ایک دور تھا جب ریاستیں سامراجی شکل اختیار کرتی تھیں۔ بڑے سرمایہ دار قومی سرمایہ داری سے نکل کر دوسرے ممالک میں تجارت کے لئے مارکیٹس بنانے کے لئے دنیا پر قبضہ کر کے ملکوں کو غلام بناتے تھے۔ اس کے بعد جدید نو آبادیاتی نظام آیا، جس میں تیسری دنیا کے ممالک کے حکمران خرید کئے جاتے تھے۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں سامراجی عمل دخل شدت سے موجود ہوتا تھا۔ ان ممالک میں اکثر جمہوریت نہیں ہوتی تھی، کیونکہ جمہوری ریاستیں بائیں بازو کی سیاست کی طرف مائل ہوتی تھیں یا پھر ان ریاستوں میں جمہوریت کی موجودگی کی وجہ سے کمیونسٹ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے تھے۔ یہ دور 1990 کے بعد ختم ہو گیا۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد دنیا گلوبل شکل میں ہمارے سامنے آ گئی۔ کمپیوٹر کی ایجاد، انٹرنیٹ 2G سے 4G اور 5G تک تیز ترین روابط نے دنیا بدل ڈالی۔ پوری دنیا کے سرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے، عالمی تجارت سے منسلک ہوگئے۔ اب سرمایہ دار کا ایک ملک بھی نہ رہا، سامراجی ملک ایک بھی نہ رہا، بلکہ پوری دنیا اس کی مارکیٹ بن گئی۔ نتیجہ میں عالمی سامراج ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی مرضی پر چلانے لگے۔ ان میں انتشار پھیلانا، دھشت گردی کرانا، سیاسی ماحول کو تبدیل کرنا، کرپشن اور لاقانونیت پھیلانا عالمی سامراج کی چالیں بن کر سامنے آئیں۔ ممالک اپنی معاشی خوشحالی اور خودمختاری کھوتے گئے۔ حکمرانوں نے اپنے قومی اور ریاستی جذبے کھو دیے۔ دوسری طرف ریاست کے حکمرانوں نے گلوبل دنیا کے مطابق کوئی بھی پالیسی تبدیل نہیں کی، مثال کے طور پر گلوبل دنیا کی جنگ معاشی اہمیت اختیار کر گئی، حیاتیاتی جنگیں ہونے لگیں، عالمی تجارت کے مد نظر ریاستوں نے روایتی دشمنیاں ختم کر کے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستیاں کیں، اپنے فوجی اخراجات میں کمی کر کے بجٹ صحت، تعلیم اور ترقیاتی کاموں پر لگایا، جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ لیکن کچھ ریاستوں نے کوئی بھی تبدیلی نہیں کی، بلکہ انہوں نے بھی تجارتی مقاصد بنا لیے، یعنی حکمران یا ریاستی بالادست مل کر تجارتی دنیا میں گھس آئے ، نتیجہ یہ نکلا کہ ممالک صرف مارکیٹ بن کر رہ گئے۔
دوسری جانب گلوبل دنیا کے سامراج نے اپنی شکل کو مزید طاقتور بنایا۔ پہلے صرف سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرتے تھے، مزدوروں کا استحصال کرتے تھے، لیکن عالمی سامراج ہر آدمی چاہے وہ گھر پر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو، اس کا بھی استحصال کرتا ہے، کیونکہ اس کی شکلیں زیادہ ہوچکی ہیں اور اس نے کئی روپ دھار لیے ہیں۔ اب میڈیا سامراجی نظام کی اعلیٰ شکل ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں سے فطرت چھین کر مصنوعیت عطا کرتے ہیں، سمجھ بوجھ چھین کر نادانی عطا کرتے ہیں۔ مثلاً ساری دنیا کو معلوم ہے کہ کریم کا شیشہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو پر گورا نہیں کرتا، یہ ایک کامن سینس ہے۔ داغ کبھی بھی واشنگ پاؤڈر نہیں اتار سکتا، کوئی بھی صابن خوبصورتی میں نکھار نہیں لا سکتا، کسی بھی چاکلیٹ سے رشتے نہیں جوڑے جا سکتے، کبھی بھی کے ایف سی متوازن غذا نہیں دے سکتی، میک ڈونلڈ برگر صحت کا ضامن نہیں ہے، کولڈ ڈرنک طاقت نہیں دیتا، کوئی بھی کپڑا لیڈیز سوٹ عورت کو سمارٹ نہیں بنا سکتا، موبائل اسٹینڈرڈ نہیں ہوتا، لیکن پورے سماج میں عالمی سرمایہ دار ہر آدمی کا دماغ اغوا کرچکا ہے۔
