عورت تو ایک طرف یار لوگوں نے غزل کے بارے میں بھی کہہ دیا تھا کہ ’پورا بندہ مانگتی ہے۔‘
دونوں طرف یہی حال ہے۔ آپ رشتوں کے تانے بانے قریب سے دیکھیں، ہر انسان کو پوری محبت چاہیے
اسے یوں سمجھ لیں کہ ایک طرف بیٹا ڈوب رہا ہے اور دوسری طرف شوہر، ماں کسے بچائے گی؟
رشتوں کی ہر پیچیدگی کے آخر میں بڑا سا ایک سوالیہ نشان یہی والا لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پورا بندہ کیوں چاہیے؟ آدھے سے کام نہیں چل سکتا، یا پونے سے؟
امی جان کو بیٹی فُل اپنی سائیڈ پہ چاہیے، باپ سمجھے گا مجھ سے پیار نہیں کرتی، شوہر کی الگ عدالت لگی ہوگی، بچے سمجھیں گے ماں ہمیں وقت نہیں دیتی، سہیلیاں ہر بار گلے شکوے کریں گی تم ہم کو اب اُس طرح وقت نہیں دیتی اور اگر نوکری بھی کری ہوئی تو باس کا ڈنڈا چوبیس گھنٹے تیار کہ نوکری پر توجہ دیں
یہی مسئلہ مردوں کا بھی ہے۔ آپ ایک وقت میں کتنی جگہ جمع، ضرب یا تقسیم کھا سکتے ہیں؟ محبت میں نفی والا سین نہیں ہوتا، اس لیے اس کا ذکر بے کار ہے۔ سمجھیں آپ کا دل ایک آن لائن کلاؤڈ ہے۔ جیسے جیسے عمر زیادہ ہوتی جائے گی، کچھ محبتیں کتبوں میں تبدیل ہو جائیں گی، چند ساتھ ساتھ چلیں گی اور رشتوں میں آنے والے نئے لوگ اسی کلاؤڈ میں الگ سے اپنی جگہ بنا کر بیٹھ جائیں گے
محبت کم کبھی نہیں ہوتی۔ وقت کم ہوتا ہے، انسان تقسیم ہوتا ہے اور گزرتی عمر کے ساتھ یہی تقسیم پرانے دوستوں اور جان سے عزیز رشتوں کا گلہ سنواتی ہے کہ تم شاید ہمیں بھول گئے ہو
گلاب کی خوشبو آپ بھول سکتے ہیں؟ مور کے رنگوں کی کلر مکسنگ دماغ سے نکل سکتی ہے؟ بارش کے بعد مٹی کا اروما کبھی جاتا ہے اندر سے؟ موسم کے پہلے سنگترے کا چھلکا اور چھیلتے ہوئے اس سے اُڑنے والے رس کی کھٹی مہک؟ اسکول کا پہلا دن، اپنی گلی کی اینٹیں، ماں کا لاڈ سے دوا کو پوچھنا، ابا کا اپنی پلیٹ سے کھانا کھلانا، پہلی گرل فرینڈ یا آف کورس بوائے فرینڈ بلکہ آگے والے بھی سارے، کون کسے فراموش کر سکتا ہے اور کیسے کر سکتا ہے؟
آپ پیدا ہوئے تو صرف اماں باوا کی سمجھ آتی تھی۔ پھر اس محبت میں، جسے آپ جانتے بھی نہیں تھے کہ یہ سائنس ہے کیا، اگلا آنے والا بھائی یا بہن شریک ہو گیا۔ پھر آس پاس کے سارے رشتوں سے دل لگایا، اب اسکول گئے، کالج گئے، یونیورسٹی گئے، نوکری کی، شادی کی، بچے ہوئے، اس بیچ نئے دوست، نئے رشتے بنتے رہے، تو وہ جو دو میگا بائٹ کی محبت صرف امی ابو کے لیے تھی، اب اس کا حجم کتنے ٹیرا بائٹ ہو گیا بھلا؟ اب یہ سوچنا سوٹ بھی کرتا ہے کہ محبت پہلے جیسی نہیں رہی؟
دائیں بائیں کی ہانک لی اچھی خاصی، آپ سوچ رہے ہوں گے اصل سوال سے کان لپیٹ کے گزر جائے گا۔۔ نہ، ایسے کیسے؟
