ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بیوہ عورت اور ایک رنڈوے مرد نے آپس میں شادی کر لی۔ عورت کی پہلی شادی سے ایک بیٹی تھی اور آدمی کی بھی پہلی بیوی سے ایک بیٹی تھی۔ عورت کی بیٹی بے حد نک چڑھی اور کاہل تھی اور وہ گھر کے کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاتی تھی، جب کہ آدمی کی بیٹی بہت خوش مزاج تھی۔ وہ ہر وقت ہر قسم کا کام کرنے کو تیار رہتی، مگر اس کی سوتیلی ماں اس سے کبھی خوش نہیں ہوتی تھی؛ وہ اور اس کی بیٹی ہمیشہ اس سے اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش میں رہتیں۔
ایک روز دونوں سوتیلی بہنیں کنویں کے کنارے بیٹھیں چرخہ کات رہی تھیں؛ عورت کی بیٹی سوت کات رہی تھی جب کہ آدمی کی بیٹی کے پاس جانوروں کے بالوں کے علاوہ کاتنے کو کچھ نہیں تھا۔ تب اچانک عورت کی بیٹی نے اس سے کہا ’’اگرچہ تم ہر کام بہت ہوشیاری سے کرتی ہو، اس کے باوجود میں تمہارے ساتھ شرط باندھ کر چرخہ کاتنے سے خوف زدہ نہیں ہوں۔‘‘
اور پھر ان کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ جس کی پونی کا دھاگہ پہلے ٹوٹے گا، وہ کنویں میں چھلانگ لگائے گی۔ اتفاق سے تھوڑی دیر بعد ہی آدمی کی بیٹی کی پونی کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور اسے کنویں میں اترنا پڑا؛ مگر جونہی وہ کنویں کی تہہ میں پہنچی، اس نے دیکھا کہ اس کی چاروں اطراف ایک سر سبز و شاداب میدان پھیلا تھا۔ وہ حیران و پریشان آگے بڑھنے لگی اور تھوڑی دور جانے کے بعد اسے لکڑیوں کی ایک باڑ دکھائی دی، اسے وہ باڑعبور کرنا تھی۔
’’اوہ، مجھے بے دردی سے مت روندنا‘‘ باڑ نے لڑکی سے کہا، ’’وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گا‘‘
لڑکی نے نہایت محتاط طریقے سے باڑ کو اس انداز سے عبور کیا کہ کسی ایک لکڑی کو بھی کوئی گزند نہ پہنچی
پھر وہ آگے روانہ ہو گئی اور تھوڑی دور جانے کے بعد اسے ایک ایسی چتکبری گائے دکھائی دی، جس کے سینگ پر دودھ دوہنے کی ایک بالٹی لٹک رہی تھی۔ گائے بہت خوش نما تھی اور اس کے تھن دودھ سےبھرے ہوئے تھے۔
’’اوہ، مہربانی کرو اور میرے تھنوں سے دودھ نکال دو‘‘ گائے نے کہا، ’’میرے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں، دودھ دوہنے کے بعد تم خوب سیر ہو کر دودھ پینا اور باقی ماندہ دودھ میرے کھروں پر انڈیل دینا، وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
آدمی کی بیٹی نےگائے کے کہنے پر عمل کیا؛ جونہی اس نے گائے کے تھنوں کو ہاتھ لگایا، ان سے دودھ پھوٹ نکلا اور بالٹی دودھ سے بھر گئی؛ اس نے دودھ سے اپنی پیاس بجھائی اور باقی بچا دودھ گائے کے کھروں پر انڈیلنے کے بعد بالٹی دوبارہ اس کے سینگ پر لٹکا دی۔
