یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ ہماری دنیا انقلابی ٹیکنالوجی کا سامنا کر رہی ہے، جس سے افرادی قوت کے ذرائع کے تبدیل ہونے کا خطرہ ہو
1950، 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے دوران لاکھوں لوگوں کو اس وقت اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے، جب انسانوں کی جگہ نئی خودکار مشینوں نے لے لی تھی
اس سے جو بڑے سوالات پیدا ہوئے، وہ یہ تھے کہ کون سی ملازمتیں محفوظ تھیں؟ کب تک میری جگہ مشین لے لے گی؟ اس آٹومیشن سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟
1971 میں معروف ماہر فلسفہ جان رالز نے اپنے قارئین کو ایک فکری تجربے میں حصہ لینے کی دعوت دی
’آ تھیوری آف جسٹس‘ A Theory Of Justice نامی اس تجربے میں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ایک معاشرہ تشکیل دیں اور وہاں کے اصولوں، قوانین، اس کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو اس انتباہ کے ساتھ ڈیزائن کریں کہ ایک بار جب آپ اس معاشرے میں داخل ہو جائیں گے تو آپ کو اندازہ نہ ہو کہ اس میں آپ کیا کردار ادا کریں گے
اگر آپ کو یہ اندازہ نہیں کہ آپ کو امیر یا غریب ہونا ہے تو آپ ٹیکسوں یا فوائد کو کیسے ڈیزائن کریں گے؟ اگر آپ کو اپنی نسل یا جنس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے تو کیا آپ پولیسنگ یا عدالتوں کی مختلف تشکیل کریں گے؟
جان رالز نے دلیل دی کہ اس ’لاعلمی کے پردے‘ کے ذریعے ہی ہم سب سے زیادہ انصاف پسند معاشرے تک پہنچ سکتے ہیں
اس تصور کو رالز نے ’منصفانہ تقسیم‘ کا نام دیا۔ معاشرے سے پیدا ہونے والی دولت کو منصفانہ طریقے سے بانٹنے کا یہ تصور ہی ان کا ماڈل تھا
اگر آپ کی پیداواری صلاحیت ایک ہے اور میری بھی پیداواری صلاحیت ایک ہے تو مل کر کام کرنے سے ہم دو سے زیادہ کچھ پیدا کر سکتے ہیں
یعنی تعاون کے ذریعے ایک ایسی پیداواری صلاحیت حاصل کرنا، جو اس کے انفرادی حصوں کے مجموعے سے زیادہ ہو اور سب کے فائدے کے لیے حاصل کی جا سکے
جب چند سو افراد کے عملے پر مشتمل کمپنی مل کر کام کرتی ہے تو وہ اربوں کی پیداوار کر سکتی ہے لیکن اس کا انحصار عملے پر اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ اس کے سی ای او پر
ایک معاشرہ انفرادیت کے مقابلے میں اتنے ہی افراد کے ایک ساتھ کام کرنے سے زیادہ موثر بن جاتا ہے لیکن یہ پیداواری صلاحیت صرف اس لیے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ہم سب مل کر کام کر رہے ہیں
رالز نے اپنے قارئین سے جو سوال پوچھا وہ یہ تھا کہ ہم اس اضافی پیداواری صلاحیت کا کیا کریں؟ کیا ہم ہسپتال، سکول اور سڑکیں بنائیں؟ یا یہ تمام دولت یہ ایک چھوٹی سی اقلیت کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں جمع ہو جائے؟
رالز ایک ہنگامہ خیز دور میں یہ سب لکھ رہے تھے۔ 20 ویں صدی کے آغاز سے امریکی معیشت بڑے پیمانے پر صنعت کاری کے ساتھ پھیل چکی تھی، جس کا نتیجہ عروج کے کئی ادوار کی صورت میں نکلا اور ملک میں تقریباً ہر ایک کا معیار زندگی بلند ہوا
لیکن 1960 کی دہائی کے آخر تک یہ بدلنا شروع ہو گیا تھا۔ رالز نے ایک ایسے معاشرے کا مشاہدہ کیا جہاں صنعتی عمل کے آٹومیشن کے نتیجے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی جب کہ پیداواری صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہوا
اضافی رقم ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں گئی جنہوں نے اسے ممکن بنایا یعنی اساتذہ، گلیوں میں صفائی کرنے والے، وہ لوگ جنہوں نے خوراک اگائی اور جنہوں نے نئے سسٹمز ڈیزائن کیے
