فلسطینیوں کی صدیوں پرانی تاریخ کی گواہی دیتی یروشلم کی قدیم لائبریری کی کہانی

ویب ڈیسک

اسرائیل کی جانب سے ضم کیے جانے والے مشرقی یروشلم میں ایک اہم لائبریری اس فلسطینی تاریخ کی ایک نایاب جھلک پیش کرتی ہے، جس میں اسرائیل کے وجود میں آنے سے سینکڑوں سال پہلے کے مخطوطات/ قلمی مسودات کا پورا خزانہ موجود ہے

فصیلوں میں گھرے شہر میں واقع خالدی لائبریری میں، رامی سلامہ ایک بوسیدہ مسودے کا ماہرانہ معائنہ کر رہے ہیں۔ یہ ان کی تاریخی فلسطینی دستاویزات کی بحالی اور ان کو ڈجیٹل شکل دینے کی کوششوں کا حصہ ہے

اٹلی سے تربیت یافتہ رامی سلامہ عربی گرامر کے ایک نازک متن پر خشک برش کو احتیاط سے چلاتے ہوئے کہتے ہیں ”ان مخطوطات میں فقہ سے لے کر فلکیات، پیغمبرِ اسلام (محمدﷺ) کی سیرت و حیات اور قرآن کے نادر نسخے شامل ہیں“

اپنی چھوٹی سی ورکشاپ میں وہ سکون کا سانس لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دو سو سال پرانی دستاویز کو آکسیڈیشن (عملِ تکسید) کے نتیجے میں رنگ اڑ جانے کا خدشہ نہیں ہے

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق تنہا کام کرتے ہوئے، سلامہ گذشتہ ڈھائی سال میں ایک درجن سے زائد مسودات کے بارہ سو صفحات کو پہلے ہی بحال کر چکے ہیں، جو نجی فلسطینی لائبریریوں سے ملے تھے۔ یہ اشیاء تین سو سال تک قدیم، عثمانیہ دور کی ہیں۔ زیادہ تر مسودات خود خالدی لائبریری سے لیے گئے ہیں، جو فلسطینی علاقوں میں عربی اور اسلامی نسخوں کا سب سے بڑا نجی ذخیرہ ہے

تاریخ داں ندی أبو سعادہ نے ایک ٹوئٹ میں وڈیو شئیر کی ہے، جس میں اس تاریخی لائبریری کو، پرانے شہر کو، یہاں کے نادر ذخیرے کو اور یہاں کام کرنے والوں کو دیکھا جاسکتا ہے

فصیلوں میں گھرے قدیم شہر میں مسجد اقصیٰ کے داخلی دروازے کے قریب واقع خالدی لائبریری 1900 میں ایک معروف فلسطینی، راغب الخالدی نے اپنی والدہ خدیجہ کی درخواست پر قائم کی تھی۔ یہاں فارسی، جرمن، اور فرانسیسی کتب موجود ہیں، جن میں وکٹر ہیوگو کی ساٹھ کتب کا مجموعہ بھی شامل ہے۔ اس کے بانی سوربون نے پیرس میں تعلیم حاصل کی

اس کی مرکزی عمارت مغربی دیوار گریہ – یہودیوں کی مزعومہ مقدس ترین عبادت گاہ – سے ہٹ کر ہے جہاں مبینہ طور پر جنگجو بادشاہوں نے بارہویں اور تیرہویں صدی میں یروشلم کو صلیبیوں سے آزاد کرانے میں کردار ادا کیا تھا

اس مجموعے میں بااثر خالدی خاندان کی دستاویزات سمیت، کتابیں، خط و کتابت، عثمانیہ دور کے فرمان اور اخبارات شامل ہیں، جو اس مقدس شہر میں ماضی کی زندگی کا بھرپور نظارہ پیش کرتے ہیں

لائبریری میں دسویں صدی کا ایک قلمی نسخہ بصرہ کے ایک عالم ابن درید کی کتاب سے ہے، جو غالبأ ان کی اپنی تحریر میں ہے

رامی کے والد، لائبریرین خضر سلامہ جو اس مجموعے کا انتظام کرتے ہیں، کہتے ہیں ”ہمارے پاس ایسے مسودات ہیں، جو یروشلم کے لوگوں کی ثقافتی اور سماجی حیثیت کے بارے میں بتاتے ہیں، اور یہ صدیوں سے یہاں فلسطینیوں کی موجودگی کا اشارہ ہے۔“

