اسلامیہ یونیورسٹی کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی

ویب ڈیسک

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طالبہ صدف (فرضی نام) شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسانی کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد میں ان کی تصویر بھی شامل ہے۔ اگرچہ اس میں ان کا چہرہ واضح نظر نہیں آتا، لیکن اس کے باوجود وہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ انہوں نے فیسبک پر اپنا اکاؤنٹ لاگ آؤٹ کر دیا ہے

نیوز میگزین سجاگ میں رحیم یار خان کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والی صدف کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بی ایس کے آخری سمیسٹر کی طالبہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ان کے ایک پروفیسر نے انہیں کہا کہ وہ انہیں اسائنمنٹ کی تیاری خود کروائیں گے تاکہ وہ اچھے نمبر لے سکیں اور اس کے لیے انہوں نے ابتدا میں ان کی بہتر رہنمائی بھی کی۔ ان کے بقول ”چونکہ پڑھنے اور سمجھنے کے لیے استاد کا کردار بہت اہم تھا اس لیے میں ان کے پاس جاتی رہی، جو اکثر زور دیتے تھے کہ میں ان کے دفتر میں آ کر مضمون کی تیاری کروں“

صدف کے مطابق، کچھ عرصہ کے بعد استاد نے ان کے ساتھ اپنی گھریلو معاملات بھی شیئر کرنا شروع کر دیے۔ اگرچہ وہ ان باتوں میں شریک ہونا نہیں چاہتی تھیں لیکن استاد کے احترام اور پڑھائی کا سوچ کر خاموش رہیں

صدف کے بقول، ایک روز استاد نے انہیں سفوف بھری ایک پڑیا دینے کی کوشش کی اور کہا کہ اسے کھانے سے وہ رات کے وقت بھی چاک و چوبند رہ کر اچھی طرح پڑھائی کر سکیں گی، تاہم صدف نے اسے لینے سے انکار کر دیا

ایک روز پروفیسر نے صدف کو بتایا کہ ان کے ڈپارٹمنٹ کا سالانہ عشائیہ آ رہا ہے، جس میں انہیں لازمی شرکت کرنا ہوگی۔ عشائیے کے روز وہ رات کو خود صدف کے ہوسٹل میں پہنچ گئے اور انہیں باہر بلا کر کہا کہ شٹل سروس چلی گئی ہے اس لیے وہ انہیں لینے کے لیے آئے ہیں۔

صدف نے انہیں انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ جائیں گی لیکن انہوں نے ہوسٹل کے ملازم کی مدد سے انہیں تقریباً زبردستی گاڑی میں بٹھا لیا اور ڈپارٹمنٹ میں جانے کے بجائے یہ کہہ کر گاڑی کا رخ اپنے گھر کی جانب موڑ دیا کہ انہیں کوئی ضروری کام درپیش ہے

صدف کے مطابق ”میں نے گھر کے اندر جانے سے معذوری ظاہر کی تو وہ بولے کہ گھر میں ان کے اہل خانہ موجود ہیں، اس لیے وہ بلا جھجھک اندر آ سکتی ہیں۔ مجبوری اور غصے کی کیفیت میں مَیں ان کے ساتھ گھر میں چلی آئی، جہاں وہ مجھے کمرے میں بٹھا کر ایک بار پھر وہی پڑیا اور سگریٹ لے آئے اور اصرار کرنے لگے کہ میں اسے استعمال کروں۔ یہ پڑیا دراصل نشہ آور چیز تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ میں نشہ نہیں کروں گی اور واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن استاد نے زبردستی سگریٹ کے ذریعے مجھے یہ سفوف سنگھانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے میں بے حال ہو کر نیم بے ہوش سی ہو گئی“

