سائفر کیس میں فردِ جرم: عمران خان نے جج سے کیا کہا؟

ویب ڈیسک

”میرے جرم میں یہ بھی شامل کریں کہ میں نے ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کو بے نقاب کر کے ظلم کیا!“ یہ ہے وہ جملہ، جو سابق وزیراعظم عمران خان نے سخت لہجے میں اس وقت کہا، جب اڈیالہ جیل میں عدالت میں ان پر الزامات کی فہرست پڑھ کر سنائی جا رہی تھی

بعد ازاں گزشتہ سماعت میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سائفر کیس میں سابق چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کردی گئی

پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان ماضی میں اس بات کا شکوہ کرتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف اتنے مقدمات بنائے گئے ہیں جن کی پیروی کے لیے انھیں ایک ہی دن میں کئی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں لیکن بدھ کو تین مختلف عدالتوں سے متعلقہ جج اور افسران ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل میں موجود تھے

تین میں سے دو مقدمات یعنی سائفر کیس اور الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کی توہین کے مقدمے میں تو عمران خان پر فرد جرم عائد ہونی تھی، جبکہ ساتھ ہی توشہ خانہ کیس میں ان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت بھی اسی کمرۂ عدالت میں طے تھی

توہینِ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کے مقدمے کی مختصر سماعت کے بعد دوسری سماعت سائفر سے متعلق مقدمے کی تھی، جس میں عمران خان کے علاوہ شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد ہونا تھی۔ عمران خان وہیں پر موجود رہے، اور شاہ محمود قریشی کو بھی لایا گیا

اس مقدمے کی سماعت کا وقت ہوا تو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کرسی سنبھال لی

گذشتہ سماعت کی طرح اس بار بھی چند صحافیوں اور ’مخصوص افراد‘ کو کمرۂ عدالت میں موجودگی کی اجازت ملی۔ اس موقع پر عمران خان کی اہلیہ اور ان کی بہنوں کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے اہلِ خانہ بھی موجود تھے

صحافی رضوان قاضی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں، جو بدھ کو بھی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت میں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو فردِ جرم عائد کرنے کے لیے جج کے سامنے روسٹرم پر بلا کر کھڑا کر دیا گیا، جس کے بعد عدالت کی طرف سے جو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی اس کے تحت ملزمان پر تین الزامات عائد کیے گئے

الزام نمبر 1: عمران خان نے بطور وزیر اعظم اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیر خارجہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور ملزمان کے غیر قانونی اقدام سے ملکی تشخص، سکیورٹی اور خارجہ معاملات کو نقصان پہنچا

الزام نمبر 2: 27 مارچ سنہ 2022 کو خفیہ دستاویز کو عوامی ریلی میں لہرایا گیا

الزام نمبر تین: ملزمان نے جان بوجھ کر ذاتی مفاد کے لیے سائفر کو استعمال کیا

اس سے قبل کہ متعلقہ عدالت کے جج مزید کچھ کہتے، سابق وزیراعظم اور مقدمے کے مرکزی ملزم عمران خان نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”میرے جرم میں یہ بھی شامل کر لیں کہ میں نے ملکی اور غیرملکی اسٹیبلشمنٹ کو بےنقاب کیا“

عمران خان نے مزید کہا ”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کی حکومت گرائی گئی ہو اس کو ملزم قرار دیا جائے“

رضوان قاضی بتاتے ہیں ”جب عمران خان بول رہے تھے تو ان کا لہجہ سخت تھا، جس پر جج نے عمران خان کو روکتے ہوئے کہا کہ آپ کا لہجہ مناسب نہیں“

جج نے انہین ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں، غلط بات نہ کریں، یہ عدالت ہے، آپ کا لہجہ مناسب نہیں، آپ پہلے میری بات سن لیں

عمران خان کے بار بار بولنے پر عدالت نے انہیں خاموش کرا دیا

عمران خان خاموش ہوئے تو ان کے ساتھی ملزم شاہ محمود قریشی نے بولنا شروع کیا اور کہا ”بطور وزیرِ خارجہ میں نے سینکڑوں سائفر دیکھے لیکن یہ سائفر منفرد تھا۔ وزیر خارجہ کو دنیا بھر میں چیف ڈپلومیٹ کہا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا مراسلہ آتا ہے، جو ان کی نظر سے نہیں گزرتا تو کوئی تو وجہ ہوگی کہ اس سائفر کو ان کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا“

