برٹن ٹھٹہ سے گھوم پھر کر مکلی کے قریب لگے اپنے کیمپ میں واپس آیا۔ رات کے کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کیا اور پھر رات کو ان کا قافلہ ٹھٹہ سے شمال مشرق کی طرف چل پڑا تھا۔ سورج اُگنے میں ابھی وقت تھا کہ اس قافلے نے دریائے سندھ کے بہاؤ کے مغرب میں سُونڈا کے قدیم قبرستان کے قریب اپنا کیمپ لگا لیا تھا اور برٹن نے اپنے (تصوراتی کردار) ساتھی مسٹر بُل کے ساتھ ناشتہ کیا اور پھر باتیں کرتے سوگیا۔
برٹن کی یہ انتہائی شاندار تکنیک تھی کہ وہ جو کچھ دیکھتا، محسوس کرتا یا جو کچھ کہنا چاہتا، وہ اکثر مسٹر بُل کی زبان سے کہلوا دیتا ہے۔ اور ہم پڑھنے والے ان دونوں کی گفتگو سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اب جب جاڑوں کا سورج دوپہر کے مقام سے ہٹ کر کچھ مغرب کی طرف چلا گیا ہے تو برٹن صاحب اور مسٹر جان بُل اُٹھے ہیں۔
برٹن ہمیں بتاتے ہیں کہ ’ہماری آنکھ دن کے دو بجے کُھلی۔ کیا خوبصورت شام تھی موسم اور منظر کو دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ تین بجے دوپہر کا کھانا کھایا اور چار بجے کے قریب ہم اپنے کیمپ سے دو میل دور کچھ مقبرے دیکھنے گئے۔ وہاں پہنچنے پر ہمیں بھکاریوں کی ٹولیوں نے گھیر لیا جیسے وہ بالکل فارغ بیٹھے تھے اور ہمارے ہی انتظار میں تھے‘۔
برٹن کا کیمپ دریا کنارے تھا مگر سونڈا کا قبرستان اس سے مغرب میں تھا۔ چونکہ اس وسیع اور قدیم قبرستان کے جنوب میں ایک چھوٹی سی بستی بھی تھی اس لیے بھکاری وہاں قبروں اور گنبدی قبروں پر جلدی پہنچ جاتے ہوں گے۔ آپ آج بھی جب ٹھٹہ سے حیدرآباد جانے والے راستے پر سفر کریں تو ٹھٹہ سے 35 کلومیٹر شمال میں یہ قدیم قبرستان آپ کو اس مصروف راستے کے مشرق میں نظر آئے گا۔ یہاں کی گنبدی قبروں اور ہزاروں برس کے قدیم قبرستان کے متعلق برٹن ہمیں کچھ نہیں بتاتا۔ چونکہ میں وہاں کئی بار گیا ہوں اور اس وسیع قبرستان کی باریک سی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے میں نے تپتے دن اور ٹھنڈی شامیں بھی گزاری ہیں۔ تو اس گورستان کی قدیم قبروں کے متعلق میں آپ کو مختصراً بتا دیتا ہوں۔
ڈاکٹر احمد حسن دانی صاحب کی تحقیق کے مطابق ’وادی سندھ ہندوستان کا وہ حصہ ہے جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے آنکھیں کھولیں۔ سندھ میں بُدھ مت، جین مت اور برہمنوں کے زوردار اثرات موجود رہے اس لیے ان سب کی تعمیرات کا اثر بھی یہاں کی فنی تعمیر پر رہا۔ اگر ہم اسلام کے بعد مسجدوں اور مقبروں کی تعمیرات کو دیکھیں تو ان پر ترکی، ایران، مصر اور ہند کی تعمیرات کا اثر ہمیں نظر آئے گا‘۔
سندھ اور بلوچستان میں ان قدیم قبرستانوں پر تحقیق کرنے والے سلمان رشید صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’اس طرح کے قبرستانوں کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو ایران کے راستوں سے بلوچستان اور سندھ میں بکھرا ہوا ہے جیسے مکلی، سونڈا، جھرک، راج ملک، شاہ کپور، چوکنڈی، میمن گوٹھ، ملیر میں بلوچوں کے مقبرے، تونگ اور ایسے 100 سے بھی زائد قبرستان ہیں۔
