ہندوستان میں کمپنی کی حکومت جب مستحکم ہو گئی تو روس کے وسطی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خطرہ بھی پیدا ہونے لگا۔ کمپنی کے حلقوں میں یہ تصور عام تھا کہ روس وسطی ایشیا پر قبضہ کرتے ہوئے ایران کی مدد سے افغانستان آئے گا اور یہاں سے ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ لہٰذا کمپنی کی حکومت نے بخارا، خیوائی، یارکند، ہنزہ، ایران اور افغانستان میں مخبروں اور سفارت کاروں کے ذریعے ان علاقوں کے سیاسی حالات، جغرافیائی حدود اور راستوں کی تحقیقات کے لیے معلومات اکھٹی کرنا شروع کر دیں۔
یہ مخبر سیاحوں اور تاجروں کا بھیس بدل کر ان علاقوں میں گئے۔ ان میں سے کچھ کامیاب ہو کر لوٹے مگر کچھ کو جاسوس ہونے کے جرم میں بخارا، خیوا اور ہنزہ کی حکومتوں نے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ کمپنی کی حکومت اس پر خاموش رہی کیونکہ وہ اس قابل نہیں تھی کہ فوجی حملے کر کے انتقام لے سکے۔ کمپنی کی حکومت نے خاص طور سے ایران اور افغانستان میں سفارت کاروں کے مشن بھیجے، تاکہ ان ملکوں کی حکومتوں سے دوستانہ روابط قائم کر کے روس کے سیاسی عزائم کو روک سکیں۔
اسی دوران کمپنی کی حکومت نے سندھ میں بھی سفارتی مشن بھیجے تاکہ انہیں سندھ سے واقفیت ہو سکے۔ اسی بنیاد پر کمپنی کی حکومت نے 1843ء میں سندھ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔
ان جاسوسوں میں سے ایک رچرڈ برٹن تھے، جنہیں عربی اور فارسی کے علاوہ کئی اور دوسری زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ بعد میں ان کی شہرت بطور مترجم، مشرقی علوم کا ماہر اور جاسوس کی وجہ سے ہو گئی۔ ان کے کیریئر کا آغاز کمپنی کی فوج میں (جس کا کمانڈر چارلس نیپیر تھا) شروع ہوا اور جب چارلس نیپیر نے سندھ پر حملہ کیا تو وہ ان کے ہمراہ تھے۔ سندھ کے بارے میں اپنے مشاہدات کو انہوں نے Unhappy Valley of Sindh میں ٹھٹہ کے قریب واقع شہر جھرک کا ذکر کیا ہے، جہاں اسماعیلوں کے امام ایران سے ہجرت کر کے رہائش پذیر تھے۔ یہ یورپیوں کی بڑی خاطر مدارات کرتے تھے۔ رچرڈ برٹن نے بھی ان کی مہمان نوازی سے لطف اُٹھایا تھا۔ انہوں نے کراچی کا بھی ذکر کیا ہے، جو اس وقت ماہی گیروں کی ایک بستی تھی اور یہاں ہندوؤں کا تاجر طبقہ بہت بااثر تھا۔
رچڑڈ برٹن کے کیریئر کا ایک اہم حصہ 1853ء میں حج کا سفر تھا، چونکہ مکہ مدینہ میں غیر مسلمانوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کا بھیس بدل کر پہلے خود کو ایرانی اور بعد میں افغان باشندہ کہا۔ چونکہ انہیں فارسی زبان پر مہارت تھی، اس لیے کسی کو ان کے یورپی ہونے کا شک نہیں گزرا۔ اپنے حج کے سفر کی معلومات کو انہوں نے نوٹس کے ذریعے محفوظ کر لیا تھا۔ حج کے بارے میں اہلِ یورپ کو یہ تجسس تھا کہ وہاں کیا رسومات ہوتی ہیں اور کیسے حج کیا جاتا ہے۔ رچرڈ برٹن سے پہلے بھی کچھ سیاح بھیس بدل کر حج کا سفر کر چکے تھے اور انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شائع بھی کرایا تھا۔ انہی میں سے ایک John Burk Hardt (d.1817) تھا، جس نے ابراہیم کے نام سے مکہ مدینے کا سفر 1814ء میں کیا۔