وہ اسی سر سبز میدان میں چلتے ہوئے تھوڑی دور اور آگے گئی تو اسے ایک بڑی سی بھیڑ دکھائی دیا۔ اس کے جسم پر اس قدر گھنی اور لمبی اون تھی کہ وہ زمین تک لٹک رہی تھی اور چلنے پر اس کے پیچھے گھسٹتی آتی تھی۔بھیڑ کے ایک سینگ پر ایک بڑی سی قینچی لٹک رہی تھی۔
’’اوہ، براہِ مہربانی میری اون کاٹ دو‘‘ بھیڑ نے کہا، ’’تم جتنی چاہے اون لے لینا اور باقی اون میری گردن کے گرد لپیٹ دینا، وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
لڑکی فوراً ہی اس کی مدد کرنے پر آمادہ ہو گئی، بھیڑ بڑے سکون سے اس کی گود میں بیٹھ گئی اور لڑکی نے اس قدر نفاست سے اس کی اون تراشی کہ اس کے جسم پر ایک ہلکی سی خراش تک نہ آئی۔ اس نے حسب ضرورت کچھ اون تو خود لے لی اور باقی اون بھیڑ کی گردن کے گرد لپیٹ دی۔
تھوڑی دور جانے کے بعد وہ سیب کے ایک درخت کے قریب پہنچ گئی، درخت پھل سے اس قدر لدا ہوا تھا کہ اس کی تمام شاخیں جھک کر زمین کو چھو رہی تھیں اور تنے کے پاس ایک چھوٹا سا ڈنڈا رکھا تھا۔
’’اوہ، مہربانی کرو اور میری شاخوں سے سیب چن لو تاکہ میری شاخیں سیدھی ہو جائیں اور جھکے رہنے کی تکلیف سے نجات پا سکیں‘‘ درخت نے کہا، ’’مگر جب تم میری اونچی شاخوں پر ڈندے برساؤ، تو بہت احتیاط سے کام لینا، مجھے بے دردی سے مت پیٹنا؛ پھر تم خوب سیر ہو کر سیب کھانا اور باقی ماندہ سیب میرے تنے کے گرد زمین پر پھیلا دینا، وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
چنانچہ جہاں تک لڑکی کے ہاتھ پہنچ سکے، اس نے شاخوں سے سیب چُن لئے اورپھر تنے کے قریب رکھا ڈنڈا اُٹھایا اور بہت احتیاط سے اونچی شاخوں پر گھماتے ہوئے، سب سیب اتار لئے۔ اب اس نے خوب پیٹ بھر کر سیب کھائے اور باقی ماندہ سیب تنے کے گرد زمین پر پھیلا دئیے۔
پھر ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک کشادہ حویلی کے قریب پہنچ گئی۔ اس حویلی میں ایک بوڑھی جادوگرنی اور اس کی بیٹی رہتی تھیں۔ وہ حویلی کے اندر داخل ہوئی اور جادوگرنی سے پوچھا کہ کیا وہ اسے اپنے ہاں نوکری دے سکتی ہے؟
’’اوہ نہیں، تمہیں آزمانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘‘ جادوگرنی نے کہا، ’’تم سے پہلے بھی کئی لڑکیاں آئیں، مگر کوئی بھی میرے ہاں ملازمت کےقابل نہیں تھی۔‘‘
مگرلڑکی نے اس قدر منت سماجت کی کہ بالآخر جادوگرنی اسے اپنے ہاں نوکر رکھنے پر آمادہ ہو گئی۔ اس نے لڑکی کے ہاتھ میں ایک چھلنی دی اور کہا کہ جاؤ اس میں پانی بھر لاؤ۔۔ لڑکی خوب جانتی تھی کہ ایک چھلنی میں پانی بھر کر لانا تقریباً ناممکن ہوگا، مگر وہ پھر بھی کنویں کی طرف چل دی۔ جب وہ کنویں کے قریب پہنچی تو اسے دیکھتے ہی درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرندے گیت گانے لگے:
’’چھلنی پر گارے کا لیپ کر دو،
اور اس پر بھوسہ لگا دو!