اگر آپ تاریخ کے صفحات کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت) مغلوں کے دور حکومت میں بے حد طاقتور قبیلے رہے ہیں۔ اور وہ اکثر تجارتی قافلوں پر حملے کرکے اُن کو لُوٹ لیتے تھے۔ ہم اگر کلہوڑا دور میں بھی دیکھیں تو گبول، لاشاری، پنہور اور جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے ہیں۔ ان قبیلوں کے قبرستانوں کی اپنی ایک الگ پہچان ہے اور ان پر بہت سارے محققین نے تحقیقی کام بھی کیا ہے‘
ڈاکٹر غلام علی الانا اپنی تحقیقی تھیسز میں رقم طراز ہیں کہ ’سُونڈا کے قبرستان میں پتھر سے بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں جانب نچلی طرف گھڑسوار کی تصویریں تراشی گئی ہیں جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ کُچھ قبروں پر دستار کی شبیہہ تراشی گئی ہے۔ ان کے متعلق کارٹر کا خیال ہے کہ یہ سرداروں کی قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں اور وہ قبریں جن پر 7 فٹ اُونچے پتھر کے سُتون گاڑے گئے ہیں، وہ قبریں جنگ میں مارے جانے والوں کی ہیں‘
سنگتراشی کے ان قبرستانوں کی قدامت سے متعلق محققین اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ یہ فن سَمہ دور میں یہاں جنوب سے آیا یعنی گُجرات سے آیا اس لیے اس فنِ تعمیر پر گجرات کی عمارت سازی کا بہت گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ سندھ میں فنِ تعمیر کے لحاظ سے سمہ دور ایک شاندار زمانہ ثابت ہوا۔ مکلی اور اس کے اطراف میں زیادہ تر تعمیرات اس دور کی یادگار ہیں۔ پیر پٹھو کا قبرستان جہاں زیادہ تر سمہ سرداروں کی قبریں ہیں اور سنگتراشی کے ضمن میں یہ قبرستان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
مگر اس حوالے سے برٹن کچھ نہیں لکھتا۔ اب شاید یہ اس کی مرضی تھی، ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے۔ البتہ اُس شام کی سردی کا ذکر وہ ضرور کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ’قبرستان سے واپسی پر تھکان اُتارنے کے لیے چائے پی۔ شمال کی تیز ہواؤں میں غضب کی ٹھنڈ تھی، ہواؤں کے جھکڑ بھی اتنے تیز تھے کہ ہمارے ٹینٹ کی ایک دو بار میخیں تک نکل گئیں۔ انگلینڈ سے نکلنے کے بعد یہ پہلی رات تھی جب ہم کپاس کی بھری گرم رضائیوں میں سوئے‘
اس کے بعد برٹن دریا کے کنارے گھنے جنگلات کی بات کرتا ہے جو بہاؤ کے دونوں کناروں پر تھے۔ دریا کے بہاؤ کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جب عام حالات میں دریا بہتا ہے جیسے میلٹنگ کے موسم میں جو تقریباً اپریل مئی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد جولائی سے ستمبر تک بارشوں کا موسم ہوتا ہے تو اُن دنوں میں دریا میں تغیانی کی کیفیت ہوتی ہے۔ ہم اُس دریا کی بات کررہے ہیں جب دریا پر کوئی ڈیم یا بیراج نہیں بنا تھا۔ دریا آزاد تھا ان دنوں میں دریا میں 150 ایم اے ایف سے بھی زیادہ پانی آتا تھا اور اس اضافی پانی کی وجہ سے دریا کا پاٹ پھیل جاتا تھا۔
مرکزی بہاؤ سے کہیں کہیں تو میلوں میں پانی ہی پانی ہوتا ہے جس کو مقامی زبان میں ’کچو‘ (وہ اراضی جس میں دریا کا پانی اپنی زرخیز مٹی سے پھیل جاتا ہے اور تغیانی اُترنے کے بعد وہاں درخت اور جھاڑیاں اُگ آتی ہیں اور گھنے جنگل آباد ہوجاتے ہیں) کہتے ہیں، وہاں گھنے جنگل اُگ جاتے ہیں۔ برٹن ان گھنے جنگلات اور اُن میں اُگے درختوں کی اقسام، جھاڑیوں اور جنگلی حیات کے پنپنے کا بڑے تفصیل سے ذکر کرتا ہے۔ ساتھ میں خشک موسم میں جنگلات کو کس طرح آگ لگ جاتی ہے اُس کا ذکر بھی وہ بڑے دلچسپ اور سائنسی بنیادوں پر کرتا ہے۔
ساتھ میں وہ سندھو ندی کی وسعت، خوبصورتی اور تقدس کے متعلق بہت تفصیل سے بات کرتا ہے۔ وہ ’دیوالی‘ کے جشن کا ذکر بھی کرتا ہے جو فصلوں کی کٹائی اور جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں آتا ہے۔ میں آپ کو برٹن صاحب کی آنکھوں اور الفاظ سے اُس جشن کے مناظر دکھانا اور سُنانا چاہوں گا جو اُس نے دیکھے، محسوس کیے اور تحریر کیے۔ برٹن پڑھنے والوں کو بتانے کے لیے مسٹر جان بُل سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ’مسٹر بُل آپ شاید گھاس پُھوس کے بنے ہوئے بیڑے (Raft) کو دیکھ رہے ہیں جسے رات کو کئی دیوں کی روشنی سے روشن کیا گیا تھا اور اب دن ہونے پر انہیں بُجھایا جا رہا ہے۔ یہ بیڑا کنارے کے ساتھ کھڑا ہے جس کنارے پر اس وقت ہم چہل قدمی کررہے ہیں۔
’آپ کو یاد ہوگا کہ کل 6 نومبر تھی اور دیوالی کے بڑے تہوار کا دن تھا۔ یہ سندھیوں کے لیے ہر برس آنے والا ایک بڑا دن ہے جو ہر برس انہیں دنوں میں آتا ہے۔ ان غریب لوگوں نے اس تہوار کو منانے کے لیے بڑی محبت اور محنت سے کوششیں کی ہیں جن کو آپ ابھی دیکھ رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ ’بابا سندھو‘ کی پُوجا کرتے ہیں، دِیوں سے گھر روشن کرنے کے علاوہ، ہر آدمی دیے کو روشن کرکے دریا کے لہروں کے حوالے کرتا ہے اور ساتھ میں دریا بادشاہ کے غصے کو قابو میں رکھنے اور اُسے راضی کرنے کے لیے سندھو بابا کو چاول پیش کیے جاتے ہیں۔ ساتھ میں دیوی لکشمی کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔
’دیے جلانے کا مقصد یہ ہے کہ دیا جلانے والے کی حیات کا دیپک آنے والے برس تک جلتا رہے۔ اگر پانی کی لہر یا پانی کے چھینٹے اُس کے دریا میں داخل کیے ہوئے دیے کو بُجھادیں تو وہ مایوس ہوجاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کو مشکلات پیش آنے والی ہیں۔ سندھ کے شہروں میں دیوالی کا یہ جشن بڑی دھام دھوم سے منایا جاتا ہے اور ہر طرف آپ کو دیپک ہی دیپک نظر آئیں گے جیسے آسمان میں ستارے۔ اور دریا کا کنارا تو ہزاروں دیوں کی ٹمٹماتی روشنی سے بھرا ہوتا ہے۔ اور اس دن بیوپاری لیکھے چوکھے کی پرانی پوتِھیوں کو بند کر کے نئی پوتِھیاں کھولتے ہیں‘۔
بنیادی طور پر یہ موسموں اور فصلوں سے جُڑے دن ہیں کیونکہ ان دنوں میں اکثر فصلیں پک چکی ہوتی ہیں تو اُن کو کاٹ کر اور صاف کرکے مارکیٹوں میں لایا جاتا ہے جس سے خوراک اور پیسوں کی پریشانی کم ہوجاتی ہے۔ اور یہی دن ہوتے ہیں جب اس گرم خطے میں جاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں مہمان بن کر آتی ہیں۔ جاڑوں کا یہ موسم ہند اور سندھ کے لیے ایک شاندار تفریح کا موسم رہا ہے۔ اکثر میلے اسی موسم میں لگتے ہیں۔ سفر اور بیوپاری قافلوں کے لیے بھی یہ شاندار موسم ہوتا ہے۔ رات کو گاؤں کی چوپالوں میں الاؤ جلتے اور بھٹ، بھان اور چارن قدیم قصے کہانیاں کہنے والے آپہنچتے اور قصے کہانیاں سُناتے۔ کبھی کبھی رات گزر جاتی اور کچھ قصے تو اتنے طویل ہوتے کہ وہ کئی کئی راتوں تک لوگوں کو تفریح مہیا کرتے۔
