انڈیا کا کالا جادو اور گوشت کے سات ٹکڑے

حسنین جمال

دیوار پہ گوشت کی پوری سات بوٹیاں ایسے چپکی ہوئی تھیں، جیسے کسی نے دور سے پھینکی ہوں

اماں نے دیکھا تو انہوں نے بین ڈال دیے کہ گھر پہ کسی نے کالا جادو کروا دیا ہے، دادی بھی لپک کر جائے وقوع کا معائنہ کرنے آ گئیں۔ والد آئے تو انہیں بھی بتایا گیا، گھر میں ایک غدر بپا ہو چکا تھا

عباس بھائی اس ہنگامے سے جاگ گئے، باہر آئے تو ان کی طرف دیکھ کے ماں نے فوراً پوچھا کہ تم نے کسی کو آتے جاتے دیکھا تھا گھر میں؟ وہ بولے: ’جی، ماجد بھائی کی اماں جا رہی تھیں ادھر ڈیوڑھی سے۔‘

اب دادی اماں نتیجے تک پہنچ چکی تھیں۔ ان کا حساب کہتا تھا کہ تین سال ہوئے ماجد کی شادی ہو گئی، بچہ ان کے ہے نہیں کوئی، اپنے یہاں ماشاللہ چھوٹے بچوں کی بہار ہے، ہو نہ ہو یہ جادو ماجد کی اماں نے کروایا ہے

ماجد کی اماں اس دوران گھر آئیں تو دادی نے انہیں بھی ٹھیک سے سنا دیں۔ وہ روتے ہوئے واپس چلی گئیں

ابا کو حکم ملا کہ مُلا صاحب کو بلائیں۔ اب وہ آئے، پہلے ان کو چائے پانی پیش کیا گیا، نوش جان کر کے وہ بولے کہ ایک خالی کمرے میں عمل کرنا ہوگا

اب کان لگائے کھڑے ہیں عباس بھائی، اندر سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی ہیں، اگربتیوں کی خوشبو ہے اور زبان وہ ہے کہ جو کم از کم ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اتنی دیر میں گھر کے بزرگ انہیں کان سے پکڑ کر وہاں سے بھگا دیتے ہیں

کچھ گھنٹے بعد مولانا باہر آتے ہیں، گھر کے بڑوں میں انتہائی سنجیدہ میٹنگ چلتی ہے اور آخر فیصلہ ہوتا ہے کہ جادو سخت ہے، مولانا صاحب گھر کے دروازے پہ لٹکنے والا تعویز تو بنائیں گے ہی، لیکن ساتھ ساتھ پچاس مساکین کو کھانا بھی کھلانا ہوگا اگلی جمعرات، اور وہ صاحب خانہ کھلائیں گے۔ مولوی صاحب کو ان کا ہدیہ پیش کیا گیا اور وہ رخصت ہو گئے

غریبوں کو کھانا کھلا دیا گیا اور بلا ٹل گئی

اسی کتاب میں ایک اور بڑا ظالم کیریکٹر ہے ننکو، جو انت قسم کا طاقتور انسان ہے۔ اس کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے مسلسل زمن چاچا یاد آتے رہے۔ خدا انہیں زندگی صحت دے، جو پہلوانی خصوصیات عباس بھائی اپنی کتاب ’دیسی بوائے‘ میں ننکو سے جوڑ رہے تھے وہی ساری ہمارے بچپن میں زمن چاچا کی ہوتی تھیں۔ ننکو بھینسے کو سینگوں سے پکڑ کے زمین پر پٹخ دیا کرتا تھا۔ کوئی بھی نشہ پانی جب کرتا تو پہلے لمبا کش کھینچتا، اس کے بعد ایک کھانسی کا سیشن ہوتا اور بس پھر چاہے گھنٹوں اس سے درخت کی لکڑیاں بھی چِروا لیں۔ وہ جال بچھا کے تیتر کی آواز نکالتا اور ڈھیروں تیتر اس آواز پہ پھنس جاتے، پھر وہ ان کو لڑنے کی ٹریننگ دیتا اور انہیں مہنگے داموں بیچ دیتا۔ ایک دن ننکو گھر سے ایسا غائب ہوا کہ ماں باپ ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر گئے

عباس بھائی بلند شہر، انڈیا میں پیدا ہوئے اور ایسا بھرپور بچپن گزارا کہ جس کا شاید پندرہ بیس فیصد بھی عام بندہ گزار لے تو ’فیوچر برائٹ‘ ہونے کے چانس دور دور تک نہیں ہوتے لیکن وہ پچھلے پچیس برس کے دوران انڈیا، ملائیشیا، تائیوان اور عرب امارات میں لاتعداد بچوں کو انگریزی پڑھا چکے ہیں۔ آج کل کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں پروفیسر ہیں

