پاکستانی معاشرے کو بھی رومی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے

ڈاکٹر مبارک علی

رومی مؤرخ یونانی تاریخ دانوں سے متاثر تھے۔ جن میں ہیروڈوٹس(BC 425) اور تھیوسی ڈیڈیز قابلِ ذِکر ہیں۔ ہیروڈوٹس نے تاریخی واقعات کو افسانوی رنگ دے کر پیش کیا ہے تاکہ پڑھنے اور سننے والوں کو اس میں دلچسپی رہے۔ اس کے مقابلے میں تھیوسی ڈیڈیز کے ہاں واقعات کی تحقیق پر زور دیا گیا ہے۔

رومی مؤرخ تھیوسی ڈیڈیز سے متاثر تھے اور تاریخ لکھتے وقت دنیاوی ماخذوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ جیسے مجسٹریٹوں کی 10 سالہ رپورٹ، سیاستدانوں کی باہمی خط و کتابت، ریاستوں کے ساتھ معاہدے، اُمرا کے خاندانوں کی ڈائریاں اور اُمرا کی تدفین کے وقت ہونے والی تقاریر اور اُن کی قبروں پر لگے ہوئے کتبے اور اپنے عہد کے لوگوں کی زبانی تاریخ نے رومی فلسفی سیسرو نے رومی معاشرے کے لیے فلسفے سے زیادہ تاریخ کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔

وہ مورخوں کو ہدایت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انہیں واقعات کی سچائی اور ثبوت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ تاریخ وہ واحد نظریہ ہے، جو ماضی کو واپس لاتا ہے۔ اس میں رومیوں کے کارنامے اور ان کا اعلیٰ کردار شامل ہے۔ لہٰذا اہلِ روم کی ان خوبیوں کو تاریخ کے زریعے محفوظ رکھنا چاہیے۔

رومی سلطنت کا ارتقا (BC 509) میں ریپبلِک کے قیام سے ہوا۔ اس میں سیاسی ادارے قائم ہوئے۔ بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور اس کے پہلے دور میں رومی معاشرے میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پابندی ہونے لگی، جس کی وجہ سے آنے والی نسلوں کے لیے ریپبلک کا یہ دور ایک ماڈل بن گیا۔ اس دور کے دو مورخ اپنی دیانت اور سچائی کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

ان میں سے ایک Polybius تھا، جو پیدائشی تو یونانی تھا مگر بعد میں اس نے رومی شہریت اختیار کر لی تھی۔ اس نے مختلف جنگوں میں بھی شرکت کی، اور اپنے تجربات کی روشنی میں جو تاریخ لکھی اس میں واقعات کی سچائی پر زور دیا ہے، اور اس نے کسی جنرل کی خوشامد یا تعریف نہیں کی، اور واقعات کو بےکم و کاست لکھتا تھا۔

دوسرا مؤرخ Cato the Elder تھا۔ یہ رومی معاشرے پر یونانی اثرات کے خلاف تھا، اور رومی اُمرا کا سخت ناقد تھا، جو بدعنوان اور عیاش ہو چکے تھے۔ اُمرا کے مقابلے میں وہ عوام کا حامی تھا۔ جن میں وہ عام فوجی شامل تھے، جو جنگوں میں لڑتے ہوئے اپنے ملک کی خاطر مارے گئے تھے۔

دست کار اور کاریگر تھے، کسان اور مزدور تھے، جو محنت کے بعد سادہ زندگی گزارتے تھے۔ CATO کے نزدیک رومی اُمراء کا اعلیٰ کردار ختم ہو چکا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک رومی جنرل نے اپنی فوج میں یہ اعلان کیا تھا کہ دشمن سے اس وقت تک جنگ نہ کریں، جب تک وہ اجازت نہ دے۔ اس کا بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا۔

اس نے دشمن کے ایک فوجی سے لڑتے ہوئے اس کو قتل کیا، اور پھر اس کا اسلحہ لے کر باپ کے پاس آیا تاکہ وہ اس کی بہادری کی تعریف کرے، مگر باپ نے کہا کہ تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا بطور سزا تم کو قتل کیا جائے گا۔ یعنی خلاف ورزی کی صورت میں رشتہ داری بھی آڑے نہیں آتی تھی۔

ریپبلک کے بعد جب اَگسٹس نے فسٹ سٹیزن کی حیثیت سے تمام اختیارات حاصل کر لیے تو اس کے جانشین رومی شہنشاہ ہو گئے۔ اس دور میں جو تاریخیں لکھیں گئی ہیں۔ اُن کی اہم خصوصیات یہ ہیں کہ مؤرخ ریپبلک دور کو بطور ماڈل پیش کرتے ہیں۔ تاریخ کے مضامین سیاست پر مبنی ہیں۔ جنگوں کا ذکر ہے، فتوحات پر فخر ہے، فتح کے جلوسوں کو بیان کیا گیا ہے۔ مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں کا ذکر ہے۔ اس بیانیے سے رومی سلطنت کی عظمت کو اُبھارا گیا ہے۔

