پبلک دانشور جدید دور کی پیداوار ہے۔ یہ وہ ماحول تھا کہ جب پرنٹنگ پریس نے کتابیں چھاپنا شروع کر دی تھیں۔ پبلشنگ ادارے قائم ہو رہے تھے۔ اخباروں اور رسالوں کی اشاعت نے علمی اور ادبی ذوق کو پھیلا دیا تھا۔ دانشوروں کی مجلسیں ہونے لگی تھیں، جہاں بحث و مباحثے، نئے نئے موضوعات پر نئے نئے خیالات فراہم کرتے تھے۔ پبلک کتب خانوں سے پڑھنے کے لیے کتابیں میسر آنے لگی تھیں۔ کتابوں کی دکانیں کھلنے کی وجہ سے تعلیم یافتہ طبقے میں پڑھنے کا شوق بڑھ گیا تھا۔
پبلک دانشور کی پہچان یہ ہے کہ ایک جانب وہ ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے۔ اس وجہ سے ریاست اور معاشرے کی اکثریت اس کے خلاف ہوتی ہے اور انکار اور نظریات کو دبا کر انہیں پھیلنے سے روکتی ہے۔ کبھی ریاست کی سختیوں کی وجہ سے پبلک دانشور معاشرے میں تنہا رہ جاتا ہے اور کبھی آنے والے ماحول میں اس کو پذیرائی ملتی ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب دانشور دربار اور امراء کی سرپرستی میں رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔ اس لیے ان کی تخلیقات کا تعلق اشرافیہ کے طبقے سے ہوتا تھا۔ لیکن جب برصغیر ہندوستان میں مغل خاندان کا زوال ہوا تو اس کے ساتھ ہی درباری کلچر کی سرپرستی نہ رہی کیونکہ دربار کے پاس اب اتنے مالی وسائل نہیں تھے کہ وہ شاعروں، مورخوں، مصوروں، داستان گو اور موسیقاروں کی سرپرستی کر سکے۔ اس لیے یہ لوگ بکھر کر قصبوں میں چلے گئے۔ جہاں ان کی موجودگی سے قصباتی کلچر پیدا ہوا۔ اب ان میں متوسط طبقہ شامل ہونے لگا۔ جن میں اساتذہ، حکما اور مختلف آزاد اور پیشہ ور ماہرین تھے۔ مثلاً اس دور میں مورخوں نے تاریخ پر جوکتابیں لکھی ہیں۔ ان میں بادشاہوں اور امراء پر طنز بھی ہے اور تنقید بھی۔
شاعروں نے طنزیہ اشعار کے ذریعے بادشاہوں اور امراء کا مذاق اُڑایا ہے۔ مثلاً دستور یہ تھا کہ جب نیا بادشاہ تخت نشین ہوتا تھا تو وہ سال جلوس پر چاندی اور سونے کے سکے جاری کرتا تھا۔ فرخ سیر (Furrukhsiyar) بادشاہ ہوا تو جعفر زٹلی نے یہ شعر کہا کہ تم اپنا سکہ سونے اور چاندی کے بجائے مونگ اور مٹر کے دانوں پر ضرب کراؤ۔ اس پر فرخ سیر کو غصہ آیا اور اس نے جعفر زٹلی کو قتل کرا دیا۔ ایک عوامی دانشور کو دی جانے والی یہ سزا اس کی آزادی اور بے خوفی کا مظہر ہے۔
اسی عہد کے ایک اور دانشور نظیر اکبر آبادی، جن کی پوری شاعری کاتعلق عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی سے ہے۔ اپنے شہر آشوب میں انہوں نے آگرہ کے شہر میں مزدوروں۔ دستکاروں، کاریگروں کی بیروزگاری اور غربت کا نقشہ کھینچا ہے۔ وہ نہ تو کبھی دربار کی سرپرستی میں رہے اور نہ امراء کی خوشامد میں۔ وہ شہر کے بچوں کو پڑھاتے تھے اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔
یورپ میں پبلک دانشور روشن خیالی کے عہد میں سامنے آیا۔ مثلاً والٹیئر جب جلاوطنی کے دوران اپنی جاگیر پر رہتا تھا۔ اسے اطلاع ملی کہ فرانس کے ایک پروٹسٹنٹ خاندان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کی خودکشی کو چھپایا۔ جب کہ کیتھولک چرچ نے کہا کہ درحقیقت اس نے اپنے بیٹے کو اس لیے قتل کر دیا کیونکہ وہ کیتھولک مذہب اختیار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اصل میں اس کے باپ نے بیٹے کی خود کشی کو اس لیے ظاہر نہیں ہونے دیا کیونکہ دستور یہ تھا کہ خود کشی کرنے والے کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا تھا۔ اس الزام پر اس کے باپ کو اذیت دی گئی کہ وہ اس اذیت کو برداشت نہ کر سکا اور مر گیا۔ اس کی جائیداد کو بھی ضبط کر لیا گیا۔ اس ناانصافی پر والٹیئر نے آواز اُٹھائی اور پورے یورپ میں اس کی تشہیر کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوبارہ سے تفتیش شروع ہوئی، جس میں مقتول کو بے گناہ ثابت کیا گیا اور اس کی جائیداد بھی خاندان کو واپس دے دی گئی۔
