’بحرِ بلوچ‘ ماہی گیروں کو مچھلی دان کرنے کی فیاضی کیوں فراموش کر بیٹھا۔۔۔؟

ویب ڈیسک

بلوچستان کا 780 کلومیٹر طویل ساحل جیوانی سے لے کر گڈانی تک پھیلا ہوا ہے۔ بلوچستان کا ساحل نہ صرف معاشی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ عسکری اور جغرافیائی حوالے سے ساحل مکران کو سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ مکران کا ساحل ایک تجارتی گیٹ وے ہے جو کہ دنیا کے بعض ممالک کے لئے ایک اہم آبی گزرگاہ ہے۔ ایک طرف اس اہم ساحل پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں تو دوسری طرف ساحل کے اصل باسی ماہی گیر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں

اس ساحل سے ملحقہ سمندر کو پہلے ’بحرِ عرب‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا، مگر بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بلوچستان اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کر کے اس سمندر کو ’بحرِ بلوچ‘ کے نام سے منسوب کر دیا۔ نام تو بدل گیا مگر ماہی گیروں کے حالات نہیں بدلے، اگر بدلے بھی ہیں تو یوں کہ پہلے شکار کے لیے وافر تعداد میں مچھلیاں مل جاتی تھیں لیکن اب ماہی گیر اپنے خالی جال کے ساتھ ساحل کو لوٹ آتے ہیں

انہی ماہی گیروں میں سے ناخدا معیار بھی ایک ہیں۔ ناخدا معیار کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی سے ہے۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ مچھلی کے شکار کے لیے سمندر میں جانا شروع کیا تھا۔ وہ تقریباً پینتالیس سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ سمندر کے مختلف حالات کے عینی گواہ بھی ہیں اور بدلتے حالات کے متاثر بھی

ناخدا معیار کہتے ہیں ”ہمارے ہم کاروں کی لاشیں اس سمندر کی مست موجوں کی امانت ہوئی ہیں۔ کئی دوست ہم سے بچھڑ گئے۔ اب ہماری زندگی اور موت اسی سے منسلک ہے۔ اگر ایک دن بھی سمندر نہ جائیں تو بھوک آواز دینے لگتی ہے۔“

اپنے مقابلے میں آنے والوں کی زندگی کو خطرات سے دوچار کرنا تو ازل سے سمندر کی بپھری موجوں کی فطرت میں شامل رہا ہے، لیکن یہ سمندر ماہی گیروں کو مچھلیاں دان کرنے کی فیاضی کی خصلت بھی جیسے فراموش کر چکا ہے

گئے دنوں کی بات ہے کہ ناخدا معیار فجر سے پہلے اٹھ کر ساحل پر لنگر انداز اپنی چھوٹی کشتیوں کی جانب روانہ ہو جاتے تھے۔ وہ انہیں اس امید کے ساتھ سمندر میں اتارتے کہ جلد شکار کر کے دوپہر کے کھانے کے لیے اپنے گھر لوٹ آئیں گے۔ اس دوران وہ پاپلیٹ، سورو، گرانز اور دیگر اقسام کی مچھلیاں پکڑ کر لایا کرتے تھے، لیکن اب سمندر میں ان مچھلیوں کا نام و نشان نہیں ملتا

معیار بتاتے ہیں کہ سمندر کے اندر کئی دن گزارنے کے باوجود وہ بہت کم مقدار میں مچھلی پکڑ پاتے ہیں اور اسے بیچ کر بس اتنے ہی پیسے ملتے ہیں کہ راشن والے کا ادھار چکانےکے بعد کچھ نہیں بچتا

اگر بلوچستان کی ساحلی پٹی کے اس اہم شہر پسنی کی بات کی جائے تو معروف مصنف ملک جان کے ڈی کے مطابق یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ 1931ء میں خان آف قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان نے بیرون ملک تجارتی تعلقات کا آغاز کیا تو اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں نے، جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمد و برآمد کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی ایشیا بھر میں شہرت پا گئی۔ جاپان سے ریشمی، سوتی اور اونی کپڑا اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی۔ یہاں سے خشک مچھلی اور مقامی طور پر تیار کی گئی ’پِیش‘ کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگیں۔ تاہم مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہی رہا

ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ پانچ سے چھ لاکھ لوگوں کا معاش براہِ راست بلوچستان کے سمندر سے وابستہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمندر میں شکار کرکے اپنی روزی، روٹی کماتے ہیں۔ ان کے علاوہ ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ دوسرے لوگوں کو بھی گنا جائے تو ان کی تعداد دس لاکھ تک جا پہنچتی ہے

