اپنی ماں کا قاتل رحمان ڈکیت، جس نے بھتے اور منشیات سے کمائی دولت سے ایران تک میں جائیدادیں خریدیں۔۔

جعفر رضوی

’مارنا نہیں۔۔۔ کوئی غلط کام نہیں کرو۔۔۔ جو بھی مقدمات ہیں اسے (عدالت میں) پیش کرو۔ انکاؤنٹر نہیں کرنا۔‘ آصف زرداری نے رحمان (ڈکیت) کو حراست میں لینے والے پولیس افسر چوہدری اسلم سے کہا۔‘

اسلام آباد بلکہ ’راولپنڈی‘ تک پہنچ رکھنے والے یہ سیاستدان، پاکستان سے باہر ہونے والی ملاقات میں مجھے رحمان ڈکیت کی کہانی سنا رہے تھے۔

چاہے آپ ’پیپلز امن کمیٹی‘ کے بانی سربراہ سردار عبدالرحمان بلوچ کہیں یا ’کراچی انڈر ورلڈ‘ کا ڈان رحمان ڈکیت۔۔۔ یہ ایسے کردار کی کہانی ہے جس نے آنکھ تو شہر کے پسماندہ علاقے میں کھولی مگر لیاری گینگ وار کے اس ’کرائم لارڈ‘ کی پہنچ پولیس اور فوج کے خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران تک ہی نہیں بلکہ ملک کے صدر تک بھی رہی۔

وہ سیاسی رہنما، جنھوں نے مجھے یہ کہانی سنائی، خود بھی مختلف حکومتوں کا حصہ رہے مگر حیرت انگیز طور پر کراچی ’انڈر ورلڈ‘ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔

یہ سیاستدان جب مجھے کہانی سنا رہے تھے تو انھوں نے سرکاری دستاویزات اور حکام کے حوالے دیتے ہوئے (نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر) مجھے یہ گفتگو ریکارڈ کرنے اجازت بھی دی اور رحمان بلوچ کی ایسی ’خفیہ معلومات‘ بھی دیں جو کبھی سامنے نہیں آ سکیں۔

’کراچی انڈر ورلڈ‘ سیریز کی اس پانچویں اور آخری قسط میں یہی معلومات پہلی بار سامنے آ رہی ہیں لیکن یہ کہانی صرف ایک سیاستدان کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہر گز نہیں۔

18 جون 2006 کو کوئٹہ سے ’زندہ حالت‘ میں اپنی آخری (مگر سرکاری طور پر کبھی ظاہر نہ کی جانے والی) گرفتاری کے بعد خود رحمان بلوچ نے تفتیشی حکام کے سامنے اپنی ماں کو قتل کرنے سمیت 79 وارداتوں میں ملوث ہونے کے سنسنی خیز انکشافات کیے تھے۔

بی بی سی کو حاصل ہونے والی رحمان بلوچ کی یہ تفتیشی رپورٹ انتہائی خفیہ سرکاری دستاویز تھی جو صرف ان کے جرائم ہی ظاہر نہیں کرتی بلکہ سیاست اور جرم کے گھناؤنے تعلق سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔

رپورٹ میں 13 برس کی عمر سے جرائم کا آغاز کر کے ’انڈر ورلڈ ڈان‘ بن جانے والے رحمان بلوچ کے صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان، قوم پرست تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور ممتاز و معروف تجارتی و کاروباری شخصیات سے تعلقات کا ذکر بھی ہے اور قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، منشیات کے دھندے کی تفصیل بھی۔ ممتاز و معروف شخصیات کے قتل اور پولیس اہلکاروں و افسران کی ہلاکتوں کا ذکر بھی ہے اور پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام سے خفیہ تعلقات کا بھی۔

اسلحہ کہاں سے ملتا ہے اور منشیات کس سے خرید کر کہاں کہاں بیچی جاتی ہیں، سب درج ہے لیکن جو کہانی میں آپ تک پہنچا رہا ہوں وہ محض صرف اسی خفیہ سرکاری رپورٹ کا نچوڑ نہیں۔ بی بی سی کو اور بھی بہت ہی حساس خفیہ دستاویزات بھی دستیاب ہوئی ہیں۔

اگر اس تحقیق کا سارا مواد یکجا کر لیا جائے تو انتہائی سنسنی خیز کہانی سامنے آتی ہے بالکل کسی بالی وڈ فلم یا نیٹ فلکس کی کسی ایکشن تھرلر سیریز جیسی کہانی مگر پہلے رحمان بلوچ کے خاندانی پس منظر اور لیاری کے ماحول کا ذکر بہت ضروری ہے ورنہ کہانی سمجھنا مشکل ہو جائے گا۔

کراچی بندرگاہ کی دونوں جانب الگ الگ دنیا آباد ہے، ایک طرف مولوی تمیز الدین خان روڈ ہے اور دوسری جانب ایم اے جناح روڈ۔ مولوی تمیز الدین خان روڈ عبور کر لی جائے تو شہر کی امیر ترین آبادی اور مہنگے ترین تفریحی مقامات ہیں لیکن اُسی بندرگاہ کی دوسری جانب ایم اے جناح روڈ کے عقب میں لیاری واقع ہے۔ غربت کے نطفے سے بیروزگاری کی کوکھ میں جنم لینے والے ’جرائم‘ کا گڑھ۔

شہر کے جنوب سے مغرب تک دراز کراچی کی سب سے قدیم مگر انتہائی غریب درجنوں آبادیوں کا یہی طویل سلسلہ جرائم کی وسیع و عریض سلطنت بھی ہے۔ ہر طرح کی منشیات، اسلحے، بھتے، اِغوا برائے تاوان، غیر قانونی تجارت یا سمگلنگ کا سب سے بڑا اور بدنام مرکز بھی اور سٹریٹ کرائم اور دیگر گھناؤنے جرائم کی آماجگاہ بھی۔

یہی لیاری ہے اور ایسا ہی ہے۔ اسی لیاری سے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو وزارت عظمیٰ اور اقتدار کے ایوانِ تک پہنچے مگر بابو ڈکیت اور رحمان بلوچ جیل اور قبرستان تک۔

بی بی سی کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق عبدالرحمان (یا رحمان ڈکیت) کا جنم 1976 میں داد محمد عرف دادل کے گھر ہوا۔ رحمان کے والد کا تعلق ایران کے صوبے سیستان کے بلوچ اکثریتی حصے آشار اور والدہ کا تعلق سرباز سے تھا۔

یہ خاندان بلوچستان کے علاقے حب میں بھی آباد رہا مگر رحمان کی پیدائش کے وقت داد محمد لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں واقع دادل ہاؤس کے رہائشی تھے۔ رحمان، دادل کی دوسری زوجہ کے بطن سے تھے۔

رحمان کے ایک فرسٹ کزن نے مجھے بتایا کہ ’رحمان کے والد چار بھائی تھے۔ داد محمد (دادل) شیر محمد (شیرو) بیک محمد (بیکل) اور تاج محمد۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دادل نے لیاری میں کئی فلاحی کام بھی کیے۔ بچوں کے لیے لائبریری، بزرگوں کے لیے عید گاہ، خواتین کے لیے سلائی کڑھائی کا مرکز اور نوجوانوں کے لیے باکسنگ کلب بنائے‘ مگر تفتیشی دستاویزات اور پولیس، فوج اور خفیہ اداروں کے حکام کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

کراچی پولیس کے ایک سابق سربراہ نے مجھے بتایا کہ ’دادل اور اُن کے بھائی شیرو دونوں ہی منشیات کے دھندے سے وابستہ رہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق شیرو تو ’ہسٹری شیٹر‘ (پرانے اور عادی جرائم پیشہ) بھی تھے۔‘

لیکن شیرو دادل گروہ لیاری میں منشیات فروشی یا دیگر جرائم کی اکیلی فرنچائز ہرگز نہیں تھا۔ اقبال عرف بابو ڈکیت کا گروہ بھی قریبی محلّے کلری میں منشیات کے دھندے کا بڑا نیٹ ورک تھا اور تیسری جانب تھا حاجی لالو کا گروہ جو جہان آباد، شیر شاہ قبرستان پرانا گولیمار جیسے علاقوں میں پتھاریداری، منشیات اور بھتّے کا کاروبار چلاتا تھا۔

سابق ڈی آئی جی نے مجھے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر جیب کتروں پر مشتمل لالو کا یہ گروہ پھر اغوا برائے تاوان کے منافع بخش دھندے سے جُڑ گیا اور قتل و غارت میں بھی ملوث رہا۔ لالو کے کئی بیٹے (ارشد پپّو اور یاسر عرفات وغیرہ) بھی اس دھندے میں رہے۔‘

سابق ایس پی لیاری فیاض خان کا کہنا ہے کہ ’ایک ہی دھندے سے جُڑے ان بہت سے گروہوں کے درمیان دھندے کی رقابت بھی تھی اور علاقہ گیری کا تنازع بھی۔ ان گروہوں کی یہی مخالفت خونی جھڑپوں کی وجہ بھی بن جاتی تھی اور ایسی ہی ایک جھڑپ میں رحمان بلوچ کا چچا، تاج محمد، مخالف گروہ بابو ڈکیت کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔‘

مگر ایسے ماحول اور اِس خاندانی پس منظر میں آنکھ کھولنے کے باوجود بھی پہلے تو رحمان بلوچ کو سکول کا راستہ دکھایا گیا۔ رحمان کے کزن بتاتے ہیں کہ اسے کراچی کینٹ کے قریب واقع ’ٹرینٹی پرائیویٹ سکول‘ بھیجا گیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق رحمان جمشید روڈ پر واقع حبیبہ اکیڈمی بھی گئے مگر صرف چھٹی جماعت تک پڑھ سکے پھر آوارہ گردی کا شکار ہو گئے۔

رحمان کی کہانی سنانے والے سیاستدان نے بتایا کہ ’تب رحمان کی دوستی دو بھائیوں، رؤف ناظم اور عارف سے ہوئی جن کے والد حسن عرف حسنوک بھی منشیات کے دھندے میں تھے۔ منشیات اور جرائم سے جُڑے مجرمانہ خاندانی پس منظر رکھنے ان سب نوجوانوں کی دوستی آہستہ آہستہ ایک جرائم پیشہ گروہ میں ڈھل گئی، جس کا سرغنہ تھا عارف ناظم۔ رحمان تو بعد میں سرغنہ بنا، یہ تو عارف کا گینگ تھا۔‘

سندھ پولیس کی سپیشل برانچ سے ملنے والی معلومات کے مطابق ’رؤف اور عارف کے چار بھائی گروہی جھگڑوں یا پولیس کارروائیوں میں مارے گئے۔ رحمان کے ایک سگے بھائی (عبدالرحیم عرف کانا) بھی 28 برس کی عمر میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ خود رحمان نے پولیس کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ 1992 میں عارف سے دوستی کے بعد وہ خود بھی منشیات فروشی میں ملوث ہو گیا تھا۔

سرکاری معلومات کے مطابق ’یہ گینگ لیاری اور آس پاس واقع بازاروں میں اسلحے کے زور پر موٹر سائیکل چھیننے، لوٹ مار غنڈہ گردی اور رقم لے کر دوسروں کے لیے جھگڑے کرنے جیسے جرائم میں ملوث رہا۔‘