چھلنی پر گارے کا لیپ کر دو،
اور اس پربھوسہ لگا دو!‘‘
لڑکی نے پرندوں کے کہنے پر عمل کیا اور یوں وہ چھلنی میں پانی بھر کر لے گئی۔ جب جادوگرنی نے اسے چھلنی میں پانی لاتے دیکھا تو وہ اونچی آواز میں چلّائی: ’’یہ تم نے اپنے ذہن سے تو نہیں سوچا ہوگا!‘‘
اس کے بعد جادوگرنی نے لڑکی سے کہا کہ وہ جانوروں کے باڑے میں جا کر فرش سے گوبر اٹھائے اور وہاں جتنی گائیں بندھی ہیں، ان کا دودھ دوہ کر لائے؛ جب وہ باڑے میں گئی تو وہاں صرف ایک بڑا سا بیلچہ پڑا تھا، جو اس قدر بھاری تھا کہ اس کے ساتھ صفائی کرنا تو دور کی بات، وہ تو اسے اٹھا بھی نہیں سکتی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس کام کو کیونکر انجام دےسکے گی۔۔ تب پرندوں نے گانا شروع کر دیا کہ جھاڑو کے ساتھ تھوڑا سا گوبر باہر پھینک دو، باقی گوبر خود بخود اس کے پیچھے اڑ جائے گا۔ چنانچہ اس نے پرندوں کی نصیحت پر عمل کیا اور ابھی اس نے تھوڑا سا گوبر ہی باہر پھینکا تھا کہ باڑے کا سارا فرش بالکل صاف ہو گیا۔۔ اب اسے گائیوں کا دودھ دوہنا تھا، مگر وہ سب کی سب اس قدر بے چین تھیں کہ جونہی وہ ان کے قریب جاتی، وہ اچھلنے لگتیں، ایسی حالت میں اس کے لئے دودھ دوہنا تقریباً ناممکن تھا۔ تب پرندوں نےایک بارپھر گیت گانا شروع کر دیا:
’’ایک ننھی سی دھار
دودھ کےچند قطرے
ننھے پرندوں کی جانب اچھال دو!‘‘
جونہی لڑکی نےان کے کہنے پر عمل کرتے ہوئے دودھ کی چند دھاریں پرندوں کی جانب اڑائیں تو تمام گائیں نہایت آرام و سکون سے اپنی اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئیں ۔ وہ جب تک دودھ دوہتی رہی، سب کی سب گائیں نہایت سکون سے تھان پر کھڑی رہیں۔
جادوگرنی نے جب لڑکی کو دودھ لاتے دیکھا تو اس نے اونچی آواز میں کہا ’’یہ دودھ تم نے اپنی محنت سے تو نہیں نکالا ہوگا! اور ہاں اب یہ کالی اون پکڑو اور اسے دھو کر بالکل سفید کر لاؤ۔‘‘
بے چاری لڑکی نہیں جانتی تھی کہ وہ کالے رنگ کی اون کو کیسے سفید کرے گی؛ اس نے تو آج تک کسی کو بھی کالی اون دھو کر سفید کرتے نہیں دیکھا تھا؛ مگر وہ زبان سے ایک لفظ نکالے بغیر اون لے کر کنویں کی طرف چل دی۔ ننھے پرندوں نے ایک بار پھر گیت گا کر اسے بتایا کہ وہ کنویں کے پاس رکھی بڑی سی بالٹی میں اون بھگو کر رکھ دے، تھوڑی ہی دیر میں اون سفید ہو جائے گی۔
’’نہیں، نہیں‘‘ جب جادوگرنی نے لڑکی کو سفید اون لئے واپس آتے دیکھا تو وہ چلّائی، ’’تمہیں اپنے ہاں ملازمہ رکھنا اچھا شگون نہیں ہے، تم تو کچھ بھی کر سکتی ہو۔۔ تم میری زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہو؛ بہتر یہی ہے کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘
