بھارت میں ’نچلی ذات‘ کے دلِت ہندوؤں کو نفرت اور تزلیل کا سامنا ہے، جس سے بھارتی صدر دروپدی مرمو بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ اِن دنوں اُن کی مندر میں پوجا کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور اس دوران اُن کے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
بھارتی صدر نے گذشتہ منگل (20 جون) کو دہلی کے ’حوض خاص‘ علاقے میں واقع شری جگناتھ مندر میں پوجا کی تھی اور گذشتہ روز سامنے آنے والی ان کی یہ وائرل تصویر وہیں کی ہے
دراصل صدر مرمو 20 جون کو اپنی پینسٹھویں سالگرہ اور جگن ناتھ رتھ یاترا 2023 کے موقع پر جگن ناتھ مندر گئی تھیں۔ پوجا کے دوران بنائی گئی ان کی تصویر انڈین صدر کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے جاری کی گئی۔ ٹوئٹر پر اس تصویر کے ساتھ انھوں نے رتھ یاترا کے آغاز پر مبارکباد بھی دی تھی
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدر دروپدی مرمو مندر کے گربھ گریہ (مقدس مقام) کے احاطے کے باہر ہی ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہیں، جبکہ پجاری احاطے کے اندر اور مورتیوں کے عین سامنے پوجا کر رہے ہیں
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ان کی گربھ گریہ کے باہر سے پوجا کرنے پر ہی سوال اٹھایا ہے
کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ صدر دروپدی مرمو کا تعلق چونکہ نچلی ذات کی ہندو قبائلی برادری سے ہے، اس لیے انہیں مندر کے اس مخصوص حصے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، جبکہ اس سے قبل بھارت کے کئی وزرا اور سیاسی افراد اس مقام پر پوجا کر چکے ہیں
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اشونی وشنو اور دھرمیندر پردھان جیسے مرکزی وزرا کی تصویریں بھی ٹویٹ کی جا رہی ہیں، جن میں دونوں مختلف اوقات میں مندر کے گربھ گریہ میں پوجا کرتے نظر آ رہے ہیں
اور ان تصاویر کے ساتھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ جب اشونی وشنو اور دھرمیندر پردھان مندر اس مقام پر پوجا کر سکتے ہیں تو صدر مرمو کیوں نہیں؟
’دی دلت وائس‘ نامی ٹوئٹر ہینڈل نے اشونی وشنو اور صدر دروپدی مرمو کی تصویریں ٹویٹ کی ہیں اور لکھا ہے ”اشونی ویشنو (ریلوے کے وزیر) کو اجازت، دروپدی مرمو (صدر) کو اجازت نہیں“
سینیئر صحافی دلیپ منڈل نے بھی دروپدی مرمو اور مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ”دہلی کے جگناتھ مندر میں مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان مندر کے اندر پوجا کر رہے ہیں اور مورتیوں کو چھو رہے ہیں۔ لیکن یہ تشویش کی بات ہے کہ اسی مندر میں جمہوریہ ہند کی پہلی شہری کہی جانے والی صدر مرمو کو باہر سے پوجا کرنے کی اجازت دی گئی“
انہوں نے اس پر وضاحت طلب ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں ملوث پجاریوں کے خلاف مناسب کارروائی کی جانی چاہیے
بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کے وائی ایس ریڈی نے بھی اپنے ٹویٹ کے ذریعے سوال کیا ہے
وہ لکھتے ہیں ”صدر مرمو جی کو مندر کے اندر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ یہ مسلسل امتیازی سلوک کیوں؟“
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں قائم ہونے والے سیاسی اتحاد مہا وکاس اگھاڑی نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے انڈیا کے آئین لکھنے والے بی آر امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئے اس سلوک پر سوال کیا اور لکھا ”آپ جس طرف جانا چاہتے ہیں جائيں، لیکن ذات پات ایک ایسا عفریت ہے جو ہر جگہ آپ کے راستے میں آتا رہے گا“
اس بارے میں دہلی کے حوض خاص میں شری جگناتھ مندر کے پجاری سناتن پاڑی نے تصویروں سے پیدا ہونے والے تنازع کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ مندر میں بھی پوجا کرنے کا پروٹوکول ہوتا ہے۔ ان کے بقول ’تمام ہندو بلا تفریق ذات پات کے مندر جا سکتے ہیں۔‘
مندر کے گربھ گریہ میں پوجا کرنے کے بارے میں سناتن پاڑی نے کہا ”صرف وہی لوگ مندر کے مقدس مقام میں پوجا کر سکتے ہیں جن کو ہم مہاراجہ کے طور پر ورن (مدعو) کرتے ہیں۔ جن کو مدعو کیا گیا ہے صرف وہی اندر آ کر بھگوان کے سامنے پوجا کریں گے اور پھر جھاڑو لگا کر واپس جائیں گے۔ صدر مملکت ذاتی طور پر بھگوان کا آشیرواد لینے کے لیے مندر میں آئی تھیں تو وہ اندر کیسے جاتیں، اسی لیے وہ اندر نہیں آئیں“
