پوری انسانی تاریخ میں چاند زمین کے اوپر ایک خوبصورت علامت کی طرح موجود رہا ہے۔ اس کی معمولی سی کشش ثقل لہروں کا مدو جزر طے کرتی ہے، جبکہ اس کی ہلکی روشنی بہت سی انواع کے جانداروں کی راتوں کے ملاپ کو ممکن بناتی ہے اور پھلوں میں ذائقے کا سبب بھی بنتی ہے
کچھ جانور اور کیڑے چاند سے منعکس ہونی والی سورج کی روشنی کی مدد سے اپنا رستہ تلاش کرتے ہیں
تمام قدیم تہذیبوں نے اپنے کیلنڈر اسی چاند کے مطابق ترتیب دیے ہیں، کیونکہ یہ ہمیشہ سے گھٹتا بڑھتا رہا ہے
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چاند نے ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد کی ہے جو کچھ نظریات کے مطابق ہمارے سیارے پر زندگی کو ممکن بناتے ہیں اور یہاں تک کہ چاند نے زمین پر زندگی کا آغاز کرنے میں بھی معاونت کی۔ ہمارے سیارے کے گرد اس کا سنسنی خیز مدار کچھ اہم موسمی نظاموں میں بھی کردار ادا کرتا ہے، جو آج ہماری زندگیوں پر حاوی ہیں
چاند زمین کے گرد اپنا باریک متوازن خلائی رقص سرانجام دیتا ہے، چکر لگاتا ہے لیکن کبھی بھی گھومتا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ چاند کا صرف ایک ہی رخ دیکھتے ہیں
لیکن یہ آہستہ آہستہ ہمارے سیارے سے دور ہوتا جا رہا ہے جسے ’چاند کی دوری‘ کہا جاتا ہے۔ اپالو مشن کے خلابازوں کی جانب سے چاند کی سطح پر رکھے گئے ریفلیکٹرز سے لیزر فائر کر کے سائنسدانوں نے حال ہی میں بڑی باریکی سے یہ پیمائش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ چاند کتنی تیزی سے دور ہوتا جا رہا ہے
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چاند ہر سال 1.5 انچ (3.8cm) کی شرح سے زمین سے دور ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے دن قدرے لمبے ہوتے جا رہے ہیں
لندن کی رائل ہالووے یونیورسٹی میں جیوفزکس کے پروفیسر ڈیوڈ والتھم اس حوالے سے کہتے ہیں ”ساری بات لہروں کی ہے۔ سمندروں میں طغیانی زمین کی گردش کو سست کر دیتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی توانائی سے چاند کی رفتار بڑھ جاتی ہے“
بات دراصل یہ کہ جیسے جیسے زمین گھومتی ہے، چاند کی کشش ثقل سمندروں کے اوپر چکر لگاتی ہے، جس کے نتیجے میں اونچی اور نیچی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں دراصل پانی کا ابھار ہیں، جو چاند کی کشش ثقل کی طرف اور اس سے دور بیضوی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن زمین اپنے محور پر چاند کے اوپر کے مدار کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے گھومتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نیچے سے چلنے والے سمندری سطح سے رگڑ بھی پانی کو اپنے ساتھ کھینچنے کا کام کرتی ہے
دوسرے الفاظ میں پانی کا اچھال یا ابھار بلج اپنے مدار میں چاند سے تھوڑا آگے جاتا ہے ، جو اسے پیچھے کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ زمین کی گردشی توانائی کو ختم کر دیتا ہے، اس کی گردش کو سست کر دیتا ہے جبکہ چاند توانائی حاصل کرتا ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک اونچے مدار میں منتقل ہو جاتا ہے
تازہ ترین تجزیے کے مطابق، ہمارے سیارے کی گردش پر اس اضافے کا مطلب یہ ہے کہ 1600 کی دہائی کے اواخر سے زمین کے اوسط دن کی لمبائی میں ہر صدی میں تقریبا 1.09 ملی سیکنڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے اندازوں کے مطابق سورج گرہن کے زیادہ قدیم مشاہدات کی بنیاد پر یہ ہندسہ 1.78 ملی میٹر فی صدی ہے
اگرچہ ان میں سے کچھ بھی زیادہ نہیں لگتا ہے، لیکن زمین کی 4.5 ارب سال کی تاریخ کے دوران یہ سب ایک گہری تبدیلی کا اضافہ کرتا ہے
خیال کیا جاتا ہے کہ چاند نظامِ شمسی کی پیدائش کے بعد پہلے پانچ کروڑ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں وجود میں آیا تھا
سائنسدانوں میں سب سے زیادہ مقبول نظریہ یہ ہے کہ ہماری زمین کے ابتدائی دور میں زمین اور مریخ کے حجم کے ایک سیارے میں ٹکر ہوئی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملبے اور دیگر مواد سے چاند کی تشکیل ہوئی
نظامِ شمسی کے اس ابتدائی دور میں زمین اس قدر تیزی سے گھوم رہی تھی کہ ہمارے سیارے پر دن کی لمبائی اتنی کم ہوگئی تھی ہر چوبیس گھنٹے میں دو طلوع آفتاب اور دو غروب آفتاب ہوتے تھے
اس وقت چاند ہماری زمین سے 384,400 کلومیٹر (238,855 میل) دور ہے۔ لیکن ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 3.2 ارب سال پہلے چاند زمین سے صرف دو لاکھ ستر ہزار کلومیٹر (ایک لاکھ ستر ہزار میل) دور تھا، یعنی یہ فاصلہ موجودہ فاصلے کا تقریبا ستر فی صد تھا