جو بچہ اغوا کیس میں تھانے ہو آیا ہو، فصلیں اجاڑ چکا ہو، سکول سے فرلو مارنا جس کی روٹین ہو، جسے اپنے زمانے کی ہر فلم سنیما جا کے دیکھنی ہو، جو ایک مرتبہ گاؤں کے تالاب میں ڈوبنے سے بال بال بچا ہو، درخت پہ کافی اونچا چڑھ کر بیک وقت کوؤں اور شہد کی مکھیوں کے حملے میں گھِر گیا ہو اور لاتعداد مرتبہ وہ ’حرکتیں‘ کی ہوں کہ بس گھر سے نکالے جانے کی بال برابر کسر رہ گئی ہو۔۔۔ وہ پروفیسر صولت عباس کیسے بنا؟ اس کتاب میں یہ ساری داستان ہے بس

اس آپ بیتی کی بُنت ناولوں جیسی ہے۔ کوئی بھی کردار اگر کہیں معمولی سا نظر آیا ہے تو ایک دم چند صفحوں بعد وہ اپنے انجام تک پہنچتا دکھائی دے گا۔ اچھے ناول میں زمین پہ گرا ہوا ایک شاپر بھی فالتو نہیں ہوتا، اپنی بائیوگرافی میں صولت عباس نے یہ روایت مکمل نبھائی ہے

باؤلی کنیز ہیں، شیدا مینڈکی، مسجد کی چھت پہ رہنے والے آوارہ جانور، وہی اپنا ننکو، عقیدہ بیگم اور جانے کون کون! یہ سب ایسے کردار ہیں جنہیں شاید آٹھ سو صفحے تک بھی پھیلایا جا سکتا تھا لیکن مصنف نے چابک دستی سے بس سمیٹ لیا

سمیٹا کیوں؟ کتاب ہی بتاتی ہے کہ ان دنوں عباس بھائی کا بائی پاس ہونے والا تھا اور اپنے بچوں کے لیے ایک مکمل دستاویز چھوڑ کر جانے کی انہیں خواہش تھی۔ ’وہ سوچتا ہے کہ اس کا باپ پتھر کے زمانے والا آدمی ہے اور اسے اپنے غار کو لوٹ جانا چاہیے۔‘ یہ اپنے بیٹے زکریا کے بارے میں انہوں نے لکھا اور کہا کہ میں چاہتا تھا کہ بچے جب اتنے بڑے ہو جائیں کہ اپنے باپ کے بارے میں کچھ جاننے کی انہیں خواہش ہو، تو یہ کتاب موجود ہو۔ کتاب کا انتساب بیٹی زہرہ اور زکریا میاں ہی کے نام ہے

اس کتاب کو پڑھ کر آپ کو اپنا بچپن یاد آئے گا، کھلے صحن، اونچے درخت، مرغیاں، طوطے، بلیاں، کتے، پالتو جانور، گھر میں لگائی سبزی اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ تین روز ہو گئے، ختم کر کے بیٹھا ہوں لیکن اگلی کوئی کتاب نہیں اٹھائی کہ پہلے اسے جی لوں، اثر جذب کر لوں

انگریزی میں لکھی یہ کتاب ’دیسی بوائے‘ اسٹوری مِرر پبلشرز ممبئی نے چھاپی ہے۔ پاکستان سے مشکل ہے کہ ملے، آن لائن منگوائی جا سکتی ہے۔ قیمت 325 انڈین روپے ہے

اب صولت عباس کے ناول کا انتظار ہے، جو شاید انہوں نے شروع بھی نہ کیا ہو لیکن کردار چیخ چیخ کے پکار رہے ہیں کہ ہمیں پھیلاؤ، زندہ کرو!

ہاں، وہ جو ننکو تھا نا؟ وہ ایک دن بڑی سی گاڑی میں آ کر عباس بھائی کے دروازے پہ رکا۔ وہ کروڑ پتی بن چکا تھا۔ وہ گھر سے بھاگ کر ممبئی گیا اور ادھر ایک ہوٹل پہ شیف لگ گیا۔ آگے بہت کچھ ہوا لیکن کوئی ایک تڑپ تو رہ جانے دیں

کالے جادو کا میں بتا دیتا ہوں کہ وہ گوشت کے ٹکڑے دیوار پہ چپکانے والے عباس بھائی خود تھے۔ وہ اصل میں قصائی کی اس مہارت سے بڑے امپریس تھے کہ وہ کس طرح صفائی سے چھیچھڑے اتارتا ہے، بغیر دیکھے ایک کونے میں پھینکتا ہے اور سارے چھیچھڑے اس مخصوص کونے میں دیوار پہ نقوش بناتے ہوئے نیچے گر جاتے ہیں

انہیں اماں نے بازار بھیجا تھا کہ گوشت لا دو۔ یہ واپسی پہ آئے اور بس پریکٹس شروع کر دی۔ جب تھیلے کا وزن کم ہوتا محسوس ہوا تو والدہ کو جا کر تھیلا دے دیا۔ خود جا کے سو گئے۔ اٹھے تو بس وہ منظر تھا، جہاں سے یہ کہانی میں نے شروع کی تھی۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close