اگر آپ یوٹیوب کھولیں تو آپ کو اردو زبان میں چیختی ہوئی زبان اور لال پیلے رنگوں میں ’بڑی خبر آ گئی،‘ ’اسلام آباد میں تہلکہ مچ گیا،‘ ’ملک کی بڑی شخصیت کا فیصلہ آ گیا،‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ وڈیوز نظر آئیں گی
ان کے چینلوں کے نام بھی مین اسٹریم چینلوں سے ملتے جلتے ہوتے ہیں، اس لیے بہت سے لوگ بھولے سے بھی کلک کر دیتے ہیں، اور ان کے ویوز لاکھوں میں پہنچ جاتے ہیں
آج سے پانچ سات سال قبل آپ کو اچھی وڈیو بنانے اور اسے ایڈٹ کرنے کے لیے مہنگے کیمروں اور مخصوص سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی ضرورت پڑتی تھی، جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں تھا
وڈیو ایڈیٹنگ کے مختلف سافٹ ویئر کو سیکھنا بھی ایک وقت طلب اور مشکل کام تھا
مگر اب موبائل فون کے کیمروں کی بڑھتی ہوئی صلاحیت اور انتہائی آسان سافٹ ویئر کی فراہمی نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا
اب کوئی بھی شخص تھوڑی سی کوشش سے وڈیو بنا کر، اس میں میوزک یا وائس اوور لگا کر اسے کسی بھی پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کر سکتا ہے
لیکن بہت سے پرانے صحافی سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان لوگوں نے تکینکی صلاحیت تو حاصل کر لی مگر کیا ان کے پاس صحافت کا کوئی تجربہ ہے؟
کیوں کہ پچھلے چند برسوں میں وڈیو صحافیوں کی جو نئی قسم وجود میں آ گئی ہے، ان میں سے بہت سوں نے نہ تو باقاعدہ صحافت پڑھی، نہ ان کے پاس کسی بڑے صحافتی ادارے یا نیوز چینل میں کام کرنے کا تجربہ ہے
آج کل آپ جس نیوز کانفرنس یا ایونٹ پر جائیں، آپ کو بڑے مختلف چینلوں کے رپورٹروں کے ساتھ ساتھ یوٹیوبرز بھی موبائل اٹھائے ذمہ داریاں نبھاتے دکھائی دیتے ہیں
بات یہاں تک ٹھیک تھی، تاہم مستند رپورٹر اور صحافی یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا ایپس پر کام کرنے والے نوجوانوں کی صحافتی تربیت پر سوال اٹھا رہے ہیں
ان کے خدشات کو تقویت اس وقت ملتی ہے، جب کسی یوٹیوبر کی مائیک کے ساتھ کسی نازیبا حرکت یا غیراخلاقی گفتگو وائرل ہوتی ہے
اس موقعے پر پروفیشنل صحافی خود کو اس کانٹینٹ سے الگ کرتے نظر آتے ہیں
بیشتر صحافیوں کا موقف ہے کہ عوام مائیک تھامے ہر شخص کو صحافی تصور کرتی ہے، جب بھی صحافتی ویلیوز سے ہٹ کر کوئی وڈیو وائرل ہو تو تنقید کی زد میں سبھی صحافی آتے ہیں، جیسا کہ حالیہ کچھ عرصے میں ایک درجن سے زائد یوٹیوبرز فٹ پاتھ پر سونے والی رابعہ نامی خاتون کے انٹرویوز کرتے دکھائی دیے اور اس صحافتی عمل کے دوران ان کی بعض حرکات پر اعتراض لگایا گیا
اسی طرح بعض سوشل میڈیا انفلونسرز قابلِ اعتراض کانٹینٹ اور نازیبا پرینک کی بنیاد پر ویوز حاصل کرتے ہیں
یوٹیوب پر جلد نتائج کے لیے عوام تک خبر پہنچانے کے اصولوں کو نظر انداز کر کے مسالحے دار مواد تیار کرنے کی دوڑ صرف فٹ پاتھ تک محدود نہیں رہی بلکہ چند چند قبل یہ مسئلہ ملک کی پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، جہاں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کے پارلیمنٹ کے احاطے میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے بیان میں اس فیصلے کی وجوہات میں غیر مجاز یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز کی طرف سے اراکینِ پارلیمنٹ کے ساتھ بدسلوکی بیان کی گئی تھی
چند ہفتے قبل یوٹیوب چینل بنانے والے فیاض احمد نے بتایا کہ ’اگر ہمیں مناسب تربیت نہیں ملی تو اس کی وجہ بھی میڈیا چینلوں کی پالیسی ہے، جہاں نئے آنے والوں کی پذیرائی نہیں کی جاتی۔‘
تاہم اب زیادہ تر ٹی وی چینلوں کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر آنے سے سوشل میڈیا پر اچھا کام کرنے والوں کی مین سٹریم میڈیا میں نمائندگی کے مواقع بن رہے ہیں
کیا کسی رپورٹر کے لیے تربیت لازمی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے ایک چینل میں بطور رپورٹر کام کرنے والے صحافی وقاص غوری سے بات کی
ان کا کہنا تھا ’کسی بھی رپورٹر کے لیے صحافتی اصولوں سے آشنا ہونا لازمی ہے۔ رپورٹر کے سوال، الفاظ کے چناؤ اور لفظوں کی کاٹ سے ہی اس کے پروفیشنل تجربے کا اندازہ ہو جاتا ہے
’نئے آنے والوں کو چاہیے کہ وہ مائیک تھامنے سے پہلے قلم تھامیں تاکہ ان صحافی زبان و حدود و قیود کا ادراک ہو سکے۔ صرف ویوز کی بنیاد پر کبھی بھی درست صحافت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سینیئرز کو چاہیے کہ وہ نئے آنے والوں کے فراخ دلی سے جگہ بنائیں تاکہ ڈیجیٹل اور مین سٹریم میڈیا کے درمیان بڑھتی خلیج کو کم کیا جا سکے۔
لاکھوں کی ویورشپ: ڈجٹیل میڈیا کے اس دور میں جہاں کئی نمایاں صحافیوں اپنے اپنے یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں، جہاں کی ویوز شپ لاکھوں میں ہے لیکن ایک اہم مسئلہ سوشل میڈیا خبروں کے مستند ہونے کی تصدیق کا بھی ہے، جس پر ابھی تک کوئی جامع روک نہیں لگائی جا سکی
دوسری جانب سوشل میڈیا پر کام کرنے والے افراد جہاں اچھی کمائی کر رہے ہیں، وہیں اپنے کام کے طریقے سے مطمئن بھی ہیں
ان یوٹیوبرز کے مطابق کانٹینٹ یا خبروں کی تصدیق کے حوالے سے کوئی بھی لائحہ عمل سب کے لیے ہونا چاہیے
ڈجٹیل میڈیا کے کی فراوانی کے دور میں ایسا ہونا ناگزیر تھا، اور یہ نان پروفیشنل صحافی ایک اہم فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں کہ جہاں مین اسٹریم میڈیا نہیں پہنچ پاتا، وہاں تک بھی ان کی رسائی ہے
اسی لیے اب یہ معلومات کی فوری فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کی وجہ سے متوازی میڈیا بن چکا ہے
لیکن اب وقت کی ضرورت بھی ہے کہ ملک میں سیاسی اور اقتصادی بے چینی کے اس ماحول میں یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پر خبر نشر کرنے کو ریگولیٹ کرنے اور اس شعبے میں آنے والے افراد کو بہتر رہنمائی اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)