اس کی دوسری مثال تھومس پین (Thomas Paine) کی ہے، جس نے امریکہ کی جنگ آزادی میں حصہ لیتے ہوئے کومن سینس کے نام سے ایک کتابچہ لکھا۔ یہ ان کے لیے تھا جو انگلستان کی بادشاہت کے حامی تھے اور جنگ آزادی میں حصہ لیتے ہوئے جھجکتے تھے۔
کومن سینس میں تھومس پین نے لکھا 1066ء میں فرانس کے ا یک نوجوان Willium نے اپنے 8000 ہزار غنڈوں کے ساتھ انگلستان پر قبضہ کر کے وہاں اپنی بادشاہت قائم کی۔ اس کا یہ کتابچہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا۔ جس کی وجہ سے شاہ پسند لوگ جنگ آزادی میں شریک ہو گئے۔ امریکہ کی آزادی کے بعد تھومس پین انگلستان واپس آیا اور یہاں اس نے "Rights of Man” کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں عوام کے حقوق کی بات کی گئی تھی۔
کتاب کی قیمت ایک ’پینی‘ تھی اور یہ ہر مزدور کے گھر میں تھی۔ جو یا تو خود پڑھتا تھا یا کسی سے پڑھوا کر سنتا تھا۔ انگلستان کی حکومت نے اس پر غداری کا مقدمہ چلایا۔ اس پر یہ فرار ہو کر فرانس چلا گیا۔ جہاں انقلاب آچکا تھا اور وہاں جیکوبن پارٹی کی حکومت تھی۔ اس نے جب انقلابی حکومت پر تنقید کی تو اسے گرفتار کر کے سزائے موت دینے کا اعلان کیا۔ لیکن جس دن اسے سزا دی جانے والی تھی۔ اسی دن انقلابی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ تھومس پین نپولین کے عہد تک فرانس میں رہا۔ اس کے بعد یہ دوبارہ امریکہ چلا گیا۔ لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔ کسی نے نہ تو اس کی قدر کی اور نہ ہی اسے مالی امداد دی۔ وہ انتہائی غربت اور مفلسی کی حالت میں مر گیا۔ اس کے جنازے میں صرف چھ افراد شامل تھے۔ یہ وہ قیمت ہے جوپبلک دانشور کو دینی پڑتی ہے۔
1894ء میں فرانس میں Dreyfus Affair نامی ایک بہت بڑا سیاسی اسکینڈل شروع ہوا۔ اس کا تعلق فرانسیسی عدالت کی جانب سے دیے جانے والے ایک غلط فیصلے تھا اور بعد میں یہ اسکینڈل ایک علامت بن گیا۔ الفریڈ درےفس فرانسیسی فوج میں ایک یہودی آفیسر تھا۔ اس پر جاسوسی کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا گیا اور جرم ثابت ہونے پر اسے بطور قیدی فرانس کی ایک کالونی میں بھیج دیا گیا۔ اس پر فرانس کے مشہور ناول نگار Emile Zolay نے اخباروں میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا "I accused you” ۔ اس کو ڈر تھا کہ اس پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے اس لیے وہ انگلستان چلا گیا۔ لیکن اس کے مضمون کا اثر یہ ہوا کہ پبلک کی جانب سے اصرار کیا گیا کہ مقدمے کی دوبارہ سے تفتیش ہو۔ لہٰذا جب دوبارہ سے تفتیش کی گئی تو Dreyfus بے گناہ قرار پایا اور اسے قید سے رہائی ملی۔
پبلک دانشوروں کا رول اس وقت اہم ہو جاتا ہے جب وہ کسی بحران کے وقت جذبات سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔ مثلاً Russel نے 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کی مخالفت کی تھی۔ فرانسیس فلسفی ژان پال سارتر اور اس کے ساتھیوں نے الجزائر کی جنگ پر اپنے ہی ملک کی مخالفت کی تھی۔ ویتنام اور عراق کی جنگ کے موقعوں پر بہت سے ایسے دانشور ہیں جنہوں نے امریکہ کی مذمت کی تھی۔ نوم چومسکی ان میں سے ایک ہیں، جو مسلسل امریکی سامراج کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ برصغیر ہندوستان میں 1930ء کی دہائی میں جب ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو اس کے اراکین میں وہ پبلک دانشور شامل تھے، جنہوں نے اپنی تخلیقات کو عوام کے لیے وقف کر دیا تھا۔
پبلک دانشور معاشرے کے ضمیر کی آواز ہوتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں یہ نہ ہو تو وہ مسلسل فرسودہ روایات کا اسیر رہتا ہے اور اس میں اپنے حالات کو بدلنے کی توانائی نہیں رہتی ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)