تفتیشی دستاویز کے مطابق، 13 برس کے رحمان نے چھ نومبر 1989 کو کلاکوٹ کے حاجی پکچر روڈ پر واقع غلام حسین کی دکان کے پاس پٹاخہ پھوڑنے سے منع کرنے پر محمد بخش نامی شخص کو چھری کے وار سے زخمی کر دیا۔

ایک افسر نے بتایا کہ ’یہ رحمان کا اپنے انتہائی پر تشدد مجرمانہ مستقبل کی جانب پہلا قدم تھا۔ ’اس پہلے جرم کا مقدمہ تو تھانہ کلاکوٹ میں درج ہوا مگر پولیس نے کمسن ملزم کی گرفتاری کی کوئی خاطر خواہ کوشش شاید کی ہی نہیں تو رحمان گرفتاری سے محفوظ رہا۔‘

پولیس کے مطابق 1992 میں منشیات کے دھندے میں رحمان کا جھگڑا (منشیات کے دو سپلائرز) ندیم امین اور اس کے ساتھی ننو سے ہوا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ندیم امین بھی ہسڑی شیٹر تھے اور اُن پر قریباً 30 مقدمات قائم تھے۔ رحمان اور عارف نے ندیم اور ننو دونوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ رحمان کے ہاتھوں قتل کی پہلی واردات تھی اور اس مقدمے میں بھی وہ اور عارف مفرور رہے۔

رحمان کے کزن نے مجھے بتایا کہ 1988 میں راشد منہاس روڈ سے متصل علاقے ڈالمیا میں زمین کے تنازع پر جرگے کے بعد رحمان کے چچا زاد بھائی فتحِ محمد بلوچ کا قتل ہوا اور الزام لگا لیاری کی سنگوُ لین کے سلیمان بروہی کے بیٹے غفورپر۔

سلیمان بروہی سندھ کی سابق وزیراعلیٰ جام صادق علی کے بزنس پارٹنر تھے اور بعض افسران بروہی کو جام صادق کا ’فرنٹ مین‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ ’بدلے کی روایت‘ کے تحت رحمان نے 1998 میں سلیمان بروہی کو نارتھ ناظم آباد میں ڈی سی سینٹرل آفس کے پاس قتل کر دیا اور اس قتل نے رحمان کو لیاری کے پُرتشدد ماحول میں بڑی اہمیت دلوائی۔

رحمان کے کزن نے بتایا کہ ’اس بدلے کے لیے لالو کے خاندان نے رحمان کے خاندان کی زبردست مدد کی۔ یہ ایسا احسان تھا جسے رحمان اور اُن کا خاندان تادیر مانتے رہے۔‘

میری تحقیق کے مطابق جب بابو ڈکیت کے ہاتھوں رحمان کے چاچا تاج محمد کا قتل ہوا تو لالو نے رحمان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔

سیاستدان نے مجھے بتایا کہ ’لیاری دو حصّوں میں منقسم ہے۔ لیاری ندی کے اُس پار کا علاقہ دراصل ٹرانس لیاری کہلاتا ہے اور یہ جہان آباد، پرانا گولیمار تک کا علاقہ ہے یہاں، حاجی لالو انڈر ورلڈ ڈان تھا۔ لیاری اور ٹرانس لیاری میں جرم کوئی بھی ہو اور کیسا بھی ہو، لالو کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ رحمان بھی جو کچھ بنا، اُس میں لالو کی سرپرستی کا بہت عمل دخل رہا۔‘

ان کے مطابق ’رحمان کی سرپرستی لالو نے اس لیے کی کیوں کہ بابو ڈکیت دھندے میں لالو کا دشمن تھا اور بابو سے نمٹنے کے لیے لالو کو نوجوان اور دلیر ساتھیوں کی ضرورت تھی۔ بابو ڈکیت نے رحمان کے چاچا تاج محمد کا قتل کیا تھا لہٰذا رحمان لالو کے کام کا آدمی تھا۔‘

رحمان نے تفتیش میں بتایا کہ ’بابو کے پاس بھاری اسلحہ بھی تھا اور لڑنے والے کافی کارندے بھی۔ 1993 میں رحمان اور بابو کی جھڑپیں شروع ہوئیں اور ایک دن رحمان نے اپنے ساتھیوں شفیع (نوا لین والا) اور عارف کے ساتھ مل کر بابو پر حملہ کیا۔ بابو ڈکیت رحمان کے بھائی شریف کی گولی سے زخمی ہو گیا۔‘

سیاستدان نے بتایا کہ جب اس نوجوان گینگ کے جرائم بڑھنے لگے تو اُس وقت کے میڈیا نے بہت شور مچایا اور پریس کی اس تنقید پر پولیس اس گروہ سے ’روایتی انداز میں نمٹنے‘ کا موقع تلاش کرنے لگی۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق یہ موقع ملا 18 فروری 1995 کو جب عارف اور رحمان اپنے ساتھیوں محمد شریف کیچو اور نظیر کے ساتھ تھانہ کلاکوٹ کی حدود میں واقع عثمان آباد ملز ایریا میں پاک پائپ ملز کی خالی عمارت میں موجود تھے۔

’اطلاع ملنے پر پولیس نے ان سب کو گھیر لیا اور لائن میں کھڑا کر دیا۔ اب ’پولیس مقابلہ‘ شروع ہوا تو پولیس کی گولی سے عارف تو مارا گیا مگر رحمان دیوارپھلانگ کر بھاگ نکلا۔‘ سیاستدان نے دعویٰ کیا۔ سرکاری رپورٹ میں رحمان نے بھی اس واقعے کا اعتراف کیا۔

اس واقعے کے چند ہی ماہ بعد رحمان نے 18 مئی 1995 کو تھانہ کلاکوٹ کی حدود میں اپنی والدہ خدیجہ بی بی کو بھی قتل کر دیا۔

رحمان نے حکام کو بتایا کہ اس نے اپنی ماں کو اپنے ہی گھر میں ’پستول سے گولی مار کر اس لیے قتل کیا کہ اُسے شبہ تھا کہ والدہ پولیس کی مخبر بن چکی ہیں۔‘ اس رپورٹ کے برعکس میرے ذرائع کا کہنا ہے کہ قتل کی وجہ دراصل رحمان کا اپنی والدہ کے کردار پر شک تھا اور اس نے اپنی ماں کو دشمن گروہ کے کسی رکن سے تعلقات کی بنا پر قتل کیا تھا۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1995 میں نیم فوجی ادارے رینجرز نے رحمان اور اس کے ساتھیوں علی ایرانی اور حنیف کو ناجائز اسلحہ اور منشیات رکھنے کے الزام میں گولیمار سے گرفتار کر لیا۔ دو ہفتے بعد انھیں اورنگی ٹاؤن پولیس کے حوالے کیا گیا۔ اس مقدمے میں رحمان ڈھائی سال تک جیل میں ’بی کلاس‘ قیدی رہا۔

سرکاری رپورٹ کے مطابق 10 جون 1997 کو رحمان بلوچ کو کراچی سینٹرل جیل سے لیاری کے قریب ہی واقع سٹی کورٹ لایا گیا۔ یہاں دو پولیس اہلکار اے ایس آئی انتظار حسین اور کانسٹیبل نثار احمد رحمان کی نگرانی پر مامور تھے مگر وہ ان دونوں کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا اور بلوچستان کے علاقے حب جا پہنچا۔

حَب میں ’مفروری‘ کے دوران رحمان کی نجی و سماجی زندگی آگے بڑھی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق رحمان نے فرزانہ، شہناز اور سائرہ بانو نامی تین خواتین سے علیحدہ علیحدہ ادوار میں شادیاں بھی کیں اور مختلف برسوں میں اُن کے 13 بچّے پیدا ہوئے۔ 2006 تک رحمان کراچی اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں 34 دکانوں، 33 گھروں، 12 پلاٹس اور 150 ایکڑ زرعی زمین کا مالک بن چکا تھا جبکہ کچھ جائیدادیں ایران میں بھی خریدی گئیں۔ دیگر ذرائع 2006 کے بعد کی جائیدادیں اس سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔

’مفروری‘ کے دوران رحمان کئی بار کراچی بھی آیا اور منشیات کا دھندہ بھی منظم کرتا رہا۔ اسی دوران اس کے تعلقات کئی اعلیٰ پولیس افسران اور دیگر اداروں کے حکام سے بھی قائم ہوئے اور وہ کئی بار ایران بھی گیا۔

یہی نہیں بلکہ رحمان کے سیاسی حلقوں اور بلوچستان کی سیاسی و قوم پرست تنظیموں سے بھی روابط استوار ہوئے۔ ان افراد میں بلوچستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ کے داماد اور پاکستان مسلم لیگ ’ق‘ کے رہنما، ایک بڑی قوم پرست بلوچ سیاسی شخصیت، کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے بعض ارکان اور دیگر کئی اہم اور نمایاں شخصیات بھی شامل رہیں۔

رحمان نے دورانِ تفتیش بتایا تھا کہ اُس نے حَب میں پولیس کی ’اجازت‘ سے جُوے کا اڈّہ بھی کھولا تھا اور افیون (جسے لیاری والے تریاق کہتے ہیں) اور چرس جیسی منشیات کا دھندہ بھی ’اوپر والوں‘ کی بھرپور معاونت اور اجازت سے چلتا رہا۔

سابق ایس پی لیاری فیاض خان نے بتایا کہ اسی زمانے میں رحمان، حاجی لالو اور اُس کے بیٹوں نے مل کر منشیات و جرائم کا دھندہ عروج پر پہنچا دیا۔ میری تحقیق کے مطابق رحمان اور لالو کا تعلق اس قدر گہرا ہوا کہ لالو کے بیٹے یاسر عرفات اور رحمان دونوں کی شادی گولیمار کے سیٹھ یوسف کی بیٹیوں سے ہوئی۔

کئی اعلیٰ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ’دھندہ‘ بڑھا اور پیسے کی ریل پیل ہوئی تو گروہ کے اندر ہی حسد کا جذبہ بھی ابھرا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کھینچا تانی بھی شروع ہوئی۔ رحمان کو اندازہ ہونے لگا کہ لالو کے زیر اثر رہتے ہوئے وہ جرم کی دنیا میں اپنا الگ مقام نہیں بنا سکتا تو بالآخر ایک دن اس کی کھٹ پٹ لالو اور اس کے بیٹوں سے ہو ہی گئی۔

رحمان نے تفتیش میں بتایا کہ جب وہ لالو کے ساتھ تھا تو یہ گروہ چاکیواڑہ میں سنگو لین کی جھٹ پٹ مارکیٹ کے قریب سندھ کے علاقے ٹھٹھہ اور بلوچستان جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے ایک بس اڈّے سے بھتّہ لیتا تھا۔

2001 تک لالو کے بیٹے ارشد پپو کا ایک کارندہ (مہران) اس اڈے کی یونین کا صدر تھا۔ 2002 میں رحمان نے اپنا دباؤ اور اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مہران کو یونین کی صدارت سے محروم کروایا تو پپو ناراض ہو گیا۔

ارشد پپو نے مہران کو دوبارہ صدر بنانے کی بات کی تو رحمان کے انکار نے اس ناراضگی کو ’خونیں جنگ‘ بنا ڈالا جس کا آغاز رحمان بلوچ کے خاص آدمی ماما فیض محمد عرف فیضو کے اغوا اور قتل سے ہوا۔

