1857 کی جنگ آزادی میں کراچی کا کردار (تیسری اور آخری قسط)

گل حسن کلمتی

چوتھے، جنہیں توپ سے اُڑانا تھا، وہ انقلابیوں کے لیڈر رام دین پانڈے تھے۔ انہیں ۲۳ ستمبر ۱۸۵۷ کو اسی جگہ توپ کے سامنے باندھ کر اُڑایا گیا۔ اس طرح باقی ماندہ گرفتار ہونے والے ۲۵ سپاہیوں کو کورٹ مارشل کرکے فوج سے نکالا گیا۔ انہیں انڈیمان جزیرے کی طرف کالے پانی کی سزا دے کر بھیجا گیا۔ اکیسویں رجمنٹ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔

اس بغاوت کے بارے میں دستاویز کو آرمی میں خفیہ دستاویز نمبرD/223/1857/dated 14 sep:1857, محکمہ راز کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن اس میں سپاہیوں کے ناموں کے بارے میں کچھ بھی شامل نہیں گیا ہے۔ جب میں نے برٹش لائبریری کے apac-acquires پر معلومات کے لیے لکھا ، تو انہوں نے جواب دیا کہ ریکارڈ پر سپاہیوں کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

کراچی میں ایمپریس مارکیٹ اسی جگہ پر تعمیر شدہ ہے جہاں ۱۳ اور ۱۴ کی درمیانی رات کو اکیسویں رجمنٹ کے بغاوت کرنے والے سپاہیوں کو توپوں کے منہ سے باندھ کر اُڑایا گیا اور یہاں عارضی پھانسی گھاٹ بنا کر گیارہ کو پھانسی دی گئی تھی، اس جگہ ایک بڑا میدان تھا۔

سر جیمز فرگوسن نے ۱۸۵۷ میں ایمپریس مارکیٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کا نقشہ انجینئر جیمز اسٹریچن نے بنایا تھا ، جو وینس کے گوتھک طرز تعمیر پر بنا ہوا ہے۔ جیمس اسٹریچن کراچی میونسپلٹی میں آرکیٹیکٹ تھے، ڈی. جے کالج، سندھ مدرسہ سمیت کئی خوبصورت عمارتوں کے نقشے انہوں نے ہی تیار کیے تھے۔

ایمپریس مارکیٹ میں ۶۴ فٹ چوڑی چار گیلریاں ہیں۔ عمارت میں ۱۴۰ فٹ اونچا ٹاور ہے، جس پر چاروں طرف سے گھڑیاں لگے ہوئے ہیں۔ کسی دور میں ایمپریس مارکیٹ کے چاروں جانب خوبصورت پھولوں کی گل کاری ہوا کرتی تھی اور اُس کے سامنے جانوروں کے پینے کے پانی کے پاؤ (حوض) اور چاروں طرف سے خوبصورت سبزہ اور درخت ہوا کرتے تھے۔صدر اور کنٹونمنٹ میں رہنے والے یہاں سے خریداری کرتے تھے۔

یہاں ایمپریس مارکیٹ اس لیے بنائی گئی تاکہ یہاں شہداء کی کوئی یادرگار نہ بن سکے۔ ایمپریس مارکیٹ بننے سے پہلے ۱۸۵۷ کے واقعے کے بعد سیکڑوں لوگ یہاں وہ جگہ دیکھنے آتے تھے، جہاں شہیدوں کو سولی کا سنگھار بنایا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ بننے کے بعد اس کے چہار اطراف سرخ گلاب ہوا میں جھومتے تھے۔ انگریز سرکار نے شہیدوں کے لہو کو چھپانے کی بہت کوشش کی ، لیکن رام دین پانڈے، سورج بالی تیوری اور دیگر شہداء کے خون کی سرخی نے ان پھولوں میں شامل ہوکر ہمیں یاد دلانے کی کوشش کی، مگر ہم بے حس قوم کے افراد ہیں، ہم نے شہیدوں کو بھلا دیا، جنہوں نے سامراجیت اور توسیع پسندیت کے خلاف جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انگریز چاہتے تھے کہ ان کی کوئی یادگار نہ بنے، لیکن ایمپریس مارکیٹ جیسی خوبصورت عمارت ان شہداء کی یادگار سے کم نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے سامنے ایک یادگار بنا کر ان انقلابیوں کی انقلابی کہانی لکھی جائے.

ایمپریس مارکیٹ کو دوبارہ اصلی صورت میں لایا گیا ہے،اب وہاں چھوٹا پارک بھی ہے. ہمارا مطالبہ ہونا چائیے کہ اس پارک کا نام ،”رام دن پانڈے سورج بالی تیوری پارک” یا "1857 شہدا پارک” ہو.

آیئے ہر سال ۱۷ ستمبر کو ایمپریس مارکیٹ چل کر اس کے کسی کونے پر ان شہداء کی یاد میں کوئی دیا جلائیں، کوئی گلدستہ رکھ کر انہیں یاد کریں، جو ہمارے لوگوں کی بہادری و جرات کی تاریخ ہے، جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑا اور یہ جو ان دیکھی منزل کی تلاش میں تاریک راہوں میں مارے گئے۔

 

(نوٹ: جب میں نے اس تاریخ کی تلاش شروع کی اور مجھے پتا چلا، تو میں نے ۲۰۱۲ سے ہر سال ۱۷ ستمبر کو ایمپریس مارکیٹ جاکر پھول رکھنا اپنی عادت میں شامل کیا۔ پھر ۲۰۱۶ کو پیارے دوست خالق جونیجو کے مشورے سے بہت سارے لوگ میڈیا کے دوستوں کے ساتھ ایمپریس جاکر دیئے روشن کیئے۔ ۲۰۱۶ کو کلیم درانی کی کوششوں سے ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنس نے اپنے آفس میں ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی پر ایک لیکچر کا اہتمام کیا. یہ لیکچر میں نے دیا تھا۔ اس کے بعد تمام دوست ایمپر یس مارکیٹ گئے ،تقاریر کیں اور شمعیں روشن کیں۔ ۲۰۱۷ میں عید قرباں کی وجہ سے پروگرام نہ بن سکا، 2018 میں، میں اکیلے ہی وہاں گیا تھا، 2019 اور 2020 کو غیر حاضر رہا۔ اگلا مھینہ ستمبر کا ہے، دیکھتے ہیں.. )

 

Related Articles

One Comment

  1. بہت معلوماتی مضمون تھا
    تاریخی حقائق کو قلمبند کر کہ عوام۔کو اصلی تاریخ کے بارے میں مزید آگاہی کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close