وہ صحافی تھے، انہیں کتب کے حوالے زبانی یاد ہوتے تھے، پانچ منٹ کی گفتگو میں وہ کئی کتابوں کے نام گنوا دیتے تھے۔ بدقسمتی سے زیادہ ملاقاتیں نہ ہو سکیں۔ آخری ملاقات میں انہوں نے مجھے بون کے ایک ریستوراں میں مدعو کیا تھا
اس ملاقات میں وہ مجھے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں اردو کی چند نایاب کتب حاصل ہوئی تھیں۔ ایک کتاب کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری میں آخری نسخہ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ کتاب کیسے حاصل کی، اس بارے میں مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا
اس ملاقات کے ایک یا دو ماہ بعد مجھے خبر ملی کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا
پھر چند ماہ بعد میری ملاقات ان کی بیٹی سے ہوئی۔ میں نے ان سے کتابوں کے بارے میں پوچھا کہ ان کے والد کے پاس جو کتابوں کا پورا ذخیرہ تھا، وہ کہاں ہے؟
ان کی بیٹی نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا کہ وہ تو ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو چکی تھیں اور انہوں نے بس دو چار کتابیں ہی اپنے پاس رکھی تھیں، جو وہ اردو سیکھنے کے بعد پڑھنا چاہتی تھیں اور باقی ساری کتابیں انہوں نے پھینک دی تھیں
مجھے یہ سن کر بہت رنج ہوا تھا کہ کتنی اچھی کولیکشن تھی ان کے والد کے پاس اور کیسے وہ ساری کی ساری کتابیں ضائع ہو گئی تھیں
اس کے چند برس بعد جرمنی میں عشروں تک اردو صحافت سے وابستہ رہنے والے ایک بزرگ کا انتقال ہو گیا۔ ان کے پاس بھی معیاری کتب کا ڈھیر تھا۔ ان میں سے بیس تیس فیصد کتابیں ان کے مصنفین کی دستخط شدہ تھیں۔ ان میں سے بھی کئی مشہور کتابیں کچھ دوستوں نے لے لیں اور باقی سب کوڑے دان کا حصہ بنیں
مغربی ممالک میں ایسی کئی مثالیں میں نے خود بھی دیکھی ہیں۔ ترک وطن کر کے آنے والے کتابیں بھی ساتھ لاتے ہیں لیکن ان کی مغرب میں پیدا ہونے والی نئی نسل اردو سے ناواقفیت کے باعث بعد میں وہی کتابیں اکثر کوڑے میں پھینک دیتی ہے۔ جرمنی جیسے ممالک میں پیدا ہونے والے زیادہ تر پاکستانی نژاد بچے اُردو بول تو لیتے ہیں لیکن اردو لکھنا پڑھنا ان بچوں کو بہت کم ہی آتا ہے
ویسے تو ماضی میں مغربی طاقتیں بھی مشرق سے ہزاروں نایاب کتب اور نسخے اپنے ممالک میں لاتی رہی ہیں۔ ایسا کئی مرتبہ جنگوں کے دوران لوٹ مار کے دوران کیا گیا اور کئی مرتبہ یہاں سے جانے والے سیاح ان کتابوں کو ساتھ لے آئے
آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ امیر خسرو کا زیادہ تر اوریجنل کام، اشعار، مثنوی، قصیدے اور پہیلیاں بھی جرمنی سے ہی ملے تھے۔ خیر وہ مواد اب ایک لائبریری میں محفوظ ہے۔ لیکن امیر خسرو کا لٹریچر جرمنی کیسے پہنچا یہ ایک الگ کہانی ہے
آج میں بھی ایک ایسی ہی الماری خالی کر رہا تھا۔ اس الماری میں بھی درجنوں کتب دستخط شدہ ہیں لیکن جن کو یہ کتابیں ملیں، یا جنہوں نے یہ خریدیں، وہ اب موجود نہیں۔ لوگوں کے گھر چھوٹے ہیں، ڈیجیٹل دور ہے، مصروفیات زیادہ ہیں اور کسی کے پاس وقت نہیں کہ ان کی چھان بین کر کے بہت اچھی کتابوں کو الگ کر سکے
اگر ایسا کر بھی لیا جائے، تو ان کتابوں کو رکھے گا کون؟ اگر کوئی رکھ بھی لے، تو چند برس بعد انہیں پڑھے گا کون؟
میں کبھی کبھار فیسبک پر ایسی پوسٹیں دیکھتا ہوں کہ کیسے اچھی اچھی اور نایاب کتابیں ملک سے باہر لائی جا رہی ہیں اور پھر میں سوچتا ہوں کہ آیا ان کا مقدر بھی مغرب کے کوڑے دان ہی بنیں گے؟
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)