فیض محمد رحمان کے رشتہ دار بھی تھے اور عزیر بلوچ کے والد بھی۔(وہی عزیر بلوچ جو اب خود رحمان کی جگہ لیاری انڈر ورلڈ کے موجودہ ڈان ہیں)

تفتیش کے مطابق فیضو کا یہی قتل رحمان اور لالو گروہوں کے درمیان تنازع کی وجہ بنا لیکن فیضو کے اس قتل سے ایک ایسی ’جنگ‘ کا آغاز ہوا جسے ’لیاری گینگ وار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس لڑائی میں ایک جانب لالو اس کے بیٹے ارشد پپو، یاسر عرفات وغیرہ تھے تو دوسری جانب رحمان بلوچ، بابا لاڈلہ، زاہد، شریف کیچو، فیصل پٹھان وغیرہ۔

سینیئر پولیس افسران کے مطابق محاذ آرائی بڑھی تو پپّو نے ایک دن کلاکوٹ میں رحمان پر حملہ کیا مگر وہ بچ نکلا تو پپّو کے غیض کا رُخ رحمان کے رشتہ داروں کی جانب ہو گیا۔

اب اس جنگ میں دونوں جانب سے ایک دوسرے کے عزیز، رشتہ دار اور دوستوں کے قتل کا بھیانک سلسلہ شروع ہوا۔

ایک روز پپّو نے بڑے فلمی انداز میں مواچھ گوٹھ کے پاس ارباب دُر محمد کو قتل کردیا جو رحمان کی چاچا زاد بہن کے شوہر تھے۔ ارشد پپّو نے قتل سے پہلے رحمان کو فون کیا اور کہا ’سُن ۔۔۔ میں اس کو مار رہا ہوں۔۔۔ سُن۔۔۔ اور قتل کر دیا دُر محمد کو۔‘ ایک ذریعے نے بتایا۔

علاقہ ذرائع کے مطابق ’رحمان اور پپو کی دشمنی میں حالات اس قدر بگڑے کہ رحمان کو لیاری سے بلوچستان فرار ہونا پڑا۔‘

تب ہی ایک دن سابق ایس پی لیاری فیاض خان نے خفیہ اطلاع پر پپو کو گرفتار کر لیا۔ پپو کی گرفتاری سے حالات بدلے تو رحمان کو لیاری واپس آنے کا موقع ملا اور اس نے جوابی قتل و غارت شروع کی اور چُن چُن کر مخالفین کو ٹھکانے لگایا۔

تفیش کے مطابق رحمٰن نے لیاری کے باہر بھی قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا اور سپاری (یعنی کرائے کے قاتل کے طور پر پیسوں کے عوض لوگوں کے مخالفین کو قتل کرنے) کا کام بھی شروع کیا۔

سپاری کے اسی دھندے میں 28 اگست 2001 اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر منظر عباس بھولو گینگ کی جانب سے دو کروڑ روپے کی ’سپاری‘ دیے جانے پر ملیر پل پر کراچی انڈر ورلڈ کے ڈان شعیب خان پر قاتلانہ حملہ کیا۔

اس حملے میں شعیب خان تو بچ گیا مگر سب انسپیکٹر غلام دستگیر سمیت چار پولیس اہلکار مارے گئے۔

سرکاری رپورٹ کے مطابق رحمان نے اعتراف کیا کہ 9 اپریل 2004 کو اس نے بلوچستان کے علاقے حب ندی کے قریب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اُن پانچ ایرانی باشندوں کو بھی قتل کیا جو پپو کے کارندے تھے۔

اس سرکاری رپورٹ میں رحمان کے ہاتھوں یا اس کی ایما پر پولیس افسران، مخبروں یا مخالفین سمیت 35 سے زائد افراد کے قتل کا اعتراف درج ہے۔ ذرائع ابلاغ کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ رحمان اور پپو کے درمیان لیاری گینگ وار میں اتنی قتل و غارت ہوئی جس نے اس علاقے کو عالمی توجہ کا موضوع بنا دیا۔

محقق اور صحافی عزیز سنگہور کا تعلق بھی لیاری سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی برس جاری رہنے والی لیاری گینگ وار میں مجموعی طور پر تمام متحارب گروہوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد قتل ہوئے۔ خود پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی اس زمانے میں ایسے ہی اعداد و شمار پیش کرتے رہے۔

جب لیاری گینگ وار نے ہزاروں جانوں کی بھینٹ لے لی تو علاقے کی سرکردہ شخصیات نے اس قتل و غارت پر بند باندھنے کی کوشش کی۔ ذرائع کے مطابق لیاری میں قائم بلوچ اتحاد تحریک کے سربراہ انور بھائی جان، صحافیوں سعید سربازی، عزیز سنگہور اور پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول نے لیاری کی نشست سے نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری سے ملاقاتیں کی۔

یہ ملاقاتیں تب ہوئی جب جیل میں قید آصف زرداری بیمار ہوئے اور علاج کے لیے کلفٹن میں واقع اپنے قریبی معاون اور پیپلز پارٹی رہنما ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال میں داخل ہوئے۔

جیل اور ہسپتال کی ان ملاقاتوں میں آصف زرداری نے لیاری میں قتل و غارت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ محاذ آرائی لیاری میں پیپلز پارٹی کے سیاسی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور بلاوجہ کی جنگ و جدل میں انسانی خون بہنا بند ہونا چاہیے۔

جب آصف زرداری جیل میں تھے تو لالو بھی وہیں قید تھے۔ زرداری کے ایک واقف (جن کا نام صرف پالاری معلوم ہو سکا) نے کہا کہ لالو سے بات کر سکتے ہیں کہ اُن کی جانب سے رحمان کے خلاف کارروائی یا حملہ نہیں ہوگا مگر رحمان کی ضمانت کون لے گا؟

سب کی مشاورت سے یہ ذمہ داری بلوچستان کی ایک قد آور قوم پرست سیاسی شخصیت کو دی گئی مگر اس سیاسی شخصیت نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ ’سیاست اور ریاست کے کھلاڑی شاید اسے پسند نہ کریں‘، اس عمل سے علیحدہ رہنا پسند کیا۔

ذرائع کے مطابق ’اس صورتحال میں سب نے بلوچ اتحاد تحریک کے رہنما انور بھائی جان سے درخواست کی کہ وہ ثالث بنیں اور دونوں گروہوں میں صلح کی کوشش کریں۔‘

انور بھائی جان لالو کے بیٹے پپو کی اہلیہ کے ماموں تھے مگر لیاری میں ان کا خاصا احترام تھا لیکن ابھی یہ سب طے ہو ہی رہا تھا کہ رحمان نے انور بھائی جان کو ہی قتل کر ڈالا۔

رحمان نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے آٹھ جنوری 2005 کو انور بھائی جان کو تب قتل کیا جب وہ ایک جنازے میں شرکت کے لیے میوہ شاہ روڈ سے گزر رہے تھے۔ دورانِ تفتیش رحمان کا کہنا تھا کہ ’پپو سے رشتہ داری کی بنا پر انور بھائی جان لالو گینگ کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے اور اُن کی ثالثی غیر جانبدار نہیں تھی جس سے رحمان کو نقصان اور بدنامی کا سامنا تھا۔‘

رحمان کی کہانی سنانے والے سیاستدان کا کہنا تھا کہ رحمان سمجھتا تھا کہ انور بھائی جان اس کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور مخبری بھی کرتے تھے۔‘

انور بھائی جان کے قتل کے ساتھ ہی صورتحال بدل گئی اور دیگر مصالحت کاروں کو خوف ہوا کہ مزید کچھ کیا تو کوئی اُن کی جان بھی لے سکتا ہے لہٰذا ثالثی کی کوششیں فوری طور پر بند ہو گئیں۔پھر آصف زرداری بھی یہ کہہ کر کنارہ کش ہو گئے کہ رحمان نے تو ثالث ہی کو قتل کر ڈالا۔

سیاستدان کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلی وجہ بنی کہ پیپلز پارٹی کی قیادت میں رحمان کے معاملے پر ناراضی نے جنم لیا۔‘

ادھر شہر کی سیاست میں عجیب اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ فوجی آمر جنرل مشرف نواز شریف کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ اقتدار میں اُن کے ساتھ شریک تھی۔

مختلف سیاسی و سرکاری شخصیات سے بات چیت سے پتا چلا کہ اسی دوران رحمان کے گروہ نے لیاری سے باہر نکل کر شہر بھر میں جُرم و سیاست دونوں محاذوں پر اپنے پَر پھیلانے شروع کر دیے تھے۔

سابق ایس پی فیاض خان کے مطابق لیاری میں بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کے حامیوں نے رحمان کو تنظیم سازی کا مشورہ دیا۔ ’بلوچستان کی طلبا سیاست سے جڑا ایک شخص تھا زاہد۔۔ اُس نے رحمان کو سیاسی اثر رسوخ بڑھانے کا مشورہ بھی دیا اور اس کے لیے پیسہ حاصل کرنے کے طریقے بھی بتائے۔‘

اب رحمان کی توجہ قتل و غارت کے ساتھ ساتھ بھتّے کی جانب ہوئی اور سابق ایس پی لیاری فیاض خان کے مطابق رحمان کے گروہ نے ملیر، برنس روڈ، گلستانِ جوہر، جمشید روڈ، گولیمار، خاموش کالونی، قاسم آباد اور دیگر علاقوں کا رخ کیا۔

2008 میں رحمان نے ’امن کمیٹی‘ کے نام سے تنظیم بنا لی اور اِن علاقوں میں جہاں اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ بلوچ اقلیت بھی آباد تھی وہاں بالکل ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کی طرز پر امن کمیٹی کے یونٹس اور سیکٹرز قائم کر دیے، تنظیمی دفاتر کھولے اور علاقائی ذمہ دار مقرر کیے۔

پولیس حکام کے مطابق رحمان نے شہر کے کئی اہم تجارتی علاقوں اور گزرگاہوں کو بھی بھتّے کی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ مثال کے طور پر کراچی کی بندرگاہ سے نکلنے اور کیماڑی سے گزرنے والا ہر کنٹینر رحمان کے نیٹ ورک کو بھتّہ دیے بغیر نہیں گزر سکتا تھا۔

ان دنوں افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی بھی ان علاقوں سے جاتی تھی اور یہ سامان لے جانے والے ہر ٹرک کا مالک یا تو پیسے دیتا تھا یا اسے لوٹ لیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ حب چوکی سے سمگل شدہ ایرانی تیل (پیٹرول) لانے والی گاڑیاں اور آئل ٹینکرز ہوں یا بلوچستان جانے والے ماہی گیر اور کراچی کی فشریز کی ہر لانچ اور ٹرالر سبھی رحمان گینگ کو بھتہ دیتے تھے۔

کراچی کی بندرگاہ جیسے علاقوں اور اداروں میں قائم مزدور انجمنوں یا یونینز کے رہنما رحمان کے اثر و رسوخ کی بنا پر منتخب ہوتے تھے اور کراچی سے بلوچستان، اندرون سندھ اور دیگر مقامات کو جانے والی ٹرانسپورٹ سروس اور بس مالکان، خاص طور پر لی مارکیٹ، جھٹ پٹ مارکیٹ پر بھی ٹرانسپورٹرز سے بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔

سولجر بازار، کھارادر، اولڈ ایریا، جوڑیا بازار، سنارا مارکیٹ، ٹمبر مارکیٹ سب میں صلح جُو اور امن پسند کاروباری میمن برادری، یا خوجہ، کاٹھیا واڑی اور دیگر کمیونٹیز کے لوگ تھے جو اپنا کاروبار سکون سے چلانے کا تاوان بھتّے کے طور پر رحمان کے گینگ کو ادا کرتے تھے۔

کمائی کا ایک ذریعہ اور بھی تھا اور وہ تھا ’گٹکا‘۔ رحمان گینگ نے غیرقانونی طور پر گٹکا بنانے والوں کی اکثریت کو لیاری میں کارخانے کھلوا کر دیے اور خود ان سے اس کاروبار کو پولیس سے تحفظ دلوانے کے عوض رقم لینے لگا اور پھر گٹکا منشیات سے بھی زیادہ منافع بخش کاروبار بن گیا۔

پھر سمگل کی گئی چھالیوں کا کاروبار ہو یا جوا خانہ سب کے غیر قانونی دھندے رحمان کی سرپرستی میں چلنے لگے تو پیسے کی برسات ہونے لگی۔

ملیر، گلستانِ جوہر، برنس روڈ، جہانگیر روڈ، گولیمار اور سعید آباد جیسے علاقوں میں تو بھتّے کی فیلڈ کے لوگ رحمان سے آملے۔ یہ بیشتر وہ لوگ تھے جو اس سے پہلے ایم کیو ایم یا پھر ایم کیو ایم حقیقی کے عسکری بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ فیاض خان نے بتایا۔

شعیب خان کی کہانی لکھتے وقت ایم کیو ایم رہنما اور سابق وزیر داخلہ رؤف صدیقی، سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد، اور اب ایم کیو ایم پاکستان سے وابستہ سینیٹر فیصل سبزواری سب مجھ سے علیحدہ علیحدہ گفتگو میں تسلیم کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم کے بعض ارکان بھتّے کے دھندے میں ملوث رہے اور یہ معلوم ہوجانے پر خود ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت نے کم از کم 48 ایسے افراد کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف کارروائی کی اور بعد ازاں ایسے کارکنوں کو پارٹی سے خارج بھی کیا گیا۔

ایک مذہبی تنظیم کے ذریعے نے بتایا کہ رحمان نے لسانی تنظیموں کے مسلح عسکری عناصر کو شعیب خان کی طرح اپنے ساتھ ملایا اور بھتّہ جمع کرنے کا کام سمجھایا۔ ’یا تو مخالفین کو ساتھ ملا لیا گیا یا پھر مار بھگایا۔ اگر کوئی چیلنج کرتا تو رحمان کا خونخوار لیاری گینگ مل کر مخالف پر حملہ آور ہو جاتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کی حکومت کی وجہ سے اس کے دھڑے ایم کیو ایم حقیقی کے کارکن زیر عتاب تھے سو انھیں بھی لیاری میں پناہ ملی۔ پورے کراچی سے دونوں تنظیموں کے عسکری بازو کے سابق ارکان رحمان سے آملے۔ ان کی جان بھی محفوظ ہو جاتی تھی اور پیسہ کمانے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔‘

’ایم کیو ایم اور حقیقی کا یہ ’روگ ایلیمنٹ‘ اردو بولنے والے علاقوں سے بھتّہ کمانے کے گُر رحمان کو سکھاتا اور رحمان کے لوگ انھیں پولیس اور مخالفین سے بچاتے۔ اردو بولنے والے علاقوں میں رحمان کے بلوچ گینگ کے ارکان کو بھتّہ نہیں مل سکتا تھا لہٰذا یہ نئے آ ملنے والے لوگ رحمان کی پشت پناہی پر ان علاقوں سے اس کے لیے بھتّہ وصول کرنے لگے۔

ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے بتایا کہ پیپلز امن کمیٹی کا دفتر ہر علاقے میں کھلا تو صوبائی انتظامیہ کو خدشہ ہوا کہ پیپلز امن کمیٹی کی آڑ میں ’گینگ وار‘ شہر بھر میں پھیل سکتی ہے۔

’یہاں تک ہوا کہ 2008 میں آصف زرداری کے پہلے صدارتی خطاب سے قبل ایم کیو ایم نے مطالبہ بھی کیا کہ صدر زرداری امن کمیٹی سے لاتعلقی کا اعلان کریں۔‘ ذریعے نے کہا۔

تحقیق کے لیے کئی سیاسی و سرکاری شخصیات سے بات چیت سے پتا چلا کہ شہر کے دیگر علاقوں میں مضبوط ہوتا ہوا رحمان اس وقت تک لیاری کا بےتاج بادشاہ بن چکا تھا۔ ایک حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ ’یہاں تک کہ کیماڑی میں بھی لیاری جیسی گرفت ملتے ہی رحمان نے لیاری جیسی ہی فرینچائز کھول لی۔‘

2002 میں جب نبیل گبول لیاری سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو لیاری اور آس پاس کے علاقوں میں رحمان کے اثر و نفوذ کا عالم یہ ہو چکا تھا کہ ان علاقوں سے کون صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بنے گا اور کون ٹاؤن ناظم ہوگا یہ فیصلہ وہی کرتا تھا مگر اب وہ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ ’سردار عبدالرحمان بلوچ‘ کہلانے لگے تھے۔

ایک اہم شخصیت نے بتایا کہ ’ اس وقت تک لیاری کے بعض حلقوں کے لیے رحمان رابن ہُڈ جیسا کردار بنتا جا رہا تھا۔ اب وہ سیاسی طور پر نفع بخش اقدامات کرنے لگا جیسے کہ سکول کھولا اور دوا خانہ بنایا‘۔

جب ارکان اسمبلی رحمان جیسے عناصر کی مدد سے کامیاب ہوتے تو ان علاقوں کے بعض بااثر مکین رحمان پر دباؤ ڈالتے کہ ان ارکان سے صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر شہری سہولیات کا مطالبہ کیا جائے۔

علاقے کے ایک اہم مکین نے مجھے بتایا کہ ’اہلِ علاقہ کا دباؤ جب رحمان پر آیا تو اس نے نبیل گبول سے شکایت کی کہ اہلِ علاقہ کو ملازمتیں نہیں مل رہیں بلکہ بعض عناصر لیاری کے لیے مخصوص سرکاری ملازمتیں فروخت کر رہے ہیں۔ جس پر نبیل گبول کے خلاف علاقے میں احتجاج ہوا۔‘ لیاری کے دیگر لوگوں کے مطابق ’کشیدگی اتنی بڑھی کہ رحمان نے نبیل گبول کے لیاری میں داخلے پر پابندی لگا دی۔‘

مگر نبیل گبول اس سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بالکل غلط ہے۔ پیپلز پارٹی جیسی مضبوط سیاسی قوتوں کو کوئی مافیا یا ڈان بلیک میل کیسے کر سکتے ہیں؟ 2002 سے 2008 کے پورے زمانے میں جب میں لیاری سے رکن قومی اسمبلی تھا تو اُس وقت تو خود رحمان گرفتار بھی ہوا یا زیادہ تر وہ خود کو درپیش مشکلات کی بنا پر لیاری سے باہر رہا۔ تو اس کا اتنا کنٹرول نہیں تھا لیاری میں۔ تب لیاری اتنا ڈسٹربڈ نہیں تھا کہ کوئی سیاسی قوتوں کو خاص کر پیپلز پارٹی جیسی مضبوط قوت کو بلیک میل کر سکے یا سیاسی طور پر دھمکا سکے‘۔

مگر رحمان لیاری اور آس پاس کے علاقوں میں پیپلز پارٹی کے لیے مزید مشکلات کا باعث بھی بنا۔

پیپلز پارٹی کی تیسری یا آخری ناراضگی کا تذکرہ آگے چل کر پہلے ذکر ایم کیو ایم کی رحمان سے ناراضگی کا۔

صوبائی وزارت داخلہ سے تعلق رکھنے والے ایک بیوروکریٹ کے مطابق ’جب رحمان نے ملیر، برنس روڈ، گلستانِ جوہر اور دیگر محلّوں میں امن کمیٹیاں قائم کیں تو ایم کیو ایم نے اسے ایک سیاسی چیلنج کے طور پر دیکھا اور ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں ’اپنے علاقوں میں سیاسی چیلنج کو پسند نہیں کرتیں۔

’نتیجہ یہ ہوا کہ اب رحمان ایم کیو ایم کے ریڈار پر آگیا جو اُسے اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھنے لگی اور ایم کیو ایم کے عسکری بازو نے بھی رحمان کو ’دھندے‘ میں دشمن کے طور پر دیکھا۔‘

یوں ایم کیو ایم کی حکومت رحمان کی سرکوبی کے لیے سرگرم ہوئی اور جماعت میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ رحمان کا راستہ روکا جائے تاکہ سیاسی بازو کو لاحق خطرے سے نمٹا جا سکے اور عسکری بازو کی ’کمائی‘ (بھتّے) میں کسی ممکنہ مشکل سے بھی جان چھڑائی جائے۔

یہ سب ہوا تو ایم کیو ایم اور رحمان آمنے سامنے آ گئے۔ سرکاری عہدیداروں کے مطابق ’اس موقع پر پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور اُس وقت آصف زرداری کے قریبی ساتھی نے رحمان کی شہر بھر میں فعال ہونے کی اس کوشش کو مستقبل کا سیاسی فائدہ جانا اور درپردہ اس کی حمایت شروع کر دی۔‘

عہدریداروں کا کہنا ہے کہ ’رحمان ایم کیو ایم کے سیاسی نشانے پر آیا تو ایم کیو ایم نے عجیب پتّا کھیلا اور اس کے عسکری بازو نے رحمان کے دیرینہ جانی دشمن ارشد پپو کی حمایت شروع کر دی‘۔

ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر اور طویل عرصے سے الطاف حسین کے دستِ راست مصطفیٰ عزیز آبادی لیاری گینگ وار یا رحمان بلوچ کے معاملات سے ایم کیو ایم کے کسی بھی طرح کے تعلق سے مکمل طور پر انکار اور ہمیشہ اس کی تردید کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا ’یہ تو پاکستان بننے سے پہلے سے ہی منشیات فروشوں کا نسل در نسل چلنے والا دشمنی کا سلسلہ تھا۔ ہمارا اس سب کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب دکاندواروں کو بھتّے کی پرچیاں دی گئیں اور ہیسے مانگے گئے تو ہم نے احتجاج اور ایوانوں میں مذمت ضرور کی کہ زیادتی ہورہی ہے ، یہ کیا غنڈہ گردی ہو رہی ہے تو ہماری مذمت کو رنگ ایسے دے دیا گیا کہ ہمارا اور گینگ وار کا کوئی تصادم چل رہا ہے ہمارا ان سے کیا لینا دینا؟‘

ایم کیو ایم اور رحمان بلوچ کے درمیان ’علاقہ گیری‘ پر کشیدگی شروع ہوئی ہی تھی کہ لیاری میں ارشد پپو اور رحمان گینگ وار اور سینکڑوں ہلاکتوں پر میڈیا اور پریس نے شور مچانا شروع کر دیا۔ مشرف حکومت اور اس کی سب سے طاقتور اتحادی ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت کو بھی موقع ملا کہ پولیس پر لیاری گینگ وار اور قتل و غارت روکنے کا دباؤ ڈالا جائے۔