یہ ضلع گوادر کی تحصیل اور مقامی ماہی گیروں کی قدیم بستی ہے اور اس کا ساحل بہت طویل ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پسنی شہر کی کل آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ اس آبادی کے 80 فیصد خاندان ماہی گیری سے وابستہ ہیں، لیکن یہ پیشہ اب انہیں اچھی زندگی تو کجا، نانِ شبینہ فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے

لیکن کیا کیجیے کہ ماہی گیری ان لوگوں کے لیے صرف ایک پیشہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کے سمندر کے ساتھ صدیوں سے قائم رشتے کی علامت بن چکا ہے، اور یہ رشتہ اب محبت سے بھی بڑھ کر عشق بن چکا ہے

بقول جون ایلیا:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام،
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔۔

یہی وہ عوامل ہیں جو سمندر کنارے بسے اس شہر کے لوگوں کی بڑی اکثریت کو سمندر سے جوڑے ہوئے ہیں۔ پسنی کے ساٹھ سالہ ناخدا پَشو نے بھی مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود سمندر سے اپنا تعلق ٹوٹنے نہیں دیا

وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”کبھی ہمیں مچھلیاں پکڑ کر بہت اچھی آمدنی ہو جاتی تھی لیکن اب یہاں ماہی گیری کا سنہری دور ختم ہو چکا ہے۔۔ ہم سمندر سے حاصل ہونے والے رزق کے بل بوتے پر اپنے بچوں کو کراچی جیسے شہروں میں تعلیم کے لیے بھیجتے تھے۔ اب ماہی گیروں کے بچے فون کرتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں کچھ بھیج دیجیے تو بے بسی کے بوجھ سے ہمارا سر جھک جاتا ہے کہ پیسے کہاں سے لائیں۔۔“

ناخدا پشو بتاتے ہیں ”پہلے میری دو کشتیاں تھیں اور حالات اچھے تھے لیکن اب سمندر سے اچھی آمدن نہیں ہوتی۔ جال پھٹ جائے تو نئے جال کی قیمت دو لاکھ سے زیادہ ہے، غریب یہ جال کیسے خریدے۔ ایک جال چھ مہینے سے زیادہ چل نہیں سکتا اور ہر چھ ماہ بعد جال تبدیل کرنا ہماری استطاعت سے باہر ہے۔ اسی لیے میں نے اپنی ایک کشتی بیچ دی ہے تاکہ دوسری کشتی کے لیے جال خرید سکوں اور بچے کی یونیورسٹی کی فیس ادا ہو سکے۔“

ماہی گیر پشو کہتے ہیں ”ہم مچھیرے دن رات محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ مچھیروں کے لیےحکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں۔ ہم جو بھی کر رہے ہیں، اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے پسنی کے ساحل پر توجہ نہ دینے سے یہاں کے باسیوں کا کاروبار روز بروز پستی کی جانب گامزن ہے“

بدلتے اور بدتر ہوتے حالات، کم آمدنی اور دیگر عوامل نے ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ افراد کو اب بڑی حد تک اس پیشے سے بددل کر دیا ہے، کیونکہ ہر کوئی معیار یا پَشو نہیں ہوتا۔ اب ماہی گیر اپنے روایتی خاندانی پیشے سے دست بردار ہو رہے ہیں اور دوسرے شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں

ماہی گیروں کے مقامی رہنما ناخدا عمر اپنی روزی روٹی پر لگی قدغن کا زمہ دار سیاسی لوگوں کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پسنی کے مچھیروں کے لیے ایک فش ہاربر جیٹی بنائی گئی تھی لیکن جیٹی مٹی سے بھر چکی ہے، وہاں کشتی کی جگہ اب جانور بندھے ہوتے ہیں۔ایک بڑی عمارت جس میں مچھلیوں کی خرید و فروخت ہونا تھی، وہ بھی ویران پڑی ہے

ناخدا عمر بتاتے ہیں ”ہم کشتیوں میں پٹرول ڈلوا کر اور برف لاد کر شکار کے لیے نکلتے ہیں مگر کبھی پٹرول اور برف کے پیسے بھی پورے نہیں ہوتے۔ سمندر کو ٹرالنگ والوں نے مچھلیوں سے خالی کر دیا ہے۔ ان ٹرالنگ والوں کی پشت پناہی حکومتی لوگ کر رہے ہیں۔“

ماہر سمندری حیات ظریف نوشیروانی کا کہنا ہے کہ اوور فشنگ یعنی مچھلیوں کے حد سے زیادہ شکار سے کئی اقسام کی آبی حیات معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ افزائش نسل کے وقت شکار سے بھی مچھلیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ آبی آلودگی کے باعث کئی اقسام کی سمندری مخلوق معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اسی طرح پلاسٹک کے ممنوعہ جالوں کا استعمال بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ پلاسٹک چار سے ساڑھے چار سو برس تک قدرتی نظام کا حصہ نہیں بن سکتا اور سمندر میں رہ کر آلودگی پھیلاتا رہتا ہے

