سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ’مریم نواز کو سینیئر نائب صدر بنانے کا فیصلہ پارٹی کا اپنا ہے۔‘
ہفتے کو کوئٹہ میں ’قومی ڈائیلاگ‘ سیمینار میں خطاب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے نئی پارٹی قائم کرنے کی ایک بار پھر تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں پارٹیاں بہت ہیں ہم کوئی نئی پارٹی نہیں بنا رہے۔ ایک ایسا فورم بنانا ہے جس پر عوامی مسائل پر بات ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قومی اسمبلی، سینیٹ اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں اب عوام کے مسائل پر بات ہوتی ہے، اس لیے غیرسیاسی فورم پر عوام کے حقیقی مسائل پر بات کرنے نکلے ہیں۔‘
قبل ازیں شاہد خاقان عباسی کا ’قومی ڈائیلاگ‘ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’ملک کی بدقسمتی ہے کہ معیشت کی بدحالی اور سیاست کی ناکامی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔‘
پاکستان کی اکثریت ریاست سے لاتعلق ہو رہی ہے‘: ری امیجننگ پاکستان سیمینار
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہفتے کو بلوچستان پیس فورم کے زیر اہتمام ’ری امیجننگ پاکستان‘ کے موضوع پرایک قومی مکالمے کا اہتمام کیا گیا، جس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل سمیت دیگر سیاستدان اور سماجی شخصیات شریک ہوئیں
ان میں سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، سابق وفاقی وزیر ہمایوں عزیز کرد، خیبرپختوںخوا سے خواجہ محمد خان ہوتی، سابق سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، فرحت اللہ بابر، زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، حق دو تحریک‘ کے رہنما حسین واڈیلہ اور وکلا رہنماؤں نے شرکت کی
اس سیمینار میں سیاست دانوں، ماہرین معیشت، بیوروکریسی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک ہوئے اور پاکستان کو درپیش مسائل پر بات کی
اس طرح یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی، جس میں قومی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت صوبے کی چیدہ چیدہ شخصیات کو دعوت دی گئی تھی
سیمینار میں شریک رہنماؤں نے پاکستانی کی معیشت، سیاسی جماعتوں کے کردار، بلوچستان میں لاپتہ افراد، گوادر اور معاشی مسائل پر کھل کر بات کی
اس سیمینار کےحوالے سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ کوئی نئی سیاسی جماعت بنائی جا رہی ہے، تاہم ایونٹ میں شریک رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد ایک غیر سیاسی فورم کے ذریعے ان مسائل پر بات کرنا ہے، جن کو سیاسی جماعتوں نے نظرانداز کر دیا ہے مزید یہ کہ یہ تسلسل پورے ملک میں جاری رکھا جائے گا
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’اسمبلی میں اگر عوام کے مسائل پر بات ہو رہی ہوتی تو ہمیں سیمینار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ملکی معیشت تباہ ہو گئی اورسیاست بھی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ یہ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں بلکہ عوام کے مصائب پر بات کرنا ہے۔‘
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ ’جو سیاسی سوچ بلوچستان میں ہے وہ کسی اور صوبے میں نہیں ہے۔ لسٹیں بنانے کے بجائے عوامی خواہش سے اراکین اسمبلی کو منتخب ہونا چاہیے یہاں راتوں رات جماعتیں بنائی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’لاپتہ افراد کا مسئلہ آئین کی ناکامی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم مسنگ پرسن کی بات کرتے ہیں جو شرمندگی کا باعث ہے۔‘
