یہ 1839ع کی بات ہے، جب برطانوی رکنِ پارلیمنٹ، سفارتکار اور جنوب ایشیائی ممالک پر کئی کتابوں کا مصنف ای بی ایسٹوک گجرات، پالن پور، کاٹھیاواڑ اور کچھ سے ہوتا ہوا، سمندر کے ذریعے سندھ پہنچا۔ وہ لکھتا ہے ’’میں جیسے جیسے کاٹھیاواڑ کے نزدیک ہوتا گیا تو ملک زیادہ غیرآباد دیکھنے کو ملا۔ ہر گاؤں کے گرد ہڈیوں کے ڈھیر دیکھنے کو ملے، سچ پوچھیں تو خشک سالی اتنی خطرناک تھی کہ پورے ملک کے مویشی مر کھپ چکے تھے۔ ملک میں شدید قحط پڑا تھا اور مجبوریاں اتنی تھیں کہ والدین اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے لاتعداد مرچکے تھے اور مسلسل مر رہے تھے۔ اس طرح کی مصیبتیں کاٹھیاواڑ اور کَچھ کی طرف آتی رہتی ہیں۔ اگر ہماری حکومت چاہے تو ان کو روکنے کے لیے تدابیر کی جاسکتی ہیں۔ ہم اس علاقے سے ہر برس 6 لاکھ 80 ہزار کا ٹیکس لیتے ہیں، لیکن اس رقم سے یہاں عوام کے لیے کچھ خرچ نہیں کرتے۔‘‘
یہ ایک سو پچاسی برس پرانے منظرنامے ہیں۔ ان لگ بھگ دو صدیوں میں تبدیلی آنی تو چاہیے تھی، مگر تھر اور اچھڑو تھر میں شاید کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ روہی، اچھڑو تھر، تھر، کَچھ و کاٹھیاواڑ کا طبعی طور پر ایک ہی بیلٹ ہے۔ صحرائے تھر سے منسوب یہ کہاوت کافی مشہور ہے کہ تھر دراصل برسنے کے بعد ’تھر‘ ہوتا ہے۔ اگر بادل نہ برسیں تو یہ’بر‘ (بیاباں) ہی رہتا ہے۔
بر اس لیے کہا جاتا ہے کہ کم بارشیں ہونے سے گھاس اور فصل بہت کم اُگتی ہیں اور ایک دو ماہ میں سوکھ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے سبزہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ زیرِ زمین پانی کی سطح اس حد تک گر جاتی ہے کہ پانی کڑوا ہونے لگتا ہے۔ اس طرح تھر باسیوں کے آنگن میں ویرانیاں بسیرا کرنے لگتی ہیں کیونکہ ہزاروں خاندان بیراجی علاقوں (بدین، سجاول اور ٹھٹہ) کی طرف نقل مکانی شروع کر دیتے ہیں، تاہم اس برس بارانِ رحمت برسنے سے یہ صحرائی علاقہ ’بر‘ سے ’تھر‘ ہوگیا ہے
بارش ریگستانی تھرپارکر کے وسیع و عریض علاقے میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتی ہے اور پورے علا قے کا روپ بدل دیتی ہے۔ اس علاقے کے لو گ بارش کا شدت سے انتظار کرتے اور بارش والے روز ہر گھر اور ہر فرد خوشی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ چرند کے لیے بھوک مٹانے کے لیے گھاس اور پیاس مٹانے کے لیے پانی میسر ہوتا ہے۔ تھر کا خوبصورت پرندہ مور بھی بارش کے بعد مختلف علاقوں میں خوشی سے ٹہلتا دکھائی دیتا ہے
کسانوں کے لیے پہلی اچھی طرح برسنے والی بارش یہ پیغام لاتی ہے کہ زمین ہموار کی جائے اور اس میں بیج ڈالا جائے۔ کسان کھیتوں میں صبح سے شام تک کام کرتے ہیں۔ ان کی روزی کا وسیلہ کاشت کاری پر ہی ہے ۔اگر ضرورت کے مطابق بارش ہو گئی تو ٹھیک ورنہ پھر سال بھر مفلسی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی
بارش کا نہ ہونا یا کم برسنا تو تھر کا مسئلہ ہے ہی، لیکن کسانوں کو کاشت کے لیے مہنگے بیجوں کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ تھر کے کسان بارشوں کے انتظار میں آسمان کی طرف تکتے رہتے ہیں، اگر بارشیں ہو جائیں تو فصلوں کی کاشت کے لیے جب وہ بیج لینے بازار پہچتے ہیں تو مہنگائی انہیں اپنی کمزور جیبوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے
