پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پر پلاسٹک کا سالانہ فی کَس اوسط استعمال بہت زیادہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس پانچویں سب سے بڑے ملک میں ہر سال تقریباً بیس ملین ٹن ٹھوس کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے
اس بیس ملین ٹن سالانہ کوڑے میں سے تقریباً ساٹھ فی صد کوڑے کے طور پر پھینک دیا جانے والا پلاسٹک ہوتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پلاسٹک کے اس کوڑے کا سالانہ حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات ملک میں تحفظ ماحول کی کوششوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے
ملک میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کے کوڑے کا حجم کے ٹو جتنے اونچے دو پہاڑوں کے برابر بنتا ہے۔
پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے ابھی حال ہی میں یہ تنبیہ بھی کی کہ پاکستان میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا دینے کے بجائے اس کا متبادل تلاش کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے کیونکہ اگر ابھی سے ٹھوس اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو سن 2040ء تک ملک میں پلاسٹک کے کوڑے کی سالانہ پیداوار 12 ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔ سن 2022ء میں پاکستان میں پلاسٹک کا ایسا تقریباً تین ملین ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوا تھا
پاکستانی عوام اتنے زیادہ پلاسٹک ویسٹ کی وجہ کیوں بنتے ہیں اور اس عمل کے اصل محرکات کیا ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فرزانہ الطاف شاہ کہتی ہیں ”سب سے پہلی بات عام لوگوں کا رویہ ہے، جو پلاسٹک کی ایسی مصنوعات زیادہ استعمال کرتے ہیں، جن کا بعد میں نہ تو کوئی دوبارہ استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی جن کی پیداوار کا طویل المدتی بنیادوں پر کوئی فائدہ ہوتا ہے‘‘
ڈاکٹر فرزانہ الطاف کا کہنا ہے ”ماضی میں لوگ خریداری کے لیے جاتے تھے تو ان کے ہاتھ میں کپڑے کے تھیلے ہوتے تھے۔ اب یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے ہاتھ میں موبائل فون تو ہوتا ہے لیکن شاپنگ کے لیے کپڑے کا تھیلا ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لیے پلاسٹک بیگز کا استعمال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم دراصل اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ اور اسی سہولت پسندی کے باعث ہم پلاسٹک کے ذریعے زمین اور اسکے ماحول کو تباہ کرتے جا رہے ہیں‘‘
ڈاکٹر فرزانہ کے مطابق، ”حکومت نے سن 2019ء میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی تھی، جو مؤثر بھی ثابت ہوئی۔ اب بڑے بڑے شاپنگ مالز میں مشہور برانڈ سٹورز نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا استعمال تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اب باقی سب جگہوں پر بھی ان بیگز کا استعمال ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عیدالفطر کی چھیٹیوں کے فوراً بعد اسلام آباد میں اس حوالے سے ہر سطح پر ایک گرینڈ ایکشن کیا جانے والا ہے‘‘
پاکستان میں اگر حکومت اتنے اقدامات کر رہی ہے، تو پھر پلاسٹک کے کوڑے میں خطرناک حد تک اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فرزانہ کہتی ہیں ”کسی بھی قانون کے نفاذ کے بعد اس کے احترام کا انحصار عوامی رویوں پر ہوتا ہے۔ جب تک موجودہ عوامی رویے تبدیل نہیں ہوں گے، اس قسم کے ماحول دوست قوانین پرعمل کروانا بہت مشکل ہی رہے گا، بالخصوص امراء کو ان کے رویوں میں تبدیلی کا قائل کرنا ہو گا، سب سے مشکل کام ہے‘‘
اسلام آباد میں قائم ایک این جی او، ’اسٹرینتھننگ پارٹیسیپیٹری آرگنائزیشن‘ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے امور کے ماہر نصیر میمن کہتے ہیں ”مسئلہ صرف پلاسٹک کے کوڑے کا ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ٹھوس کوڑے کرکٹ کا ہے، جس کو مناسب طور پر ٹھکانے لگانے یا ری سائیکل کرنے کا پاکستان میں کوئی انتظام ہی نہیں۔ اس میں سے ساٹھ فی صد تک پلاسٹک ویسٹ ہوتا ہے۔ ایسے پلاسٹک میں سرفہرست شاپنگ بیگز یا عرف عام میں شاپر ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے‘‘
ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ پلاسٹک ویسٹ میں واضح کمی یا اس کے خاتمے کے لیے حکومت، کاروباری شعبے اور عام شہریوں سمیت ہر کسی کو مل کر کاوشیں کرنا ہوں گی
نصیر میمن کا کہنا ہے ”پلاسٹک بیگز جیسی ماحول دشمن مصنوعات کے بارے میں شعور میں اضافہ کرتے ہوئے پیپر بیگز، کپڑے کے تھیلوں اور شیشے کی بار بار استعمال ہونے والی بوتلوں جیسے دیرپا متبادل ذرائع کی ترویج کی جانا چاہیے۔ ماحولیاتی حوالے سے ایسی مصنوعات کا بائیو ڈی گریڈ ایبل ہونا بھی بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے‘‘
نصیر میمن کہتے ہیں ”پاکستان میں کوڑے کرکٹ سے بچنے کے لیے پلاسٹک کی بوتلیں تلاش کرنے والے بچے کسی حد تک اس کوڑے کی ری سائیکلنگ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ کوڑے کی ری سائیکلنگ کے نظام کو بنیادی ڈھانچے کے ذریعے ملک گیر سطح پر منظم کرے۔ اس کوڑے سے دوبارہ خام مال حاصل کرکے اسی سے نئی مصنوعات بنائی جائیں‘‘
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے بتایا ”ماضی میں اخباروں سے لفافے بنائے جاتے تھے اور دکانوں سے دودھ دہی کسی نہ کسی برتن میں ہی لائے جاتے تھے۔ اب تو لوگ دودھ دہی تک بھی پلاسٹک کے شاپنگ بیگز میں خریدتے اور بیچتے ہیں۔ اس لیے عام شہریوں کے رویے اور عادتیں بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