پاکستان میں تتلیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔۔

ویب ڈیسک

اگرچہ پاکستان میں تتلیوں کی آبادی کے حوالے سے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کی آبادی میں تیزی سے کمی آ رہی ہے

ایرڈ ایگری کلچر یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبۂ اینٹامولوجی (علم ِحشرات) سے وابستہ ڈاکٹر عمران بودلہ کا کہنا ہے ہہ کچھ عرصے پہلے تک اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تتلیوں کی بہت سی نادر اقسام بڑی تعداد میں پائی جاتی تھیں، جو اب گھٹ کر تقریبا آدھی رہ گئی ہیں

ان کے بقول اس کی بڑی وجوہات درجۂ حرارت میں بتدریج اضافہ، شہری علاقوں کا پھیلاؤ، ماحولیاتی تبدیلیاں اور فصلوں پر غیرمعیاری ادویات کا اسپرے ہیں

ڈاکٹر عمران بودلہ بتاتے ہیں ”تتلیاں اپنے جسم کے درجۂ حرارت کو از خود کنٹرول نہیں کر پاتیں، اسی لیے ان کے مسکن سایہ دار جگہوں پر ہوتے ہیں۔ جنگلات کے کٹاؤ اور شہری علاقوں کے پھیلاؤ کے باعث سایہ دار جگہیں گھٹ رہی ہیں، جس سے تتلیوں کے قدرتی مسکن تباہ ہو رہے ہیں‘‘

صرف شمالی امریکہ میں دس سال کے دوران مونارچ بٹر فلائی کی آبادی 22 سے 72 فیصد تک کم ہوئی ہے۔ یہ تتلیاں ہر برس لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے دوسرے علاقوں تک جاتی اور پولینیشن کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کہا جاتا تھا

کراچی کے علاقے ملیر سے تعلق رکھنے والے وائلڈ لائف فوٹوگرافر سلمان بلوچ، جو پرندوں کے مشاہدے کی عالمی تنظیم ای برڈ کی پاکستان میں پرندوں کی نشاندہی اور مشاہدہ کرنے والوں کی فہرست میں اول نمبر بھی حاصل کر چکے ہیں، کا کہنا ہے ”آپ کے پاس اگر سرسبز ماحول ہو تو نایاب پرندے اور تتلیاں آپ کے گھر بھی آ سکتے ہیں، ملیر اور گڈاپ میں حالیہ میگا پراجیکٹس سے تتلیوں سور پرندوں کے مسکن بھی متاثر ہوئے ہیں“

سلمان بلوچ نے بتایا ”میں جب 2015ع میں وائلڈ لائف فوٹوگرافی کی فيلڈ میں آیا تو میں نے دیکھا جو فوٹوگرافر ملیر، کاٹھوڑ اور گڈاپ جاتے تھے، اب وہ وہاں کا رخ نہیں کرتے، جس کی وجہ یہ ہے کہ میگا رہائشی منصوبوں کے لیے، پہاڑوں، درختوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی اور نتیجے میں علاقے کی لگ بھگ نوے فیصد جنگلی حیات یہاں سے کُوچ کر چکی ہے“

سلمان بلوچ کا کہنا ہے ”ملیر اپنی شادابی اور فطری ماحول کی وجہ سے مختلف انواع کی تتلیوں کا اہم مرکز ہے، لیکن ملیر کی یہ شناخت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔“

انہوں نے اس حوالے سے زیر تعمیر منصوبے ملیر ایکسپریس وے کی مثال دیتے ہوئے کہا ”ملیر ایکسپریس وے 39 کلومیٹر طویل ہے، اس کے صرف ایک کلومیٹر میں معدومیت کے خطرے سے دوچار کئی نایاب پرجاتیاں اور جنگلی حیات موجود ہیں، جن میں تتلیاں بھی شامل ہیں، لیکن خدشہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد یہ مکمل طور پر یہاں معدوم ہو جائیں گی“

انہوں نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا ”میں نے وائلڈ لائف فوٹوگرافی کے دوران مشاہدہ کیا کہ یہاں صرف ایک کلو میٹر کے علاقے میں 37 نایاب اقسام کی تتلیاں، 12 اقسام اسنکیکس ریپٹائلز اور کئی اقسام کے ممالیہ موجود ہیں، لیکن اب یہ سب خطرے کی زد میں ہیں“

سلمان بلوچ کہتے ہیں ”تتلیوں کی موجودگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہاں شاہوکار اور مضبوط ماحولیاتی نظام موجود ہے، ان کی معدومیت اس علاقے کی ماحولیاتی تباہی کی بنیادی ثابت ہوگی“

پولینیشن میں تتلیوں کی اہمیت کے بارے میں یونیورسٹی آف گجرات میں شعبۂ حیوانات (زولوجی) سے وابستہ مبین غضنفر کا کہنا ہے کہ تتلیاں ماحول میں توازن برقرار رکھنے میں معاونت کرتی ہیں اور ان کی بہت سی اقسام دور دراز علاقوں تک ہجرت کرتی ہیں۔ اس دوران یہ پولینیشن کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جس سے پودوں میں جینیاتی تغیّرات ہوتے ہیں

مبین غضنفر کے مطابق سادہ انداز میں پولینیشن کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس عمل میں پھولوں کے نر اور مادہ حصوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہ ملاپ اگر زیادہ فاصلے پر اگے پودوں کے درمیان ہو تو ان کی نئی انواع جنم لیتی ہیں