انھوں نے مزید کہا ”اس بارے میں ٹوئٹر پر جو تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ تمام لوگ مندر کے اندر جا سکتے ہیں۔ لیکن صرف وہی لوگ اندر جائيں گے جنھیں ہم مدعو کریں گے۔ جو اصول ہے وہ سب کے لیے ہے“
یاد رہے کہ اس سے قبل ملک کے سابق صدر رام ناتھ کووند کے ساتھ بھی ایک مندر میں بدسلوکی کا معاملہ سامنے آ چکا ہے۔ راشٹرپتی بھون یعنی ایوان صدر نے بھی اس معاملے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن پھر بھی مندر نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی
رام ناتھ کووند کا تعلق دلت برادری (ہندوؤں کی ادنی ذات) سے ہے اور مارچ سنہ 2018 میں جب وہ عہدے پر تھے تو پوری کے مشہور جگن ناتھ مندر میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی تھی
18 مارچ 2018 کو صدر کووند اور ان کی اہلیہ جگناتھ مندر گئے۔ اس دورے کے ’منٹس‘ میڈیا میں لیک ہو گئے تھے۔ ان میں کہا گیا تھا کہ ’جبر صدر رتنا سنگھاسن (جس پر بھگوان جگن ناتھ بیٹھے ہیں) پر سر جھکانے گئے تو وہاں موجود کھونٹیا میکاپ سیوکوں نے انھیں راستہ نہیں دیا۔ کچھ سیوک صدر کے جسم سے چمٹے رہے تھے حتیٰ کہ محترم صدر کی اہلیہ جو کہ بھارت کی خاتون اول ہیں ان کے سامنے بھی وہ آ گئے۔‘
ذرائع کے مطابق صدر نے پوری سے روانہ ہونے سے پہلے ہی وہاں کے کلکٹر اروند اگروال سے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس معاملے پر راشٹرپتی بھون کی جانب سے بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا
مارچ میں پیش آنے والے اس واقعے کا علم لوگوں کو تین ماہ بعد جون میں ہوا
بہر حال اہم نکتہ یہ ہے کہ صدر کی جانب سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے اور اس پر مندر انتظامیہ کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہونے کے تین ماہ بعد بھی مندر انتظامیہ نے اس حساس معاملے میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی
ملک کی موجودہ صدر دروپدی مرمو اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی قبائلی شخصیت ہیں
وہ مشرقی ریاست اڑیسہ کے میور بھنج ضلع کے کسومی بلاک سے آتی ہیں۔ ان کے گاؤں کا نام اوپربیڑا ہے اور وہ اوڈیشہ کی رائرنگ پور سیٹ سے ایم ایل اے رہ چکی ہیں
اس کے علاوہ وہ اوڑیسہ حکومت میں وزیر اور جھارکھنڈ کی گورنر بھی رہ چکی ہیں
دروپدی مرمو نے سنہ 1979 میں بھونیشور کے رام دیوی ویمنس کالج سے بی اے پاس کیا اور پھر پیشہ ورانہ کریئر کا آغاز حکومت اوڈیشہ میں بطور کلرک کیا۔ پھر وہ محکمہ آبپاشی اور توانائی میں جونیئر اسسٹنٹ بنیں۔ بعد کے سالوں میں وہ ایک ٹیچر بھی تھیں
انھوں نے رائرنگ پور میں سری اروبندو انٹیگرل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر میں اعزازی استاد کے طور پر پڑھایا۔ اپنے کام کے دنوں میں وہ ایک محنتی ملازم کے طور پر جانی جاتی تھیں
دروپدی مرمو نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1997 میں ایک وارڈ کونسلر کے طور پر کیا۔ اس کے بعد وہ رائرنگ پور نگر پنچایت انتخابات میں وارڈ کونسلر منتخب ہوئیں اور نگر پنچایت کی نائب صدر بن گئیں
اس کے بعد، وہ سیاست میں آگے بڑھتی رہی اور رائرنگ پور اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر دو بار (2000 اور 2009) ایم ایل اے منتخب ہوئیں۔ پہلی بار ایم ایل اے بننے کے بعد وہ 2000 سے 2004 تک نوین پٹنائک کی کابینہ میں آزادانہ چارج کے ساتھ وزیر مملکت رہیں
ایک وزیر کے طور پر انھوں نے تقریباً دو سال تک ماہی پروری کے علاوہ کامرس اور ٹرانسپورٹ اور جانوروں کے وسائل کا محکمہ سنبھالا۔ اس وقت نوین پٹنائک کی پارٹی بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) اور بی جے پی اوڈیشہ میں مخلوط حکومت چلا رہے تھے
2015 میں جب انھیں پہلی بار گورنر بنایا گیا اس سے پہلے تک وہ ضلع میوربھنج کی بی جے پی صدر تھیں۔ وہ 2006 سے 2009 تک بی جے پی کے ایس ٹی (شیڈولڈ کاسٹ) مورچہ کی ریاستی صدر رہ چکی ہیں
وہ دو بار بی جے پی ایس ٹی مورچہ کی قومی ایگزیکٹو ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ سال 2002 سے 2009 اور سال 2013 سے اپریل 2015 تک وہ اس مورچہ کی قومی ایگزیکٹو کی رکن رہیں۔ اس کے بعد وہ جھارکھنڈ کی گورنر کے طور پر نامزد ہوئیں اور بی جے پی کی فعال سیاست سے الگ ہوگئیں۔
سنہ 2022 سے وہ بھارت کی صدر ہیں۔