سابق وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ملکی معیشت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’ہم نے ہی پاکستان کو اچھا بنانا ہے باہر سے کوئی نہیں آئے گا۔ اس وقت پاکستان میں کافی معاشی دشواریاں ہیں۔ مشرف دور میں ہم پر تین ہزار ارب قرض تھا۔ آج ہم 50 ہزارارب روپے کے مقروض ہیں۔ ہم ایک ملک سے پیسے لے کر دوسرے کو دیتے ہیں۔ یعنی ٹوپیاں بدلتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’قوم پرست ہونا کوئی بری بات نہیں ہے کیوں کہ وہ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن ہمیں ہر ایک لیے یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں ایسا پاکستان بنانا ہے جس میں سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں۔‘
انہوں نے کہا ’ہم نے شکایتیں بیان کر دی ہیں۔ اب ہم نے اس کا حل ڈھونڈنا ہے۔ جو ہمارے مسئلے ہیں یہ نہ سوچیں کہ ان کا حل نہیں ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش بھی ان مسائل سے باہر نکلے ہیں۔‘
سیمینار سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے بھی خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اسلام کے نام پر اپنی چار ریاستیں پاکستان میں شامل کیں۔ ہم اس لیے اس ریاست میں شامل ہوئے کہ اس ملک میں ہماری عزت ہوگی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست قلات کے معاہدوں پرعمل درآمد نہیں ہوا۔‘
سابق وزیراعلیٰ نے نے کہا کہ ’جب ہم وفاق کی بات کرتے ہیں تو ایک طرف آزادی پسند بلوچ ہیں تو دوسری طرف فوج۔ ہم انڈیا کے نہیں بلوچ، پشتون سندھی اور غریب پنجابی کے ایجنٹ ہیں۔‘
سابق سنیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سیمینار کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی سیاست پانامہ اور توشہ خانہ میں پھنس گئی ہے۔ آٹھ سال سے عوام کے مسائل کی کوئی بات نہیں کر رہا ہے جب کہ بلوچستان کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کا حل نہ نکالا گیا تو ملک کو نقصان ہوگا۔‘
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ’مجھے جمہوری اور انسانی حقوق پر بات کرنے کا کہا گیا تھا لیکن یہاں پر نہ جمہوریت اور نہ انسانی حقوق ہیں۔ ملک میں جمہوریت اس دن ختم ہو گئی جب پہلا آمر آیا تھا اور ملک بنانے والوں کو غدار کہا گیا۔ ہمارے ہاں جب پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے اس وقت تک انڈیا میں تین انتخابات ہوچکے تھے۔‘
انہوں نے کہا ’ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ مگر سیاسی جماعتیں 12 منٹ میں آرمی چیف کی توسیع کے قانون سازی پراکٹھی ہو گئیں مگر وہ بلوچستان کے مسائل پر اکٹھے نہ ہو سکیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ’پاکستانیوں کی اکثریت ریاست سے لا تعلق ہو رہی ہے، یہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’اگر اس رشتے کو بحال کرنا ہے تو ہمیں آئین کی حرمت کو بحال کرنا ہو گا، اداروں اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہو گا تو ہمیں پاکستان کو کسی طرح ری امیجن نہیں کرسکتے جب تک آئین کی پاسداری نہ ہو۔‘
نوجوان تجزیہ کار اور بلوچستان کے حالات پر نظر رکھنے والے رفیع اللہ کاکڑ نے کہا ’بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اس کی تشخیص کرنا ہوگا۔‘
رفیع اللہ کاکڑ کا کہنا تھا ’قوموں کی ترقی کا فیصلہ اس ملک کا سیاسی ڈھانچہ کرتا ہے، ادارے فیصلہ کرتے ہیں کہ اختیار سازی کا طریقہ کار کیا ہو گا اور فیصلہ سازی کس کے ہاتھ میں ہو گی۔ اگر ہمیں بلوچستان کو سمجھنا ہے تو ہمیں اختیار سازی کے ڈھانچے کو دیکھنا ہوگا کہ اس کو تبدیل کیسے کرسکتے ہیں۔‘
