ماہرین فلکیات کا ماننا ہے کہ انہوں نے اب تک کے سب سے بڑا دھماکے کا پتا لگا لیا ہے۔ یہ دھماکہ اس سے قبل ریکارڈ کیے گئے ’سپرنووا‘ (پھٹنے والے ستارے) سے دس گنا زیادہ روشن ہے
اب تک اس کا دورانیہ تین سال ریکارڈ کیا گیا ہے، جو کہ زیادہ تر سپرنووا سے بہت زیادہ ہے۔ سپرنووا عام طور پر صرف چند مہینوں کے لیے واضح طور پر روشن ہوتے ہیں
ایک نظریہ یہ ہے کہ دھماکہ اس وقت ہوا، جب گیس کے ایک بڑے بادل کو بلیک ہول نے نگل لیا
سنہ 2020ع میں کیلیفورنیا میں زویکی ٹرانزینٹ فیسلٹی میں آسمان میں ایک فلیش خود بخود ریکارڈ ہو گیا۔ لیکن ایک سال بعد ماہرین فلکیات کو ڈیٹا کا جائزہ لیتے اس کا پتا چلا
انہوں نے اس ایونٹ کو AT2021lwx کا نام دیا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ یہ غیرمعمولی ہے کیونکہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ یہ کتنا دور ہے اور اس وجہ سے اس کی چمک کا حساب لگانا ممکن نہیں تھا
پچھلے سال ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر فلپ وائزمین کی سربراہی میں ایک ٹیم نے ایونٹ سے حاصل ہونے والی روشنی کا تجزیہ کیا، جس سے وہ اس کے فاصلے کا حساب لگا سکتے تھے جو کہ آٹھ ارب نوری سال کی دوری پر تھا
ڈاکٹر وائزمین نے اس لمحے کو بیان کیا جب انھیں یہ معلومات ملیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم نے سوچا, اوہ میرے خدا، یہ ناقابلِ یقین ہے“
ٹیم مکمل طور پر حیران تھی کہ اتنی روشن چیز کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر وائزمین کے مطابق سائنس کی تاریخ میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو اتنی روشن چیز کا حساب لگا سکے
زیادہ تر سپرنووا اور سمندری خلل کے واقعات صرف چند مہینوں تک ہی رہتے ہیں۔ دو سال تک روشن رہنا بہت غیر معمولی بات تھی
ان کا نظریہ یہ ہے کہ یہ دھماکہ گیس کے ایک بہت بڑے بادل کا نتیجہ ہے، جو ممکنہ طور پر ہمارے سورج سے ہزاروں گنا بڑا ہے اور جسے ایک بڑے بلیک ہول نے نگل لیا ہے
تمام کہکشاؤں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے مرکز میں بڑے بلیک ہولز ہیں۔ ڈاکٹر وائزمین کا خیال ہے کہ اس طرح کے طاقتور دھماکے اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جسے وہ کہکشاؤں کے مرکز کی ’مجسمہ سازی‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں
ہو سکتا ہے کہ یہ واقعات، اگرچہ یہ انتہائی نایاب ہوتے ہیں، اتنے طاقتور ہوں کہ انھی کی وجہ سے کہکشاؤں کے مراکز وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہوں
رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ میسی کے مطابق اب اس طرح کے مزید بڑے دھماکوں کی تلاش جاری ہے
انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا ’ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا اور یقینی طور پر اس پیمانے پر تو بالکل نہیں۔۔ اگر یہ کائنات کا واحد ایسا دھماکہ ہے تو مجھے بہت حیرت ہوگی۔‘
"ڈاکٹر وائزمین کو امید ہے کہ اگلے چند سالوں میں آن لائن آنے والے نئے دوربین سسٹمز کے ساتھ اس طرح کے مزید واقعات کا پتہ لگائیں گے
ٹیم اب دھماکے کے بارے میں مزید ڈیٹا اکٹھا کرنے جا رہی ہے۔ وہ ایکس رے سمیت مختلف طول موجوں میں آبجیکٹ کا مشاہدہ کر رہی ہے، جس سے آبجیکٹ کا درجہ حرارت اور سطح پر کیا عمل ہو سکتا ہے، یہ بھی معلوم کیا جا سکے گا۔ وہ یہ جانچنے کے لیے اپ گریڈ شدہ کمپیوٹیشنل سمولیشنز بھی کریں گے کہ آیا یہ ان کے دھماکے کی وجہ والے نظریہ سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں
پچھلے سال ماہرین فلکیات نے سب سے روشن دھماکے کا پتہ لگایا، ایک گاما رے برسٹ جسے GRB 221009A کہا جاتا ہے یہ صرف دس گھنٹے تک روشن رہا تھا
اگرچہ یہ AT2021lwx سے زیادہ روشن تھا لیکن محض چند گھنٹے روشن رہا جس کا مطلب یہ ہے کہ AT2021lwx میں دھماکے کی طاقت بہت زیادہ تھی۔