اسی حوالے سے جی آر جونیجو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے ان کسانوں کی مشکلات کو بیان کیا گیا ہے۔ انہی میں تھرپارکر کے ایک کسان محمد شریف جونیجو بھی ہیں، جو پچھلے پینتیس سال سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی فصل اچھے داموں فروخت ہو جائے۔ جب وہ فصل کا بیج خریدنے جاتے ہیں تو اس کے نرخ چڑھے ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی پیداوار لے کر منڈی پہنچتے ہیں تو اس کی قیمت گر چکی ہوتی ہے
شریف کا تعلق تھرپارکر کے گاؤں ڈابھڑو سے ہے۔ اس پورے علاقے میں زراعت کا دارومدار بارش پر ہوتا ہے۔ بارش بروقت اور اچھی ہو تو فصل اچھی ہو جاتی ہے وگرنہ انہیں اس سے کوئی خاص آمدن نہیں ہوتی۔ اسی لیے انہوں نے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے پچیس بکریاں بھی پال رکھی ہیں
شریف بتاتے ہیں ”گزشتہ سال میں نے گوار کا بیج سات ہزار روپے فی من کے حساب سے خریدا تھا۔ فصل تیار ہوئی تو منڈی میں اس کا فی من ریٹ دو ہزار آٹھ سو سے تین ہزار دو سو روپے تک نکلا“
اس برس انہیں فی من بیج آٹھ ہزار روپے میں ملا ہے، جو ان کے بقول بارشوں کا موسم شروع ہونے کے بعد مزید مہنگا ہو جائے گا۔
یہی حال باجرے کا ہے، جس کا بیج انہوں نے پچھلے سال چھ ہزار روپے من میں خریدا تھا لیکن ان کی فی من پیداوار دو ہزار نو سو روپے میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے موٹھ کا بیج آٹھ ہزار روپے من کے حساب سے خریدا، جس کی فصل تین ہزار آٹھ سو روپے فی من کے ریٹ میں بک سکی
شریف کہتے ہیں ”اس مرتبہ موٹھ کے بیج کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ چار ماہ بعد جب فصل تیار ہوگی تو اس کی قیمت گر چکی ہوگی کیونکہ ہم سالہا سال سے یہی دیکھتے چلے آئے ہیں۔ چار ماہ کی محنت کے بعد فصل سے اتنی آمدن بھی نہیں ہوتی کہ چھ سے آٹھ ماہ گزار سکوں۔ جب پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو اپنی بکریاں بیچ کر گھر چلاتا ہوں۔ گھر میں شادی بیاہ ہو یا کوئی بیمار پڑ جائے تو قرض لینا پڑتا ہے“
تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے کاشت کار گلاب را کہتے ہیں کہ اس علاقے میں کھیتی باڑی سے اتنی آمدن نہیں ہوتی کہ اس سے گھر کا سالانہ خرچ پورا ہو سکے۔ انہوں نے بھی شریف جونیجو کی طرح چند بھیڑیں بکریاں پال رکھی ہیں، جو آڑے وقت میں ان کے کام آتی ہیں
گلاب کہتے ہیں ”اگر سرکار ہمیں رعایتی نرخوں پر بیج او ہر سال اس علاقے کی مخصوص فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کرے، تبھی یہاں کھیتی باڑی کرنے میں فائدہ ہے۔ سرکار صرف گندم، گنے اور کپاس کی امدادی قیمتوں کا اعلان کرتی ہے۔ اگرچہ ان پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہوتا لیکن تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہو جاتا ہے“
ان کے علاقے میں زیادہ تر کسان گوار کاشت کرتے ہیں کیوں کہ اس کی فصل سخت گرمی اور بارش میں تاخیر کے باوجود قائم رہتی ہے۔ باجرا نسبتاً کم لوگ کاشت کرتے ہیں کیوں کہ اس پر زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ جب اس کی فصل تیار ہونے لگتی ہے تو ڈھائی ماہ تک اس کی دیکھ بھال کرنا خصوصاً اسے پرندوں سے بچانا بھی ضروری ہوتا ہے، لیکن اس کی قیمت سب فصلوں سے کم ملتی ہے اور زیادہ تر لوگ اسے گھر میں بطور خوراک استعمال کرنے کے لیے رکھ لیتے ہیں