اس موقعے پر ’حق دو تحریک‘ کے رہنما حسین واڈیلہ نے کہا ’کہا جاتا تھا کہ سی پیک کے منصوبے سے ترقی ۤآئے گی، ہم اس کے مخالف نہیں لیکن آج بھی گوادر میں پانی نہیں ہے۔ گوادر میں پر امن احتجاج کرنے والے دہشت گرد نہیں تھے، پرامن احتجاج کر رہے تھے، حق دو تحریک کا نعرہ شروع سے تھا کہ پرامن احتجاج، ہمارے مطالبات میں ٹرالرمافیا، منشیات اورغیرضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل تھا اور ہم نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ پاکستان میرا ملک تو بلوچستان میرا وطن ہے۔‘
شاہد خاقان ،مفتاع اسماعیل، سعد رفیق اور نئی پارٹی کی چہ مگوئیاں
پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اقتدار میں ہے اور ن لیگ کے قائد نواز شریف اپنے علاج کی غرض سے برطانیہ میں مقیم ہیں
الیکشن کا دور دورہ ہے تو اس صورتحال میں پارٹی نے عملی طور پر جماعت کی باگ ڈور مریم نواز کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ وہ اس وقت سینیئر نائب صدر کے ساتھ پارٹی کی چیف آرگنائزر بھی ہیں۔ مریم نواز کی وطن واپسی جنوری کے آخری ہفتے میں متوقع ہے
ان کی واپسی سے قبل لیکن مسلم لیگ ن کے اندر کچھ ایسی کھچڑی پک رہی ہے، جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید کچھ رہنما مریم نواز کے اتنے طاقتور ہو جانے کو پسند نہیں کر رہے۔ مریم نواز کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہونے کا اندازہ خود پارٹی کو اس وقت ہوا، جب نواز شریف کے دست راست سمجھے جانے والے پارٹی کے اس وقت کے اہم رہنما چوہدری نثار نے کھل کر مریم نواز کی قیادت کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
انہوں نے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ ’مریم نواز کی وجہ سے پارٹی بند گلی میں آ گئی ہے۔‘ ایک اور بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ مریم نواز کی قابلیت صرف یہ ہے کہ نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے مریم نواز کو اپنی لیڈر کبھی تسلیم نہیں کیا
ماضی قریب میں بھی پارٹی کے اندر دو بیانیوں اور دو گروپوں کی بات ہوتی تھی۔ ایک طرف شہباز شریف تو دوسری طرف نواز شریف۔ نواز شریف کے حق میں کھل کر بولنے والوں میں اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، جاوید لطیف اور طلال چوہدری پیش پیش تھے
باقی زیادہ تر رہنماؤں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ ایسے تمام پارٹی لیڈروں کو شہباز شریف کے ’مکتبہ فکر‘ کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی البتہ دونوں طرف رہے وہ ایک طرف نواز شریف کے معتمد خاص اور وزیراعظم کے عہدے تک بھی پہنچے تو دوسری طرف مفتاح اسماعیل کے ساتھ ان کا اقتصادی نظریہ اسحاق ڈار سے دور اور شہباز شریف کے قریب تھا
اب مریم نواز کو پارٹی کے اندر طاقت سونپے جانے کے بعد مسلم لیگ ن میں نئی صف بندیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے2021 میں ایک بیان دیا تھا کہ مریم ن لیگ کی وزیراعظم کی امیدوار نہیں جس پر پارٹی کے اندر بھی کافی آوازیں اٹھی تھیں
حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں ان سے جب میزبان نے پوچھا کہ کیا مریم نواز کے واپس آنے سے پارٹی کو فائدہ ہوگا؟ تو انہوں نے اس کا براہ راست جواب دینے کی بجائے یہ کہا کہ ’نواز شریف کے آنے سے فائدہ ضرور ہو گا۔‘ اسی طرح مفتاح اسماعیل نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ن لیگ کی نوجوانوں کی تنظیم کا سربراہ بنائے جانے کے سوال کو ہنس کر ٹال دیا
ان سب باتوں سے ہٹ کر مریم نواز کو جب پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا تو پہلے سے دستیاب قیادت کی طرف سے زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا گیا البتہ اس کہانی میں پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ دونوں طرف یکساں منظور نظر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس وقت وزیر داخلہ بھی ہیں نواز شریف اور مریم کے بھی بہت قریب سمجھے جاتے ہیں