بلوچستان ویسے ہی روزگار کے مواقع کے حوالے سے ایک محروم خطہ ہے۔ اس کےساحلی علاقوں میں روزگار کا واحد ذریعہ ماہی گیری ہے، جو اب زوال کی جانب گامزن ہے

یہاں روزگار کے دیگر مواقعوں کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر افراد حصولِ روزگار کے لئے ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ موروثی ماہی گیر ہونے کے ناتے یہ لوگ اپنے بچوں کو بھی اسی پیشے سے منسلک کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے بچے اور نوجوان کم عمری میں ہی اس پیشے سے وابستہ ہو گئے، اور مناسب تعلیم حاصل نہیں کر پائے۔ دیہی ساحلی علاقوں میں بارہ سے پندرہ سال کے بچے سمندر میں شکار کرنے جاتے ہیں جبکہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے ہزاروں نوجوانوں کا پیشہ بھی یہی ہے۔ بیشتر ساحلی علاقوں میں شرحِ خواندگی کم ہونے کی وجہ بھی یہ بتائی جاتی ہے کہ ساحلی بستیوں کے نوجوان نوعمری میں مائیگیری کے پیشے کو اپناتے ہیں۔ لیکن شہری علاقوں میں ماہی گیروں کے بچے اب تعلیم کی طرف زیادہ راغب ہیں۔

ظریف بلوچ کا کہنا ہے کہ تعلیم کی کمی کا ایک نقصان ماہی گیروں کو یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ ڈھال سکے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ بحرِ بلوچ میں مچھلیوں اور جھینگوں کی اعلیٰ اور کچھ نایاب نسلیں پائی جاتی ہیں جو اگرچہ عالمی منڈی میں مہنگے داموں بکتی ہے مگر مقامی ماہی گیروں سے سستے داموں خرید لی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مقامی ماہی گیر جدید سہولیات سے محروم کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ملکی معیشت کو سالانہ ان ماہی گیروں کی بدولت کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے مگر ماہی گیروں کی حالت عرصہ دراز سے جوں کی توں ہے۔

سمندر میں شکار کے دوران سہولیات کم ہونے کی وجہ سے ہر سال بہت سے ماہی گیر سمندر کی بے رحم موجوں کا شکار ہو کر زندگی ہار جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کے لواحقین کے لئے کسی قسم کی مدد نہ ہونا ان کو مزید مسائل سے دوچار کر دیتا ہے

ظریف بلوچ کہتے ہیں کہ ماہی گیری ایک ایسا پیشہ ہے، جو ہزاروں سال سے چلتا آ رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں اور جدت آتی رہی ہے۔ بلوچستان میں لاکھوں لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں، اس کے باوجود حکومت اس صنعت کے فروغ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ اس سلسلے میں ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ حاصل نہیں۔ حکومتِ بلوچستان کی طرف سے انہیں لیبر قرار نہ دئے جانے کی وجہ سے بھی ماہی گیر بہت سے سہولیات سے محروم ہیں

اس لئے ماہی گیروں کا حکومتِ بلوچستان سے مطالبہ ہے کہ وہ انہیں لیبر کا درجہ دے تاکہ ماہی گیری کی صنعت میں جدت آسکے اور اسے فروغ مل سکے۔ اس کے علاوہ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے بچوں کو روزگار مہیا کیا جائے اور ساحلی بلوچستان کی لمبی پٹی پر چھوٹے چھوٹے بندرگاہ قائم کئے جائیں تاکہ طوفان کی صورت میں ماہی گیر تیزی سے محفوظ مقام پر پہنچ سکیں

دنیا کے دوسرے ممالک ماہی گیری کے صنعت سے سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ اگر حکومتِ بلوچستان اس صنعت پر توجہ دے تو یہ صنعت صوبے، ملک اور عام عوام کے لئے انتہائی نفع بخش ہو سکتی ہے

بعض ماہرین کے مطابق بلوچستان کے ساحل میں مچھلیوں کی شکار میں اضافے سے مچھلیوں کے کئی نسلیں ناپید ہو رہی ہیں، جبکہ غیر قانونی فشنگ بھی ایک المیہ ہے کیونکہ وائر نیٹ اور گجھہ کے استعمال سے ماہی گیری کی صنعت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جبکہ موسم گرما میں مچھلیوں کے انڈہ دینے کا وقت ہوتا لیکن فشنگ ٹرالر مافیا اس دوران بھی یہاں شکار سے باز نہیں آتا، حالانکہ ہمسایہ ملک ایران میں جون اور جولائی کے ماہ میں مچھلیوں کی شکار سمیت خرید و فروخت بھی نہیں ہوتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close