خضر سلامہ کہتے ہیں ”لائبریری کے مندرجات صیہونی دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ یہ ملک غیر آباد تھا۔“

انہوں نے اس رائج اسرائیلی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، جس کے مطابق 1948 میں اسرائیل کے قیام اور ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی بے دخلی سے قبل یہ سر زمین غیر آباد تھی

 1967ء کی چھ روزہ جنگ سے اب تک

مشرقی یروشلم میں فلسطینی خاندانوں کو اس وقت سے اکثر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے لیے بے دخل کیا جاتا رہا ہے جب سے اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اولڈ سٹی سمیت اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے ضم کرلیا تھا۔

اس اقدام کو اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری نے غیر قانونی قرار دیا تھا

اس لائبریری میں فارسی، جرمن اور فرانسیسی کتابیں بھی ہیں جن میں فرانسیسی مصنف وکٹر ہیوگو کا ایک مجموعہ بھی شامل ہے

لائبریرین خضر سلامہ نے تاسف کے ساتھ کہا کہ لائبریری کے کچھ حصے پر اسرائیلی آباد کاروں نے یہودی مذہبی اسکول بنانے کے لیے قبضہ کر لیا تھا۔ لائبریری کی انتظامیہ نے تصفیہ کے لیے ایک طویل قانونی جنگ لڑی لیکن اس کے کچھ حصے پر قبضے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی

خضرسلامہ نےبتایا کہ اسرائیلی دانشوروں نے لائبریری انتظامیہ کی حمایت کی اور ہمارے حق میں عدالت میں گواہی دی

ان کے بقول، نتیجہ بہت زیادہ خراب ہو سکتا تھا اور آباد کار تمام املاک پر قبضہ کر لیتے اگر یہ حمایت انہیں حاصل نہ ہوتی

اس وقت سے لائبریری نے مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے یروشلم میں ثقافتی ورثے کو اپنی بحالی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے محفوظ کرنا جاری رکھا ہوا ہے

ایک ڈیجیٹل آرکائیو افسر شمع البدیری کہتی ہیں ”ہم کاغذ کو روشنی میں لائے بغیر، دستاویزات کو بہت زیادہ درستگی کے ساتھ پکڑتے ہیں، کیوں کہ مخطوطات بہت نازک ہوتے ہیں اور ہم انہیں زیادہ سے زیادہ دیر تک محفوظ رکھنا چاہتے ہیں“

ڈیجیٹل آرکائیو افسر شمع البدیری اپنے دفتر میں سیکڑوں کتابوں اور آلات سے گھری ہوئی رہتی ہیں جب کہ اپنے کمپیوٹر پر تصاویر بنانے اور اپ لوڈ کرنے کے لیے صفحات کو پہلے صاف کرتی ہیں

آج تک انہوں نے یروشلم کی چار نجی لائبریریوں سے تقریباً 25 لاکھ صفحات کے مخطوطات، اخبارات، نایاب کتابوں اور دیگر دستاویزات کی تصویر کشی کی ہے

وہ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹلائزیشن آگے بڑھنے کا راستہ ہے کیوں کہ یہ محققین کو لائبریری کی محفوظ شدہ دستاویزات تک دور دراز رسائی کی اجازت دیتا ہے

انہیں امید ہے کہ بحالی کے کام کے لیے مزید فنڈنگ حاصل کی جائے گی تاکہ تیزاب سے پاک اسٹوریج بکس سمیت دیگر ساز و سامان خریدا جا سکے

وہ نمی سے محفوظ رکھنے لیے ورکشاپ کو بھی اپ ڈیٹ کرنا چاہتی ہیں، جس سے نازک مخطوطات کے ساتھ ان کے کام کو خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتابوں سے ان کی محبت ہی ان کے کام کے لیے جنون کو آگے بڑھاتی ہے

”اگر میں کسی کو بے دردی سے کتاب پکڑے ہوئے دیکھتی ہوں، تو مجھے لگتا ہے کہ کتاب تکلیف میں ہے“

شمع البدیری کہتی ہیں ”کتاب آپ کو کچھ دیتی ہے، آپ سے چھینتی نہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close