جرمنی کی فریڈرک شیلر یونیورسٹی سے منسلک طبعیات کے ماہر،ایلن فیلڈ کہتے ہیں ”تیزی سے گھومنے والی زمین نے دن کی لمبائی کو اتنا کم کر دیا کہ چوبیس گھنٹے کے عرصے میں دو طلوع آفتاب اور دو غروب آفتاب ہوئے۔ اس سے دن اور رات کے درمیان درجہ حرارت کے فرق کو کم کیا جا سکتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ فوٹو سینتھیٹک حیاتیات کی بائیو کیمسٹری بھی متاثر ہوئی ہو“
تاہم، اس قسم کی دیگر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے چاند کی دوری کی شرح بھی مستقل نہیں رہی ہے، بلکہ یہ وقت کے ساتھ تیز اور سست ہوگئی ہے۔ ارجنٹائن کی نیشنل یونیورسٹی آف سالٹا کی ماہر ارضیات وینینا لوپیز ڈی آزاریوچ کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 550-625 ملین سال پہلے، چاند سالانہ 2.8 انچ (سات سینٹی میٹر) تک پیچھے ہٹ رہا تھا
ایلن فیلڈ کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے چاند زمین سے دور جا رہا تھا وہ یقینی طور پر وقت کے ساتھ تبدیل ہوا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ تاہم، اپنی تاریخ کے زیادہ تر عرصے میں، چاند اس وقت کے مقابلے میں بہت سست رفتار سے دور جا رہا ہے
چاند کا پراسرار دور کا رخ
درحقیقت، ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں، جب چاند کی دوری کی شرح غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔ چاند کو اپنی موجودہ پوزیشن تک پہنچنے کے لئے صرف 1.5 ارب سال تک اپنی موجودہ شرح پر کم ہونا پڑے گا۔، لیکن یہ عمل 4.5 ارب سال پہلے چاند کی تشکیل کے بعد سے ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمل ماضی میں بھی بہت سست تھا
والتھم کا کہنا ہے ”اس وقت سمندری لہریں ہماری توقع سے تین گنا زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ بحر اوقیانوس کے حجم میں اضافہ بھی ہو سکتی ہے“
والتھم کہتے ہیں ”اگر شمالی بحر اوقیانوس قدرے وسیع یا تنگ ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ ماڈلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آپ چند ملین سال پیچھے جائیں تو سمندری لہروں کی طاقت کم ہو جاتی ہے کیونکہ براعظم مختلف پوزیشنوں میں تھے“
لیکن مستقبل میں اس میں تبدیلی جاری رہنے کا امکان ہے۔ ماڈلنگ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو ملین سال بعد ایک نئی ’ٹائڈل گونج‘ نمودار ہوگی ، اور پھر اب سے تقریباً ڈھائی سو ملین سال بعد ایک نئی ’سپر براعظم‘ کی شکل کے طور پر غائب ہو جائے گی
تو، کیا ہم بالآخر مستقبل میں اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں جہاں ہمارا چاند ختم ہو جائے گا؟
جس شرح سے چاند ہم سے دور جا رہا ہے، اسے دیکھا جائے تو چاند کے کبھی بھی زمین کو مکمل طور پر چھوڑنے کا امکان نہیں ہے۔ سورج کی اپنی ’موت‘ شاید تقریباً پانچ سے دس ارب سالوں میں ہو جائے اور عین ممکن ہے کہ اس سے بہت پہلے ہی انسانیت ختم ہو گئی ہو
تاہم، مختصر مدت میں، انسانیت خود اپنی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زمین پر پانی کی مقدار کم کر سکتی ہے جس سے زمین پر دن کی لمبائی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے
والتھم کہتے ہیں کہ برف بنیادی طور پر لہروں کو دبا دیتی ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ تقریباً 600-900 ملین سال پہلے، جب ہمارے سیارے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خاص طور پر ٹھنڈے دور میں داخل ہوا تھا، اس وقت چاند کے پیچھے ہٹنے کی شرح میں ڈرامائی سست روی آئی تھی۔ تاہم، اس کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے
اصولی طور پر، ناسا کے آرٹیمیس پروگرام کے ساتھ چاند کی جانب سفر کرنے والے خلابازوں کی اگلی نسل یہ کہنے کے قابل ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ساٹھ سال پہلے اپالو پروگرام میں اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دور سے اپنے آبائی سیارے کو دیکھا تھا
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہماری اپنی زندگیاں اتنی مختصر ہیں کہ ہمیں اس دوری کا پتہ بھی نہیں چلے گا کیونکہ آج کل ہمارے دن کی لمبائی میں روزانہ صرف ایک پیکو سیکنڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔، اور یہ وقت تو پلکیں جھپکنے کے لیے بھی کم ہے۔