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کچھ دیر کے بعد جب ان کے اوسان بحال ہوئے تو وہ جیسے تیسے وہاں سے نکل آئیں۔ اس واقعے کے بعد وہ کئی دن ذہنی دباؤ میں رہیں اور فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ اس پروفیسر سے فاصلہ رکھیں گی۔ تاہم ایک دن پروفیسر نے صدف کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور انہیں اپنے موبائل فون میں ان کی تصاویر اور وڈیوز دکھائیں جو پروفیسر کے گھر میں اس وقت لی گئی تھیں، جب وہ نشہ آور شے کے زیراثر بے ہوشی کی کیفیت میں تھیں

پروفیسر نے انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے کبھی اس کا حکم نہ مانا تو وہ یہ تصاویر اور وڈیوز دوسروں کو بھیج دے گا۔ اس طرح پروفیسر نے انہیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ صدف نے بارہا اس بارے میں یونیورسٹی کی انتظامیہ کو حقائق سے آگاہ کرنے کا سوچاز لیکن بدنامی اور پڑھائی چھوٹ جانے کے خوف سے ایسا نہ کر پائیں

اس پر مستزاد یہ کہ یونیورسٹی میں شکایت کا کوئی نظام بھی نہیں تھا

صدف یہ سوچ کر خوف زدہ ہیں اگر ان کے گھر والوں کو اس بات کا علم ہو گیا تو کیا ہوگا۔ اگرچہ ان کے والد اور بھائی سوشل میڈیا پر ان کی تصویر وائرل ہونے سے آگاہ نہیں ہیں لیکن یہ اسکینڈل میڈیا پر آنے کے بعد انہوں نے پہلے ہی انہیں یونیورسٹی جانے سے منع کر دیا ہے

رواں سال اسی یونیورسٹی سے ڈگری مکمل کرنے والی طالبہ حمیرا کنول (فرضی نام) بھی اساتذہ کے استحصالی ہتھکنڈوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ”یونیورسٹی میں اساتذہ کا اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبات کا استحصال کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بہت سی طالبات کو بتایا گیا ہے کہ امتحان میں اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے ’آئس‘ کا استعمال ضروری ہے۔ ان میں بعض طالبات کو مختلف ہتھکنڈوں سے نیند پر قابو پانے کے لیے آئس متعارف کرائی گئی۔ یہ نشہ آور چیز ہے جسے یہ طالبات ابتدا میں صرف جاگتے رہنے کے مقصد سے استعمال کرتی ہیں اور بعد میں اس کی عادی ہو جاتی ہیں“

حمیرا کے مطابق ”یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ملازمین کا گروہ آئس کی فروخت کا دھندا کرتا ہے اور منظم طریقے سے طالبات کو اس کا عادی بناتا ہے۔ انتظامیہ نے کئی مرتبہ ہاسٹل سے آئس برآمد بھی کی ہے لیکن اسے یہاں پہنچانے والوں اور اس معاملے میں سہولت کاروں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی“

حمیرا کے بقول ”طالبات کے تعلیمی مستقبل کا دارومدار ان کے اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لیے کئی پروفیسر اپنی پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبات سے ناصرف ناجائز مطالبات کرتے ہیں بلکہ بات نہ ماننے پر انہیں تعلیمی نقصان کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں“

ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں ہراسانی کی شکایت کرنا اور کسی زیادتی پر انصاف کا حصول مشکل کام ہے ”ایک جانب تو طالبات کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ استاد ان کے تعلیمی نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے، دوسری جانب انہیں اپنی اور اپنے خاندان کی عزت بھی رکھنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کی جانب سے دست درازی کی کوششوں کے جواب میں بہت سی طالبات کے پاس اپنی اور اپنے مستقبل کی حفاظت کرنا آسان نہیں ہوتا“

حمیرا کے بقول ”پروفیسر حضرات اچھے نمبروں کا لالچ اور حکم عدولی پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر بہت سی طالبات کا استحصال کرتے ہیں۔ جو طالبات ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں، انہیں پارٹیوں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں انہیں نشہ اور جسمانی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ان طالبات کی وڈیوز اور تصاویر بنا لی جاتی ہیں، جن کی بنیاد پر انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان لڑکیوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ مزید طالبات کو بھی ’گھیر‘ کر لائیں“