پارٹی کے اندر مریم نواز کی قیادت کے حوالے رہنماؤں کے اصل تحفظات کیا ہیں اس پر پارٹی قیادت کھل کر بات نہیں کر رہی
پارٹی رہنما میاں لطیف کہتے ہیں کہ ’یہ پارٹی میاں نواز شریف کی ہے، وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ اس لیے کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے فرق نہیں پڑتا۔ جب مریم صاحبہ کو سینیئر نائب صدر بنایا گیا تو پارٹی سے مشاورت کی گئی اس وقت تو کوئی نہیں بولا۔‘
لیکن شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل کے بدلتے تیور کیا اس بات کی علامت ہیں کہ موروثیت کا سرطان مسلم لیگ ن کو گھائل کر چکا اور اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی؟
اس حوالے سے کالم نگار و سیاسی تجزیہ کار آصف محمود لکھتے ہیں کہ حزب اختلاف کا دور تو مسلم لیگ ن نے کسی طرح گزار لیا لیکن اقتدار میں آئے ایک سہ ماہی نہیں گزری کہ اس کی صفوں میں اب ان رہنماؤں کا دم بھی گھٹنے لگا ہے، جو ہمیشہ مسلم لیگ ن کا حصہ رہے
شاہد خاقان عباسی الجھے الجھے سے پھر رہے ہیں، سعد رفیق جیسا آدمی دہائی دیتا ہے کہ موروثیت نے اس کا دل توڑ دیا ہے اور مفتاح اسماعیل معاشی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں ’جوکر‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے؟
کہنے کو اسے سازش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد، ہم خیال، پیٹریاٹ، ق لیگ اور تحریک انصاف جیسے تجربات کے بعد اس تجربہ گاہ میں تمام سیاسی جماعتوں سے ’نیک نام‘ لوگ اکٹھے کر کے ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے لیکن فی الوقت اس کا یقین کرنا مشکل ہے
سعد رفیق کا تو معلوم نہیں لیکن شاہد خاقان عباسی ایسے کسی تجربے کی بھینٹ کیوں چڑھیں گے؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق انہوں نے ایسا کچھ کرنا ہوتا تو تجربہ گاہ میں انہیں بہت پہلے بہت سازگار ماحول میسر تھا
مسلم لیگ ن سے سعد رفیق کا تعلق بھی معمولی نہیں۔ ایک فعال وزیر رہے، اگرچہ ایک زمانے میں ان کے تحریک انصاف سے رابطوں کی کہانیاں عام ہوئیں لیکن ان کی صداقت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا
مفتاح اسماعیل کو ن لیگ نے اس وقت متبادل معاشی مینیجرکے طور پر پیش کیا جب عمران خان کو حکومت سے الگ کر کے اقتدار سنبھالا گیا۔ پھر یہ کیا قصہ ہے کہ ایک دو ماہ میں وہ اتنے معتوب ہو گئے کہ شریف خاندان کے وہ نوجوان ان کی تضحیک کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ان کے پاس کوئی منصب ہے؟
یہ تینوں رہنما آج گریزاں گریزاں نظر آتے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ پارٹی میں ان کے لیے ماحول اجنبی ہوتا جا رہا ہے
سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار آصف محمود لکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں یہ رویہ ایک حد تک گوارا ہوتا ہے لیکن پھر ایک وقت آتا ہے، اس پر رد عمل آتا ہے۔ مسلم لیگ ن پر وہی وقت آ چکا ہے، آثار بتا رہے ہیں اس کی طبعی عمر تمام ہو چکی
مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا۔ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ فعل ماضی بن جاتی ہے۔
اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام بھی نہیں جو نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کر سکے۔ پرانی عصبیت برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں پڑی ہے اور نیا خون پارٹی میں شامل نہیں ہو رہا۔ ایسے میں انجام جاننے کے لیے آئن سٹائن کی ضرورت ہے نہ ابن خلدون کی۔