پردیس میں لوگوں کی یاد یا بے ترتیب شہروں کا اپنا پن؟

حسنین جمال

پیلا رنگ مجھے خاص پسند نہیں، براؤن بھی گزارے لائق ہے۔ ہرے کو دیکھ لیں، اکیلا سبز بھی کس ہی کام کا ہوتا ہے؟

وان گو سورج مکھی پینٹ کر چکا ہے، شاہ رخ اور کاجل اس کھیت میں گانا گا چکے ہیں، مرزا اطہر بیگ نے حسن کی صورت حال میں بہت ہی طاقتور سین پورے سورج مکھی کے کھیت پر لکھ دیا ہے تو میں نے اب کیا کہنا ہے؟

سب عشق کرتے ہیں، کیا سبھوں کی کہانی بھی ایک جیسی ہوتی ہے؟

سورج مکھی سے پتیاں الگ کر لیں، بیچ والا بھورا پارٹ بھی نکال دیں کہ اس کا نام اب یاد نہیں اور انگلیاں لفظوں کے چکر میں ٹہلتی ہوئی آگے جا رہی ہیں، تو وہ براؤن حصہ بھی نکل گیا، ٹہنی اب خالی ہے۔

یہ تین الگ حصے ایک دوسرے سے دور پڑے ہوں تو ان پر کیا پیار کسی کو آئے گا؟

آپ نے پھول نوچ کر یہ سب آپریشن نہیں کرنا۔ دماغ میں صرف سوچیں کہ اگر یہ تینوں چیزیں الگ الگ پڑی ہوں تو کیا اٹریکشن ہو سکتی ہے ان میں؟

کیا زندگی ترتیب کا نام ہے؟

یہی سورج مکھی جب کہیں اکٹھے اُگے ہوں تو کتنی ترتیب میں لگے ہوتے ہیں؟ وہ بے ترتیبی بھی پیاری لگتی ہے، اگر جُھنڈ والا معاملہ ہو

سورج مکھی میں شاید یہ ترتیب ایک بڑے سے کُل کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہے؟

تصور کریں کہ آپ کسی ایسے شہر میں ہیں، جہاں نیچر کے وحشی پنے کا دور دور تک کوئی سین نہیں ہے۔ آنکھیں تھک نہیں جائیں گی؟

جیسے ایک ترتیب ہے سورج مکھی میں لیکن سورج مکھی کے کھیت میں اگر وہی جیومیٹریکل قسم کی ترتیب ہوگی تو وہ روبوٹک یا بہت فوٹو شاپڈ قسم کا کھیت لگے گا۔

تو ایسے آپ کہیں ہوں کہ جہاں سارا شہر ترتیب کا مارا ہوا ہو۔ درختوں کی اونچی والی شاخیں تک باضابطہ کٹائی کا شکار ہوں، کوئی بیل ہو تو وہ باقاعدہ چوکور، مستطیل یا گول کٹی ہوئی ہو، فٹ پاتھوں پہ اگے پھولوں کا ایک ہی سائز ہو، مٹی کیاریوں کے علاوہ کہیں نام کو نہ ہو اور سب چیزیں مکمل ترتیب میں ہوں

اگر آپ ایسی کسی جگہ ہوں تو زیادہ سے زیادہ کتنے دن وہاں رہ سکتے ہیں؟

ہم لوگ نہیں رہ سکتے۔۔

باہر جا کے سب سے زیادہ ہم اس بے ترتیبی کو یاد کرتے ہیں۔

آپ جائیں کسی بھی ترتیب زدہ شہر میں، لینڈنگ کے وقت آپ بڑے شوق سے قطار اندر قطار گھروں، سبزے کے تختوں یا سڑکوں کی ویڈیوز بنائیں گے، لگائیں گے۔۔۔ پھر آپ ایک دو ہفتے میں تھک جائیں گے۔

آپ دو چیزوں کو یاد کریں گے۔ پورے شہر کی بے ترتیبی کو اور اپنے ذاتی گھر کی ترتیب کو۔۔ وہ کمرہ کہ جہاں گھپ اندھیرے میں ایک ہاتھ کی دوری پہ دو موبائلوں سمیت پوری زندگی میں جو کچھ کام آ سکتا ہے، وہ سب پڑا ہوتا ہے۔ وہ ترتیب اور چھت میں کڑیوں تک کی ترتیب وہاں آپ کے دماغ میں چلتی ہے۔

اب کہ جب آپ واپس آتے ہیں تو اپنے کسی شہر اترتے ہوئے چھتوں کی ٹینکیاں بھی دلکش لگ رہی ہوتی ہیں۔

سورج مکھی کی طرح ترتیب صرف ایک پھول کی حد تک پیاری ہے شاید۔۔۔ یہی ترتیب اگر درختوں پہ نازل ہو جائے تو کیا ہو؟ پودے کے درخت بننے سے پہلے آپ کو علم ہو کہ بارہ شاخیں اتنی اونچائی تک دائیں بائیں نکلیں گی تو کیا مزہ رہا؟

انسان بہت بعد میں آتے ہیں، زمین اور ماحول کا نمبر ان سے بہت پہلے ہے۔۔۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا۔

ہم لوگوں کو یاد کر کے روتے ہیں اور دماغ میں بے ترتیب شہر چل رہے ہوتے ہیں!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close