اب انسان کے پاس کسی بھی طرح کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے پاس اپنی کوئی خواہش نہیں ہے، کیونکہ اسے اب خواہش بھی صرف میڈیا کے ذریعے مارکیٹ دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میڈیا خود عالمی سامراج کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جیسے پاکستان میں دو سو ٹی وی چینلز میں آپ کو کوئی معلومات نہیں ملتی صرف نان اشوز پر سیاست دانوں کی بحث، کارٹون یا پھر کھیل۔ نہ تو کوئی علمی و فکری بحث ہوتی ہے نہ ہی کوئی علمی و فکری یا زرعی چینل ہے۔ یہ چینل عالمی سامراجی طاقتوں کی بھونڈی شکلیں ہیں۔
یا پھر آپ سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیجیے، فیس بُک، گوگل، واٹس ایپ، ٹک ٹاک، یوٹیوب.. یہ سب عالمی طور پر آپ کے ذہن کو اغوا کر کے اسے اذیت میں رکھنے کا نام ہیں۔ انسان میں خود ثنائی کی ہوس پیدا کی گئی۔ خوامخواہ کی دوستی اور مفت کی دشمنی، حاصلِ کار کچھ بھی نہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سیلاب، لاکھوں غلط خبریں اور اطلاعات آپ کے ذھن کو ماؤف کرتے ہیں۔ کچھ اور نہیں تو آپ اپنی ہی تصویر رکھ کر بیٹھے دیکھتے ہیں کہ کون لائک کرتا ہے۔ کیا اس سوشل میڈیا نے کوئی عالم، فلسفی، دانشور، لیڈر پیدا کیا ہے؟ کیا اس سے معاشرے میں کوئی تحرک آیا؟ بلکہ جو رشتے ناتے تھے وہ بھی ختم ہو گئے۔ نوجوان آوارگی کا شکار ہو گئے۔ ایک ٹنڈر جنریشن وجود میں آ گئی۔ جس کا مطلب ہے کہ بنا پرکھے سوشل میڈیا پر دوستیاں گانٹھ کر پھر ملنے کے پروگرام بنائے جائیں، پھر آپ نے دیکھا کہ آئے روز کبھی کوئی اغوا ہو رہا ہے تو کہیں بیوی اپنے بچے چھوڑ کر بھاگ رہی ہے۔
یہ بھی گلوبل سامراج کی ایک شکل ہے۔ ڈولمین، کے ایف سی، میک ڈونلڈ، آن لائن شاپنگ بہ سامراجی شکلیں ہے۔ کمپیوٹر گیمز جو بچوں کو نفسیاتی طور بیمار کر چکی ہیں، تجارت کے حصّے ہیں. سارا دن کمپیوٹر پر یا موبائل پر منہ لگائے بیٹھنا بھی ایک عالمی بیماری ہے جو عالمی سامراج نے پھیلائی ہے۔
انسان کو ان عالمی سامراجی طاقتوں نے گونگا، بہرا اور اندھا کر دیا ہے، ہماری نسل جسے سائبورگ کہا جاتا ہے، اس کا ذہن اغوا ہو چکا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان میں کوئی احساس، ذمہ داری، پیار، رشتوں کی پہچان، ہمدردی، ہنر، عزت اور حیا باقی نہیں بچی ہے۔ ان کے پاس کوئی کلچر نہیں ہے سوائے مارکیٹ کے۔ یہ نسل خود ایک سامراجی شکل میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اس کے بعد عالمی سامراجی نظام کی شکلیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایف اے ٹی ایف، اسٹاک ایکسچینجز ہیں جن کے ذریعے غریب ممالک میں مداخلت کر کے انہیں غلام بنایا جاتا ہے، وہاں کے حکمرانوں کو لوٹ کھسوٹ کی آزادی دے کر ان کو بلینیئر بننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ عوام کو فقط اپاہج بنا کر ان کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ ہم جمہوریت کے ذریعے عوامی نمائندے منتخب کرتے ہیں جو ہمارے مفادات کے لیے کام کریں گے، تو آپ بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ نہ تو دنیا میں کوئی جمہوریت موجود ہے اور نہ ہی حقیقی قیادت آتی ہے۔ سیاست ایک کاروبار ہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ پلوٹوکریسی یعنی دھن راج ہے۔ ملکوں کے حکمراں پہلے سے ہی طے کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی حقیقی الیکشن نہیں ہوتا، آپ گھر بیٹھ جائیں، کوئی بھی ووٹ کے لئے نہ جائے لیکن دوسرے دن اعلان کیا جائے گا کہ فلاں شخص الیکشن جیت گیا ہے۔ ہم عوام کو یہ خوش فہمی ہے کہ سیاست دان ہمارے ووٹوں سے جیت کر آتے ہیں۔ بلکہ یہ جیت کی لسٹ پہلے سے ہی طے ہو چکی ہوتی ہے۔