صوبائی حکومت میں وفاق کے نمائندے اور سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد آ رہا ہے ڈالمیا کے علاقے میں کوئی جھگڑا (ایم کیو ایم کے کارکنوں اور امن کمیٹی کے ارکان کا) ہوا تھا۔ جس پر سرکاری سطح پر تشویش پیدا ہوئی کہ پیپلز امن کمیٹی اور سیاسی جماعت میں جھگڑا شروع ہوا تو شہر کا امن و امان خراب ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف سیاسی جماعت تھی اور دوسری جانب ایک گروہ۔ تو صوبائی انتظامیہ کو تشویش ہوئی۔ پیپلز امن کمیٹی کوئی سیاسی اکائی تو تھی نہیں لیکن شہر میں تشدد ضرور ہو سکتا تھا‘۔

سابق گورنر سندھ نے کہا کہ ’پیپلز امن کمیٹی شہر میں آئی تو دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی تشویش ظاہر کی تھی کہ پہلے تو سب کچھ لیاری تک محدود تھا اب تو پورے شہر میں پھیل رہا ہے۔‘

ایم کیو ایم کے ایک سابق مگر اپنی ہی پارٹی سے ناراض رہنما کے مطابق ’پھر اچانک ماحول بدلا۔ کسی زمانے میں ایم کیو ایم الزام لگایا کرتی تھی کہ ایس پی بن جانے والے پولیس افسر چوہدری اسلم انتہائی مشکوک و متنازع (جعلی یا فرضی) پولیس مقابلوں کے ذریعے ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث رہے ہیں مگر اسی ایم کیو ایم نے جب شعیب خان اور رحمان ڈکیت جیسے خطروں سے نمٹنا چاہا تو چوہدری اسلم ایم کیو ایم کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔

’شعیب خان کو بھی چوہدری اسلم نے لاہور کینٹ سے گرفتار کیا اور رحمان ڈکیت کی گرفتاری کی لیے جو لیاری ٹاسک فورس قائم کی گئی اس کے سربراہ بھی یہی ایس پی چوہدری اسلم بنے۔‘

اس سے آگے کی کہانی ایک خفیہ ادارے کے افسر نے سنائی جس کی تصدیق ہوئی بی بی سی کو حاصل ہونے والی ’انتہائی خفیہ تفتیشی رپورٹ‘ اور رحمان کی کہانی سنانے والے سیاستدان سمیت کئی اعلیٰ سرکاری عہدیداروں نے کی۔

خفیہ ادارے کے افسر نے بتایا کہ ’ارشد پپو کو سیاسی حمایت سے طاقت حاصل ہونے لگی اور سیاسی قوتیں بھی ناراض ہوئیں تو لیاری میں رحمان پر زمین ایک بار پھر تنگ ہونے لگی۔ تب رحمان نے بلوچستان چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی مگر اس بار حب جانے کی بجائے اُس نے کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک خفیہ ٹھکانے پر پناہ لے لی۔‘

’یہاں رحمان اور اس کے ساتھی سکون کی سانس بھی نہیں لے سکے تھے کہ ایک نئی بلا نازل ہوئی۔‘ افسر نے کہا۔

بی بی سی کو دستیاب ’انتہائی خفیہ رپورٹ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’کسی جانب سے خفیہ اطلاع ملنے پر 18 جون 2006 کو چوہدری اسلم کی سربراہی میں لیاری ٹاسک فورس نے کوئٹہ کے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں رحمان کے اس خفیہ اڈّے پر اچانک اور بالکل غیر متوقع چھاپہ مار دیا۔‘

رپورٹ کے مطابق لیاری ٹاسک فورس کے افسر اور اُس وقت کے ایس ایچ او کلری انسپکٹر بہاؤالدین بابر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تفتیش کاروں کو اس سلسلے میں ایک ’پوچھ گچھ‘ کے دوران بتایا کہ ’18 جون 2006 کو لیاری ٹاسک فورس کی ایک ٹیم جس میں خود وہ، چوہدری اسلم، (اُس وقت کے) پولیس انسپکٹر حاجی ندیم، انسپکٹر واصف قریشی، انسپکٹر علی رضا، انسپکٹر سرور کمانڈو، انسپکٹر اعجاز راجپر، ڈی ایس پی عرفان بہادر، سب انسپکٹرز عزیز شیخ اور چوہدری عامر شامل تھے رحمان کی گرفتاری کے لیے کوئٹہ پہنچے۔‘

انسپکٹر بابر نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ چھاپے کے دوران ’گرفتاری سے بچنے کے لیے چھت سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش میں رحمان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔‘

سندھ سے اس چھاپے اور گرفتاری کی نگرانی کرنے والے حُکام جن کی ترجیح کسی بھی قیمت پر رحمان کے خلاف کارروائی تھی اس سارے عمل پر براہ راست نظر رکھے ہوئے تھے۔

ایک خفیہ ذریعے نے بتایا کہ ’زخمی رحمان کو دبوچ لیا گیا مگر یہ گرفتاری کبھی سرکاری ریکارڈ پر نہیں گئی۔‘

رحمان کی کہانی سنانے والے سیاستدان نے بتایا کہ ’ہو سکتا تھا کہ ’مقابلے‘ کی نوبت آ ہی جاتی مگر تب ہی ایک ڈرامائی پیشرفت ہوئی اور چوہدری اسلم کے فون پر گھنٹی بجنے لگی‘۔

باخبر سیاستدان نے دعویٰ کیا کہ چوہدری اسلم نے انھیں خود بتایا تھا کہ وہ رحمان جیسے خطرناک مجرموں کے خلاف ایسی کارروائیوں میں کبھی اپنا ذاتی فون لے کر نہیں جاتے تھے کیونکہ ’مقابلے‘ کی صورت میں کالز ڈیٹا ریکارڈنگ (سی ڈی آر) یا پھر جیو فینسنگ سے عدالت میں ثابت ہوسکتا تھا کہ چوہدری اسلم اس وقت کہاں تھے۔

اس سیاستدان نے کہا کہ ’لہٰذا چوہدری ایسے مواقع کے لیے ایک ایسا فون استعمال کرتے تھے جس کا نمبر محض تین یا چار اعلیٰ ترین حُکّام کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں ہوتا تھا۔‘

ان کے مطابق ’رحمان کی اس (کبھی ظاہر نہ کی جانے والی) گرفتاری کے وقت بھی چوہدری اسلم یہی خفیہ فون استعمال کررہے تھے اور صرف ’اعلیٰ ترین‘ حکام سے رابطے میں تھے۔ چوہدری اسلم نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی انھوں نے رحمان کو حراست میں لیا تو اچانک اس فون پر ایک اجنبی نمبر سے کال آئی۔

’چوہدری اسلم نے فون اٹھایا تو دوسری طرف تھے۔۔۔آصف زرداری اور وہ (چوہدری اسلم) تو حیران رہ گیا کہ یہ خفیہ نمبر زرداری صاحب تک کیسے پہنچا؟‘

چوہدری اسلم اور آصف زرداری کی گفتگو سے باخبر سیاستدان نے دعویٰ کیا کہ ’زرداری صاحب نے چوہدری اسلم سے کہا کہ مارنا نہیں ۔۔۔ کوئی غلط کام نہیں کرو۔۔ جو بھی مقدمات ہیں اس کو (عدالت میں) پیش کرو۔۔ انکاؤنٹر نہیں کرنا۔‘

ان کا کہنا تھا ’دوسری جانب کارروائی کی نگرانی کرنے والے حُکّام توقع کر رہے تھے کہ رحمان آسانی سے گرفتاری نہیں دے گا بلکہ مزاحمت تو ضرور کرے گا۔ نگران حکام کو خدشہ تھا کہ ایسی صورت بنی تو رحمٰان مقابلے میں مارا بھی جا سکتا ہے مگر جب آصف زرداری کا فون آ چُکا تو چوہدری اسلم نے نگران حکام کو بھی بتایا کہ اب تو رحمان کو ’حراست‘ میں لے لینے کی بات آصف زرداری جیسے رہنماؤں اور سیاسی حلقوں تک پہنچ گئی ہے اور اب گرفتاری کا علم ہو جانے کے بعد ’مقابلہ‘ نہیں ہو سکتا۔‘

سندھ میں تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ ترین سرکاری اہلکار سے اس بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا ’اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوراً یہ فیصلہ ہوا کہ نہ تو پولیس گولی چلائے گی اور نہ ہی رحمان کی یہ گرفتاری ابھی ریکارڈ پر لائی جائے گی۔ اسے کراچی تو منتقل کر دیا جائے گا مگر اسے گرفتار کیے جانے کا اعلان سرکاری طور پر نہیں ہو گا۔‘

’ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ دوسری ڈرامائی پیشرفت ہوئی۔‘ اسلام آباد میں موجود ایک شخصیت نے آگے کی کہانی سنائی۔

’ہوا یہ کہ اچانک ملٹری انٹیلیجینس کے حکام وہاں پہنچے اور رحمان کو ’تفتیش کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا۔‘

اسلام آباد میں وفاقی وزارتِ داخلہ تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ فوجی حکام کو رحمان کی یہ ’کسٹڈی‘ اس وقت کے وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ کی ہدایت پر دی گئی اور فوجی حکام نے رحمان کو فوراً ہی کسی خفیہ تفتیشی مرکز میں منتقل کر دیا۔

بی بی سی کو حاصل ہونے والی انتہائی خفیہ رپورٹ میں پولیس انسپکٹر اور لیاری ٹاسک فورس کے رکن بہاؤالدین بابر کے اعتراف سے پتا چلتا ہے کہ ’پھر اس گرفتاری کے لیے کوئٹہ جانے والے لیاری ٹاسک فورس کے افسران چوہدری اسلم وغیرہ ُاسی جہاز سے واپس کراچی پہنچے جو دراصل رحمان کو گرفتار کر کے کراچی لانے کے لیے خصوصی طور پر بھیجا گیا تھا۔‘

دیگر ذرائع کے مطابق ’ایم آئی کے تفتیش کار ابھی رحمان سے قریباً تین سے چار ہفتوں تک تفتیش کر ہی رہے تھے کہ خود چوہدری اسلم اور اُن کے قریبی پولیس افسران ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے۔ یہ ’معشوق بروہی مشکوک و متنازع پولیس مقابلہ‘ یا ’ماورائے عدالت ہلاکت‘ کا معاملہ تھا۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق اس جعلی پولیس مقابلے میں چوہدری اسلم، اس وقت کے لیاری کے ٹاؤن پولیس افسر اور آج کے ڈی آئی جی عمر شاہد حامد، آج کے ایس ایس پی عرفان بہادر اور چوہدری اسلم کے کئی اور بھی قریبی ساتھی شریک ملزم ٹھہرائے گئے تھے۔

بڑھتے ہوئے عوامی و سیاسی دباؤ کے نتیجے میں اس وقت کے آئی جی سندھ جہانگیر مرزا نے ایڈیشنل آئی جی طارق جمیل کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی جس نے جانچ پڑتال کے بعد لواحقین اور ذرائع ابلاغ کا دعویٰ درست تسلیم کیا اور 22 جولائی 2006 کو ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ پولیس نے سرکاری طور پر تسلیم کر لیا کہ مرنے والا معشوق بروہی نہیں تھا۔