سونڈا کے بعد برٹن کا قافلہ آگے بڑھتا ہے۔ اس سفر کا ذکر کرتے وہ یہاں کے وڈیروں کی زندگی، ان کی خوراک اور شکار کے شوق کے متعلق معلومات دیتا جاتا ہے۔ ساتھ میں وہ یہاں کے گھروں کی بناوٹ، غریب لوگوں کی بستیوں اور ان کے مسائل کے متعلق بھی وہ حقائق سے ہمیں آگاہ کرتا جاتا ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ دریا کے دونوں کناروں پر جو گھنے جنگل ہیں اُن میں سے اکثر تالپور حاکموں نے اپنے شکار کے لیے مختص کر رکھے تھے۔ اور ساتھ میں وہ جنگلی حیات اور اُن دنوں کے ماحولیاتی منظرناموں کو بھی نہیں بھولتا۔ سونڈا کے بعد ایک دو منزلیں طے کرکے وہ’جھرک’ پہنچتا ہے۔
اُس کی پہلی نظر میں جھرک جس طرح نظر آیا وہ ہم اگر برٹن کے الفاظ میں سُن لیں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا۔ ’آپ نے دیکھا کہ جھرک دریائے سندھ کے کنارے پر ایک شہر ہے مگر یہ سندھ کے باقی میدانی لینڈاسکیپ سے الگ پہاڑی کے بالکل اوپر بنا ہوا ہے۔ یہ وہی پہاڑی سلسلہ ہے جس کے کنارے سفر کرکے ہم یہاں پہنچے ہیں۔ یہ سلسلہ کوئی بڑی پہاڑیوں کا نہیں ہے اگر ہم غور سے دیکھیں تو میدانی سطح سے یہ زیادہ سے زیادہ 100 فٹ اونچی پہاڑی ہوگی۔ جس پہاڑی پر یہ شہر ہے جس کی اراضی آدھے میل تک ہوگی۔
’یہاں فوجی چھاؤنی کو دیوار دی گئی ہے۔ یہاں مستقل طور پر ایک وسیع فوجی چھاؤنی قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں پینے کے پانی کی کمی نہیں، ہوا زبردست اور صحت بخش ہے جبکہ کھانے پینے کی چیزوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اس شہر میں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے اس لیے بلوچستان کے لوگ بھی گھومنے اور خریداری کرنے کے لیے یہاں آتے رہتے ہیں۔ اس وقت جھرک ایک فوجی آؤٹ پوسٹ ہے جہاں فقط ایک کمپنی رہتی ہے جبکہ اس کی ریجمنٹ حیدرآباد میں رہتی ہے۔ کچھ برس پہلے اونٹ سوار فوج یہاں رہتی تھی اور اس کا ہیڈ کوارٹر بھی یہیں تھا‘۔
جس دن برٹن کا قافلہ جھرک پہنچا تھا اُس دن یا شاید دوسرے دن وہاں کا کمانڈنگ آفیسر اُس سے ملنے آیا تھا اور وہ شاید کچھ زیادہ ہی دیر اُن کے پاس گپے مارنے بیٹھ گیا جو برٹن کو اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ برٹن کے پروگرام میں اس دن جھرک شہر کو دیکھنے کے لیے جانا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’یہ کمانڈنگ آفیسر جس کو میرے آنے کی اطلاع دی گئی تھی اُس کو پڑھ کر وہ مجھ سے ملنے آیا۔ آیا تو آیا پر جانے کا نام نہیں لے رہا تھا بالکل ایسے جیسے وہ جس جگہ پر بیٹھا تھا، گُوند سے چپک گیا تھا۔ وہ شکار کا شوقین تھا جیسے اکثر انگریز ہوتے ہیں۔ پہلے اُس نے اپنے شکار کی طویل داستانیں سنائیں وہ ختم ہوئیں تو اپنی دوسری دلچسپیوں کے قصے شروع ہوئے۔ وہ ختم ہوئے تو اپنی پلٹن کی خبریں شروع ہوگئیں۔ اس کے بعد میری جاسوسی کرنے والی عینک (دوربین) لگا کر وہ ان انگریز عورتوں کو تاکنے لگا جو دریا کے کنارے بنے تالاب میں نہا رہی تھیں۔
’اس کے بعد ہم شہر گھومنے کے لیے نکلے جس طرف جائیں شہر کے کُتے ہمارے پیچھے جیسے ہم دوسرے سیارے سے آئے تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ چھوٹے بچوں کا ایک ٹولہ بھی ہمارے پیچھے۔ ہمیں بازار میں خوبصورت عورتوں کی ایک ٹولی بھی ملی جو شاید کسی اور محلے میں جا رہی تھی، وہ یقیناً خوبصورت تھیں۔ آخرکار شام ہونے کو آئی اور ہم اپنے کیمپ کو لوٹے۔ تب جا کر کمانڈنگ آفیسر سے جان چھوٹی‘۔