اس دور کے تین مؤرخ بہت اہم ہیں۔ سالسٹ ، لیوی اور ٹیکیٹس نے رومی سلطنت کی وسعت اور شان و شوکت کو بیان کیا، مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے رومی اُمرا کی بدعنوانیوں، ان کی خوشامدانہ رویّے اور ان کے کردار کی پسماندگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ رومی جنرل جب کسی مہم میں فاتح ہوتے تھے، تو لوٹا ہوا مال خود ہتھیا لیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کا اندازِ زندگی بدل گیا تھا یہ عالی شان محلات مں رہتے تھے۔ غلاموں کی بڑی تعداد ان کی خدمت کے لیے تیار رہتی تھی۔ ان کے کھانوں کی اقسام بڑھ گئی تھیں۔ یہ دعوتیں کر کے اپنی دولت کا اظہار کرتے تھے۔ روم کے شہر کے علاوہ ان کی بڑے بڑے گھر دیہات میں بھی تھے۔

حکمراں طبقے کی طاقت کی وجہ سے انہوں نے کسانوں کو اُن کی زمینوں سے بے دخل کر کے غلاموں سے کاشتکاری کرانا شروع کر دی تھی۔ اس لیے غریب لوگ انتہائی مفلسی یا بے بسی کی زندگی گزارتے تھے۔ لہٰذا اوپر بیان کردہ تینوں مورخوں نے رومی اُمرا کے کردار کی سخت مذمت کی ہے۔ اس لیے سینٹ کا ادارہ بھی ان کے مفادات کو پورا کرتا تھا۔ رشوت عام ہو گئی تھی، اُمرا فوج کو رشوت دے کر اقتدار حاصل کرنے کوششں کرتے تھے۔ جب سیاسی طور پر رومی سلطنت انحطاط پذیر ہوئی تو اس کے خلاف جگہ جگہ بغاوتیں ہونے لگیں اور سلطنت اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔

رومی سلطنت کی کمزوری کا اظہار اس واقعے سے ہوتا ہے جب رومی سینٹ نے ایک کونسلر کو ملک شام کے بادشاہ کے پاس بھیجا کہ وہ ہنی بال کو جو وہاں پناہ گزیں تھا قید کر کے روم بھیجے۔ جب ہنی بال کو اس کی خبر ملی تو اس نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب روم اپنے فوجی جنرلوں کو مجھ سے مقابلے کے لیے بھیجتا تھا، اور اب یہ روم ایک کونسلر کو مجھے قیدی بنانے کے لیے بھیجتا ہے۔ اُس نے رومی قیدی بننا پسند نہیں کیا اور زہر کھا کر خودکشی کر لی۔

رومی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی پوری توانائی اور طاقت جنگوں میں صَرف ہوئی، مالِ غنیمت نے رومی اُمرا کو عیاش اور نااہل بنا دیا۔ رومی معاشرے میں نہ کوئی اعلیٰ ادب تخلیق ہوا نہ آرٹ نہ تھیٹر اور نہ ہی موسیقی۔ عوام کی تفریح یا تو سستے قسم کے ڈراموں کے ذریعے ہوتی تھی یا کلوزیم میں گلیڈیٹرز کی لڑائی یا خونخوار جانوروں سے قیدیوں کو مروا دیا جاتا تھا۔ تماشائی ان مناظر کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔

ان واقعات سے رومی ذہن کی پسماندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ رومیوں نے بڑی سلطنت تو بنائی مگر وِرثے میں جو کچھ چھوڑا وہ کسی اعلیٰ تہذیب کا نتیجہ نہیں تھا۔ پاکستانی معاشرے کو بھی رومی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستانی اشرافیہ جو مختلف طریقوں سے اپنی دولت کا اظہار کرتی ہے، اس سے اس کی ذہنی پسماندگی کا پتہ چلتا ہے۔ اشرافیہ کے اس رویّے سے، جس میں اعلیٰ کردار کی خصوصیات نہیں ہیں یہ معاشرے کو تباہی کی جانب لے جائے گا۔ اس کی ذمہّ داری اشرافیہ پر ہوگی، جنہوں نے معاشرے کے افراد کو مفلسی اور غربت میں مبتلا کر کے انہیں زندگی کی مسرتوں سے محروم کر دیا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close