عالمی سامراجی طاقتوں نے بیٹھ کر سوچا کہ ان کا دشمن کون کون ہے۔ پہلے تو قومی سرمایہ داری میں ممالک ایک دوسرے کے دشمن ہوتے تھے اب ایسا نہیں ہے بلکہ عالمی سامراجی طاقتوں نے عوام کو اپنا دشمن قرار دے دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ عام آدمی جو نوکری یا دکانداری کرتا ہے وہ ان کا اصل گاہک تو نہیں ہے نہ حریف ہے اور نہ ہی مارکیٹ کا کردار ہے نہ ہوائی جہاز میں سوار ہو کر دنیا گھومتا ہے اور نہ ہی اسٹاک ایکسچینج میں اس کا کوئی کردار ہے۔ نہ ہی ہر سال ہماری ھائی کلاس کی نئی ماڈلز کی کاریں خریدتا ہے نہ ہی بحریہ، ڈی ایچ اے جیسی اسکیموں میں کروڑوں روپے لگاتا ہے۔ نہ ہی ڈی ایچ اے میں کوئی فارم ہاؤس خرید سکتا ہے۔ نہ ہی ان کے بچے یورپ میں پڑھتے ہیں اور نہ ہی وہ یورپی بینکوں میں سرمایہ رکھتے ہیں۔ اس عوام سے کوئی فائدہ نہیں ہے جو زیادہ سے زیادہ پانچ سو والی شرٹ لیتا ہے، فٹ پاتھ سے قلفی لے کر کھاتا ہے۔ سیل سے بوٹ لیتا ہے، بیوی کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا، یہ تو دنیا پر بوجھ ہے۔
عالمگیر سامراجی قوتوں کے پاس مکمل مرکزیت ہے۔ مکمل ایک نیریشن ہے۔ وہ عوام کو لوٹنے، کھسوٹنے اور مارنے میں یکجاہ ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ عوامی آبادیوں میں کوئی بھی قانون نہیں ہے۔ لوٹ مار، جھگڑے، اغوا، قبضہ گیری، ڈاکہ زنی، پولیس گردی سب جائز ہے۔ ان کے لئے کوئی اسپتال، اسکول نہیں ہے۔ لیکن امیر کے لئے سب کچھہ ہے۔ انہیں کچھ ہوگیا تو قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ دنیا میں اگر ایک نیریشن نہیں ہے تو پھر عوامی تباہی کی نیریشن کیوں ہے۔ عالمی طور گلوبل قانون بھی یا ان کی فالتو حکومتیں، عوام کے حقوق غضب کرنے میں شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا کا آخری دور ہے؟ اب کوئی تبدیلی نہیں آنے والا؟ تاریخ شاہد ہے کہ اس سے بھی زیادہ خطرناک حالتیں بھی تبدیل ہوچکی ہیں۔ دنیا ایک بھنور میں ضرور گوتا زن ہے لیکن اس بحران سے نکلنی ہی ہے اس کا دارومدار عوامی تنظیم کاری پر ہے عوامی طاقت میں ہے۔ پوری دنیا کی عوامی مزاحمت ایک دن یکجا ہوگی، جدیدیت کی آخری دور ایک عبوری اور طویل دور ہے۔ مگر ظلم کی رات ضرور ختم ہونی ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اب کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ کچھ سمجھتے ہیں اب کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ پھر کچھ کا خیال یہ بھی ہے کہ ان سامراجی قوتوں کے اندر سے تباہی کے اسباب پیدا ہونگے۔ یہ سامراجی قوتیں جب آپس ٹکرائیں گی تو انقلابات آئینگے۔ عالمی طور پر دنیا میں اب بھی نئے نظریات جنم لینگی۔ انسان نے تاریخ کے بڑے بحرانوں سے نبردآزما ہوکر پھر سے سماج اور انسانیت کو بچایا پایا ہے اس لئے لاکھوں سال کی تاریخ میں انسان خود بچاؤ سیکھ گیا ہے۔ انفرادی یا اجتماعی۔ جب انہوں نے اجتماعی طور بچانا شروع کرلیا تو انقلابات آئیں گی۔