چھاچھرو میں گوار کے کاشت کار بیجل کولہی ٹریکٹر کے ذریعے فصل کی بوائی کرواتے ہیں، جس پر فی گھنٹہ ڈھائی ہزار روپے کے حساب سے تقریباً ساڑھے سات ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے پانچ ہزار روپے دے کر بوائی کروائی تھی، بیج کا خرچ الگ تھا اور فصل پر ان کے بیٹے بیٹیوں اور بیوی نے بھی کام کیا۔ جب وہ اپنی فصل لے کر منڈی میں گئے تو وہ اکیس ہزار روپے میں بکی
بیجل کہتے ہیں ”گوار پر آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے اکثر ہم اپنی فصل کو بطور سبزی استعمال کرنے کے لیے گھر میں ہی رکھ لیتے ہیں۔ کھیتی باڑی سے فائدے کی امید نہ ہو تو ہم شہر جا کر مزدوری کرتے ہیں۔ یہی حالات رہے تو انہیں کاشت کاری چھوڑنا پڑے گی“
مٹھی میں ان دِنوں دکانوں پر گوار آٹھ ہزار روپے فی من، باجرا چار ہزار روپے فی من، مونگ ساڑھے چھ ہزار ، موٹھ چار ہزار آٹھ سو روپے اور تل پانچ سو روپے فی کلو مل رہا ہے۔ تھرپارکر کی یہی مخصوص فصلیں ہیں، جنہیں تیار ہونے میں تین سے چار ماہ لگتے ہیں۔
تھرپارکر کی تحصیل اسلام کوٹ میں ٹریڈر ایسوسی ایشن کے صدر کلدیپ پاروانی کسانوں کو فصلوں کی کم قیمت ملنے کا ذمہ دار برآمد کنندگان کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”علاقے میں اکثر کسان گوار کاشت کرتے ہیں۔ گوار بیرون ملک برآمد ہوتا ہے کیونکہ اس کا پاؤڈر مختلف صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیٹرجنٹ انڈسٹری بھی گوار خرید کر کام میں لاتی ہے۔ فصل تیار ہونے کے بعد برآمد کنندگان تھرپار میں آتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ اس مرتبہ فصل کیسی ہوئی ہو گی؟ اگر انہیں محسوس ہو کہ فصل اچھی ہے تو وہ اس کی قیمت میں کمی کر دیتے ہیں۔ اگر فصل اچھی نہ ہو تو کسانوں کو مناسب دام مل جاتے ہیں“
کلدیپ بتاتے ہیں ”موٹھ اور مونگ حیدرآباد اور کراچی کی دال ملوں میں فروخت ہوتی ہے اور ان دونوں کی قیمت بھی وہی فیکٹریاں طے کرتی ہیں۔ باجرا عام مارکیٹ میں بکتا ہے اور اس کی قیمت طے کرنے میں بڑے شہروں کے تاجروں کا نمایاں کردار ہوتا ہے“
تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر لال ڈنو منگی مقامی فصلوں کی سرکاری قیمت سالانہ بنیادوں پر طے کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے متعلقہ ادارے تو موجود ہیں، لیکن وہ اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہے۔ وہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ اس مرتبہ وہ تمام اداروں سے رابطہ کر کے فصلوں کا سرکاری ریٹ مقرر کرنے کے لیے کمیٹی بنائیں گے جس کے فیصلوں پر عمل بھی کروایا جائے گا
کلدیپ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت گندم کی طرح تھرپارکر کی مقامی فصلوں کے بھی خریداری پوائنٹ قائم کر کے اپنے مقررہ نرخوں پر فصل خریدے تو کسانوں کو جائز قیمت ملے گی۔ ”حکومت تھرپارکر میں اپنے گودام قائم کر کے ان میں گوار اور دیگر فصلیں خرید کر رکھے تو ناصرف منڈی میں ان کے بیجوں کی قیمت مناسب حدود میں رہے گی بلکہ پیداوار کی قیمتوں میں ناجائز کمی کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ جب حکومت خود ان فصلوں کو فروخت کرے گی تو ناصرف کسانوں بلکہ مقامی لوگوں اور تاجروں کو بھی فائدہ ہو گا۔“
واضح رہے کہ حال ہی میں حکومت نے ’گرین پاکستان انیشیئیٹو‘ منصوبے کا اعلان کر کے پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس ’انقلاب‘ کے آتے آتے تھر کے کسانوں کو رعایتی نرخوں پر بیجوں کی فراہمی اور یہاں کی فصلوں کی سرکاری قیمت سالانہ بنیادوں پر طے کرنے کا ہی فیصلہ کر لے۔
یہ بھی پڑھیں: