”میں تقریباً دو سو (200) میل یا تین سو بیس (320) کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے تبت کی شمال مشرقی سرحد عبور کر کے چھیالیس (46) سو میٹر کی بلندی سے مقبوضہ کشمیر کی وادیِ لداخ میں داخل ہوتا ہوں۔ لہہ سے تیس (30) کلومیٹر دور میری پہلی ڈسٹری بیوٹری دریائے ’زنگسار‘ مجھ میں گرتا ہے۔ مزید ایک سو پچاس (150) میل (240 کلومیٹر) کا سفر اسی سمت طے کر کے ’ہنورمن‘ (بھارت) کے مقام سے بہتا پاکستان میں داخل ہوتا، دریائے لداخ کو مرول ٹاپ اور، دریائے شیوک کو ’چھومندو‘ کے مقام پر اپنا ہمسفر بناتا ہوں۔ کبھی ہنورمن گاؤں پاکستان کا حصہ تھا، مگر 71ء کی جنگ میں بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا اور دکھوں اور تقسیم کی ایک اور کہانی نے جنم لیا۔ چھومندو سے پچیس (25) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم دریائے شگر اور میرا سنگم اسکردو کے قریب ہے تو مزید ڈاؤن اسٹریم ہندوکش کے سائے سے بہنے والا ’دریائے گلگت‘ جگلوٹ کے قریب اور مزید گیارہ (11) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم نانگا پربت کی برف سے پھوٹنے والا ’دریائے استور‘ بُنجی کے مقام پر مجھ میں گرتے ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم کے سربفلک پہاڑوں، گلگت و بلتستان کی دل موہ لینے والی وادیوں، شاندار نظاروں سے بہتا، ہری پور کی پہاڑیوں سے راستہ بناتا پنجاب اور سندھ کے میدانوں کو شاداب کرتا، بدین اور ٹھٹہ کے اضلاع میں دنیا کا دوسرا بڑا ڈیلٹا بناتا بحیرہِ عرب میں گرتا ہوں۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش سلسلوں کی بہت سی ندیاں اور گلیشیر مجھ میں گرتے ہیں۔ میں دنیا کا واحد دریا ہوں جو ان تینوں پہاڑی سلسلوں کے درمیان سے بہتا ہوں۔ میں شمال مغربی سمت 15 سے 17 ہزار فٹ بلند پہاڑوں کے دامن سے بہتا خیبر پختون خوا میں داخل ہوتا ہوں۔ ان اونچے پہاڑوں سے نکل کر میں تیز دریا کی صورت بہتا تربیلا پہنچتا ہوں جہاں دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا ڈیم بھی مجھ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اٹک برج سے پہلے دریائے کابل مجھ میں گرتا ہے۔ میں کالا چٹا پہاڑی سلسلہ کے ساتھ بہتا خوشحال برج (جنڈ) سے گزرتا اپنی بھرپور جوانی میں داخل ہوتا پنجاب کے میدانوں میں بہنے لگتا ہوں۔ ڈیرہ اسماعیل خاں، کالاباغ، میانوالی، تونسہ شریف اور مٹھن کوٹ سے بہہ کر میں حضرت لال شہباز قلندر ؒ اور شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ کی دھرتی میں داخل ہوتا وادیٹ مہران کو ہریالی بخشتا ہوں۔ تین ہزار ایک سو اسی(3180) کلو میٹر کے اس طویل سفر میں میرے کنارے سینکڑوں بستیاں، ہزاروں دل فریب نظارے، لاتعداد شاندار مناظر، بے شمار تاریخی کہانیاں، ہزاروں قافلوں کی دھول کو خود میں سموئے بہت سی تاریخی عمارات کی شکست و ریخت کا گواہ بھی ہوں۔ کہیں میں ان کو چھوتا ہوں تو کہیں ان سے دور ہٹ جاتا ہوں، کہیں شور مچاتا ہوں تو کہیں دھاڑتا ہوں تو کہیں لوگوں کو ڈراتا ہوں، کہیں پر سکون رواں دواں رہتاہوں۔ غصے میں آجاؤں تو سب کچھ بہا لے جاؤں۔ میں اللہ کی نعمت بھی ہوں اور ظلم حد سے بڑھ جائے تو میں اس کا عذاب بھی بن جاتا ہوں۔ ہزاروں برس کی زندگی میں، میں نے بہت ادوار دیکھے ہیں۔ عروج و زوال کی بہت سی داستانوں کا امین ہوں۔ تم میرے سفر کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہو۔ میرا بچپن؛ میرے جنم سے لے کر تربیلا تک کا سفر، میری جوانی تربیلا سے سکھر تک کا سفراور میرا بڑھاپا سکھر سے میرے ڈیلٹا تک کا سفر۔۔ کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ میں برِ صغیر کا سب سے لمبا، ایشیاء کا چھٹا (6) بڑا اور دنیا کا اٹھارواں (18) بڑا دریا ہوں
”ہاں میری کتنی عمر ہے یا یوں کہہ لو میرا جنم کب ہوا، میں بھی نہیں جانتا۔ میں کب سے بہہ رہا ہوں اور میرے پیٹ سے کتنا پانی گزر چکا ہے، یہ بھی میرے علم میں نہیں۔ میں پڑھا لکھا نہیں لیکن سیانے ان باتوں پر ریسرچ میں مصروف ہیں۔ ان کی تحقیق آج بھی مفروضوں پر ہی قائم ہے۔ چلو تمھیں بتا ہی دیتا ہوں میں پچھلے پنتالیس (45) ملین برسوں سے بہہ رہا ہوں۔ یہ جنم چینی تبتی کیلاش کے پہاڑوں میں واقع چشمہ ’سنگ کھابب‘ میں ہوا، جہاں میں قطرہ قطرہ بہتا بہت ہی کمزور ہوں۔ محترم رضا علی عابدی صاحب نے تو یہاں اپنی پتلون کے پائینچے چڑھا کر مجھے پار کیا تھا۔ میرے وجود کو قریبی چشمے توانائی دیتے ہیں، جو میری جنم بھومی سے ایک سے تین دن کی مسافت پر ہیں۔ جیسے ’یارا‘ گاؤں سے ’بکھر‘ کا چشمہ ایک دن، ’لا مالو‘ گاؤں سے ’مقدس‘ چشمہ دو دن اور ’در جنگلہ‘ چشمہ تین دن کی کٹھن پیدل مسافت ہیں۔ درجنگلہ سے بہنے والی ’زم چو‘ zom chu شفاف اور میٹھے پانی کی ندی (نیلا پانی ندی) بھی مجھ میں گرتی ہے البتہ میرے وجود کو سب سے زیادہ توانائی ’راکھ موجونگ‘ نامی چشمہ دیتا ہے جو ’کالا پانی‘ جھیل سے پھوٹتا ہے اور اپنا سارا پانی مجھ میں انڈیل دیتا ہے۔ تبت کے پہاڑوں میں میں ایک کمزور لکیر کی مانند بہتا دو سو (200) کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ’دم چک‘ کے مقام سے بھارت میں داخل ہوتا ہوں۔ تم یوں سمجھ لو بچپن کی دہلیز سے نکلتا لڑکپن میں داخل ہوتا ہوں مگر میرا وجود ابھی بھی کمزور دھان پان سا ہی ہے۔ کبھی کبھی تو میں ان پہاڑی راستوں میں نظر بھی مشکل سے ہی آتا ہوں۔“
میں نے اُس سے پوچھا؛ ”سندھو! کچھ اپنے ہم وطنوں کی ثقافت، بودو باش، لباس اور زبان کے بارے تو بتاؤ۔“
وہ بولا؛ ”میں سمجھا؛ تم ایسی باتیں شاید جاننا نہیں چاہتے ہو۔ اچھا کیا تم نے پوچھ لیا۔ لو سنو میرے دیس کی کہانی۔۔
”شمال مشرقی ہمالیہ میں واقع براعظم ایشیاء کی سطح مرتفع ’پامیر‘ میں آباد تبت اور تبتی لوگوں کا دیس غالباً دنیا کی بلند ترین آبادی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی اوسط بلندی سولہ (16) ہزار فٹ ہے۔ تبتی یہاں کا سب سے بڑا لسانی گروہ ہے جب کہ دیگر میں ’مونوپس‘ ، ’کیانگ‘ ، ’لہبوس‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اکثریت بدھ مت کی ماننے والی ہے۔ قدیم ’بون‘ مذہب (بدھ مت سے بھی پہلے کا مذہب) کے ماننے والے بھی قلیل تعداد میں بستے ہیں۔ مسلمان اور عیسائی بھی آباد ہیں، جنہوں نے ماضیِ قریب میں اسلام قبول کیا یا عیسائیت اختیار کی۔ بدھ ازم کی جھلک تمھیں یہاں کے ادب، ثقافت، موسیقی اور تہواروں میں نمایاں نظر آئے گی۔ طرزِ تعمیر چینی اور ہندوستانی کا امتزاج ہے۔ بھنا ہوا باجرہ، یاک کا گوشت اور چائے یہاں کی مرغوب غذا ہے۔ ساتویں صدی تک میرا دیس متحد تھا لیکن پھر اس کے ٹکڑے ہوئے۔ کچھ حصہ پر چینی قابض ہو گئے اور کچھ پر دلائی لامہ کا تسلط ہو گیا۔ دلائی لامہ کا باغی گروپ آج بھی جلا وطنی میں اپنی آزادی کے لئے کوشاں ہے۔