جس پر آئی جی جہانگیر مرزا نے لیاری ٹاسک فورس ختم کرنے اور چوہدری اسلم سمیت اس مشکوک و متنازع فرضی یا جعلی ’پولیس مقابلے‘ میں شریک تمام پولیس افسران کے خلاف محکمہ جاتی اور قانونی کارروائی کا حکم دیا۔

آئی جی کے حکم پر چوہدری اسلم، عمر شاہد اور عرفان بہادر سمیت کئی افسران کے خلاف مقدمہ درج ہوا کئی معطل اور گرفتار ہوئے اور چوہدری اسلم جیل بھیج دیے گئے مگر جلد ہی سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی کے بعد تمام افسران کو ’بےگناہ‘ قرار دے کر باعزّت بری کردیا اور چوہدری اسلم سمیت کئی افسران اپنے عہدوں پر بحال کر دیے گئے۔

مگر رحمان ڈکیت کا قصّہ اب بھی ختم نہیں ہوا تھا۔ بی بی سی کو دستیاب دستاویزات سے تصدیق ہوئی کہ رحمان سے تفتیش مکمل ہونے پر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ایم آئی کے حکام نے جب اسے دوبارہ لیاری ٹاسک فورس کے حوالے کیا تو اس وقت چوہدری اسلم خود، معشوق بروہی کیس میں گرفتار تھے۔

ایک اور خفیہ سرکاری دستاویز کے مطابق اس تفتیش کے بعد مسئلہ ہوا کہ رحمان کو اب کہاں رکھا جائے کیونکہ گرفتاری تو ظاہر کی ہی نہیں گئی تھی۔ پھر چوہدری اسلم کے ہی مشورے پر اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کیا کہ رحمان کو پہلے کچھ دن لیاری ٹاسک فورس کے افسر انسپکٹر ناصر الحسن کے گارڈن پولیس لائنز میں واقع گھر پر رکھا جائے گا اور پھر سائٹ کے علاقے میٹرووِل میں واقع (اس وقت کے) ایس ایچ او کلری بہاؤ الدین بابر کی نجی رہائش گاہ پر منتقل کر دیا جائے گا۔

رحمان کو انسپکٹر ناصر کے گھر پر رکھنے کے بعد انسپکٹر بابر کی رہائش گاہ منتقل تو کیا گیا مگر وہ انسپکٹر بابر کے گھر سے ’ڈرامائی انداز‘ میں فرار ہو گیا۔

بی بی سی کو حاصل ہونے والی ایک اور انتہائی خفیہ دستاویز کے مطابق میٹرووِل میں انسپکٹر بابر کی رہائش گاہ پر رحمان کی 24 گھنٹے نگرانی کے لیے پولیس کے دو سپاہی مقرر کیے گئے تھے جبکہ چوہدری اسلم کی ہدایت پر ایک دن انسپکٹر ناصر الحسن اور ایک دن انسپکٹر بہاؤالدین بابر رحمان ڈکیت کو ’باہر‘ بھی لے جایا کرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ’باہر لے جانے کے لیے ایک نجی گاڑی استعمال کی جاتی تھی اور رحمان کو ہتھکڑی اور بیڑی لگا کر آنکھوں پر پٹّی باندھ کر لے جایا جاتا تھا جبکہ ایک پولیس موبائل میں چار اور کبھی کبھی چھ پولیس اہلکار بھی گاڑی کے ساتھ چلتے تھے۔‘

مگر اتنے کڑے حفاظتی انتظامات کے باوجود بھی رحمان اس (غیر اعلانیہ) حراست سے کیسے فرار ہوا؟ اس سوال پر خفیہ رپورٹ اور کہانی سنانے والے سیاستدان کے بیان سے الگ الگ نوعیت کی تفصیلات سامنے آتی ہیں۔

رحمان کی کہانی سنانے والے سیاستدان کے مطابق رحمان رات بھر جاگ کر ٹی وی دیکھتا رہتا تھا۔ اس دوران مسلسل ہتھکڑی لگی رہتی تھی حتّیٰ کہ باتھ روم جانے کے وقت بھی رحمٰن کی مدد یہی دو پولیس اہلکار کیا کرتے تھے جو 24 گھنٹے اُس کی نگرانی پر مامور تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک روز رحمان نے دونوں سپاہیوں سے کہا کہ مجھے اپنے گھر کا کھانا کھائے ہوئے عرصہ ہوگیا ہے۔ اگر تم مجھے میرے گھر سے کھانا لا دو تو میرا جو بھی رشتہ دار تمہیں میرے لیے کھانا لا کر دے گا میں تمہیں اس سے ایک لاکھ روپے بھی دلوا دوں گا۔ سپاہیوں نے پوچھا کہ لائیں گے کیسے؟ تمہارے گھر والوں کو پتا کیسے چلے گا؟ جس پر رحمان نے کہا کہ اگر سپاہی انھیں اپنا فون استعمال کرنے دیں تو وہ اپنے گھر والوں سے کھانے کی فرمائش کر سکتا ہے اور گھر والے وہ کھانا سپاہیوں کی طے شدہ جگہ پر لا دیں گے اس لیے یہ خطرہ بھی نہیں ہوگا کہ کوئی وہ خفیہ ٹھکانہ (انسپکٹر بابر کا گھر) دیکھ لے جہاں رحمان کو خفیہ طور پر قید میں رکھا گیا تھا۔

’سپاہیوں کو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لگا (اور تب ایک لاکھ روپے بہت بڑی رقم بھی ہوتی تھی) اور ان میں سے ایک نے ایک لاکھ روپے کے عوض گھر کا کھانا رحمان تک پہنچانے کی حامی بھر لی۔‘

سیاستدان کا کہنا تھا کہ ’کھانا سپاہی تک پہنچانے کا مقام صدر میں سٹوڈنٹس بریانی اور یونائیٹڈ بیکری کے پاس طے ہوا۔ سپاہی نے فون رحمان کو دیا تو اس نے جسے بھی کال کی اس سے فون پر بلوچی زبان میں یہ بھی کہا کہ اس کا تعاقب کرنا۔ کھانا جو بھی لایا ُاس نے سپاہی کو طے شدہ مقام پر کھانا بھی دیا اور رحمان کی ہدایت و وعدے کے مطابق ایک لاکھ روپے بھی۔

’جب سپاہی وہ کھانا لے کر واپس میٹروول میں قید رحمان تک گیا تو کھانا لانے والے شخص نے پیچھا تو کیا لیکن سپاہی بھیڑ میں کہیں گم ہو گیا اور کھانا تو رحمان تک پہنچا مگر رحمان کے منصوبے کے مطابق کوئی اس کی مدد یا پولیس کی اس خفیہ قید سے رہائی دلوانے نہیں پہنچا۔

’رحمان سمجھ گیا کہ پیچھا کرنے والے اس کے ساتھیوں سے کوئی غلطی ہوئی ہے سو پندرہ، بیس دن بعد پھر اس نے نے سپاہی کو پھر پیشکش کی گھر سے کھانا لا دو، پھر ایک لاکھ روپے دوں گا۔ اس دفعہ سپاہی کا اعتماد قائم ہو چکا تھا۔ اس مرتبہ جو مقام طے ہوا وہاں سے کھانا لانے والے رحمان کے ساتھی نے سپاہی کا تعاقب کرکے میٹروول کا وہ مکان دیکھ لیا جہاں رحمان قید تھا۔‘

لیکن خفیہ سرکاری رپورٹ میں تفتیش کاروں کے سامنے رحمان کی نگرانی پر مامور سپاہیوں نے کوئی اور ہی کہانی سنائی۔

خفیہ رپورٹ میں رحمان کے فرار کی تاریخ 20 اگست 2006 درج ہے اور نگرانی کرنے والے سپاہیوں میں سے ایک کے تفتیش کاروں کو دیے گئے بیان کے مطابق 20 اگست سے پانچ چھ دن قبل اُسے پولیس سب انسپکٹر امتیاز نیازی کا فون آیا کہ تم کہاں ہو؟ جب سپاہی نے بتایا کہ وہ ٹیکسی میں ہے اور ماڑی پور روڈ پر مطیع اللّہ جان آفریدی پیٹرول پمپ پر ہے تو اُس نے کہا کہ رکو میں آرہا ہوں۔

سپاپی کا کہنا تھا کہ ’جب سب انسپکٹر نیازی آیا تو اُس کی موٹر سائیکل پر ایک بڑی سی ڈاڑھی والا آدمی بھی بیٹھا تھا۔ میں نے امتیاز نیازی سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو نیازی نے کہا اپنا آدمی ہے۔‘

بیان کے مطابق سب انسپکٹر نیازی نے سپاہی کو دو جوڑے کپڑے اور کھانا دیا کہ یہ ’مہمان‘ (رحمان) کو دے دینا۔ رپورٹ کے مطابق امتیاز نیازی لیاری میں پوسٹنگ رہنے کی وجہ سے رحمان سے پہلے سے واقف تھا۔

سپاہی نے رحمان کے فرار سے متعلق تفتیش میں افسران کو بتایا کہ اس کے کچھ دن بعد ایک عورت بھی اس مکان کے دروازے پر آئی جہاں رحمان قید تھا مگر معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون تھی۔

ان کے مطابق گھر میں مزدور کام بھی کر رہے تھے مگر ان کا اس جانب آنا جانا نہیں تھا جہاں رحمان کو رکھا گیا تھا۔

بہرحال، کھانا سیاستدان کے مطابق رحمان نے منگوایا ہو یا سپاہی کے بیان کے مطابق امتیاز نیازی نے دیا مگر رحمان کی غیر اعلانیہ پولیس حراست کا یہ خفیہ ٹھکانہ اس کے ساتھیوں کی نظروں میں آ چکا تھا۔

اب کچھ بھی ہو سکتا تھا اور ہو بھی گیا۔

خفیہ سرکاری دستاویز کے مطابق 20 اگست 2006 کو رات گئے تین بج کر بیس منٹ پر اچانک رات کی نگرانی پر مامور سپاہی کو انسپکٹر بہاؤالدین بابر کا فون آیا کہ سب ٹھیک ہے، اس نے کہا کہ ہاں سب ٹھیک ہے، رحمان اور دوسرا سپاہی سو رہے ہیں جبکہ وہ جاگ کر ڈیوٹی کر رہا ہے تو انسپکٹر بابر نے اسے کہا ’الرٹ رہنا‘۔

دوسرے سپاہی کے مطابق اسی صبح سوا سات بجے اُسے رات کی ڈیوٹی کرنے والے سپاپی نے جگایا کہ اب دن کی ڈیوٹی سنبھالو۔

پھر رات کو ڈیوٹی دینے والا سپاپی اپنی سرکاری بندوق صوفے کے درمیان رکھ کر خود باتھ روم گیا ہی تھا کہ پانچ مسلح افراد اندر گھس آئے۔ انھوں نے دوسرے سپاہی کو اسلحے کے زور پر قابو کیا اور زنجیر سے باندھ دیا۔

جب امتیاز باتھ روم سے نکلا تو ان حملہ آوروں نے اسے پہلے لوہے کی راڈ سے زخمی کر کے نیچے گرایا اور پھر زنجیر سے باندھ دیا اور رحمان کو جو اب تک ٹوٹی ہوئی ٹانگ کہ وجہ سے صحیح سے چل پھر نہیں سکتا تھا، گود میں اٹھا کر لے گئے۔

جاتے وقت وہ سپاہیوں کے اسلحے سے میگزین اور ان کے فون ساتھ لے جانا نہیں بھولے۔

رحمان کے فرار کے بعد لوہے کی زنجیر سے بندھے ہوئے سپاہی نے خود کو بھی آزاد کیا اور ساتھی کو بھی کھولا اور باہر جا کر کسی دکاندار کے فون سے کال کر کے انسپکٹر بابر کو ساری تفصیل بتائی جو صرف 20 منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔

مگر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ رحمان کے فرار سے پولیس اور دیگر اداروں کے اعلیٰ ترین حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ادھر رحمان نے فرار ہوتے ہی یہ بات مشہور کر دی کہ وہ ’پیسے دے کر‘ چھوٹ گیا ہے۔

سیاستدان کے مطابق اس پر فوراً ہی خفیہ فوجی اداروں کے حکام نے چوہدری اسلم، بہاؤالدین بابر اور دونوں سپاہیوں سمیت رحمان کی کسٹڈی کے ذمہ دار متعدد افسران و اہلکاروں کو تحویل میں لے لیا کیونکہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ رحمان فرار ہوا کیسے؟

’اسلم ہسپتال میں تھا مگر اُسے فوجی حکام پوچھ گچھ کے لیے ساتھ لے گئے اور کافی سخت تفتیش کی۔ بہاؤالدین بابر کو تو 40 سے زیادہ دن تک تفتیش سے گزرنا پڑا کہ آخر رحمان کیسے اور کس کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔‘ سیاستداں نے دعویٰ کیا۔

یکم جنوری 2014 کو انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں صحافی عمران ایوب نے اپنی رپورٹ ’بہاؤالدین بابر اے پروفائل‘ میں لکھا کہ بابر کو رحمان کے فرار کے بعد کڑی تفتیش، حراست اور حوالات کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔‘

رحمان کی کہانی سے واقف سیاستدان اور چند پولیس افسران کے مطابق ’فوجی حکام کو شک تھا کہ رحمان کے اس فرار میں بابر کی ملی بھگت کا بھی کوئی نہ کوئی کردار ضرور تھا۔‘ انسپکٹر بابر چونکہ 31 دسمبر 2013 خود ایک حملے میں قتل کر دیے گئے اس لیے ان کا موقف نہیں لیا جا سکتا۔

بہرحال، رحمان کے فرار پر چوہدری اسلم کو بھی جن ’مراحل‘ سے گزرنا پڑا وہ اس کے خلاف چوہدری اسلم کے دل میں غصّہ پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔

مجھے معلومات دینے والے سیاستدان کے مطابق ’اب چوہدری اسلم موقع کی تلاش میں تھے کہ ’حساب برابر کیا جائے۔‘

ادھر دیگر ذرائع کے مطابق ’فرار کے بعد رحمان نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا چلا آ رہا تھا۔ اس نے لیاری پہنچ کر پھر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا اور اس دفعہ کچھ ایسا کیا کہ لیاری میں جُرم ہی نہیں سیاست کی بھی سانس اکھڑنے لگی۔‘

اب رحمان نے پیپلز پارٹی کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔ ذرائع ابلاغ کی تحقیق سے واضح ہے کہ ایک وقت یہ آیا کہ اپنے سیاسی گڑھ لیاری میں ٹاؤن ناظم کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک محمد خان کو شکست ہوئی اور رحمان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہو گئے۔

جب 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور آصف زرداری پہلی مرتبہ ملک کے صدر بنے تو رحمان بلوچ کو پیغام بھجوایا گیا کہ ٹاؤن ناظم لیاری ملک فیاض اور ٹاؤن ناظم کیماڑی ہمایوں خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے اور پیپلز پارٹی کا ناظم مقرر کیا جائے۔

اُس کے بعد رحمان کے گینگ نے کیماڑی کے تین چار نائب ناظمین کو اغوا کر کے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ کیماڑی کے ناظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کریں۔

لیکن ہمایوں خان، بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللّہ زہری کے سکول کے زمانے کے دوست تھے سو انھوں نے رحمان کے دباؤ اور غنڈہ گردی پر زہری برادران سے مدد مانگی۔ زہری برادران نے ہمایوں کی حمایت میں آصف زرداری سے رابطہ کیا اور آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت سے کہا کہ عدم اعتماد روک دی جائے۔

آصف زرداری کے پیغام کے باوجود رحمان کی مرضی سے ہمایوں خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ آصف زرداری نے کسی نہ کسی طرح تحریک عدم اعتماد کے باوجود بھی ہمایوں کو ان کے عہدے پر تو برقرار رکھا مگر رحمان کے خلاف یہ ضرور کہا کہ ’اب یہ (رحمان) جانے اور اس کا کام جانے۔‘

اور رحمان سے پیپلز پارٹی کی یہ آخری ناراضگی پورے ’سسٹم‘ میں درج ضرور ہو گئی۔ تب ہی ایک روز سندھ کے اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی ذوالفقار مرزا گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس پہنچے۔

ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ ذوالفقار مرزا نے کہا کہ لیاری کے معاملات سنگین ہو گئے ہیں، قتل و غارت بڑھ رہی ہے اور حکومت کی جانب سے پولیس کو ہدایت کی جائے کہ لیاری کے متحارب گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

’ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کہا کہ پیپلز پارٹی چاہتی تھی کہ رحمان بلوچ کو سیاسی دھارے میں لایا جائے تاکہ لیاری میں جُرم ختم ہو مگر جرم تو اور بڑھ رہا ہے، شہر بھر میں پھیل رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

سابق گورنر نے بتایا کہ ’میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ تو آپ ہیں۔ آپ احکامات جاری کریں۔ اُن پر ہی پولیس کو ہدایت دی جا سکتی ہے۔ جس پر ذوالفقار مرزا کے جاری کردہ احکامات کے بعد میں نے پولیس کو ہدایت کی کہ لیاری ہی نہیں پورے صوبے میں امن و امان ہر قیمت پر قائم کیا جائے اور کارروائی تیز کی جائے۔‘

اس سوال پر کہ صوبائی وزیر داخلہ کو گورنر سے مدد کیوں مانگنی پڑی پولیس کو تو وہ خود احکامات دے سکتے تھے، ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ ’دراصل اس کام کے لیے صوبائی حکومت کو وفاقی اداروں کی مدد بھی درکار تھی اس لیے وہ میرے دفتر آئے تھے تاکہ وفاق کے ادارے صوبائی حکومت کی مدد کرسکیں جیسے کہ رینجرز یا انٹیلی جینس ایجنسیز کی مدد کی ضرورت پڑے تو گورنر کے دفتر کے ذریعے مل سکے۔‘

اب رحمان تین اطراف سے زد پر تھا۔ ایک جانب ایم کیو ایم بھتّے اور سیاسی پھیلاؤ پر ناراض تھی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی انور بھائی جان کے قتل اور ٹاؤن ناظم کے خلاف عدم اعتماد پر ناراض تھی اور تیسری جانب بہاؤالدین بابر کے گھر سے فرار اور یہ مشہور کرنے پر کہ وہ پولیس والوں کو پیسے دے کر بھاگا ہے، ساری پولیس اور خاص طور پر چوہدری اسلم ناراض تھے۔

بہرحال، سب طرف سے یہی ناراضگی رحمان کو مہنگی بلکہ بہت مہنگی پڑی۔ سیاستدان نے بتایا کہ ’رحمان کو بھی خطرے کا احساس تو ہو گیا تھا یا پھر کسی نے رحمان کو بتا دیا تھا کہ معاملات اچھے نہیں ہیں۔‘

سیاستداں نے بتایا کہ ’خطرے میں گھر جانے کا احساس اتنا شدید تھا کہ اچانک آٹھ اگست 2009 کو رحمان نے اپنے قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں کو بلایا اور کہا کہ فی الحال نقل و حرکت محدود رکھی جائے اور اگر بہت ہی زیادہ ضروری ہو تو آمد و رفت کے لیے گاڑی کی بجائے موٹر سائیکل جیسی سواری کو ترجیح دی جائے۔

’ادھر رحمان کی تلاش میں شدت سے سرگرداں چوہدری اسلم اسی قریبی نیٹ ورک میں ایک مخبر تک پہنچ گئے۔ اگلے ہی دن نو اگست 2009 کو خود رحمان نے بلوچستان جانے کی کوشش کی تو چوہدری اسلم کو اُن کے مخبر کے ذریعے رحمان کے کراچی سے نکلنے کی کوشش کا پتا چل گیا جس کے لیے بعض ذرائع کے دعوے کے مطابق 22 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔‘

سیاستدان کے مطابق ’رحمان اور اُس کے تین قریبی ساتھی عقیل بلوچ، نذیر بلوچ اور اورنگزیب بلوچ موٹر سائیکل پر پرانا گولیمار پہنچے جہاں سے ایک گاڑی میں یہ سب بلوچستان کے علاقے مند کی جانب روانہ ہوئے۔‘

سیاستدان نے دعویٰ کیا کہ ’جب تک چوہدری اسلم کو مخبر سے اطلاع ملی تب تک رحمان کراچی کی حدود سے نکل چکا تھا۔ اب اسلم اور اُس کی ٹیم کے ارکان رحمان کی تلاش میں نکلے۔‘

ان کے مطابق اس دوران اسلم کو ایک خفیہ فوجی ادارے کی اس قدر مدد حاصل رہی کہ اس کے فون کی لوکیشن یا رحمان کی پوزیشن بتائی جا سکتی تھی تاہم کہیں، کہیں ایسے علاقے آئے کہ موبائل فون کے سگنلز ڈراپ ہو گئے۔

ایک افسر کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی نہ کسی طرح ایسا موبائل نمبر حاصل کیا تھا جو رحمان کے استعمال یا رابطے میں تھا۔ یہ نمبر انھوں نے ملٹری انٹیلیجینس کو دیا تاکہ رحمان کی نقل و حرکت معلوم کی جا سکے اور اسے گرفتار کیا جا سکے۔‘

چونکہ رحمان اور اس کے ساتھی کافی فاصلے پر جا چکے رھے لہٰذا اسلم کو اس کے مددگار خفیہ اداروں نے واپسی کا مشورہ دیا۔ جب چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم واپسی کے سفر میں گڈانی اور وندر کے درمیان پہنچی تو اسی وقت رحمان اور اس کے ساتھی ایک بار پھر کوریج ایریا میں داخل ہوئے اور فون مانیٹر کرنے والوں کو ان کا سراغ مل گیا۔

ہوا یہ کہ رحمان کے ساتھی نذیر بلوچ نے اپنی اہلیہ کو فون کر کے گھر پہنچنے کی اطلاع دیتے ہوئے پسندیدہ کھانا پکانے کی فرمائش کی اور یہی فرمائش مصیبت کا سبب بن گئی۔

نذیر بلوچ کی اہلیہ نے اس قافلے میں رحمان کے ساتھ آنے والے ساتھی کی اہلیہ کو بھی فون کیا کہ ’مہمان (رحمان اور اس کے ساتھی) آ رہے ہیں اور پسندیدہ کھانا کھانے کی فرمائش بھی کر رہے ہیں۔‘

