پہلی بار ڈالر 171 روپے سے متجاوز، ایف آئی اے نے 63 ملین ڈالر خریدنے والوں کا سراغ لگا لیا!

نیوز ڈیسک

کراچی : ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کے نرخ 171 روپے سے بھی تجاوز کر گئے ہیں

جب کہ دوسری جانب ایف آئی اے لاہور نے اسٹرکچر طریقے (مخصوص حکمت عملی )سے 63 ملین ڈالر خریدنے والوں کا سراغ لگا لیا ہے

کورونا لاک ڈاؤن سے آزاد ہونے کے بعد دنیا بھر کی معیشتیں کھلنے سے ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ، خام کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان جاری ہے

اس اڑان کے نتیجے میں ڈالر کے انٹربینک نرخ 171 روپے سے بھی تجاوز کرگئے اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مزید 30 پیسے کے اضافے سے ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کے قیمت 171.04 روپے کے ساتھ تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 60 پیسے کے اضافے سے 171.60 روپے پر بند ہوئی

ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خام تیل سمیت دیگر اہم کموڈٹیز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پاکستان کے نہ صرف درآمدی بل کے حجم میں نمایاں اضافے کے خطرات ہیں، بلکہ مہنگائی کی شرح میں بھی اضافے کا خدشہ ہے، جس سے انٹربینک مارکیٹ میں درآمدی ضروریات کے لیے ڈالر کی طلب بڑھتی جارہی ہے اور ڈالر کی قدر سنبھل نہیں پا رہی

دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے نئے اقدامات اور ایکس چینج کمپنیوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ سے افغانستان کو ڈالر کی اسمگلنگ پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن تاحال اس کریک ڈاؤن کے مطلوبہ اثرات انٹربینک مارکیٹ میں نظر نہیں آرہے

اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان طویل دورانیے سے جاری مذاکرات میں تاحال قرض پروگرام کی بحالی سے متعلق کوئی واضح اشارہ سامنے نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان بے لگام ہوتی جارہی ہے

ادہر ایف آئی اے لاہور نے اسٹرکچر طریقے (مخصوص حکمت عملی) سے 63 ملین ڈالر خریدنے والوں کا سراغ لگا لیا ہے

پتہ چلا ہے کہ ڈالر کی ترسیل کو دانستہ طور پر 35 ہزار ڈالر سے کم رکھا جاتا تھا تاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو پتا نہ چل سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ 35 ہزار ڈالر سے کم مقدار ظاہر کرکے ہزاروں ٹرانزیکشنز کی گئیں

چند منی ایکسچینج کمپنیاں براہ راست اس دھوکہ دہی اور منظم منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں ۔ صرف ایک سو افراد کو اسٹرکچر طریقے سے 63 ملین ڈالر فروخت کیے گئے۔ صرف پانچ سع افراد کو اسٹرکچر طریقے سے 100 ملین ڈالر سے زائد فروخت کیے گئے۔ اسٹرکچر فروخت کی وجہ سے ڈالر فارن کرنسی اکاؤنٹس میں براہ راست منتقل کرنے کی شرط سے چھٹکارا حاصل کیا گیا

منظم منی لانڈرنگ کا یہ طریقہ کار صرف ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور منی لانڈرنگ کو خفیہ رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایف آئی اے لاہور نے Structured ڈالر خرید و فروخت کرنے والی ڈالر کمپنیوں کے مالکان اور متعلقہ خریداروں کو طلب کرلیا ہے

رپورٹ کے مطابق ادارے کا ماننا ہے کہ ان ڈالرز کی گزشتہ 45 روز کے دوران یا تو ذخیرہ اندوزی کی گئی یا افغانستان اسمگل کیے گئے تھے

ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایف آئی اے لاہور کی جانب سے منگل کو 100 افراد کو نوٹسز دیے گئے ہیں اور انہیں 15 اکتوبر کو پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہے

انہوں نے کہا کہ یہ افراد مبینہ طور پر امریکی ڈالر خریدنے میں ملوث ہیں اور انہوں نے قانون و ضوابط سے بچنے کے لیے منظم انداز میں ہر ٹرانزیکشن 35 ہزار یا 50 ہزار ڈالرسے کم کی ہے، جو ڈالر کی ذخیرہ اندوزی، منی لانڈرنگ اور اسملنگ کا باعث بن سکتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد سے خاص طور پر 45 روز کے دوران بڑی تعداد میں غیر ملکی کرنسی خریدنے کا مقصد دریافت کیا جائے گا

انہوں نے کہا کہ شبہ ہے کہ انہوں نے امریکی ڈالر ذخیرہ اندوزی یا افغانستان میں اسمگل کرنے کے لیے خریدے ہیں

ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر محمد رضوان کی قیادت میں ٹیموں نے ان رپورٹس کے بعد شہر بھر کی کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز سے ڈیٹا جمع کیا کہ ڈالر، بڑی تعداد میں ذخیرہ یا افغانستان اسمگل کیا گیا ہے

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی کارروائی کی وجہ سے ڈالر کی بڑھتی قدر رکی ہے، تفتیش کے بعد ڈالر کی منی لانڈرنگ اور ذخیرہ اندوزہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ایکسچنج کمپنیوں کا جنوری سے ستمبر 2021 تک کا ڈیٹا جمع کیا گیا جس سے بڑی تعداد میں ڈالر خریدنے والے افراد کی کھوج لگانے میں مدد ملی

ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص (کسی ایکسچنج کمپنی) 35 ہزار ڈالر خریدتا ہے تو اس ٹرانزیکشن سے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو آگاہ کرنا ہوگا اور یہ ٹرانزیکشن چیک کے ذریعےکی جائے گی

اگر کوئی شخص پچاس ہزار ڈالر خریدنا چاہتا ہے تو اسے ایس بی پی سے اجازت لینے کی ضرورت ہوگی

انہوں نے کہا کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ خریدار، اسٹیٹ بینک کو مطلع کرنے سے بچنے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں کے تعاون سے پانچ یا چھ ٹرانسیکشن میں ایک لاکھ سے زائد ڈالر بھی خریدتے ہیں کیونکہ مرکزی بینک، اس طرح کی ٹرانزیکشنز ایف آئی اے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حوالے کرتا ہے

ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ چند ایکسچینج کمپنیاں اس ‘منظم ٹرانزیکشنز’ میں ملوث ہیں

ایک سو افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں نظام میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھ کروڑ تیس لاکھ ڈالر فروخت کیے گئے ہیں

اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کے خریدار پر ایک اور پابندی عائد کی گئی ہے جو کہ بائیومیٹرک تصدیق ہے، یہ ان سب کے لیے لازم ہے جو اوپن مارکیٹ سے پانچ سو یا اس سے زیادہ ڈالر خرید رہے ہیں.


مزید خبریں:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close