تب بوڑھی جادوگرنی نے زیورات کےتین ڈبے لڑکی کے سامنے رکھے کہ وہ اپنے کام کی اجرت کے طور پر ان میں سے ایک ڈبہ اٹھا لے۔ڈبے سبز، سرخ اور نیلے رنگ کے تھے۔ بے چاری لڑکی نہیں جانتی تھی کہ ان میں سے کس ڈبے کا انتخاب کرے، تب ننّھے پرندے ایک بار پھر گیت گا نے لگے:
’’ہرا مت لینا، لال مت لینا؛
ہاں، وہ نیلا ڈبہ لے لو،
جس پر ہم نے تین نشان لگا دئیے تھے!‘‘
لڑکی نے پرندوں کی بات مانتے ہوئے نیلے رنگ کا ڈبہ اٹھا لیا ’’لعنت ہو تم پر! تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘ جادوگرنی نے غصّے سےکہا
جب آدمی کی بیٹی وہاں سے روانہ ہونے لگی تو جادوگرنی نے لوہے کی ایک گرم سلاخ اس کی جانب پھینکی؛ مگر لڑکی نے فوراً دروازے کی آڑ میں ہو کر خود کو بچا لیا ۔ دراصل پرندوں نے اسے پہلے سے خبردار کر دیا تھا۔ اب وہ نہایت تیز تیز قدموں سے چلتی وہاں سے روانہ ہو گئی؛لیکن ابھی وہ سیب کے درخت کے قریب ہی پہنچی تھی کہ اسے اپنے عقب سے کچھ خوفناک آوازیں سنائی دیں، اس نے مڑ کر دیکھا تو جادوگرنی اور اس کی بیٹی اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔لڑکی بے حد خوفزدہ ہو گئی، اسےسمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
’’میرے قریب آجاؤ‘‘ درخت نے کہا، ’’میں تمہاری مدد کروں گا؛ میری شاخوں میں چھپ جاؤ، ورنہ وہ تمہیں پکڑ کر ڈبہ چھین لیں گی اور تمہیں مار ڈالیں گی۔‘‘
لڑکی نے درخت کے کہنے پر عمل کیا، مگر جادوگرنی اور اس کی بیٹی بھی فوراً ہی درخت کے قریب پہنچ گئیں۔
’’کیا تم نے ایک لڑکی کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے؟‘‘ جادوگرنی نے پوچھا
’’جی ہاں‘‘ درخت نے جواب دیا، ’’وہ تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزری تھی، مگر وہ بہت تیز بھاگ رہی تھی اور اب تک تو اتنی دور جا چکی ہوگی کہ آپ کبھی اس تک نہیں پہنچ سکیں گی۔‘‘
جادوگرنی نے درخت کا یہ جواب سنا تو اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ لڑکی ابھی زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ اسے بَھیڑ نظر آ گئی، مگر ساتھ ہی اسے اپنے عقب سے آتی خوفناک آوازیں بھی سنائی دینے لگیں، وہ سمجھ گئی کہ یہ جادوگرنی ہی ہے، جو اس کا پیچھا کر رہی ہے۔وہ بے حد خوفزدہ ہو گئی، اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔
’’میرےپاس آجاؤ‘‘ بھیڑ نے کہا، ’’میں تمہاری مدد کروں گی؛ میری اون اوڑھ کر خود کو چھپا لو، ورنہ وہ تمہیں پکڑ کر ڈبہ چھین لے گی اور تمہیں مار ڈالے گی۔‘‘
لڑکی نے بھیڑ کے کہنے پر عمل کیا، مگر ابھی وہ بمشکل بھیڑ کی اون میںچھپنے ہی پائی تھی کہ جادوگرنی وہاں پہنچ گئی۔
’’کیا تم نے کسی لڑکی کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے؟‘‘ جادوگرنی نے پو چھا
