب بنا ہو گا۔ اس کی بیان کردہ تین خصوصیات کو فینون جین کے کردار کو سمجھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چھوڑے جانے کا خوف خوف جین جیسے لوگوں میں غصہ پیدا کرتا ہے جس سے جارحیت پیدا ہوتی ہے اور ایسے لوگوں میں اپنی بے حیثیتی کا بے کراں احساس بھی پایا جاتا ہے۔ گویکس کی تھیوری اور توضیح کے مطابق دبی ہوئی جارحیت، ماضی کے ساتھ گہری اور غیر صحت مندانہ وابستگی رکھنے والے، مایوسیوں اور ناکامیوں کے شکار یہ کردار زندہ رہنے کی خواہش سے محروم ہوتے ہیں۔ فینون کے مطابق گوئیکس کی تشریحات جین کے کردار کو خوبی سے بیان کرتی ہیں۔ ایک استعمار زدہ اور محکوم کی شخصیت کا خمیر بے حیثیتی کے احساس سے اٹھتا ہے۔ دوسروں سے تعلق میں یہ خود کو غیر محفوظ خیال کرتاہے۔ بے حیثیتی کے احساس کا منبع بچپن میں نہ چاہے جانے اور نہ سمجھے جانے کے تجربات ہوتے ہیں

ان دو ابواب میں جو بات قابل غور ہے وہ فینون کے تجزیے میں ادب (ناول) کا استعمال ہے۔ استعماریت کے نتیجے میں بننے والی محکوم کی شخصیت کو بیان کرنے کے لیے اس نے ان ناولوں کا سہارا لیا ہے جو استعماریت اور نسل پرستی کے پس منظر میں لکھے گئے تھے۔ گو فینون نے حقیقی زندگی کی مثالیں بھی دی ہیں تاہم زیادہ تر توجہ ناولوں میں موجود کرداروں پر مرکوز رہی ہے۔ استعماریت کے شکار افراد کا ناول kay کرداروں کے ذریعے تجزیہ بھی فینون سے پہلے مینونی کر چکا تھا

اوکٹیو مینونی (Octave Mannoni 1899۔ 1989 ) فرانس میں پیدا ہونے والا ایک ماہر نسلیات ( ethnologist) تھا حکومت کی جانب سے مینونی کو فرانس کی ایک کالونی مڈغاسکر ( Medagascar) میں ماہر نسلیات کے طور پر متعین کیا گیا تھا جہاں وہ بیس سال سے زائد عرصہ تک مختلف حیثیتوں میں کام کرتا رہا۔ 1947ء میں شروع ہونے والی آزادی کی لڑائی جو میلا گا سی مزاحمت کے نام سے جانی جاتی ہے مینونی نے اپنی سرکاری حیثیت میں بہت قریب سے دیکھی۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف مقامی باشندوں کی اس لڑائی میں فرانسیسی فوج نے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو قتل کیا۔ مینونی نے اس لڑائی میں محکوم مقامی باشندوں اور فرانسیسی فوج کے رویوں کو قتل و غارت گری کے واقعات سے ماورا جاکر دیکھنے اور ان کے محرکات جاننے کی کوشش کی۔ اس مطالعے کے نتائج کو اس نے 1950ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتاب Prospero and Caliban: A study of the psychology of colonisation میں پیش کیا۔ اس کتاب میں اس نے شیکسپیئر کے ڈرامے The Tempest کے دو کرداروں پراسپیرو اور کیلیبن کے ذریعے محکوم اور استعمار گرد کے تعلق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ فینون نے اس کتاب کے چوتھے باب میں جہاں مینونی کی پیش روی، دیانت داری، اور استعماری امور پر اس کی وسیع معلومات کا اعتراف کیا ہے وہیں یہ پورا باب مینونی کے پیش کردہ محکوم کے احساس کمتری کے نظریے کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ اس کے الفاظ میں مینونی کا تجزیہ گو دیانتداری پر مبنی ہے مگر انتہائی خطرناک ہے۔ (Fanon، 1967۔ p۔ 69 ) ۔ اپنی کتاب لکھنے سے دو سال قبل مینونی اور فرانسیسی ماہر تحلیل نفسی ژاک لاکان کے درمیان پیشہ ورانہ تعلق استوار ہو چکا تھا۔ (Lane، 2002 ) مینونی نے تحلیل نفسی پر اپنی معلومات اور مڈغاسکر میں اپنی پیشہ ورانہ مشاہدات کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا کہ اب نفسیات کا علم اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ وہ استعماری صورت حال کوعلم الاخلاقیات، قانون، اور تاریخ کی مدد کے بغیر بھی سمجھ اور سمجھا سکتا hay۔ (Macey، 2000 مینونی کا تجزیہ محکوم کے احساس کمتری کے گرد گھومتا ہے۔ اس کی کتاب کے پہلے باب کا عنوان Dependency and Inferiority ہے۔ اس باب میں مینونی نے اپنے ٹینس کوچ کا قصہ بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق ایک دن اسے اپنے کوچ کی بیماری کا پتہ چلا۔ یہ کوچ ایک مقامی باشندہ تھا۔ مینونی نے اس کے لئے دواؤں کا انتظام کیا۔ گو مینونی اپنے کوچ کو ہر تربیتی سیشن کا معاوضہ ادا کرتا تھا۔ لیکن ادویات کی مفت فراہمی کے بعد کوچ نے پہلے اس سے سگریٹ کے کاغذ کی فرمائش کی۔ اور اس کے بعد اس نے مینونی سے اس کے ٹینس کے جوتے بھی مانگ لیے۔ مینونی کے مطابق کوچ سگریٹ میں استعمال ہونے والا کاغذ بازار سے باآسانی خرید سکتا تھا جبکہ مینونی کے جوتے بھی اس کے ناپ کے مطابق نہیں تھے۔ (Mannoni، 1956۔ p۔ 42) [جاری ہے]

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)


  1. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)

  2. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (2)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close