برٹن کا کیمپ دریا کے بہاؤ کے مغربی کنارے پر ہے۔ یہ 10 نومبر یا 28 شوال 1260ھ، اتوار کا دن ہے۔ چونکہ آسمان پر چاند کہیں بھی نہیں ہے اس لیے اندھیرا چہار سُو پھیلتا ہے۔ کسی کسی وقت کوئی بادبانوں والی کشتی ٹھٹہ یا کوٹری کی طرف نکل جاتی ہے یا پھر جھرک کے گھاٹ پر آلگتی ہے۔ بہتے دریا پر جاڑوں کے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے لہریں بالکل بھی نہیں ہیں کیونکہ دور شمال مشرق میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر برف پڑنے لگی ہے تو وہاں سے پانی کی آمد کم ہوگئی ہے۔
دریا کا بہاؤ اپنی رمز میں بہہ رہا ہے اور اس کے کنارے لگے برٹن کے کیمپ میں الاؤ جل رہے ہیں۔ شاید رات کے کھانے کی تیاری ہے۔ ایک الاؤ جو ٹینٹ کے جنوب میں قریب ہے اُس پر شاید برٹن کا ڈنر تیار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسرا الاؤ اس سے بھی تھوڑا جنوب میں ہے جہاں سے کچھ لوگوں کی آوازیں اور کبھی کبھار کھانسی کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ اس الاؤ پر قافلے کے دوسرے لوگ اپنا کھانا پکانے میں مشغول ہیں۔ برٹن کے ٹینٹ میں بھی روشنی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آج کے دن کی کار گزاری تحریر کررہا ہے۔
یہ قافلہ شاید کل سویرے یہاں سے اگلی منزل کے لیے شمال کی طرف نکل پڑے۔ اور برٹن صاحب دوسرے سفر میں یہاں جھرک میں نہیں آئیں گے اور جھرک کے ذکر کے سوا ’انڈس فلوٹیلا‘ کا ذکر بالکل نامکمل ہوگا۔ تو ہم جب انڈس فلوٹیلا کا ذکر کریں گے تو ایک بار پھر ہمیں اکیلے یہاں آنا پڑے گا کیونکہ تب برٹن صاحب سندھ ریلوے پر سفر کرتے کراچی پہنچ چکے ہوں گے۔ اور جھرک سے ریلوے لائن مغرب میں تقریباً 35 کلومیٹر دور گزرتی ہے۔
دوسرے دن یہ قافلہ جھرک سے آگے بڑھا۔ برٹن بتاتا ہے کہ ’جھرک کراچی سے 100 میل دُور ہے اور حیدرآباد جانے والے راستے کے مشرق میں ہے۔ ہم اب سندھ کے لاڑ (لوئر سندھ، جنوبی سندھ) والے حصے سے آگے نکل آئے ہیں۔ ہم جس علاقے سے سفر کررہے ہیں اس کو ’وچولو‘ (سینٹر: جنوبی اور شمالی سندھ کے بیچ والا علاقہ) پکارا جاتا ہے۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ہم شمال کی طرف بڑھ رہے ہیں‘۔
اس کے بعد برٹن لوئر سندھ کے ڈیلٹا کے متعلق سائنسی بنیادوں پر بات کرتا ہے، وہ لکھتا ہے کہ ’جنوبی سندھ کا یہ حصہ انتہائی ڈھلانی ہے چونکہ اس زمین کو دریا نے اپنے ساتھ لائی ہوئی زرخیز مٹی سے بنایا ہے اس لیے جہاں سے چاہے دریا اپنی مرضی سے راستہ بناتا سمندر کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہاں اگر دریا کے بہاؤ کے آگے ایک چھوٹا پشتہ بھی بنا دیا جائے تو یہ اپنا راستہ تبدیل کرلے گا۔ اور کچھ برسوں سے وہ جہاں سے بہہ رہا تھا وہ راستہ چھوڑ دے گا اور اس کے کنارے پر چاہے شہر، بستیاں، فصلیں اور باغات آباد ہوں، وہ بیابانوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔
جہاں تک گزرے وقتوں میں دریائے سندھ کے جنوبی حصے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق اتنا لکھا جا چکا ہے کہ بات سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھ گئی ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی زمین کس طرح بنی اس کے متعلق ہم تھوڑا بہت جانتے ہیں۔ دریا سندھ ایک سیکنڈ میں 300 کیوبک فٹ مٹی سمندر میں پھینکتا ہے۔ اسی مٹی کی مقدار سے یہاں 7 ماہ کے مختصر عرصے میں 42 میل لمبا اور 17 میل چوڑا ایک جزیرہ بن سکتا ہے جبکہ کنارے پر سمندر فقط 5 فیدم گہرا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ذہین انسان چاہے تو آرام سے حساب لگا سکتا ہے کہ مٹی کے اتنی مقدار سے انڈس ڈیلٹا کی زمین کتنے عرصے میں بنی ہوگی’۔
جھرک اور کوٹری کے بیچ میں (برٹن چونکہ دریا کا کنارا لےکر گیا تھا تو جھرک اور کوٹری کے بیچ میں اندازاً 50 کلومیٹر کا فاصلہ تو ضرور ہے) جو علاقہ پڑتا ہے، اُس کے لینڈ اسکیپ، لوگوں، فصلوں اور جنگلی حیات کے متعلق انتہائی اہم معلوماتی تجزیہ تحریر کرتے ہوئے برٹن ہمیں بتاتا ہے کہ ’یہاں کی زمین سیدھی ہے البتہ کہیں کہیں پر دریا کے چھوڑے ہوئے ریت کے ٹیلے ہیں۔
یہ علاقہ آپ کو خشک نظر نہیں آئے گا بلکہ بہت ساری جنگلی جھاڑیاں اُگی ہوئی نظر آئیں گی اور فصلیں بھی نظر آئیں گی جن کے لیے پانی دریا کے مرکزی بہاؤ سے نہروں کے ذریعے لایا جاتا ہے۔ یہاں کہیں کہیں پانی کو گہرائی سے اوپر کھینچنے کے لیے رہٹ بھی نظر آئیں گے۔ یہاں گندم، باجرے، جَو، مکئی کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔ یہاں بہت سارے گاؤں ہیں۔ یہاں کے لوگ آپ کو صحت مند اور موٹے دیکھنے کو ملیں گے۔ جبکہ سمندر کنارے رہنے والے لوگ آپ کو کمزور اور دھان پان سے ملیں گے۔ ان کی زبان پر ہمیشہ یہی جملہ ہوتا ہے جو اکثر میں نے سُنا ہے کہ ’آج تو طبیعت ایسی ہے جیسے بخار ہوگیا ہے‘
برٹن نے آبادیوں سے دور کیمپ لگایا ہے۔ جاڑوں کی وجہ سے دریا کا پانی تو اُتر گیا ہے مگر کہیں کہیں اُسے جوہڑوں میں پانی اب بھی نظر آرہا تھا۔ وہ دودھ کی فراوانی کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے یہاں کچھ اور ملے نہ ملے دودھ آپ کو ہر جگہ بے تحاشا مل جائے گا۔
چلیے سورج ڈوبنے کو ہے۔ کیمپ کا ٹینٹ لگ چکا ہے اور قافلے کے لوگ سارا سامان ایک مقررہ ترتیب سے جما چکے ہیں۔ ایک دو لوگ آگ جلانے کی تیاری کررہے ہیں۔ ایک طرف برٹن کا خاص باورچی اس کی خوراک بنانے میں مشغول ہے۔ آج اُن کو راستے میں 7، 8 اچھی مُرغابیاں شکاریوں سے مل گئی تھیں جو انہوں نے خرید لیں۔ آج قافلے کے لوگ بہت خوش ہیں کیونکہ انہیں مرغابیوں کے چاول کھانے کو ملیں گے۔ کچھ لوگ پڑے سامان پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور سُلفی پی رہے ہیں۔
چلیے فی الوقت ہم اس قافلے کے لوگوں کو خوراک پکانے اور کھانے کے لیے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ برٹن صاحب نے کہا ہے کہ آج اس دریائی راستے پر ان کے پڑاؤ کی آخری رات ہے کل تک وہ کوٹری یقیناً پہنچ جائیں گے۔ چلیے ہم بھی جلد لوٹ کر اس قافلے سے آ ملتے ہیں کیونکہ جب تک ہم نہیں پہنچیں گے یہ قافلہ اپنا سفر شروع نہیں کرے گا!
حوالہ جات
Scinde or The Unhappy Valley. Richard F. Burton, Vol: 1. London 1851
بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)