”قدیم زمانے میں یہاں ’بوتائی‘ قوم آباد تھی اور اسی نسبت سے یہ علاقہ ’بوڈ‘ کہلاتا تھا۔ بعد میں تبت کے نام سے جانا جانے لگا اور یہاں آباد لوگ تبتی کہلانے لگے۔ کہتے ہیں ’ہنز‘ پہلی قوم تھی جو اکیس (21) ہزار سال قبل یہاں آباد ہوئی تھی۔ تین (3) ہزار سال قبل مسیح میں ’نیو لیتھک‘ نسل نے شمالی چین سے آ کر اس زمین کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ تبتی زبان کے مختلف لہجے تبت کے علاوہ بھوٹان، نیپال، شمالی ہندوستان، سکم، لداخ وغیرہ میں بولے جاتے ہیں۔ سکم، لداخی، شیپرا، وغیرہ بھی اسی زبان کی شاخیں ہیں۔ گو تبتی لب و لہجہ ہر علاقہ میں مختلف ہے لیکن لکھنے میں ایک ہی ہے۔ مسلمان یہاں چھٹی صدی عیسوی میں آئے جبکہ دو عیسائی پرتگالی مبلغ ’انتھونی انڈریڈ‘ اور ’منئیل مارکیوز‘ 1624ع میں ادھر پہنچے
”تبت کی دھرتی پر سجی دنیا کی دس (10) بلند ترین پہاڑی چوٹیاں (دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ تبت اور نیپال کی سرحد پر ہے) آسمان سے آنکھیں ملائے کھڑی ہیں۔ دنیا کے مشہور اور لمبے دریا بھی اسی دھرتی سے ہی جنم لیتے تمھاری زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ میرے علاوہ ان میں دریائے ینگسٹر، دریائے میکونگ، ییلو ریور، گنگا، برہما پتر وغیرہ شامل ہیں۔ تبت کی سر زمین ایشیاء اور چین کے ’واٹر ٹاور‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ چین تو یہاں پانی کے منصوبوں (water projects) میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تبت کے ان پہاڑوں میں دل موہ لینے والی جھیلیں بھی ہیں۔ تبتی زبان میں جھیل کو ’کویاٹسو‘ کہتے ہیں۔ ان میں مانسرور، کنگھائی (یہ چین کی سب سے بڑی جھیل ہے)، نمٹسو، پن گونگ، ڈنگ کو، پوما یمکو وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کی آب و ہوا سال کے نو (9) ماہ خشک رہتی جبکہ اوسطاً اٹھارہ (18) انچ سالانہ برف باری ہوتی ہے۔ پہاڑی درے برف باری کے باوجود آمد و رفت کے لئے زیادہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ مون سون ہوائیں مشرقی تبت پر اثر انداز ہوتی ہیں جبکہ شمالی تبت کا درجہِ حرارت گرمیوں میں انتہائی گرم اور سردیوں میں انتہائی سرد ہے۔ اسے سات (7) خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں چھوٹے بڑے سینکڑوں شہر و قصبے ہیں۔ دلائی لامہ کے دو محل پوٹیلو اور نور بلنک ورلڈ ہیرٹیج میں شامل ہیں۔ لو تبتی سرزمین سے دوسو (200) میل کا فا صلہ طے کرکے میں تیرہ ہزار (13000) فٹ کی بلندی پر واقع چھوٹے سے گاؤں ’دم چک‘ سے ہندوستان میں داخل ہو رہا ہوں۔“ سندھو نے ذرا سکوت کیا۔ میں نے غنیمت جانا۔ اس طویل سفر میں، میں بھی تو اس کا ہمراہی ہوں۔ پیدل کہاں تک سفر کروں۔ پاؤں تھک گئے تو داستان ادھوری رہ جائے گی، سو میں کسی گاڑی کا انتظام کرنے لگا ہوں۔۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 8)