جب ایک عورت یا مرد سامنے والے سے شکوہ کریں کہ اب وہ محبتیں نہیں رہ گئی تو اس میں پتہ ہے اصل سوال کیا ہوتا ہے؟ وہ پرانے والے احساس کا سوال ہوتا ہے، پرانے لمس کا سوال ہوتا ہے، پرانے خیال کا سوال ہوتا ہے، پرانی توجہ کا سوال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ ان ساری چیزوں کے بٹ جانے کا سوال ہوتا ہے
یہاں سمجھنے والا نکتہ ہے۔ نہ آپ ایک جگہ کھڑے ہیں، نہ دنیا کھڑی ہے، نہ وقت، حالات اور نہ انسانی دماغ۔۔۔ تقسیم در تقسیم چل رہی ہے۔ رشتہ وہی ہے، اہمیت وہی، احترام وہی لیکن باقی سب کچھ آگے نکل چکا ہے۔ دونوں پارٹنرز میں سے ایک بندہ پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ سوال اسی کی طرف سے اٹھتا ہے اور وہ بالکل فطری ہے۔ شاعر نے کہا تھا کہ ’میں چھوڑ آئی، خود کو جہاں پر، وہ رہ گیا موڑ پیچھے۔۔۔‘ اور پھر کہا تھا کہ ’اس موڑ سے جاتے ہیں، کچھ سُست قدم رستے، کچھ تیز قدم راہیں۔۔۔‘
تو سوال فطری ہے لیکن دنیا میں کوئی بھی جواب کبھی اس سوال کی مکمل تسلی نہیں کروا سکتا، اور یہ بات بھی اتنی ہی قدرتی ہے، جتنا یہ سوال خود ہے
سادہ ترین بات اگر سمجھنا چاہیں تو یہی ہے کہ محبت بڑھ رہی ہے، اُس کلاؤڈ میں میموریز کا اسٹاک زیادہ سے زیادہ ہو رہا ہے، نئے لوگ آ رہے ہیں، پرانے بھی ان کے ساتھ وہیں ہیں، ساتھ دونوں کا دینا ہے، دل جان سے دینا ہے لیکن گھنٹے کُل چوبیس ہیں ایک دن میں۔۔ تو بس جس کو شیئر کم ملا، اس نے سوال اٹھا دیا اور وہ حق پہ تھا۔ وہ کیوں حق پہ تھا؟ چونکہ وہ اب تک ادھر ہی کھڑا ہے، جہاں آپ اس کے ساتھ کچھ برس پہلے تھے
یہاں پھر ماں کے دل کی مثال لانی پڑے گی۔ بچے زیادہ ہو گئے تو کیا جو محبت ایک اولاد سے تھی، وہ اب ساروں میں تقسیم ہو کر کم ہو جائے گی؟ بڑھے گی نا؟ جتنے بچے ہوتے گئے محبت بڑھتی گئی؟ تو بس سمجھ لیں دل کی مثال جو کلاؤڈ جیسی کہی تھی، وہ ادھر بھی پوری ہو گئی
محبت جس بھی قِسم والی ہے، اسے وقت کے ساتھ پھیلتے جانا ہے اور بندے نے کم پڑتے رہنا ہے۔ جو یہ کوشش کرے کہ وہ ہر جگہ پورا پڑ سکے، وہ غریب ہلکان ہوگا کچھ عرصے، پھر اسے بات سمجھ آ جائے گی یا کچھ رشتوں سے کٹ کر، کچھ کو دامن میں لپیٹ کے بیٹھ جائے گا
ہمارے لوگوں کا ذہن ایسا ہے کہ وہ بہت سی چیزیں مانتے ہیں لیکن قبول نہیں کرتے۔ جس دن مانتے ساتھ بات سمجھ لی، اور قبول بھی کر لی، اس دن کم از کم اس سوال کی شدت ضرور کم ہو جائے گی
بٹی ہوئی محبت سے ہی آپ اس کائنات میں آئے، آپ کی کائنات خود بھی اسی تقسیم در تقسیم شدہ محبت سے بنی، ابھی خود سوچ لیں کہ پوری محبت چاہیے یا کٹی بٹی پہ گزارہ کر کے دماغ سکون میں رکھنا ہے؟
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)