’’جی ہاں‘‘ بھیڑ نے جواب دیا، ’’وہ تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزری تھی، مگر وہ بہت تیز بھاگ رہی تھی اور اب تک تو اتنی دور جا چکی ہوگی کہ تم کبھی اس تک نہیں پہنچ سکو گی۔‘‘
جادوگرنی بھیڑ کا یہ جواب سن کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔
لڑکی اٹھی اور آگے روانہ ہو گئی۔ جب وہ گائے کے قریب پہنچ گئی تو اسے ایک بار پھر وہی خوفناک آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ ایک بار پھر بے حد خوف زدہ ہو گئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہ جادوگرنی ہی ہے، جو اس کا تعاقب کرتی آ رہی ہے۔
’’میرےپاس آجاؤ‘‘ گائے نے کہا ’’میرے تھنوں میں خود کو چھپا لو، ورنہ جادوگرنی تمہارا ڈبہ چھین لے گی اور تمہیں مار ڈالے گی۔‘‘
لڑکی نےگائے کے کہنے پر عمل کیا، مگر ابھی وہ بمشکل چھپنے ہی پائی تھی کہ جادوگرنی وہاں بھی پہنچ گئی۔
’’کیا تم نے ایک لڑکی کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ گائے نے جواب دیا،’’وہ تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزری تھی، مگر وہ بہت تیز بھاگ رہی تھی اور اب تک اتنی دور جا چکی ہو گی کہ تم کبھی اس تک نہیں پہنچ سکو گی۔‘‘
جادوگرنی گائے کی بات سن کر واپس مڑی اور اپنے گھر روانہ ہو گئی۔
جب لڑکی نے ایک طویل فاصلہ طے کر لیا اور اب وہ جھاڑیوں کی باڑ سے زیادہ دور نہیں تھی تو ایک بار پھر اسے وہی خوفناک آوازیں سنائی دیں، وہ سمجھ گئی کہ یہ جادوگرنی ہی ہے، جو اس کا تعاقب کرتی آ رہی ہے، اس لئے وہ ایک بار پھربے حد خوف زدہ ہو گئی
’’میرے قریب آجاؤ، میں تمہاری مدد کروں گی‘‘ جھاڑیوں کی باڑ نے کہا، ’’میری شاخوں کے نیچے چھپ جاؤ تاکہ وہ تمہیں دیکھ نہ سکے؛ ورنہ وہ تمہاراڈبہ چھین لے گی اور تمہیں مار ڈالے گی۔‘‘
لڑکی فوراً جھاڑیوں کی باڑ میں چھپ گئی۔ جب جادوگرنی وہاں پہنچی تو اس نے باڑ سے پوچھا: ’’کیا تم نے کسی لڑکی کو یہاں سے گزرتے دیکھا ہے؟‘‘
’’جی نہیں، میں نے کسی لڑکی کو ادھر سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھا،‘‘ باڑ نے نہایت غصّے سے جواب دیا، اور اس نے خود کو طول و عرض میں اس قدر پھیلا لیا کہ اب اسے عبور کرنے والے کو ایک سے زیادہ بار سوچنا پڑتا۔ اب جادوگرنی کے پاس اپنے گھر لوٹ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
آدمی کی بیٹی ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر بخیر و عافیت واپس گھر پہنچ گئی، مگر جب اس کی سوتیلی ماں اور بہن نے اسے دیکھا توان کے دلوں میں اس کے لئے پہلے سے زیادہ بغض و حسد پیدا ہو گیا، اس لئے کہ اب وہ پہلے سے زیادہ حسین و جمیل ہو گئی تھی۔ وہ اس قدر دلکش تھی کہ اسے دیکھنے والے کا دل خوش ہو جاتا تھا۔ مگر اب اس کی سوتیلی ماں اور بہن اسے اپنے ساتھ گھر میں رکھنے کو تیار نہیں تھیں، انہوں نے اسے سؤروں کے گندے اور تعفن زدہ باڑے میں دھکیل دیا اور کہا کہ آج کے بعد وہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ لڑکی نے سؤروں کے گندے باڑے کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر یہ دیکھنے کے لئے کہ اسے اجرت میں کیا ملا ہے، نیلے رنگ کا ڈبہ کھولا؛ مگر جونہی اس نے ڈبے کا ڈھکن اوپر اٹھایا، اس میں بھرے سونے چاندی کے قیمتی زیورات نکل کر باڑے کی دیواروں اور چھت کے ساتھ لٹک گئے اور باڑا کسی محل سے زیادہ شاندار دکھائی دینے لگا۔ جب اس کی سوتیلی بہن اور ماں نے یہ سب چمک دمک دیکھی تو وہ دنگ رہ گئیں۔ وہ اس سے کرید کرید کر پوچھنے لگیں کہ کنویں کی تہہ میں اس نے کس کے ہاں ملازمت کی تھی۔
’’آپ خود اندازہ لگا سکتی ہیں کہ وہ کیسے لوگ ہوں گے، جنہوں نے مجھے ایسی اجرت عطا کی ہے۔۔ دراصل میں نے ایک بے مثال خاتون کے ہاں ملازمت کی تھی۔‘‘
اب تو عورت کی بیٹی کا دل بھی مچل اٹھا کہ وہ بھی اس خاتون کے ہاں جا کر ملازمت کرے اور اس جیسا سونے چاندی سے بھرا ایک ڈبہ حاصل کرے۔ چنانچہ وہ دونوں دوشیزائیں ایک بار پھر چرخہ کاتنے بیٹھیں؛ لیکن اس مرتبہ عورت کی بیٹی نے اپنے لئے جانوروں کے بالوں کا انتخاب کیا ، جب کہ آدمی کی بیٹی کو سوت کاتنے کو دیا۔ اس مرتبہ بھی شرط وہی تھی کہ جس کی پونی کا دھاگہ پہلے ٹوٹے گا وہ کنویں میں اترے گی
ابھی انہیں چرخہ کاتتے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ عورت کی بیٹی کی پونی کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور اس نے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ اب
اس کو بھی انہی حالات کا سامنا کرنا پڑا، جن کا سامنا اس کی سوتیلی بہن نے کیا تھا۔ وہ کنویں کی تہہ میں پہنچ گئی مگر اسے کوئی چوٹ نہیں آئی اور اس نے بھی خود کو ایک سر سبز و شاداب میدان میں کھڑا پایا۔اب اس نے آگے بڑھنا شروع کیا اور ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ اسے جھاڑیوں کی ایک باڑ دکھائی دی۔ اس کو بھی یہ باڑ عبور کرنا تھی۔
’’اوہ، مجھے بے دردی سے مت روندنا‘‘ باڑ نے کہا، ’’وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
’’مجھے جھاڑیوں کی اس باڑ کی کیا پرواہ ہے،‘‘ لڑکی نے سوچا اور باڑ کو اپنے بھاری قدموں سے یوں روندتے ہوئے پار کیا کہ اس کی کئی ٹہنیاں ٹوٹ گئیں۔۔
تھوڑی دور آگےجانے کے بعد اسے ایک چتکبری گائے دکھائی دی، جس کے سینگ پر دودھ دوہنے کے لئے ایک بالٹی لٹک رہی تھی۔ گائے بہت خوش نما تھی اور اس کے تھن دودھ سےبھرے ہوئے تھے
’’اوہ، مہربانی کرو اور میرے تھنوں سے دودھ نکال دو‘‘ گائے نے کہا، ’’میرے تھن دودھ سے بھرے ہیں، دودھ دوہنے کے بعد تم خوب سیر ہو کر دودھ پینا اور باقی بچا دودھ میرے کھروں پر انڈیل دینا، وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