سیاستدان کے مطابق یہ اطلاع چوہدری اسلم کو دی گئی کہ رحمان اور اس کے ساتھی آ رہے ہیں اس لیے ان کے پیچھے جایا جائے۔ چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم اُس جگہ پہنچی جسے زیرو پوائنٹ کہتے ہیں اور جہاں سے ایک راستہ گوادر کوسٹل ہائی وے اور دوسرا کوئٹہ کی سمت جاتا ہے۔

پولیس کی ٹیم اس مقام پر وہاں کھڑی ہوئی جہاں یہ راستہ انگریزی کے حرف وائی (Y) جیسی شکل اختیار کرتا ہے تاکہ رحمان اور اس کے ساتھی جس جانب سے بھی آئیں ان کا سامنا پولیس سے ہی ہو اور یہی ہوا۔

بالآخر ایک سیاہ ٹویوٹا گاڑی میں رحمان اور اس کے ساتھی آتے دکھائی دیے۔

سیاستدان نے مجھے بتایا کہ ’اس وقت تک اسلم کی ٹیم کے کچھ ارکان نے پولیس کی وردی کی بجائے وہاں تعینات کوسٹ گارڈز کی وردی پہن لی تھی تاکہ رحمان اور اس کے ساتھی کراچی پولیس کی وردی خصوصاً چوہدری اسلم کو دیکھ کر کچھ اور نہ کر ڈالیں اور انھیں لاعلمی میں ہی دبوچ لیا جائے۔‘

ایک افسر نے بتایا کہ اس کارروائی کے لیے کوسٹ گارڈز کی اعلیٰ کمان کو خفیہ ادارے کے اہم افسران کا فون بھی گیا تاکہ اسلم اور ان کی ٹیم سے تعاون کیا جائے۔

بہرحال چوہدری اسلم تو دیکھ رہے تھے کہ رحمان آ گیا ہے مگر خود رحمان کو اندازہ نہیں ہوا کہ وہ اسلم کے گھیرے میں آ گیا ہے۔ جب گاڑی روکی گئی تو رحمان کے ساتھیوں نے مزاحمت بھی نہیں کی۔

شناختی دستاویزات طلب کرنے پر رحمان نے جو جعلی شناختی کارڈ دکھایا اُس پر اس کا نام شعیب درج تھا مگر منصوبے کے مطابق رحمان کو وہاں کوسٹ گارڈز کی وردی میں تعینات پولیس اہلکاروں نے کہا کہ آپ جا کر اپنا شناختی کارڈ گاڑی میں بیٹھے کرنل صاحب کو دکھائیں۔

یہ صاحب تھے چوہدری اسلم اور جیسے ہی رحمان نے سیاہ شیشوں والی ویگو کا دورازہ کھولا تو اس کا سامنا چوہدری اسلم سے ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ فرار کا کوئی خیال رحمان کے ذہن میں آتا اس کے عقب میں کھڑے پولیس افسر ملک عادل نے اسے اندر دھکا دیا اور خود بھی گاڑی میں سوار ہو گئے۔

اب ایک جانب چوہدری اسلم، بیچ میں دبوچا ہوا رحمان اور دوسری جانب ملک عادل۔

سیاستدان کے مطابق ممکنہ ’پولیس مقابلے‘ کی صورت میں موت نظر آنے لگی تو ’رحمان نے اسلم کو پیشکش کی کہ ’کچھ لے دے کر بات بنائی جا سکتی ہے مگر اسلم نے کہا کہ جب نہیں لیا تھا تو اتنا بدنام کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی تفتیش بھگتنا پڑی اور اب لے لوں تو کیا کرو گے۔‘

مگر ایک اور سیاسی شخصیت کے مطابق اس وقت رحمان کی پیشکش پر رقم بھی منگوائی گئی۔

’رحمان نے اپنے ایک ساتھی اورنگزیب بابا کو بھیجا کہ فلاں جگہ میرے پانچ کروڑ روپے پڑے ہیں لے کر آؤ۔ تو وہ لایا تھا پیسہ، وہ پیسہ کہاں گیا اور کس نے منگایا کسی کو نہیں پتا چلا۔‘ ایون اقتدار تک رسائی رکھنے والی اس سیاسی شخصیت نے بتایا مگر اس دعوے کی تصدیق ممکن نہیں۔

سیاستدان نے مزید دعویٰ کیا کہ ’وہاں (زیرو پوائنٹ)سے ان سب کو نیشنل ہائی وے سٹیل ٹاؤن لے جایا گیا اور نادرن بائی پاس سے ہوتے ہوئے یہ قافلہ لنک روڈ پہنچا اور رحمان وہاں پولیس مقابلے میں تینوں ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گیا۔‘

ان کے اس دعوے کی تصدیق کئی افسران نے نجی گفتگو میں تو کی لیکن آن ریکارڈ رحمان ’ڈکیت‘ کی ہلاکت کے بارے میں کراچی پولیس کا سرکاری اعلامیہ 10 اگست 2009 کے تمام اخبارات میں شائع ہوا۔

انگریزی اخباروں ڈان اور دی نیشن نے اس سرکاری اعلامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ رحمان ڈکیت اور اُن کے تین ساتھی پولیس سے جھڑپ میں مارے گئے۔

سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ پولیس نے رحمان ڈکیت کی گاڑی روکنے کی کوشش کی مگر ملزمان کے فرار ہونے پر پولیس کو مجبوراً گولی چلانی پڑی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’رحمان قتل و اغوا برائے تاوان کی 80 سے زائد وارداتوں میں مطلوب تھا‘ جبکہ کراچی پولیس کے سربراہ وسیم احمد نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ اس کی ہلاکت کراچی پولیس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا بھی کہنا ہے کہ یہ ایک ’حقیقی‘ پولیس مقابلہ تھا۔

’چونکہ یہ آپریشن چوہدری اسلم کر رہے تھے شاید اس لیے شبہ ہوا ہو بعض حلقوں کو مگر اس مخصوص مقدمے میں تو نہیں کہا جا سکتا کہ جعلی مقابلہ ہو گیا۔ ایسا ممکن نہیں کہ اس کیس میں گھر سے نکالا ہو اور مار دیا گیا ہو۔‘

ان کے مطابق ’کبھی اس (جعلی پولیس مقابلے) کے کوئی قابلِ اعتبار شواہد بھی نہیں ملے۔ سارے تکنیکی ثبوت پیش کیے گئے۔ اس میں تو چھاپہ بھی نہیں مارا گیا بلکہ انتظار کیا گیا کہ کب وہ (رحمان) اپنی جگہ سے نکلے تو اسے روکا جائے کیوں کہ چھاپے میں تو وہ مزاحمت کر سکتے تھے۔

’فیصلہ تھا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔ پہلے تو اس کے اپنے ساتھیوں میں ایک اطلاع پھیلائی گئی کہ یہ ٹھکانہ جہاں رحمان تھا سب کو پتا چل گیا ہے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو پھر ان کے گرد گھیرا ڈالا گیا۔ارادہ یہی تھا کہ گرفتار ہوں گے مگر انھوں نے فائرنگ کی تو پولیس پارٹی نے بھی فائر کیے۔ آپ چیک کریں کچھ پولیس افسران بھی اس مقابلے میں زخمی ہوئے تھے۔‘

مگر اس سب کے باوجود اس پولیس مقابلے کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا۔

ڈان نے اپنی 14 اکتوبر 2009 کی اشاعت میں بتایا کہ رحمان کی بیوہ فرزانہ نے اپنے وکلا عبدالمجیب پیرزادہ اور سید خالد شاہ کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرمد جلال عثمانی کی عدالت میں درخواست دائر کی کہ ان کے شوہر کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا ہے۔

عدالت نے اس پر صوبائی سیکریٹری داخلہ سمیت کراچی پولیس اور سندھ پولیس کے سربراہان کو عدالت میں طلب بھی کیا مگر رحمان کے خاندان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ آج تک مقدمے کا فیصلہ ہونے کے منتظر ہیں۔

بظاہر یہ لگتا ہے کہ رحمان ڈکیت سیاسی مخالفت اور سسٹم کی ناراضگی کے سبب مارے گئے تو سسٹم ان سے کس لیے ناراض تھا؟

کیا اس کی وجہ ممکنہ طور پر بلوچ قوم پرست جذبات ہو سکتے تھے؟ صحافی عزیز سنگہور کا کہنا ہے کہ ’دراصل بلوچ حلقے سمجھتے ہیں کہ جیسے کشمیر، گلگت اور بلوچستان سویلیئن سبجیکٹ نہیں ہیں ایسے ہی لیاری کبھی سول سبجیکٹ نہیں رہا۔‘

لیاری کے اردو آرٹس یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت کے سابق سربراہ پروفیسر (ریٹائرڈ) توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ’لیاری گینگ وار کے پس پردہ حقائق کچھ اور تھے۔ جو مارا ماری آپ نے لیاری میں دیکھی اس کا سرا آپ کو یہاں نہیں ملے گا۔ سرا ڈھونڈنے بلوچستان جانا پڑے گا۔‘

پروفیسر توصیف احمد کا موقف ہے کہ بلوچستان کی قوم پرستانہ تحریک کو لیاری سے علیحدہ رکھنے کے لیے ’ریاست اور اس کے اداروں‘ نے علاقے میں سیاست سے جرم کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ہمیشہ یہ موقع دیا کہ جرم سیاست پر غالب رہے۔

’1973 میں بلوچستان میں جب فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تو ڈر تھا کہ لیاری کہیں بلوچ مزاحمتی تحریک کا مرکز نہ بن جائے تو لیاری کو علیحدہ رکھنے کے لیے ریاست کے کرتا دھرتاؤں نے اسے جرم کی بھٹّی میں دھکیل دیا۔‘

پروفیسر توصیف نے کہا کہ ’فوج نے لیاری کو گینگ وار کے حوالے کیا اور پیپلز پارٹی اس میں شریک ہوگئی۔ پیپلز پارٹی سیاسی وارث تھی لیاری کی۔ انھوں نے جدوجہد کا راستہ اختیار نہیں کیا، آسان راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے مختلف ادوار میں ان گینگسٹرز کی سرپرستی کی۔ نتیجے میں خود پیپلز پارٹی کا بھی بہت بڑا نقصان ہوا۔ یہاں تک کہ سیاست بھی جرائم پیشہ عناصر کی محتاج دکھائی دی۔‘

کچھ بھی ہو، سردار عبدالرحمان بلوچ کہیں یا رحمان ڈکیت مگر ایک بات ضرور ہے کہ اُس کا جنازہ لیاری کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔

رحمان ڈکیت تو مارا گیا اور پانچ برس بعد جنوری 2014 میں چوہدری اسلم خود بھی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے لیکن پاکستان کے نظام عدل میں آج تک نہ تو بے گناہ معشوق بروہی سمجھ کر قتل کر دیے جانے والے سکرنڈ کے بے گناہ رسول بخش کے قاتل انجام کو پہنچے، نہ پولیس افسر چوہدری اسلم کے قاتل قانون کے کٹہرے میں لائے جا سکے اور نہ ہی مجرم رحمان ڈکیت کے خاندان کو انصاف مل سکا۔

یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟

نوٹ: یہ تحقیقی فیچر بی بی سی اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ سنگت میگ کا فیچر میں دی گئی تفصیلات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close