مبین بتاتے ہیں کہ پھولوں کا رس تتلیوں کی غذا ہے، جسے نیکٹر کہا جاتا ہے۔ اس نیکٹر میں غذائیت سے بھرپور کئی وٹامنز، شوگر، امائنو ایسڈ اور چکنائی یا لیپڈز ہوتے ہیں، جو تتلیوں کے علاوہ کئی دیگر پولینیٹرز کی غذا کا اہم حصہ ہیں۔ تتلیاں اس رس کے لیے جب پھولوں پر آتی ہیں تو کچھ پولن ان کے جسم سے چپک جاتے ہیں۔ کسی دوسرے پھول پر جانے سے یہ پولن وہاں منتقل ہو کر پودوں کے جنسی عمل کو مکمل کرتے ہیں

مبین غضنفر کے مطابق دنیا بھر میں مختلف رنگوں اور سائز کی اٹھائیس ہزار اقسام کی تتلیاں ہیں، جن میں سے اَسی فی صد گرم خطوں میں پائی جاتی ہیں، جس میں جنوبی ایشیاء بھی شامل ہے۔ ان تمام اقسام کی بقا کا انحصار پھولوں اور پکے ہوئے پھلوں کے نیکٹر پر ہوتا ہے

تتلیاں نا صرف ماحول میں توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ حیوانات کی فوڈ چین کا بھی اہم حصہ ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ برس میں دنیا بھر میں تتلیوں کی آبادی میں تقریبا اٹھاون فی صد تک کم ہوئی ہے

ماحول میں توازن قائم کرنے کے حوالے سے تتلیوں کے کردار کے بارے میں مبین غضنفر کا کہنا ہے ”کسی ایکو سسٹم میں جانور، حشرات، پرندے، کیڑے مکوڑے وغیرہ ایک باہمی (میوچل) تعلق میں رہتے ہیں۔ جسامت میں بڑے جانور چھوٹے جانوروں کو کھاتے ہیں، جن کی خوراک کیڑے یا حشرات ہوتے ہیں۔ تتلیاں بھی اس فوڈ چین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں“

فصلوں پر اسپرے اور مونو کلچر کے اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمران بودلہ نے بتایا ”پاکستان میں فصلوں کی حفاظت کے لیے جو کیمیائی اسپرے استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے بے ضرر حشرات براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں اور ان میں تتلیاں بھی شامل ہیں

اسپرے والی ادویات اور کیمیائی کھاد میں نائٹروجن اور فاسفورس کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ ان کے استعمال سے فصل کے پودوں کے ساتھ اگنے والے مقامی پودوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ تتلیاں اپنی بقا کے لیے ان مقامی پودوں پر انحصار کرتی ہیں“

ڈاکٹر عمران کے مطابق کسی مخصوص علاقے کے مقامی پودوں، انویسو پلانٹس (خود رو پودے) اور فصل کے پودوں کے درمیان باہمی تعلق ہوتا ہے، جسے سائنسی اصطلاح میں مونو کلچر کہا جاتا ہے۔ انویسو پلانٹس مقامی پودوں کے ساتھ مل کر حشرات، فصلی بیماریوں وغیرہ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مونو کلچر میں ذرا سا بگاڑ پورے سسٹم کو متاثر کرتا ہے۔ ڈاکٹر بودلہ کے مطابق مقامی پودوں کی تعداد کم ہونے سے تتلیوں کی آبادی بھی گھٹ رہی ہے اور ان کی کئی انواع معدومی کے خدشے سے دوچار ہیں

تتلیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمران بودلہ نے کہا ”دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے تتلیاں بھی یکساں متاثر ہوئی ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ سایہ دار جگہوں کی ضرورت ہے۔ عام افراد کو گھروں میں زیادہ پھولوں اور رس دار پھلوں والے پودے لگانے چاہییں۔ اس طرح تتلیاں گھروں کا رخ کریں گی، جس سے ناصرف گھر خوش نما دکھائی دیں گے بلکہ تتلیوں کو بھی سایہ دار جگہیں میسر آئیں گی‘‘

اس حوالے سے مبین غضنفر کا کہنا ہے کہ مونو کلچر سے تتلیوں کی آبادی کو پہنچنے والے نقصان اور سدِباب کے لیے پاکستان میں وسیع پیمانے پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں مختلف علاقوں میں تتلیوں کی تعداد پر تحقیق کر کے اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں، مگر غیر معیاری زرعی پریکٹسز سے انہیں جو نقصان پہنچ رہا ہے، اس حوالے سے تحقیق کا فقدان ہے

وہ کہتے ہیں کہ فی الحال فصلوں پر اسپرے اور کیمیائی کھاد کا استعمال مکمل طور پر ترک کرنا ممکن نہیں، لیکن آرگینک فارمنگ کے طریقوں کو فروغ دے کر ان کا استعمال کم ضرور کیا جا سکتا ہے

آرگینک فارمنگ میں سائنتھیٹک (مصنوعی) کھاد اور ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں نقصان دہ کیمیکلز کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اسی طرح مؤثر منصوبہ بندی اور تحقیق سے تتلیوں کی نشونما کے لیے نرسریاں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close