عورت کی بیٹی نے گائے کا دودھ دوہیا اور سارا دودھ غٹا غٹ پی لیا۔ اس نے گائے کے کھروں پر انڈیلنے کو ایک قطرہ بھی باقی نہ بچایا اور دودھ پینے کے بعد خالی بالٹی دور پھینک دی۔
تھوڑی دور اور آگے جانے کے بعد اسے ایک بڑی سی بھیڑ دکھائی دی، جس کے جسم پر اس قدر گھنی اور لمبی اون تھی کہ وہ زمین تک لٹک رہی تھی۔ اس کے ایک سینگ پر ایک بڑی سی قینچی لٹک رہی تھی۔
’’اوہ، براہِ کرم میری اون کاٹ دو‘‘ بھیڑ نے کہا، ’’تم جتنی چاہے اون لے لینا اور باقی میری گردن کے گرد لپیٹ دینا، وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
عورت کی بیٹی نے بھیڑ کی اون کاٹی مگر اس لاپروائی سے کہ بھیڑ کی کھال کئی جگہ سے زخمی ہو گئی اور پھر تمام اون اپنے ساتھ لے کر آگے روانہ ہو گئی۔ تھوڑی دور جانے کے بعد وہ سیب کے درخت کے قریب پہنچ گئی جو پھل سے اس قدر لدا ہواتھا کہ اس کی تمام شاخیں جھک کر زمین کو چھو رہی تھیں
’’اوہ، براہِ کرم میری شاخوں سے سیب چن لو تاکہ میری شاخیں سیدھی ہو جائیں اور جھکے رہنے کی تکلیف سے نجات پا سکیں‘‘ درخت نے کہا،’’ مگر جب تم میری اونچی شاخوں پر ڈندے برساؤ، تو بہت احتیاط سے کام لینا، مجھے بے دردی سے مت پیٹنا۔ پھر تم خوب سیر ہو کر سیب کھانا اور باقی ماندہ سیب میرے تنے کے گرد زمین پر پھیلا دینا۔۔ اور ہاں، وقت آنے پر میں اس نیکی کے بدلے میں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
چنانچہ لڑکی نے قریب کی شاخوں سے سیب چُن لئے اورپھر تنے کے قریب رکھا ڈنڈا اُٹھایا اور جن شاخوں تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا، ان پر اس لاپروائی سے ڈنڈے برسائے کہ کئی شاخیں ٹوٹ گئیں، اس نے خوب پیٹ بھر کر سیب کھائےاور باقی سیب درخت کے نیچے پھینک کر آگے بڑھ گئی۔
ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ بوڑھی جادوگرنی کی حویلی کے قریب پہنچ گئی۔ اس نے اندر جا کر جادوگرنی سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنے ہاں ملازم رکھ لے، مگر بوڑھی جادوگرنی نےاسے نوکری دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ سب نوکرانیاں یا تو بے حد نااہل ہوتی ہیں یا اس قدر چالاک کہ اس کی جمع پونجی ہتھیا کر بھاگ جاتی ہیں۔۔ مگر لڑکی نے ہمت نہ ہاری اور منت سماجت جاری رکھی۔ بالآخر جادوگرنی اسے اپنے ہاں ملازمت دینے پر آمادہ ہو گئی ۔ اس نے لڑکی کو جو پہلی ذمہ داری سونپی، وہ چھلنی میں پانی بھر کر لانے کی تھی۔ لڑکی کنویں پر گئی اور چھلنی میں پانی انڈیلا؛ مگر جس پھرتی سے اس نے چھلنی میں پانی بھرا ،اسی تیزی سے وہ نیچے بہہ گیا۔
اب درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرندے راگ الاپنےلگے:
’’چھلنی پر گارے کا لیپ کر دو، اور اس پر بھوسہ لگا دو!