اس کا نتیجہ ارب پتیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی صورت میں نکلا جب کہ متوسط اور کم آمدنی والے امریکیوں نے اپنے معیار زندگی کو گرتے دیکھا
اس کے تدارک کے لیے رالز نے بنیاد پرست نظام کی وکالت کی، اس وقت کے لیے، اعلیٰ معیار، سب کے لیے سرکاری مالی امداد سے چلنے والی تعلیم، کم از کم اچھی اجرت، مفت صحت کی سہولیات وغیرہ
آج مصنوعی ذہانت کے انقلاب کے ساتھ ہمیں بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ بالکل اسی طرح جب مشینیں انسانی جسمانی مشقت کی جگہ لے رہی تھیں آج الگورتھم دانشورانہ مشقت کو خودکار کرنے کے لیے سیٹ کیے جاتے ہیں جس سے کچھ شعبے ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے
فنکاروں، مصنفین، کوڈرز، وکلا اور اساتذہ سبھی کو نئے طاقتور مصنوعی ذہانت سسٹمز کے تحت تبدیلی کا خطرہ ہے، لیکن جب کہ انسانی عنصر کو ہٹایا جاتا ہے تو ان شعبوں سے آنے والی پیداواری صلاحیت بڑھتی ہے
رالز کی طرح ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ اس تمام اضافی پیداواری صلاحیت کو کیسے تقسیم کیا جائے
بے شمار مضامین میں مصنوعی ذہانت کے خطرات کو بیان کیا گیا ہے
ڈومسیریرز غلط معلومات کی نئی شکلوں سے لے کر نسل انسانی کے اسکائی نیٹ طرز کے خاتمے تک ہر چیز کے بارے میں خبردار کرتے ہیں، لیکن چند لکھاریوں (اور کچھ سیاست دان) مصنوعی ذہانت کے زیادہ دنیاوی اور ممکنہ نتائج سے خبردار کرتے ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی چند لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہو جائے گی جب کہ معاشرے خلل پڑنے سے بے حال ہو جائیں گے
اگر ہم مصنوعی ذہانت میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو کم کرنے جا رہے ہیں تو ہمیں اپنے کچھ بنیاد پرست سوچ کے حوالے سے تجربات کرنے کی ضرورت ہے
مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد اگر آپ کو اپنی نسل، جنس، عمر یا تعلیم کا کوئی اندازہ نہ ہو تو آپ 20 سال کے لیے معاشرے کو کیسے ڈیزائن کریں گے؟ یا اگر آپ نہیں جانتے کہ کیا آپ ٹیکنالوجی کمپنی کے ارب پتی مالک بننے جا رہے ہیں یا آپ کی ملازمت کسی مشین نے لے لی ہے؟
کیا عالمی سطح پر بنیادی آمدنی ناگزیر نہیں بن گئی؟ کیا ہم مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والی کچھ پیداواری صلاحیتوں کو حاصل کر سکتے ہیں تاکہ کسی ایسے بے گھر شخص کے لیے مفت سوشل ہاؤسنگ کی فنڈنگ کی جا سکے جسے اس کی ضرورت ہو؟
اگر ہم دولت کی عدم مساوات میں اضافہ دیکھتے ہیں تو کیا ہمیں اعلیٰ تعلیم کو یکسر دوبارہ ترتیب دینے اور اس کے لیے مالی مدد کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
اگر رالز آج ہوتے تو وہ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت خود معاشرے میں ہر ایک کی اجتماعی کھینچا تانی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے اور اگر ہم ایک منصفانہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے، جو سب کو فائدہ پہنچائیں۔
چاہے آپ ٹیکنالوجی پر یقین رکھنے والے شخص ہوں یا یہ یقین رکھتے ہوں کہ مصنوعی ذہانت ہم پر مسلط ہونے والی ہے، ہمیں بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے جو الگورتھم کے دور میں ایک جائز اور زیادہ منصفانہ معاشرہ تشکیل دے سکے۔
بشکریہ: دا انڈپینڈنٹ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)