واضح رہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مبینہ طور پر طالبات کے ساتھ پیش آنے والے ایسے بہت سے واقعات کی اطلاعات یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر اعجاز حسین کی گرفتاری کے بعد میڈیا پر آئی تھیں

پولیس نے ان کے قبضے سے کرسٹل آئس نامی نشہ آور مواد اور خواتین کی غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ پولیس حراست میں اعجاز حسین کا اعترافی بیان بھی جاری ہو چکا ہے، جس میں پانچ پروفیسروں کے نام بھی آئے ہیں

اسی طرح کا مقدمہ کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹی کے خزانچی ڈاکٹر ابوبکر کے خلاف بھی درج ہو چکا ہے جس پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی طلب کیا تھا۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس معاملے میں مزید کوئی کارروائی نہ ہوئی

یہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد عہدہ چھوڑنے والے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے ان تمام الزامات کو رد کیا اور پریس کانفرنس میں یونیورسٹی انتظامیہ خصوصاً چیف سکیورٹی آفیسر کا دفاع کرتے رہے

اس مقدمے میں کوئی مدعی نہ ہونے کی وجہ سے چیف سکیورٹی آفیسر کا موبائل فون پنجاب فرانزک ایجنسی کو بھجوایا جا چکا ہے اور اس معاملے کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا ہے

سائبر جرائم سے متعلقہ معاملات پر مہارت رکھنے والے ہادی چٹھہ ایڈووکیٹ کے مطابق یہ معاملہ ایسا ہے، جس میں سماجی خوف کے باعث کسی مدعی کے سامنے آنے کا امکان بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں ”پولیس کو موبائل فون سے مواد ملتے ہی یہ معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کرنا چاہیے تھا۔ اگر فرانزک ٹیسٹ میں موبائل فون کا ڈیٹا حقیقی ثابت ہو جائے تو تب بھی ملزموں کو سزا ملنے کا امکان نہیں کیونکہ متاثرین بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آئیں گے“

ملتان کی بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز بلند کرنے والی اسسٹنٹ پروفیسر رفیدہ نواز کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں میں ایسے واقعات عام ہونے کی ایک بڑی وجہ سمیسٹر سسٹم ہے، جس میں طلبہ کا مستقبل اساتذہ کے رحم وکرم پر ہوتا ہے

اس نظام میں سیکشنل نمبر دینا متعلقہ استاد کی صوابدید ہے اور ہر شعبے نے عام طور پر اپنے الگ ضابطے بنا رکھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کئی اساتذہ اپنے صوابدیدی اختیارات اور خود ساختہ ضوابط کو (ناجائز طریقے سے) استعمال کر کے طلبہ کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سمیت ایسے بیشتر اداروں میں سمیسٹر سسٹم کی نگرانی اور ریگولر اساتذہ کی کارکردگی جانچنے کا عمل کاغذی کارروائی تک محدود ہے، جبکہ وزیٹنگ اساتذہ کی سرے سے کوئی نگرانی ہی نہیں ہوتی

اسلامیہ یونیورسٹی میں تدریسی معیار میں اضافے سے متعلق شعبہ بھی قائم ہے اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تام شعبہ جات اساتذہ کی کارکردگی جانچنے کے لیے ہر سمیسٹر کے اختتام پر طلبہ کو اس کا لنک دینے کے پابند ہیں تاکہ طالب علم اپنی رائے دے سکیں

تاہم طلبہ کو یہ لنک مہیا نہیں کیا جاتا۔ یوں اس نظام میں پروفیسر کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں، جنہیں بہت سے واقعات میں خاص طور پر طالبات پر دباؤ ڈالنے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے

اسلامیہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ ظل ہما (فرضی نام) کی باتوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ بی ایس کے چھٹے سمیسٹر میں زیرِ تعلیم تھیں تو ان کے ایک پروفیسر نے انہیں اپنی گاڑی پر پک اینڈ ڈراپ دینے کی پیشکش کی