رچرڈ برٹن نے ان یورپی سیاحوں کے سفرناموں کا مطالعہ کیا تھا، تاکہ وہ خود کو مسلمان ثابت کر کے حج کی مذہبی رسومات کو بھی ادا کر سکے۔ اس وقت حجاز اور نجد کے علاقے ترکوں کے زیر حکومت تھے اور مکہ مدینہ جانے والے راستے حاجیوں کے لیے غیر محفوظ تھے۔ راستے میں عرب بدو قبائل حاجیوں کے قافلوں کو لوٹتے تھے۔ رچرڈ برٹن سفر کی تمام معلومات کو اکٹھا کر کے قاہرہ سے بحری جہاز کے ذریعے جدہ روانہ ہوئے۔ انہوں نے جہاز میں جانے والے مسافروں کا حال بھی لکھا ہے کہ وہ کس طرح تکالیف اُٹھا کر جدہ پہنچتے تھے۔
جدہ سے مدینے تک کا سفر اُونٹ کے ذریعے کیا۔ اس سفر میں ان کا ایک ہندوستانی نوکر بھی اس کے ساتھ تھا۔ برٹن نے بہت جلد عربوں سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے اور ان کی عادات اور رسم و رواج کو اختیار کر لیا۔ خاص طور سے وہ بار بار لکھتے ہیں کہ عربوں میں کافی پینے اور تمباکو استعمال کرنے کا بہت رواج ہو گیا تھا اور وہ خود بھی ان کے ساتھ اس میں برابر کے شریک تھے۔ برٹن نے پہلے مدینے کا رُخ کیا اور قیام کر کے رسولﷺ کے روضے کی زیارت کی اور پھر حضرت حمزہ رضہ کے مزار پر بھی گئے۔ اس دوران وہ پابندی سے نماز پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے طور طریقے پر عمل کرتے تھے۔ مدینے کے قیام کے بعد وہ حج کے موقع پر مکہ گئے اور وہاں حج کی تمام رسومات ادا کیں اور کسی کو یہ شک نہیں ہونے دیا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔
حج سے واپسی کے دوران انہوں نے دو جلدوں میں اپنے سفر کے حالات لکھے ہیں، خاص طور سے انہوں نے تفصیل کے ساتھ ان مناسک کا ذکر کیا ہے، جو حج کے موقع پر ادا کیے جاتے ہیں، اسی سفرنامے کے ذریعے اہلِ یورپ کو مسلمانوں کے حج کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوئیں۔
رچرڈ برٹن کی دوسری اہم تصانیف میں مشہور عربی داستان الف لیلہ کا عربی ترجمہ One Thousand and One Night ہے۔ انہوں نے ہندوستانی جنسیات پر لکھی جانے والی کتاب کاماسوتر اور عربی لکھی جانے والی کا Perfumed Garden کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ ان کی خدمات کے عوض رائل سوسائٹی آف جیوگرافی نے انہیں اپنا ممبر بنایا اور برطانوی حکومت نے انہیں Knighthood یا سر کا خطاب دیا۔ ان تصانیف کے علاوہ انہوں نے اور بھی کئی موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک تلوار کی تاریخ ہے۔ اس کے علاوہ برٹن نے کافی مواد جمع کیا تھا، جو دستاویزات کی شکل میں ان کے خاندان کے پاس رہا۔ 1890ء میں ان کی وفات ہوئی اور ان کے مقبرے کو خیمے کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔
برٹن کی شخصیت اس لیے اہم ہے کہ انہوں نے بیک وقت ملکوں کی سیاحت بھی کی، جاسوسی بھی کی۔ غیر ملکی زبانوں پر عبور حاصل کیا اور اپنے تجربات اور علم کو تصنیف و تالیف کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ اس سے ان کی ذہانت اور توانائی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ کہ ایک فرد اپنی مختصر زندگی میں بیک وقت کئی منصوبوں کو پورا کر سکتا ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)