چھلنی پر گارے کا لیپ کردو، اور اس پربھوسہ لگا دو!‘‘
عورت کی بیٹی نے پرندوں کے گیت پر کان دھرنے کی بجائے، تھوڑا سا گارا ان کی طرف پھینک دیا، پرندے شاخوں سےاڑ گئے۔۔ لڑکی کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا اور جادوگرنی کی ڈانٹ ڈپٹ سہنا پڑی۔
اس کے بعد اسے جانوروں کے باڑے میں جا کر فرش سے گوبرصاف کرنا اور دودھ دوہ کر لانا تھا؛ اگرچہ اس کے خیال میں یہ کام اس کی شان کے خلاف تھا، بہرحال وہ باڑے میں گئی۔ باڑے میں رکھا بھاری بیلچہ اٹھانا اس کے بس کا روگ نہیں تھا، تب پرندوں نے اسے بھی وہی مشورہ دیا، جو اس کی بہن کو دیا تھا کہ وہ جھاڑو کی مدد سے تھوڑا سا گوبر باہر پھینک دےتو باقی گوبر خود بخود اس کے پیچھے اڑ جائے گا۔۔ مگر اس نے جھاڑو اٹھایا اور اسے پرندوں کی طرف پھینک دیا۔ اب اسے گائیوں کا دودھ دوہنا تھا، مگر وہ سب کی سب بہت بے چین ہو رہی تھیں ، جونہی وہ ان کا دودھ دوہنے کی کوشش کرتی، وہ دولتیاں چلانا شروع کر دیتیں۔ جب پرندوں نے یہ ماجرا دیکھا تو انہوں نےایک بار پھر گیت گانا شروع کر دیا:
’’ایک ننھی سی دھار، دودھ کے چند قطرے
ننھے پرندوں کی جانب اچھال دو!‘‘
مگر لڑکی نے پہلے تو گائیوں کو خوب مارا پیٹا اور پھر جو چیز بھی اس کے ہاتھ آئی، وہ پرندوں پر دے ماری۔ وہ باڑے کی صفائی کر سکی، اور نہ ہی دودھ دوہ سکی؛ جب وہ واپس گئی تو بوڑھی جادوگرنی نے پہلے تو اس کو خوب مارا پیٹا اور بُرا بھلا کہا اور پھر کالے رنگ کی اون اس کے ہاتھ میں پکڑائی اور حکم دیا کہ اسے دھوکر سفید کر لاؤ؛ مگر وہ یہ کام بھی انجام نہ دے سکی۔ جادوگرنی کے خیال میں وہ لڑکی اس کے کسی کام نہیں آ سکتی تھی، ۔سو اس نے اسے بھی رخصت کر دینا چاہا ۔ اس نے سبز، سرخ اور نیلے رنگ کے تین ڈبے لڑکی کے سامنے رکھے اور کہا کہ اگرچہ وہ اس کے کسی کام نہیں آ سکی ، پھر بھی وہ اجرت کے طور پر ان میں سے ایک ڈبہ لے سکتی ہے۔ تب ننّھے پرندوں نے ایک بار پھر گیت گانا شروع کر دیا:
’’ہرا مت لینا، لال مت لینا؛
ہاں، وہ نیلا ڈبہ لے لو،
جس پر ہم نے تین نشان لگا دئیے تھے!‘‘
مگر لڑکی نے پرندوں کے گیت پر کوئی توجہ نہ دی۔ اس نے سرخ رنگ کا ڈبہ اٹھا لیا ، جو سب سے زیادہ چمکدار تھا اور اسے لے کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔ جادوگرنی نےاس کا پیچھا نہ کیا، اس لئے اس نے نہایت سکون سے اپنا سفر طے کیا۔ جب وہ گھر پہنچی تو اس کی ماں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور وہ دونوں فوراً گھر کے بڑے کمرے میں چلی گئیں۔ان کا خیال تھا کہ ڈبے میں سونے چاندی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا اور وہ جونہی اس کا ڈھکن کھولیں گی، کمرے کے در و دیوار سونے چاندی کی چمک سے جگمگا اٹھیں گے؛ لیکن جب انہوں نے ڈبے کا ڈھکن کھولا تو اس میں سے سانپ اور مینڈک رینگ کر باہر نکلنے لگے۔
عورت کی بیٹی نے حیرانی سےاپنا منہ کھولا تو اس میں سے بھی سانپ اور مینڈک اچھل کر باہر گرنے لگے۔۔ اس کی کام چوری اور دوسروں کے ساتھ بد سلوکی کا یہی معاوضہ تھا۔
اب اس کی ماں کے لئے اپنی سگی بیٹی کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنا ممکن نہیں تھا!