شاہ محمود قریشی نے جج سے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چیزوں کو خفیہ رکھ کر یک طرفہ ٹرائل نہ چلایا جائے

شاہ محمود قریشی نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”اگر عدالت نے تمام چیزوں کو نہیں دیکھنا تو لکھا لکھایا فیصلہ لے آئیں اور سزا سنا دیں“

شاہ محمود قریشی کی اس تقریر پر ابوالحسنات ذوالقرنین نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”میں یہ مقدمہ سن رہا ہوں اور آپ متوازن بات کیا کریں“

رضوان قاضی کا کہنا تھا کہ جس وقت عدالت کی طرف سے ملزمان کو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی جارہی تھی تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے نومنتحب چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی روسٹرم پر موجود تھے

ملزمان کے وکلا نے فرد جرم کی کارروائی اس وقت تک موخر کرنے کی استدعا کی جب تک انہیں اس مقدمے سے متعلق تمام نقول فراہم نہ کردی جائیں تاہم اس مقدمے کے پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے

عدالت نے سماعت کے دوران استغاثہ کو حکم دیا کہ وہ جمعرات کو تین گواہان کے بیانات قلمبند کروائیں جبکہ ملزمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس عدالتی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے

یہ عدالتی سماعت ختم ہوئی تو صحافیوں اور وہاں موجود ’عوام‘ کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا

خصوصی عدالت کے جج اپنی سماعت مکمل کر کے روانہ ہوئے تو ان کی جگہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے لے لی لیکن ملزم عمران خان اپنی جگہ پر ہی موجود رہے۔ یہ سماعت بھی زیادہ دیر نہ چلی اور جمعرات تک کے لیے ملتوی ہو گئی

ان سماعتوں کے بعد عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیل کے اندر قائم کمرۂ عدالت میں ڈبے بنا دیے گئے

انہوں نے کہا کہ ساری فیملی کمرہ عدالت کے اندر تھی اور باہر سے تالا لگا دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سائفر مقدمے کی سماعت کے دوران جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں مقامی میڈیا کے صرف پانچ صحافیوں کو سماعت کی کوریج کی اجازت دی گئی تھی جبکہ دیگر تمام صحافی جیل کے باہر موجود تھے۔ وہ اندر جانے والوں سے کہہ رہے تھے کہ کمرہ عدالت تک ان کی آواز پہنچائی جائے کہ وہ بھی کوریج کے لیے آئے ہیں لیکن اندر سے صرف مخصوص میڈیا نمائندوں کو ہی بلوایا گیا

12 دسمبر کی سماعت میں چار گھنٹوں بعد صحافی جب باہر آئے تو ان میں سے ایک رضوان قاضی اور فرخ اعجاز نے سماعت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا. ”میڈیا کو کمرہ عدالت کے ہال میں دائیں جانب کونے میں محدود کر دیا گیا ہے۔ ایک شیشے کا کیبن بنایا گیا ہے، جہاں مکمل آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہال بڑا ہونے کی وجہ سے گونج بھی کافی تھی۔ کیبن میں داخلے کے بعد باہر سے تالا لگا دیا گیا جو سماعت ختم ہونے پر کھولا گیا۔ شیشے کے کیبن میں ہونے کی وجہ سے عمران خان سے کوئی بات نہ ہو سکی“

جب سماعت شروع ہوئی تو شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری اور عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ محدود میڈیا کو داخلہ کی اجازت دی گئی ہے جبکہ اکثریت باہر کھڑی ہے۔

اس پر جج ابوالحسنات نے کہا کہ ’یہ انتظامی معاملہ ہے، اس معاملہ کو دیکھ لیں گے۔‘ اسی دوران جب اہل خانہ عدالت میں آ کر بیٹھے تو ان کے پیچھے دروازے پر پولیس اہلکاروں نے تالہ لگا دیا تو عمران خان روسٹرم پر گئے اور اعتراض کیا کہ یہ فیملیز ہیں دہشت گرد نہیں ہیں، باہر تالہ لگا دیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close