ظل ہما بتاتی ہیں ”میرا گھر یونیورسٹی سے دور ہے اور پروفیسر یہ بات جانتے تھے۔ تاہم میں نے پروفیسر کو انکار کر دیا اور کہا کہ میں خود یونیورسٹی آ جا سکتی ہوں۔ تاہم ایک روز صبح سویرے پروفیسر کسی طرح میرے گھر پہنچ گئے اور مجھے مجبور کیا، جس کی وجہ سے میں ایک مرتبہ ان کے ساتھ یونیورسٹی چلی گئی تاہم بعد میں پروفیسر نے اسے معمول بنا لیا۔“

حمیرا کے بقول، جب انہوں نے پروفیسر سے کہا کہ وہ آئندہ ان کی یہ پیشکش قبول نہیں کریں گی تو اس کا کہنا تھا کہ اگر اس نے ان کی بات نہ مانی تو وہ انہیں سمیسٹر میں اچھے نمبر لینے نہیں دیں گے۔ اس کے بعد پروفیسر کبھی انہیں زبردستی اپنے ساتھ کیفے میں لے جاتے اور کبھی پارٹیوں میں ساتھ جانے کے لیے دباؤ ڈالتے تھے

ظل ہما کے بقول یونیورسٹی کے سمیسٹر سسٹم میں طلبہ کا تعلیمی کریئر ان کے بعض اساتذہ کے ’رحم و کرم‘ پر ہوتا ہے اور یہی وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے، جو خاص طور پر طالبات کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے

وہ اعتراف کرتی ہیں کہ تعلیمی کریئر کو بچانے کی خاطر وہ مذکورہ پروفیسر کے دباؤ اور پھر بلیک میلنگ کا شکار ہوئیں

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی بہت سی طالبات کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں وہ خود کو پروفیسرز کے بااختیار کردار کے سامنے بے بس پاتی ہیں

واضح رہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ہر طرح کی ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے 2020ء میں بنائی گئی پالیسی کے تحت تمام سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں انسداد ہراسانی کمیٹیوں کا قیام لازمی قرار دے رکھا ہے۔ اگر کسی یونیورسٹی میں ایسی کمیٹی موجود نہ ہو تو اس کے خلاف کڑی انضباطی کارروائی کی جا سکتی ہے

اس پالیسی کے مطابق طلبہ کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شکایات سننے اور ان پر کارروائی کرنے کے لیے ایک خاتون سمیت تین ارکان پر مشتمل کمیٹی ہونا ضروری ہے۔ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ ایسی کوئی شکایت موصول ہونے کے بعد اسے چوبیس گھنٹے کے اندر کمیٹی کو بھیجے گی، جس پر تین روز کے اندر تحقیقات شروع کرانا لازمی ہے

لیکن اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں اس پالیسی پر عمل درآمد کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کبھی اس یونیورسٹی کو کسی معاملے پر کوئی وارننگ جاری کی۔ اس یونیورسٹی میں اب تک نہ تو انسدادِ ہراسانی کمیٹی کا وجود تھا اور نہ ہی ضوابط کے مطابق طلبہ کو عملی طور پر انسدادِ ہراسانی سے متعلق قوانین سے آگاہ کیا گیا

سماجی کارکن اطہر جہانیاں کہتے ہیں ”انسدادِ ہراسانی کمیٹیوں کی غیرموجودگی میں جب تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات پیش آئیں تو عام طور داخلی انکوائری کے نام پر انہیں دبا دیا جاتا ہے اور بہت سی یونیورسٹیوں میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ وہ تجویز دیتے ہیں کہ ایسی کمیٹیوں میں ضلعی انتظامیہ کے ارکان، خواتین وکلا اور سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ایسے واقعات کا موثر طور سے توڑ کیا جا سکے۔“

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں لوک سجاگ میں شائع تحقیقاتی صحافی انیلہ اشرف کی رپورٹ سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close